عالمی کپ ٹیموں کا پہلا تاثر
پاکستان لازمی جیتنے کا خواہشمند ہے اور ویسٹ انڈیز آئرلینڈ کے ہاتھوں لگنے والے زخموں پر مرہم رکھنا چاہتا ہے۔
عالمی کپ میں تقریباً تمام ہی قابل ذکر ٹیمیں اب تک کم از کم ایک مقابلہ کھیل چکی ہیں اور اب ہر ملک کے بارے میں جو پہلا تاثر قائم ہونا چاہیے، وہ ہوچکا ہے، جو انگریزی مقولے کے مطابق ''دیرپا تاثر'' بھی ہوسکتا ہے، خدانخواستہ۔
میزبان آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے علاوہ جنوبی افریقہ اور بھارت نے بھی اپنی مہمات کا کامیاب آغاز کیا ہے اور ''پہلے تاثر'' کے مطابق عالمی اعزاز کے مضبوط امیدوار دکھائی دیتے ہیں جبکہ قابل ذکر ٹیموں میں پاکستان، سری لنکا، انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز پہلے مقابلوں میں شکست کھا چکے ہیں اور اب آگے کے لیے فکر مند ہیں۔
بلاشبہ عالمی کپ میں اب تک سب سے نمایاں کارکردگی آسٹریلیا کی رہی ہے، گوکہ اسے صرف ایک مقابلہ کھیلنے کو ملا ہے جس میں اس نے انگلینڈ کو اسی طرح شکست دی، جس طرح گزشتہ ماہ سہ فریقی سیریز میں تین مرتبہ زیر کیا تھا۔ لیکن مسلسل فتوحات اور کپتان مائیکل کلارک کی عدم موجودگی میں بھی حریف ٹیموں کو چت کرنے کا حوصلہ دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ وہ عالمی کپ کا سب سے مضبوط امیدوار ہے۔ دوسرے میزبان نیوزی لینڈ نے بھی کامیابی کے ساتھ اپنی مہم کا آغاز کیا ہے جس میں افتتاحی مقابلے میں سری لنکا کو باآسانی شکست دی لیکن اسکاٹ لینڈ کے خلاف اسے کچھ پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ باؤلنگ میں شاندار کارکردگی کے مظاہرے کے بعد صرف 143 رنز کے ہدف کے تعاقب میں اس کے 7 بلے باز آؤٹ ہوئے۔ نتیجہ تو جیت کی صورت میں نکلا لیکن نیوزی لینڈ کی کمزوری ظاہر ہوگئی۔ اس کے باوجود دونوں میزبان بہت عمدہ فارم میں دکھائی دیتے ہیں، ہوم گراؤنڈ اور کراؤڈ کا خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ساتھ ہی کھیل کے تمام شعبوں میں جامع کارکردگی پیش کررہے ہیں۔ بیٹنگ، باؤلنگ اور فیلڈنگ میں ان کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک کی کارکردگی سے اگر کچھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے تو یہی کہ انہی دونوں کا پلڑا بھاری ہے۔
صرف ایک مقابلے کی کارکردگی ہرگز کافی نہیں، لیکن اس سے کسی ٹیم کے ارادے تو ظاہر ہو ہی جاتے ہیں، ساتھ ساتھ آئندہ کارکردگی کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے اور سب سے بڑھ کر جیت اگلے مقابلوں میں فتوحات کی راہ بھی ہموار کرتی ہے۔
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی عالمی کپ کے لیے فیورٹ جنوبی افریقہ نے بھی آغاز ایک فتح کے ذریعے کیا ہے۔ زمبابوے کے خلاف ابتدائی مرحلے میں صرف 83 رنز پر چار وکٹیں گرجانے کے بعد جنوبی افریقہ نے بہت شاندار انداز میں واپسی کی۔ ڈیوڈ ملر اور جے پی دومنی کی سنچریوں نے اسے بہت بڑے مجموعے تک پہنچایا جس کے جواب میں ''مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا'' کے مصداق زمبابوے نے جدوجہد تو بہت کی لیکن 340 رنز کے ہدف کے تعاقب میں 277 رنز سے آگے نہ بڑھ سکے۔ وارم-اپ مقابلوں میں سری لنکا کو شکست دینے کے بعد زمبابوے کی یہ کارکردگی بھی توقعات سے بڑھ کر تھی جو ظاہر کرتی ہے کہ عالمی کپ میں وہ ماضی کی نسبت زیادہ بہتر نظر آئے گا۔ اپنے اگلے مقابلے میں اس نے متحدہ عرب امارات کو شکست دی اور اب گروپ کی سرفہرست چار ٹیموں میں شامل ہے۔
اب ذرا پاکستان اور بھارت کے پہلے تاثر کے بارے میں کہ ان کے جس میچ کو ''تاریخ کا سب سے بڑا مقابلہ'' کہا جا رہا تھا، ''کھودا پہاڑ، نکلا چوہا'' کے مصداق انتہائی یکطرفہ رہا اور پاکستان کو 76 رنز کے بھاری مارجن سے شکست ہوئی۔ بھارت نے اپنے اسٹار بیٹسمین ویرات کوہلی کی مدد سے 300 رنز بنائے اور پاکستان بیٹنگ لائن کے اپنے بلے بازوں کے ''خودکش حملوں'' کی وجہ سے 224 رنز پر ڈھیرہوگئی اور یوں عالمی کپ میں پاکستان کی بھارت کو ہاتھوں شکستوں کا سلسلہ مزید دراز ہوگیا۔
دوسری طرف آئرلینڈ جسے اپ سیٹ کرنے کی عادت سی ہوگئی ہے، اس بار آغاز ہی ویسٹ انڈیز کو شکست دے کر کیا ہے۔ 2007ء میں پاکستان اور 2011ء میں انگلینڈ کا شکار کرنے والے آئرلینڈ نے ''کالی آندھی'' کے 305 رنز کے ہدف کو صرف 46 ویں اوور میں حاصل کرلیا اور ویسٹ انڈیز کرکٹ کو مزید پیچھے کی طرف دھکیل دیا۔ آئرلینڈ کی سب سے بڑی کمزوری کارکردگی میں تسلسل ہے، اگر وہ اس پر قابو پالے تو پاکستان سمیت دیگر ٹیموں کے لیے بہت بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔
پاکستان روایتی حریف بھارت کے ہاتھوں شکست کے بعد نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ گروپ 'بی' میں سب سے بدترین رن ریٹ اسی کا ہے جو اس وقت متحدہ عرب امارات اور ویسٹ انڈیز سے بھی پیچھے پوائنٹس ٹیبل پر آخری نمبر پر ہے اور آئرلینڈ اور زمبابوے کی نمایاں کارکردگی اس کے لیے مزید مشکلات کھڑی کررہی ہے۔
اب پاک-ویسٹ انڈیز میچ دو زخمی شیروں کا مقابلہ بن چکا ہے، جہاں پاکستان لازمی جیتنے کا خواہشمند ہے اور ویسٹ انڈیز آئرلینڈ کے ہاتھوں لگنے والے زخموں پر مرہم رکھنا چاہتا ہے۔ عالمی کپ کے آئندہ چند روز میں جب تمام ٹیمیں اپنے ابتدائی دو، دو مقابلے کھیل لیں گی تو منظرنامہ مزید واضح ہوجائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
میزبان آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے علاوہ جنوبی افریقہ اور بھارت نے بھی اپنی مہمات کا کامیاب آغاز کیا ہے اور ''پہلے تاثر'' کے مطابق عالمی اعزاز کے مضبوط امیدوار دکھائی دیتے ہیں جبکہ قابل ذکر ٹیموں میں پاکستان، سری لنکا، انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز پہلے مقابلوں میں شکست کھا چکے ہیں اور اب آگے کے لیے فکر مند ہیں۔
بلاشبہ عالمی کپ میں اب تک سب سے نمایاں کارکردگی آسٹریلیا کی رہی ہے، گوکہ اسے صرف ایک مقابلہ کھیلنے کو ملا ہے جس میں اس نے انگلینڈ کو اسی طرح شکست دی، جس طرح گزشتہ ماہ سہ فریقی سیریز میں تین مرتبہ زیر کیا تھا۔ لیکن مسلسل فتوحات اور کپتان مائیکل کلارک کی عدم موجودگی میں بھی حریف ٹیموں کو چت کرنے کا حوصلہ دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ وہ عالمی کپ کا سب سے مضبوط امیدوار ہے۔ دوسرے میزبان نیوزی لینڈ نے بھی کامیابی کے ساتھ اپنی مہم کا آغاز کیا ہے جس میں افتتاحی مقابلے میں سری لنکا کو باآسانی شکست دی لیکن اسکاٹ لینڈ کے خلاف اسے کچھ پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ باؤلنگ میں شاندار کارکردگی کے مظاہرے کے بعد صرف 143 رنز کے ہدف کے تعاقب میں اس کے 7 بلے باز آؤٹ ہوئے۔ نتیجہ تو جیت کی صورت میں نکلا لیکن نیوزی لینڈ کی کمزوری ظاہر ہوگئی۔ اس کے باوجود دونوں میزبان بہت عمدہ فارم میں دکھائی دیتے ہیں، ہوم گراؤنڈ اور کراؤڈ کا خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ساتھ ہی کھیل کے تمام شعبوں میں جامع کارکردگی پیش کررہے ہیں۔ بیٹنگ، باؤلنگ اور فیلڈنگ میں ان کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک کی کارکردگی سے اگر کچھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے تو یہی کہ انہی دونوں کا پلڑا بھاری ہے۔
صرف ایک مقابلے کی کارکردگی ہرگز کافی نہیں، لیکن اس سے کسی ٹیم کے ارادے تو ظاہر ہو ہی جاتے ہیں، ساتھ ساتھ آئندہ کارکردگی کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے اور سب سے بڑھ کر جیت اگلے مقابلوں میں فتوحات کی راہ بھی ہموار کرتی ہے۔
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی عالمی کپ کے لیے فیورٹ جنوبی افریقہ نے بھی آغاز ایک فتح کے ذریعے کیا ہے۔ زمبابوے کے خلاف ابتدائی مرحلے میں صرف 83 رنز پر چار وکٹیں گرجانے کے بعد جنوبی افریقہ نے بہت شاندار انداز میں واپسی کی۔ ڈیوڈ ملر اور جے پی دومنی کی سنچریوں نے اسے بہت بڑے مجموعے تک پہنچایا جس کے جواب میں ''مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا'' کے مصداق زمبابوے نے جدوجہد تو بہت کی لیکن 340 رنز کے ہدف کے تعاقب میں 277 رنز سے آگے نہ بڑھ سکے۔ وارم-اپ مقابلوں میں سری لنکا کو شکست دینے کے بعد زمبابوے کی یہ کارکردگی بھی توقعات سے بڑھ کر تھی جو ظاہر کرتی ہے کہ عالمی کپ میں وہ ماضی کی نسبت زیادہ بہتر نظر آئے گا۔ اپنے اگلے مقابلے میں اس نے متحدہ عرب امارات کو شکست دی اور اب گروپ کی سرفہرست چار ٹیموں میں شامل ہے۔
اب ذرا پاکستان اور بھارت کے پہلے تاثر کے بارے میں کہ ان کے جس میچ کو ''تاریخ کا سب سے بڑا مقابلہ'' کہا جا رہا تھا، ''کھودا پہاڑ، نکلا چوہا'' کے مصداق انتہائی یکطرفہ رہا اور پاکستان کو 76 رنز کے بھاری مارجن سے شکست ہوئی۔ بھارت نے اپنے اسٹار بیٹسمین ویرات کوہلی کی مدد سے 300 رنز بنائے اور پاکستان بیٹنگ لائن کے اپنے بلے بازوں کے ''خودکش حملوں'' کی وجہ سے 224 رنز پر ڈھیرہوگئی اور یوں عالمی کپ میں پاکستان کی بھارت کو ہاتھوں شکستوں کا سلسلہ مزید دراز ہوگیا۔
دوسری طرف آئرلینڈ جسے اپ سیٹ کرنے کی عادت سی ہوگئی ہے، اس بار آغاز ہی ویسٹ انڈیز کو شکست دے کر کیا ہے۔ 2007ء میں پاکستان اور 2011ء میں انگلینڈ کا شکار کرنے والے آئرلینڈ نے ''کالی آندھی'' کے 305 رنز کے ہدف کو صرف 46 ویں اوور میں حاصل کرلیا اور ویسٹ انڈیز کرکٹ کو مزید پیچھے کی طرف دھکیل دیا۔ آئرلینڈ کی سب سے بڑی کمزوری کارکردگی میں تسلسل ہے، اگر وہ اس پر قابو پالے تو پاکستان سمیت دیگر ٹیموں کے لیے بہت بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔
پاکستان روایتی حریف بھارت کے ہاتھوں شکست کے بعد نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ گروپ 'بی' میں سب سے بدترین رن ریٹ اسی کا ہے جو اس وقت متحدہ عرب امارات اور ویسٹ انڈیز سے بھی پیچھے پوائنٹس ٹیبل پر آخری نمبر پر ہے اور آئرلینڈ اور زمبابوے کی نمایاں کارکردگی اس کے لیے مزید مشکلات کھڑی کررہی ہے۔
اب پاک-ویسٹ انڈیز میچ دو زخمی شیروں کا مقابلہ بن چکا ہے، جہاں پاکستان لازمی جیتنے کا خواہشمند ہے اور ویسٹ انڈیز آئرلینڈ کے ہاتھوں لگنے والے زخموں پر مرہم رکھنا چاہتا ہے۔ عالمی کپ کے آئندہ چند روز میں جب تمام ٹیمیں اپنے ابتدائی دو، دو مقابلے کھیل لیں گی تو منظرنامہ مزید واضح ہوجائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔