بلدیاتی نظام اور جمہوریت

اندرون سندھ تشدد کی بنا پر سیاسی فضا مکدر ہوگئی اور لسانیت کے ماحول کو تقویت ملی


Dr Tauseef Ahmed Khan October 06, 2012
[email protected]

لاہور: سندھ میں بلدیاتی نظام کے نفاذ کے بعد نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی کا نظام، پولیس آرڈر 2002 صرف کراچی میں نافذ ہوا یوں صوبے میں پولیس کا جدید نظام کراچی تک محدود کردیا گیا ہے۔

نئے بلدیاتی نظام پر سندھ کی دونوں بڑی نمایندہ جماعتوں میں اتفاق ہوا۔ انتخابات میں شکست پانے والے قوم پرستوں، جماعت اسلامی، مسلم لیگ ن نے اس نظام کو مسترد کرتے ہوئے احتجاج کا سہارا لیا، اندرون سندھ تشدد کی بنا پر سیاسی فضا مکدر ہوگئی اور لسانیت کے ماحول کو تقویت ملی۔ اس بلدیاتی نظام کے تحت پانچ بڑے شہروں کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص، لاڑکانہ اور سکھر میں میونسپل کارپوریشن قائم ہوئی۔ گزشتہ 60 سال کے دوران صرف کراچی میں میونسپل کارپوریشن موجود تھی۔

جب ضیاء الحق نے 1979 میں بلدیاتی ڈھانچہ قائم کیا تو حیدرآباد میں میونسپل کارپوریشن قائم ہوئی تھی، اب سندھ کے مزید تین شہروں میرپورخاص، لاڑکانہ اور سکھر میں میونسپل کارپوریشن قائم ہوگئی، اب ان شہروں کے منتخب میئر اپنے علاقوں کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے پابند ہوں گے۔ سندھ کے باقی اضلاع میں ضلع کونسلیں قائم ہوں گی اور ان کونسلوں کو ترقیاتی عمل کو بہتر بنانے کے ہدف کو پورا کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہوگا۔ صرف کراچی اور حیدرآباد میں بھی ٹائون قائم نہیں ہوں گے بلکہ باقی تین شہروں میں بھی میونسپل کارپوریشن کے زیر نگرانی تعلقہ ٹائون کا درجہ حاصل کرلیں گے۔

یہ ٹائون نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی کے اصول کے تحت عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے کوشاں ہوں گے۔ جنرل مشرف دور کا پولیس آرڈر 2002 صرف کراچی میں نافذ ہوا ہے اور پولیس کے محکمے نے کراچی کو 20 ٹائون میں تقسیم کیا ہے، ٹائون پولیس کا سربراہ سپرنٹنڈنٹ پولیس SP کو مقرر کیا گیا اور شہر میں پانچ ڈی آئی جی مقرر کیے گئے ہیں۔ اس بات کا امکان ہے کہ کراچی کی پولیس کا ڈھانچہ اب زیادہ مضبوط اور موثر ہوگا۔ پولیس آرڈر 2002 کو پورے صوبے میں کیوں لاگو نہیں کیا؟ اس بارے میں خاموشی پائی جاتی ہے۔

بلدیاتی نظام کے نفاذ پر سندھ میں سیاسی چپقلش تیز ہوگئی ہے۔ پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما بلدیاتی قانون کو سندھ کی ترقی کے لیے انتہائی مناسب قرار دے رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی قیادت کے اتفاق سے دیہی اور شہری علاقوں میں خلیج کم ہوگئی اور نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی سے غربت و افلاس کے خاتمے اور ترقی کے عمل کو بہتر کرنے میں مدد ملے گی، نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی سے عوام کے ان کے گھروں کے قریب مسائل کے حل میں آسانی ہوگی۔

پیپلزپارٹی کی قیادت کا کہنا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی زیر نگرانی 1988 میں جب پیپلزپارٹی کا انتخابی منشور تیار ہوا تو اس میں نئے سماجی معاہدے New Social Contract کا ذکر تھا، یہ سوشل کانٹریکٹ نچلی سطح تک اختیارات کے بلدیاتی نظام سے منسلک تھا۔ پیپلزپارٹی نے اگلے تین انتخابات کے لیے تیار کیے جانے والے انتخابی منشور میں بلدیاتی نظام کے قیام کو شامل کیا تھا، پیپلزپارٹی کی حکومت 1973 کے آئین کے تحت بلدیاتی نظام کے قیام کی پابند تھی۔

سندھ کے عوام نے اس منشور کی بنا پر منعقد ہونے والے قومی انتخابات میں پیپلزپارٹی کی حمایت کی تھی، سندھ کے عوام نے نچلی سطح تک اختیارات کے بلدیاتی نظام کی توثیق کی، اس بنا پر اگلے انتخابات سے قبل اپنے منشور کی اس شق پر عملدرآمد کرنا لازمی تھا۔ ایم کیو ایم نے اپنے انتخابی منشور میں بلدیاتی نظام کی اہمیت پر زور دیا تھا، اس بلدیاتی نظام کی بنا پر کراچی اور حیدرآباد میں ہونے والی ترقی سے ووٹروں کو متحرک کیا تھا، اس لیے اس نظام کا قیام ان کی بقا کے لیے لازمی تھا۔

سندھ کے قوم پرست مختلف وجوہات کے باعث بلدیاتی نظام کو مسترد کررہے ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ انگریزوں کے دور کا بیوروکریسی کا کمشنری نظام سندھ کے لیے ضروری ہے۔ کچھ قوم پرست دانشوروں کا کہنا ہے کہ سندھ شہری اور دیہی علاقوں کے لیے دو علیحدہ علیحدہ نظام قائم کیے گئے ہیں یوں دیہی اور شہری علاقوں میں خلیج بڑھ گئی ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ پانچ شہروں میں میونسپل کارپوریشنوں کے قیام سے ایم کیو ایم کی بالادستی قائم ہوجائے گی۔ مسلم لیگ ن محض پیپلزپارٹی کی مخالفت میں قوم پرستوں کی تحریک کی حمایت کررہی ہے۔

میاں نواز شریف اس نظام کو سندھ کی تقسیم قرار دے رہے ہیں مگر مسلم لیگ کی قیادت اس حقیقت کو فراموش کررہی ہے کہ پنجاب میں اب بھی بلدیاتی آرڈیننس 2000 کے تحت بلدیاتی ڈھانچہ موجود ہے اور اب بھی ضلع کا افسر DCO جب کہ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر امن و امان کے ذمے دار ہیں۔ سندھ کے قوم پرستوں کا اس بلدیاتی نظام کو یکسر مسترد کرنے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ اگر ان کی مخالفت صرف ایم کیو ایم کے بلدیاتی انتخابات جیتنے کے حوالے سے ہے تو یہ جمہوری رویہ پامال کرنے کے مترادف ہے۔

اگر یہ جماعتیں شفاف انتخابات پر زور دیں تو ان کی مرضی کے نتائج بھی سامنے آسکتے ہیں مگر کسی لسانی بنیاد پر راستہ روکنے کے لیے اس نظام کو مسترد کرنے سے صوبے میں کشیدگی بڑھ سکتی ہے اور اس کا فائدہ طالع آزما قوتوں کو بھی ہوسکتا ہے۔ پولیس آرڈر 2002 کو پورے صوبے پر نافذ نہ کرنا حیرت انگیز معاملہ ہے، اس صورتحال کی ذمے دار پیپلز پارٹی ہے یا ایم کیو ایم کے مطالبے پر ایسا ہوا ہے اس بارے میں سیاسی منظر نامے پر خاموشی پائی جاتی ہے مگر یہ بات واضح ہے کہ اس فیصلے سے صرف انتہا پسندقوم پرست فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔

اس طرح اسمبلی میں اکثریت کی بنیاد پر بلدیاتی نظام کے قانون کو چند منٹوں میں منظور کرانا بھی جمہوری رویے کی نفی کرتا ہے۔ ہر رکن اسمبلی کو بلدیاتی آرڈیننس کے بارے میں اپنی رائے پیش کرنے کا موقع ملنا چاہیے تھا مگر ان تمام اعتراضات کے باوجود ترقی اور غربت کے خاتمے کے لیے نچلی سطح تک اختیارات کا بلدیاتی نظام ضروری ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمیشہ جمہوری حکومت نے منتخب بلدیاتی نظام کی اہمیت سے انکار کیا ہے مگر فوجی حکمرانوں نے بلدیاتی نظام کو منتخب پارلیمنٹ کے متبادل ادارے کے طور پر استعمال کیا ہے۔

سابق صدر پرویز مشرف کا بلدیاتی ڈھانچہ ملک کی تاریخ میں اس لحاظ سے منفرد تھا کہ نچلی سطح تک اختیارات کے اس بلدیاتی نظا م سے ترقی کا نیا دور شروع ہوا، اس نظام میں خواتین، اقلیتوں، مزدور، کسانوں کی نمایندگی سے پسماندہ طبقات کو تحفظ حاصل ہوا تھا۔ اس بلدیاتی نظام سے ملک کے بڑے شہروں کراچی، حیدرآباد، لاہور وغیرہ میں خاصی ترقی ہوئی مگر ملک کے باقی حصے ترقی سے محروم رہے۔ کراچی کے امرا اور متوسط طبقوں کے علاقے فلائی اوور اور سگنل فری سڑکوں کی بنا پر دنیا کے جدید شہروں کا نظارہ پیش کرنے لگے مگر غریبوں کی بستیوں اور قدیم گوٹھوں کے حالات پر کوئی فرق نہیں پڑا مگر ان خامیوں کو تلاش کرکے انھیں دور کرنے کے بجائے بلدیاتی نظام کو مسترد کرنے اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور کے کمشنری نظام کو اس نظام کے متبادل قرار دینے کا جواز نہیں ہے۔

پیپلزپارٹی کی صوبائی قیادت گزشتہ سال کمشنری نظام کے حوالے سے اس غلط مفروضے کے سحر کا شکار تھی مگر پیپلزپارٹی کی قیادت نے باشعور ہونے کا ثبوت دیا اور ایم کیو ایم کی قیادت کے بلدیاتی نظام کے بارے میں اپنے روایتی موقف کو ترک کرکے ایک عملی موقف اختیار کیا۔ مسلم لیگ ن، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام کو پیپلزپارٹی کی پیروی کرنی چاہیے۔ جماعت اسلامی نے اس بلدیاتی نظام سے متعلق اپنے سابقہ موقف سے انحراف کرکے محدود مقاصد کے لیے اپنے تشخص کو نقصان پہنچایا ہے۔ جماعت اسلامی، مسلم لیگ فنکشنل، جنرل ضیاء الحق کے دور سے بلدیاتی نظام کا حصہ رہی ہے، اب جمہوری دور میں ان کی سیاسی قلابازی منطق کے مسلمہ اصولوں کے منافی ہے۔ اس نئے نظام کی خامیوں کو دور کرنے کے لیے تجاویز پیش کرنی چاہئیں۔ محدود مقاصد کے لیے اس بلدیاتی نظام کی مخالفت جاری رکھی تو صرف انتشار پیدا ہوگا۔ سیاسی جماعتیں 21 ویں صدی میں بھی بلدیاتی نظام کی اہمیت کو محسوس نہیں کریں گی تو جمہوری نظا م کیسے مستحکم ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔