عام آدمی پارٹی اور تحریک انصاف
عام آدمی پارٹی اصل میں بھارت کی روایتی بورژوا سیاسی جماعتوں اور سیاست کے خلاف ایک بغاوت کی حیثیت رکھتی ہے۔
بھارت میں بی جے پی کی کامیابی اور نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد دانشورانہ حلقوں میں بھارت کے مستقبل کے حوالے سے جو تشویش پائی جاتی ہے وہ فطری بھی ہے اور منطقی بھی لیکن دہلی کے ریاستی انتخابات بی جے پی کی بدترین شکست سے یہ امید بندھ رہی ہے کہ بھارتی عوام بی جے پی جیسی مذہبی انتہا پسند جماعت کی گرفت سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اسے ہم اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کہ بی جے پی کے رہنما نریندر مودی اور عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کجری وال کا تعلق لوئر مڈل کلاس سے ہے لیکن نریندر مودی بی جے پی جیسی مذہبی انتہا پسند جماعت کا رہنما اور ملک کا وزیر اعظم ہے اور کجری وال عام آدمی پارٹی جیسی لبرل جماعت کا سربراہ ہے اور حالیہ انتخابات کے بعد وہ دہلی کا وزیراعلیٰ بن گیا ہے۔ دونوں جماعتوں کے درمیان پائے جانے والے نظریاتی فرق کے باوجود جو بات قابل غور اور حوصلہ افزا ہے کہ ان دونوں کا تعلق غریب طبقات سے ہے جو وزارت اعلیٰ ہی نہیں وزارت عظمیٰ تک پہنچ چکے ہیں۔ سابقہ الیکشن میں بی جے پی نے دہلی کے ریاستی الیکشن میں 32 نشستیں حاصل کی تھیں اور حالیہ الیکشن میں بی جے پی کو 70 کے ہاؤس میں صرف 3 نشستیں ملی ہیں اور عام آدمی پارٹی کو 70 میں 67 نشستیں ملی ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ عشروں دہلی کی راجدھانی پر راج کرنے والی کانگریس کو ایک نشست بھی نہ مل سکی۔
عام آدمی پارٹی اصل میں بھارت کی روایتی بورژوا سیاسی جماعتوں اور سیاست کے خلاف ایک بغاوت کی حیثیت رکھتی ہے۔ بھارت میں روایتی سیاسی جماعتوں کی کرپشن کی کہانیاں بھارتی میڈیا ہی میں نہیں بلکہ بھارت کی فلم انڈسٹری کا بھی ایک پسندیدہ موضوع بنی ہوئی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی کرپشن کے موضوع پر بھارت میں اب تک سیکڑوں فلمیں بن چکی ہیں جن میں راج نیتی اور راج نیتاؤں کو بے نقاب کر دیا گیا ہے۔ ایک گمنام شخص انا ہزارے نے جب کرپشن کے خلاف آواز اٹھائی تو لاکھوں کی تعداد میں بھارتی عوام انا ہزارے کے گرد جمع ہو گئے اروند کجریوال بھی انا ہزارے کا نظریاتی ساتھی اور کرپشن کا سخت مخالف ہے کجریوال کی مقبولیت بھی انا ہزارے کی فکر کی مرہون منت ہے۔
دہلی کے ریاستی انتخابات جیتنے کے بعد کجریوال نے اپنے ساتھیوں کو جہاں ریاست کے عوام کے مسائل حل کرنے میں جٹ جانے کی ہدایت کی ہے وہیں اس نے اپنے ساتھیوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ برسر اقتدار آ کر غرور میں مبتلا نہ ہوں کیونکہ بی جے پی اور کانگریس کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ ان میں پیدا ہونے والا اقتداری غرور تھا زور بازو سے لے کر اختیار و اقتدار تک غرور ہر جگہ طاقت کے جلو میں چلتا ہے۔ چونکہ تاریخ کے ہر دور میں عوام طاقت سے محروم رہے ہیں لہٰذا غرور ان کے حصے میں کبھی آیا ہی نہیں البتہ طاقتور طبقات ہمیشہ عوام کو اپنے غرور کا نشانہ بناتے رہے۔ شخصی اور خاندانی حکمرانیوں میں چونکہ طاقت کا ارتکاز حکمرانوں کے ہاتھوں میں ہوتا تھا سو عوام کے سارے حقوق غصب کر کے انھیں رعایا یا غلاموں کی سطح پر رکھا جاتا تھا۔
سرمایہ دارانہ نظام نے اگرچہ جاگیردارانہ نظام کو ختم کر دیا اور عوام کو طاقت کا سرچشمہ کہہ کر جمہوریت کو متعارف کرایا جن ملکوں میں جمہوریت ''عوام کی حکومت عوام کے لیے عوام کے ذریعے'' کے معیار پر پوری اترتی ہے ان ملکوں میں حکمران طبقات غرور کے متحمل نہیں ہو سکتے لیکن جن ملکوں میں جمہوریت کے نام پر بالا دست طبقات اقتدار پر قابض ہیں ان ملکوں کے حکمرانوں کی نفسیات جاگیردارانہ رعونت سے باہر نہیں نکل سکی۔ اقتدار نے ان طبقات میں جو غرور جو رعونت پیدا کر دیا ہے وہ حقیقی جمہوریت کی روح کے منافی ہے۔
کجریوال نے غالباً بھارت کی بورژوا سیاسی جماعتوں کی نفسیات کو پیش نظر رکھ کر ہی اپنے ساتھیوں کو غرور سے دور رہنے کا مشورہ دیا ہے کیونکہ غرور اپنے جلو میں کمزور طبقات کی نفرت بھی رکھتا ہے اور جب بھی کمزور طبقات کو اپنی جمہوری طاقت کے استعمال کا موقع ملتا ہے، ان میں دبی ہوئی نفرت باہر آ جاتی ہے اور محبت کا دامن تھام لیتی ہے۔ دہلی کے ریاستی انتخابات ایک طرح سے بورژوا سیاسی جماعتوں کے غرور اور غریب طبقات کی فطری محبت کے درمیان مقابلہ تھا جس میں غرور ہار گیا محبت اور بھائی چارہ جیت گیا۔ لیکن اس جیت کی وجہ غریب طبقات چونکہ اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں جہاں غرور جنم لیتا ہے اس حوالے سے کجریوال کا اپنے ساتھیوں کو غرور سے دور رہنے کا مشورہ بروقت بھی ہے اور احتیاطی بھی ہے۔
عام آدمی پارٹی نے دہلی کے ریاستی انتخابات جیت کر بی جے پی کی سیاست کو تو شکست دے دی ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا عام آدمی پارٹی بی جے پی کی مذہبی انتہا پسندی کو بھی شکست دے سکتی ہے؟ اس حوالے سے یہاں اس بات کی نشاندہی ضروری ہے کہ جمہوری نظام میں بھارت سمیت کئی ملکوں میں جن میں مسلم ملک بھی شامل ہیں۔ انتخابات کے موقع پر عوام نے مذہبی جماعتوں کی حمایت کی ہے لیکن ذرا گہری نظر سے جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ عوام نے مذہبی جماعتوں کو ووٹ اس لیے نہیں دیے کہ وہ ان کی مذہبیت کو پسند کرتے ہیں بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں ان کے مسائل حل کرنے میں مسلسل ناکام رہی ہیں۔
لبرل سیاسی جماعتوں کی مسلسل ناکامی نے عوام کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنے سنگین مسائل کے حل کے لیے مذہبی جماعتوں کو آزما کر دیکھیں۔ بھارت کے حالیہ قومی انتخابات کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔بی جے پی سے اصل خطرہ بھارت کے سیکولر کلچر اور نظریے کو لاحق ہے اگر بی جے پی خالی خولی مذہبی نعروں کے ذریعے سیاست کرتی تو وہ بھارت کے سیکولرزم کے لیے خطرہ ثابت نہ ہوتی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بی جے پی سرکار بھارت کے سیکولر تعلیمی نظام میں ایسی بنیادی تبدیلیاں کر رہی ہے جو بھارت کی نئی نسلوں کو ہندو قومیت کے ساتھ ساتھ ہندوازم کی طرف لے جائیں گی۔
یہی نہیں بلکہ بھارت کا حکمران طبقہ تاریخ کو بھی بدلنے کے در پے ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے خطے کی تاریخ راجوں مہاراجوں بادشاہوں، شہنشاہوں کے فرضی کارناموں کی تاریخ ہے اور اسے تبدیل کر کے تاریخ بنانے والے طبقات کی تاریخ بنانا چاہیے لیکن بھارتی حکمران طبقہ ہندوازم ہندو میتھالوجی کی بنیاد پر تاریخ کی ازسرنو تشکیل کی کوشش کر رہا ہے جو ایک انتہائی خطرناک کھیل ہے۔ پاکستان ایک مذہبی ریاست ہے لیکن یہاں رائے عامہ اس قدر بیدار اور لبرل طاقتیں اس قدر مضبوط ہیں کہ وہ تعلیمی نصاب اور تاریخ کو مذہبی انتہا پسندی کی بنیاد پر ازسر نو تشکیل کی کسی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گی۔ دہلی میں لوئرمڈل کلاس میں عام آدمی پارٹی کی کامیابی ایسی ہی ہے جیسے پاکستان کے صوبے پختونخوا میں تحریک انصاف کی کامیابی فرق یہ ہے کہ عام آدمی پارٹی کو عوام نے دوسری بار حکومت کا موقع فراہم کیا ہے اور تحریک انصاف پہلی بار حکومت میں آئی ہے۔
محض روایتی بورژوا پارٹیوں کی جگہ لوئر مڈل کلاس کی پارٹیوں کے انتخابات جیتنے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ دیکھا یہ جائے گا کہ کیا لوئر مڈل کلاس یا مڈل کلاس کی یہ پارٹیاں عوام کی توقعات پر پوری اتریں گی؟
مغربی بنگال میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت عشروں تک کام کرتی رہی لیکن اپنی نااہلی نظریاتی کجروی کے باعث عوام کی توقعات پر پوری نہ اتر سکی اسی لیے عوام نے اسے اقتدار سے باہر کر دیا۔ اگر دہلی میں عام عوام پارٹی اور پختونخوا میں تحریک انصاف عوام کی توقعات پر پوری نہ اتر سکیں تو عوام انھیں دوبارہ اقتدار میں نہیں آنے دیں گے۔ ان حقائق کا تقاضا ہے کہ یہ جماعتیں منصوبہ بند طریقے سے ایمانداری کے ساتھ عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔