جنگلات کی تباہی زمین کی تباہی

ہمارے ایک دوست کے گھرکے سامنے سترسالہ برگد کا گھنا درخت ہے۔


Shaikh Jabir February 19, 2015
[email protected]

کوئی دودہائی قبل کی بات ہو گی جب ہم نے پہلی مرتبہ یہ محسوس کیا کہ ہمارے شہر ِ ناپُرساں پرخزاں اور بہاراُترتی ہی نہیں۔ یہ لمحہ ہمارے لیے حیران کُن تھا۔ کیوںکہ خزاں سردی کے آغاز سے قبل درختوں پر اترنے لگتی ہے۔ پتے پیلے ہوکرگرنے لگتے ہیں سردیاں جیسے جیسے شروع ہوتی ہیں درختوں کی ٹہنیاں خالی ہوتی چلی جاتی ہیں ۔شاخیں، ہر پتے سے پاک ہوجاتی ہیں۔ گھنے درختوں میں چھپے ہوئے گھونسلے شاخوں کے اندر اداسی کا عجیب وغریب منظر تخلیق کرتے ہیں ۔

لیکن اس اداس منظر میں بھی غیرمعمولی حُسن ہوتا ہے۔ بغیر پتوں کے درخت ان کی عریانی ظاہر کرتے ہیں مگر شاخوں کی بناوٹ،درخت کی ٹہنیوں کے جھکاؤ فطرت کی بے پناہ خلاقی و صناعی سے آگاہ کرتے ہیں۔ 2014ء یوں ہی گزر گیا۔ سردیاں تو آئیںلیکن خزاں درختوں سے پتوں سے دور ہی رہی۔خزاں کا قافلہ راستے میں ہی کہیں ٹھہرگیا تھا یا اسے روک لیا گیا تھا۔ہمارا خیال تھا کہ شدید ترین جُھلسا دینے والے موسم کے بعد خزاں کی بہار دیکھنے کا موقع ملے گا ۔ بے پناہ پتے ٹوٹیں گے اور پتوں کے ڈھیروں میں چل کر بچپن کے دن یاد کرنے کا موقع ملے گا۔

لیکن یہ خواہش پوری نہیں ہوئی خزاں نہیں آئی۔ کچھ یہی حال بہار کا بھی ہے۔ بہارکب آتی ہے اورکب چلی جاتی ہے آتی بھی یا نہیں، نہیں معلوم۔بہ ظاہر یہ بہت معمولی سی بات ہے لیکن یہ صورت حال ایک سنگین خطرے کی علامت بھی ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے ہم یہ تصورکریں کہ اگر رات کوچاند کے ساتھ سورج چمکنے لگے اور رات کا منظر بھی دن کے منظر میں تبدیل ہوجائے یا دن ہو اور سورج ندارد تو کیا ہوگا؟ خزاں اور بہارکا غائب ہوجانا بالکل اسی سطح کا خطرہ ہے۔ جس طرح کہ رات اور دن کا ایک ہی وقت میں اکٹھا ہو جانا یا سورج اور چاند اگر اپنے اپنے مقررہ وقتوں پر برآمد نہ ہوں یا اپنے اپنے راستوں پرسفر ترک کردیں اور دونوں کے نکلنے اور ڈوبنے کے وقت ایک ہوجائیں تو اس کرہ ارضی پر کیا انسانی زندگی کے آثار زیادہ دیر تک باقی رہ سکیں گے؟

یہ ایک سنگین صورت حال ہے مگر کسی کو اس کا احساس نہیں ہے۔ احساس کے لیے سوچنے کی ضرورت ہے ۔سوچنے کے لیے مشاہدے کی ضرورت ہے اور مشاہدے کے لیے وقت کی ضرورت ہے۔ عہد حاضر کے انسان کے پاس ضروریات زندگی بلکہ تعیشات زندگی پوری کرنے کے بعد وقت ہی نہیں بچتا تو وہ اس کے بارے میں کیسے سوچے؟

ہمارے ایک دوست کے گھرکے سامنے سترسالہ برگد کا گھنا درخت ہے۔ خزاں کا قافلہ بہار کے دنوں میں اس درخت پر خیمہ زن رہا ۔بہار رخصت ہوگئی تو یکم مئی سے اس درخت پر بہار کے رنگ بکھرتے رہے۔ نئے پتے پھوٹنے لگے۔ 2001 میں ''للِی'' کے پھول مئی کے مہینے میں کِھلے تھے ۔لیکن2010 میں یہ پھول ستمبر میں کِھلے تھے 2001 میں یہ پھول 26مئی کو کھلے تھے لیکن 2014میں یہ پھول24 مارچ کو کھل اُٹھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ2010 میں مئی میں اتنی گرمی نہیں تھی کہ پھول کِھل سکتے اور ستمبر میں اتنی زیادہ گرمی تھی کہ پھول مسکرانے لگے اور2014 میں مئی کی گرمی للی کے پودے نے مارچ میں محسوس کی لہٰذا پھول وقت سے پہلے مسکرا اُٹھے۔موسموں کی یہ تبدیلی صرف پھولوں، پودوں، درختوں اور فصلوں کے لیے ہی خطرہ نہیںہے بلکہ یہ ہمارے لیے اورہماری آنے والی نسلوں کے لیے بھی مہیب،بھیانک اور مہلک خطرہ ہے۔

اتنی تیزی سے بدلتے ہوئے موسم میں انسانی جسم کو استحکام کیسے حاصل ہوگا؟ لہٰذا بیماریاں بڑھ گئی ہیں لوگ جلدی جلدی بیمار ہونے لگے ہیں ان کی قوت مدافعت موسموں کے غیر فطری بدلتے ہوئے منظروں سے ٹوٹ رہی ہے۔ بیماریاں، فصلوں کی تباہی ، معیار اور زرخیزی کی بربادی اور بے شمار ایسے مہلک نتائج جن کا اندازہ بہت کم لوگ کرسکتے ہیں۔اس تغیرکا لازمی نتیجہ ہے۔کیا ہم سب ان حقیقتوں سے واقف ہیں کیا ہم نے اپنے ارد گرد کبھی آنکھ کھول کر موسمی تبدیلیوں کو محسوس کیا ہے؟ ہمارے گھر کے صحن میں شاخ ِچمن پر،گھر سے دُورصحنِ گلشن میں موسم کس طر ح اثر انداز ہو رہے ہیں ہم ان تبدیلیوں کا مشاہدہ کیوں نہیں کر رہے ؟

بدلتے ہوئے موسم زمین کی زرخیزی تباہ کردیں گے ۔ جنگل کاٹے جارہے ہیں، زمین کی زرخیزی ختم ہو رہی ہے ۔ گلیشیئر پگھل رہے ہیں ۔شدید سردیوں میں شدید بارشیں اور بہار کے موسم میں برف باری ہو رہی ہے ۔ گرمیوں کے موسم میں ٹھنڈک آرہی ہے۔ بہار میں خزاں بھی موجود ہے۔ ''ناسا'' اور امریکی محکمہِ موسمیات نے 2014کو تاریخ کا گرم ترین سال قرار دیا۔یہ سب کچھ اس لیے بھی ہو رہا ہے کہ درخت تیزی سے کاٹے جا رہے ہیں۔

جنگلات اس لیے کاٹے جارہے ہیں کہ جدید تہذیب و تمدن معیار زندگی میں اضافے اور عیش و عشرت کے مظاہرکے فروغ کے لیے نت نئی قسم کا فرنیچر،کاغذ اور مختلف اقسام کی صنعتی اشیاء درکار ہیں۔ بول و براز کی صفائی کے لیے کاغذ اورکھانے کے بعد بھی صفائی کے لیے کاغذ چاہیے۔ اسکولوں میں آرٹ کرافٹ کے نام پرکروڑوں ٹن کاغذ اور لکڑی استعمال کر کے پھینک دی جاتی ہے۔ یہ تہذیب کا تقاضہ ہے جدید علم کاغذ کے بغیر منتقل نہیں ہو سکتا ۔ لہٰذا بہت بڑے پیمانے پر جنگلات کاٹے بغیر چارہ ہی نہیں ہے ۔ اتنا علم پھیلانے کی کیا ضرورت ہے؟ جس اخبار پر لوگ پکوڑے رکھ کر کھاتے ہوں ،جس اخبار سے شیشے صاف کیے جاتے ہوں اس کا علم سے کتنا تعلق؟ صنعتی ترقی اورکاغذ کے حصول کے لیے جنگل جس رفتار سے کاٹے جارہے ہیں اس کی ہولناک تفصیل ''جیرڈ ڈائمنڈ'' کی کتاب''کولیپس'' کے باب پندرہ اور سولہ میں پڑھی جاسکتی ہے ۔وہ لکھتا ہے کہ ''جنگلات کو اب تک جتنا نقصان پہنچایا گیا ہے۔

اس میں سے آدھا نقصان گزشتہ پچاس سالوں میں پہنچایا گیا ہے۔'' باب سولہ میں وہ لکھتا ہے کہ'' اگرکٹائی کی رفتار برقرار رہی تو اگلے پچاس برسوں میں ہم جنگلات کے مزید ایک چوتھائی حصے سے محروم ہو جائیں گے'' اس کا نتیجہ کیا ہوگا اس کی تفصیل پوری کتاب میں موجود ہے ۔ ڈائمنڈ نے امریکا، آسٹریلیا اورچین وغیرہ کے بارے میں بتایا ہے کہ جدید ترقی نے ان علاقوں میں ہوا ، پانی، غذا ، بحر و بر سب کو بدترین زہریلی آلودگی میں مبتلا کردیا ہے۔

جتنی تیزی سے ترقی ہو رہی ہے اس سے زیادہ تیزی سے جنگلات ہوا، فضاء،خشکی، تری برباد ہو رہے ہیں۔ تیزرفتار ترقی کے باعث تمام قدرتی وسائل ، آبی، حیاتیاتی، بری، بحری، نباتاتی ذخائر تیزی کے ساتھ ختم ہو رہے ہیں ۔جس تیزی سے پیداوار اورکھپت کا سرمایہ دارانہ چکر ۔ جدید مشینوں کے ذریعے چلایا جارہا ہے اس کے نتیجے میں آنے والی نسلوں کے لیے کچھ بچنے والا نہیں۔ یہاں تک کہ اگر یہ زمین بھی باقی رہ پائے تو بڑی بات ہوگی۔آج کے انسان کا المیہ یہ ہے جودنیا اُس کی تخلیق کردہ نہیں وہ اُسے اپنے تخلیق کردہ اصولوں سے برتنا چاہتا ہے۔

نادان نہیں جانتا کہ فطرت سے انحراف کا نتیجہ بہ جز تباہی کچھ نہیں۔ اگر کوئی فرد یا گروہ اپنے اصولوں کے مطابق اِسے برتنا چاہے تو اُسے ایک اور دنیا تخلیق کرنا ہوگی۔ غاروں میں رہنے والے انسان کو اِس اصول کا ادراک تھا۔وہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہترین دنیا چھوڑ کر گیا تھا۔افسوس آج کے ترقی یافتہ جدید انسان پر ہوتا ہے جو اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک جہنم چھوڑے جا رہا ہے اور وہ بھی صرف اپنی خواہشات کی قیمت پر۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں