ہم کہاں کھڑے ہیں
کیا ہم کبھی سوچتے بھی ہیں کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور ہم پاکستانی کہاں کھڑے ہیں؟
کیا ہم کبھی سوچتے بھی ہیں کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور ہم پاکستانی کہاں کھڑے ہیں؟ جب بھی یہ کہا جاتا ہے کہ ہم دنیا سے بہت پیچھے ہیں تو جواب دیا جاتا ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے، دیکھو کہ ہمارے ملک کی آبادی 18 کروڑ کو پہنچ رہی ہے اور ہمارے ملک کے 10 کروڑ لوگ موبائل فون استعمال کر رہے ہیں اور ہر موبائل رکھنے والا 5 سم بھی رکھ سکتا ہے، جب کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی دو سے زیادہ سم رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ تو ہم ان کے مقابلے میں زیادہ ترقی یافتہ ہوگئے ناں؟ لیکن میرا سوال ہے کہ کیا موبائل فون ہم نے ایجاد کیا ہے؟ ہمارے ملک کی سڑکوں پر جو گاڑیاں چل رہی ہیں، کیا وہ ہم نے ایجاد کی ہیں؟
اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے ملک کو قائم ہوئے ابھی 67 سال ہی تو ہوئے ہیں۔ قوموں کی زندگی میں 67 سال ہوتے ہی کتنے ہیں؟ بھائی یہ صرف بہانے ہیں، جن کو انگریزی میں lame excuses کہا جاتا ہے۔ جس وقت پاکستان معرض وجود میں آیا تھا، عین اس وقت یورپ دوسری عالمی جنگ کے زخم چاٹ رہا تھا۔ ہر طرف تباہی ہی تباہی تھی۔ بے شک ہمارے ملک میں تبدیلیٔ آبادی کی وجہ سے بدامنی کا دور دورہ شروع ہوا، لیکن کیا کسی نے یہ بھی سوچا تھا کہ اس کی وجہ سے جو نسلی فسادات پھوٹ پڑیں گے، ان کو کون اور کس طرح manage کرے گا؟
جرمنی، جاپان اور یورپ نے بھی دونوں عالمی جنگوں میں بڑے بڑے نقصانات اٹھائے، لیکن انھوں نے ان جنگوں سے بہت کچھ سیکھا، اپنے آپ کو سنبھالا اور ترقی کی جانب قدم اٹھائے اور جلد ہی آگے نکل گئے۔ دوسری عالمی جنگ میں جاپانیوں کی شکست ان کے لیے بہت بھاری صدمہ تھا، جب ان کے شہنشاہ، جس کی وہ پوجا کرتے تھے، نے امریکی جنرل میک آرتھر کے سامنے ہتھیار ڈالے۔ اس قوم کی اس سے زیادہ تذلیل اور کیا ہوسکتی تھی۔ امریکیوں نے ان کو شکست دینے کے بعد طعنہ دیا تھا کہ تم تو صرف بچوں کے کھلونے بنانے والی قوم ہو اور وہ ہی رہوگے۔ دنیا نے دیکھا کہ اس غیرت مند قوم نے جلد ہی اس طعنے کا بھرپور جواب دیا اور آج خود امریکا جاپانی گاڑیاں، الیکٹرانک اور دیگر مصنوعات نہ صرف امپورٹ کرتا ہے، بلکہ وہ جاپان کا مقروض بھی ہے۔
جرمنی نے بھی کوئی کم تباہ کاریاں نہیں دیکھی تھیں، آج یورپ کا نہایت ترقی یافتہ ملک ہے۔ اب وہ یورپی یونین کی سربراہی کررہا ہے، اس کا نمایندہ یورپی یونین کا صدر منتخب ہوا ہے۔ اس سے پہلے یہ سہرا برطانیہ کے سر پر تھا۔ برطانیہ کے لیے یہ ایک صدمہ تھا۔ انگریز جو ایک روایت پرست قوم ہے (اپنے گھر میں بھی رات کے کھانے کی میز پر ڈنر سوٹ پہن کر کھانا کھاتا ہے) انگریز کے لیے یہ ناقابل قبول تھا، لیکن جرمنی کی ترقی کے سبب یونین کے باقی تمام ممالک نے صدارت ان کے حوالے کی۔ برطانیہ یورپی یونین میں شامل تو ہوا تھا لیکن حسب روایت اس نے اپنا سکہ یعنی پاؤنڈ برقرار رکھا، یورپی یونین کے سکے یورو میں مدغم نہیں کیا۔ ویسے بھی یورپ کے ممالک اب برطانیہ کی بالادستی میں نہیں رہنا چاہتے۔
بہرحال یہ تو تمہید تھی، اصل مقصد پاکستان کے بارے میں لکھنا تھا۔ قائداعظم نے ملک کے لیے 3 بنیادی باتیں وضع کی تھیں، اتحاد، یقین محکم اور تنظیم۔ اتحاد اور یقین محکم کے بارے میں کیا لکھوں، آپ خود سمجھدار ہیں۔ البتہ تنظیم کے بارے میں عرض ہے کہ ہم وقت کے معاملے میں بہت سخی واقع ہوئے ہیں۔ اس کو ضایع کرنا ہمارا اولین وتیرہ ہے۔ سرکاری دفاتر میں لوگ وقت پر نہ آتے ہیں اور نا ہی چھٹی کے مقررہ وقت تک بیٹھ کر کام کرتے ہیں۔ 67 سال گزرنے کے باوجود ہم ٹریفک کا نظام صحیح نہیں کرسکے۔ دراصل اس معاملے میں ہم نے ابھی تک نیت ہی نہیں باندھی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ نہ تو لوگوں کو اور نا ہی حکمرانوں کو اس بات کا احساس ہے کہ ٹریفک کے نظام کو درست نہ کرنے کی وجہ سے پورے ملک میں جو بلاکیڈ ہوتا ہے، اس کی وجہ سے تیل کا کتنا ضیاع ہوتا ہے اور ماحول میں کتنی کاربن پھیلتی ہے۔
قائداعظم نے ترقی کے لیے ایک اور گائیڈ لائن بھی دی تھی، وہ تھی کام، کام اور صرف کام۔ لیکن کیا ہم نے ان کا کہا مانا؟ کام، کام اور کام تو درکنار، کیا ہم نے صرف کام ہی کیا؟ نہ صرف دفاتر، بلکہ ہر شعبہ زندگی میں ہم لوگ کام سے کتراتے ہیں۔ سرکاری دفاتر اور فیکٹریوں میں دوپہر کے کھانے اور نماز کے لیے صرف 45 منٹ کا وقفہ مقرر ہے، جب کہ ہم نمار کے بعد کھانے اور دیگر مشاغل میں ڈھائی گھنٹے گزار کر واپس آتے ہیں اور پھر چھٹی کی تیاری کرنا شروع کردیتے ہیں۔
ترقی یافتہ ملکوں میں اب دفاتر میں حاضری کے لیے بائیومیٹرک سسٹم ہوتا ہے اور تنخواہ ماہوار نہیں بلکہ روزانہ گھنٹوں کے حساب سے ملتی ہے۔ جتنے گھنٹے کام کیا اتنی ہی تنخواہ۔ اگر کھڑے ہوکر کام کرنا ہے تو آٹھ گھنٹے کھڑا ہی رہنا ہے، البتہ درمیان میں 15، 15 منٹ کے دو وقفے ملتے ہیں، لیکن اس آدھے گھنٹے کی تنخواہ نہیں ملتی، تنخواہ ساڑھے سات گھنٹوں کی ہی ملے گی۔
ہم جیسے ملکوں کا سب سے بڑا مسئلہ آبادی میں بے پناہ اضافہ ہے۔ جس کی وجہ سے اور تو چھوڑیں، صرف صحت کے لیے کوئی اقدام نہیں کرسکتے۔ پہلے حفظان صحت کے لیے اقدامات ضروری ہیں، تاکہ کم لوگ بیمار ہوں اور ان کو علاج معالجہ کی سہولیتیں مہیا کی جاسکیں۔ ہمارے ملک میں تو لوگوں کو پولیو کے بارے میں بھی تحفظات ہیں، جس کی وجہ سے ہم دنیا میں پہلے نمبر پر ہیں۔
چین نے ایک بچہ پالیسی اختیار کرکے اپنے بہت سارے اقتصادی اور سماجی مسائل حل کرلیے۔ وہاں کے عوام نے اس پالیسی کا بھرپور ساتھ دیا۔ چین نے یہ کیا کہ ان بچوں کے لیے اعلیٰ صحت اور تعلیم کا بندوبست کیا۔ جب کہ ان کے صوبے سنکیانگ، جس کی کثیر آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے، کے لوگوں نے اس پالیسی پر عمل کرنے سے انکار کردیا۔ حکومت نے ان پر زور بھی نہیں دیا، لیکن وہاں کے لوگ کثیر آبادی کی وجہ سے پسماندہ ہیں۔
ہمارے ملک میں ہر شعبے میں صحیح منصوبہ بندی بھی نہیں ہوپاتی، جس کی وجہ یہ ہے کہ ہر دسویں سال مردم شماری نہیں کی جاتی۔ پتہ نہیں یہ کام اتنا مشکل کیوں لگتا ہے؟ ہمیں یہ پتہ نہیں ہوتا ہے کہ آیندہ برسوں میں ہمیں کتنے ڈاکٹر یا انجنیئر درکار ہوں گے۔ ہم میڈیکل اور انجینئرنگ کالج اور یونیورسٹیاں تو دھڑا دھڑ کھولتے جارہے ہیں، جن میں ہم سوائے بے روزگار پیدا کرنے کے اور کوئی کام نہیں کررہے ہیں۔
اوپر عرض کرچکا ہوں کہ جاپان، جس کے اوپر ایٹم بم گرایا گیا تھا، اس نے کتنی ترقی کی ہے۔ اس ترقی کا راز یہ ہے کہ انھوں نے کام، کام اور کام والے اصول پر عمل کیا، وہاں کے لوگ چھٹیوں کو اچھا نہیں سمجھتے، ان کے احتجاج اور اسٹرائیک کرنے کا طریقہ بھی الگ ہے، وہ صرف بازو پر کالی پٹیاں باندھتے ہیں اور ان دنوں میں زیادہ گھنٹے کام کرتے ہیں۔ برطانیہ میں ڈاکٹروں کو مسئلہ تھا تو انھوں نے خود ہڑتال نہیں کی، بلکہ محکمہ ڈاک کی یونین سے کہا کہ آپ لوگ اسٹرائیک کریں اور اس میں ہمارے مسائل پیش کریں، کیونکہ ہم ہڑتال کرکے مریضوں کے لیے دشواریاں پیدا نہیں کرنا چاہتے۔ جب کہ ہمارے ہاں ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل عملہ آئے دن ہڑتالیں کرتے ہیں، جن سے لوگ مر بھی جاتے ہیں۔ ہمارے وکیل صاحبان بھی پیچھے نہیں ہیں۔
آئے دن عدالتوں کا بائیکاٹ کرتے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے مقدمات کی تاریخ پر تاریخ ہی لگتی رہتی ہے۔گزشتہ ہفتے ایک اخبار میں خبر آئی کہ جاپان میں حکومت نے ازخود ملازمیں کو تنخواہ کے ساتھ چھٹیاں دینے کی پیشکش کی ہے، تاکہ زیادہ کام کی وجہ سے جو ان کی صحت پر اثر ہوتا ہے وہ کم سے کم ہو اور وہ چھٹیاں مناکر تازہ و توانا ہو کر دوبارہ کام کے لیے آئیں گے تو زیادہ پروڈکشن کرسکیں گے۔ یاد رہے کہ کچھ سال پہلے یونینوں نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ ہفتہ وار چھٹیاں دو سے کم کرکے ایک کی جائے۔ پتہ نہیں کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں یہ لوگ۔ کاش ہم دنیا کی دیگر قوموں سے ہی سبق سیکھ سکیں۔