والدین سے گزارش ہے

معصوم جان کو کوڑا دان یا قبرستان کی نظر کرنے کیبجائے کسی ایسی جگہ چھوڑ دیں جہاں ان بچوں کو کم از کم زندگی تو مل سکے۔


حاجرہ افتخار February 20, 2015
جب کھلا نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہیں؟ فوٹو رائٹرز

اولاد سب سے بہت بڑی نعمت ہے اور اس کی قدر ان لوگوں سے پوچھنی چاہئے جو لاکھ کوششوں، منتوں، مرادوں اور دعاؤں کے باوجود اس نعمت سے محروم ہیں۔ بیٹا ہو یا بیٹی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، بس ﷲ اولاد دے۔ لوگ بدل گئے ہیں، ان کی سوچ بدل گئی ہے اور نجانے کیا کیا؟ اس قسم کی کتنی ہی باتیں ہم ہر روز اپنے اردگرد سنتے ہیں۔

میں جب بھی بچوں کے حوالے سے کوئی بُری خبر سنتی یا دیکھتی تھی تو سوچتی تھی کہ لوگ معصوم بچوں کے ساتھ ایسا ظلم کس طرح کرسکتے ہیں؟ اکثر یہ خیال بھی آتا تھا کہ ہوسکتا ہے میڈیا اور لوگ ایسی خبروں کو زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوں، لیکن ایک دن مجھے ان تمام باتوں اور خبروں پر یقین آگیا۔

ہوا کچھ یوں کہ کچھ روز قبل میں اپنی ماما کے ساتھ ایک عزیز کی شادی میں گئی تھی۔ شادی میں ماما کو کئی رشتے دار اور عزیز مل رہے تھے اور میں بھی ان کی رسمیہ گفتگو کا حصہ بن رہی تھی۔ ہم جس ٹیبل پر بیٹھے تھے وہیں ایک بچی بھی بیٹی ہوئی تھی، اتفاق سے میری خالہ بھی اسی ٹیبل پر آگئیں، میں نے یوںہی بات کو آگے بڑھانے کے لئے ان سے پوچھ لیا کہ یہ کون ہے؟ خالہ نے بڑی تفصیل سے بتایا کہ یہ فلاں فلاں کی بیٹی ہیں۔

خالہ کی بات سن کر میں حیرانی سے انہیں دیکھنے لگی، کیونکہ بہت پہلے ماما مجھے بتا چکی تھیں کہ ان کے خاندان میں بس ایک ہی بیٹی ہے اور وہ بھی شادی شدہ ہے، تو پھر یہ دس گیارہ سالہ بچی کون ہے؟

خیر میں نے ذہن پر زیادہ زور نا ڈالتے ہوئے ماما سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ بچی انہیں قبرستان سے ملی تھی، لہذا یہ لوگ اسے گھر لے آئے اور اپنے سینے سے لگا لیا۔ میں نے خالہ سے آہستگی سے بولا کہ شاید یہ کسی کی ناجائز اولاد ہو؟ خالہ نے میرے سر پر ہلکا سا مارتے ہوئے کہا بھانجی صاحبہ آپ ناجائز اولاد کی بات کرتی ہیں یہاں تو لوگ اپنی جائز اولاد بھی اپنانے سے انکار کردیتے ہیں۔

اب میری نظریں اس بچی سے ہٹ نہیں رہی تھی۔ میں بار بار اس کے معصوم چہرے کو دیکھنے لگتی۔ ذہن میں ایک کے بعد ایک سوال گونجنے لگے کہ یہ کس کی بچی ہوگی؟ والدین کس مجبوری کے تحت بچی کو قبرستان میں چھوڑ گئے؟ کیسے درندہ صفت ماں باپ ہوں گے جو اپنی اولاد کو یوں پھینک کر چلے گئے ہیں؟ انہیں رحم کیوں نا آیا؟ کیا انہیں سکون کی نیند آتی ہوگی؟ اگر یہ فرشتہ صفت لوگ اس بچی کو نا اپناتے تو اس کا کیا ہوتا؟ یا خدا! اس کے آگے سوچ کر ہی خوف سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔

آج اس بچی سے ملے ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن آج بھی اس کا چہرہ میرے ذہن پر نقش ہے۔ ہم لوگ بڑی آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ سانپ تو اپنی اولاد کو بھی نہیں چھوڑتا، پھر ہمارے اردگرد موجود ایسے لوگ جو اپنی اولاد کو پیدا ہوتے ہی مار دیتے ہیں یا پھر مرنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں تو کیا اُن میں اور سانپ میں کوئی فرق نہیں رہا؟

کچھ ماہ قبل ٹی وی پر خبر سنی تھی کہ ماں نے اپنے دو بچوں کا گلا گھونٹ کر مار ڈالا، پھر ایک دوسری خبر سنی کہ ایک باپ نے اپنی دو سالہ بچی کو دریائے راوی میں پھینک کر موت کے گھاٹ اُتاردیا دیا۔ وجہ چاہے کچھ بھی ہو لیکن قتل تو قتل ہے اور نا حق کے قتل کی معافی نہیں ملتی۔

رمضان المبارک میں اکثر ٹی وی چینلز این جی اوز کے مالکان یا ان کے ملازمین کو اپنے پروگرام میں مدعو کرتے ہیں، وہ لوگ کچھ بے سہارا اور لاچار افراد کو بھی اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں، جہاں چینل ان کی افطاری کا انتظام کرتا ہے، وہیں ان کے لئے مدد کی اپیل بھی کی جاتی ہے۔ گذشتہ کچھ سالوں سے دیکھا جارہا ہے کہ بے اولاد افراد بھی ان پروگراموں کا حصہ بنتے جارہے ہیں، جہاں یتیم اور بے سہارا بچوں کو والدین کی شکل میں ایک سایہ دار گھرانہ مل جاتا ہے اور والدین کو ان کی گھر کی رونق۔ نہ صرف ماہِ مبارک بلکہ عام دنوں میں بھی یہ این جی اوز اس کارِ خیر کا حصہ بنی رہتی ہیں ۔

پاکستان میں بے شمار سینٹرز بنائے گئے ہیں، جہاں ان بچوں کی نگداہشت کی جاتی ہے، ان کے مستقبل کو روشن بنانے کے لئے کوششیں کی جاتی ہے۔

میری ایسے تمام والدین سے گزارش ہے کہ بے روز گاری، غربت اور کبھی اپنے گناہ کو چھپانے کے لئے ایک معصوم جان کو مار دینے یا مرنے کے لئے کوڑا دان، قبرستان تو کبھی پرانی عمارتوں کی نظر کرنے کے بجائے انہیں کسی ایسی جگہ چھوڑ دیں جہاں ان بچوں کو کم از کم زندگی تو مل سکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں