آؤ پڑھاؤ کیا آپ بھی ان حالات سے گزری ہیں
محض ایک کاغذ کا ٹکڑا ہی تھا لیکن اسے حاصل کرنے میں جتنی محنت و مشقت سے مجھے گزرنا پڑا اس کا اندازہ صرف مجھے ہی تھا۔
سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی آسامیاں خالی ہیں، آفس میں بیٹھے بیٹھے میری کولیگ فوزیہ نے باآواز بلند کہا۔ میں نے پلٹ کر فوراً اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا، شکر ہے لنچ بریک ہے اس لئے کوئی موجود نہیں، ورنہ تو تم پورے علاقے میں اعلان کراتی پھرو اور نگران 2 منٹ میں ہمیں آفس سے فارغ کردیں۔
ہاں تمام نجی اداروں کا یہی حال ہے، جب چاہا جس وقت چاہا جاب سے فارغ کردیا۔ کوئی ہم غریبوں کے بارے میں نہیں سوچتا۔ صحیح کہہ رہی ہو تم، اُف یہ کن باتوں میں لگا دیا، یہ سب چھوڑو بس بتاؤ کہ کہاں نوکریاں آئی ہیں؟ کیا کرنا ہے؟ ہم دونوں اشتہار، اہلیت کا معیار اور اپلائی کرنے کے طریقہ کار وغیرہ دیکھنے میں مصروف ہوگئے۔
سرکاری اسکولوں میں جاب حاصل کرنا ہراساتذہ کا خواب ہوتا ہے۔ عرصہ دراز سے ایک نجی ادارے میں کام کرنے کے بعد میں بھی ایک سرکاری اسکول کی اساتذہ بننے کے خواب دیکھنے لگی تھی۔ ایک وقت تھا جب میں یہ سمجھتی تھی کہ مجھے آرام سے کسی بھی سرکاری اسکول میں نوکری مل جائے گی، مگر درحقیقت صبح شام پسینہ بہانے کے بعد مجھے پتا چلا کہ یہاں نوکری حاصل کرنا کس قدر مشکل کام ہے۔
اگلے روز ہم نے آفس سے خصوصی طور پر چھٹی لی اور اپنے دستاویزات اکھٹے کرنے میں لگ گئے۔ یقین جانیے صبح سے شام ہوگئی کبھی ایک ڈگری نہیں ملتی تو کبھی دوسری، اوپر سے اتنی لمبی لائن کہ نہ پوچھیں۔ آج ہمیں زندگی میں پہلی بار اُن لوگوں کا احساس ہوا جو بل جمع کرانے یا بینک سے پنشن لینے کے چکر میں کڑی دھوپ میں قطار میں کھڑے رہتے ہیں۔ شام کو فارم جمع کروا کر جب ہم تھک ہار کر گھر پہنچے تو شکر ادا کیا کہ کم از کم پہلا مرحلہ تو طے ہوا، ابھی میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ میری بہن بول اٹھی ؛
بس پھر کیا تھا میں نے بھی نہ دن دیکھا نہ رات امتحان کو پار کرنے کی تیاری کے لئے میدان میں اتر آئی۔ قصہ مختصر دن گرزتے گئے اور امتحان کی تاریخ نزدیک آگئی۔
کل ٹیسٹ ہے اور مجھے بے حد پریشانی ہورہی ہے، تم کیا کررہی ہو؟ تیاری مکمل ہے تمہاری؟ فوزیہ نے فون کرتے ہی ایک ہی سانس میں بہت سے سوال کر ڈالے۔
میں اس کی پریشانی سمجھ سکتی تھی، دراصل سرکاری اسکول میں نوکری حاصل کرنا میرا اور فوزیہ دونوں خواب تھا، اب ہم اس خواب کی تعبیر سے چند قدم سے ہی دور تھے، لہذا خوشی کے ساتھ پریشانی ہونا بھی لازمی تھی۔ میں نے اسے تسلی دی اور مثبت سوچ کی نصیحت کرتے ہوئے فون بند کردیا۔
11 بج گئے، مجھے کسی نے اٹھایا کیوں نہیں؟ میں فوراً اٹھ کر بھاگی۔ ٹیسٹ 1 بجے تھا اور 10 سے 15 منٹ پہلے امتحانی مرکز پہنچنا بھی ضروری تھا۔
امتحانی مرکز کے باہر بہت بھیڑ تھی۔ سب یہاں کیوں کھڑے ہیں، کیا اندر جانے نہیں دیا جارہا؟ میں نے اسکول کے گیٹ کے قریب کھڑی لڑکی سے پوچھا۔
ابھی اندر پہلی شفت کا امتحان چل رہا ہے، ہماری دوسری شفٹ ہوگی، اسی لئے سب یہاں انتظار میں کھڑے ہیں۔
تقریباً 1 گھنٹے بعد اسکول کا دروازہ کھلا اور ہم کمرہ امتحان میں پہنچے۔ میں 3 گھنٹے کا امتحان دے کر نکلی تو ہر ایک کی زبان پر یہی سوال تھا کہ ٹیسٹ کیسا ہوا؟ سچ پوچھیں تو میرے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا، انتی بڑی تعداد میں نوکری کی خواہشمند خواتین اور لڑکیوں کو دیکھ کر میری تو ہمت آگے پیچھے ہورہی تھی۔ خیر ہم دونوں گھر آگئے اور دعا اور نتیجے کا طویل انتظار کرنے لگے۔
خدا خدا کرکے نتیجہ آیا، میں نے فوراً فوزیہ کو فون کیا لیکن اس کی بجھی ہوئی آواز سن کر میں آگے کچھ نہ بول سکی۔ ہم دونوں نے ہی محنت کی تھی لیکن مجھے اپنے پاس ہونے کی خوشی سے زیادہ اس کے لئے افسوس ہورہا تھا، کیونکہ صرف ایک نمبر کی وجہ سے اس کی ساری محنت پانی میں مل گئی۔
بہرحال آگے کا مرحلہ مجھے اکیلے ہی طے کرنا تھا، چند دن بعد ہی مجھے اطلاع ملی کی جن اساتذہ نے ٹیسٹ پاس کیا تھا ان کے اپائنٹمنٹ لیٹرز آگئے ہیں۔ محض ایک کاغذ کا ٹکڑا ہی تھا لیکن اسے حاصل کرنے میں جتنی محنت و مشقت سے مجھے گزرنا پڑا اس کا اندازہ صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جنہوں نے کسی سرکای نوکری کے لئے درخواست دی ہو اور ساتھ ہی دھکے بھی کھائیں ہوں۔
آج میں ایک استاد کی حیثیت سے سرکاری اسکول میں فرائض سرانجام دے رہی ہوں اور اپنے اس فیصلے پر بے حد خوش اور مطمئن ہوں۔ میری خواہش ہے کہ میں تمام طالب علموں کو ایک روشن مستقبل کی جانب گامزن کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکوں۔ ساتھ ہی وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ سرکاری نوکری آسانی سے مل جاتی ہے اور گورنمنٹ ٹیچر بننا کون سی بڑی بات ہے، وہ ایک دفعہ اس تمام صورتحال سے گزریں تو انہیں ''لگ پتا جائے گا '' ۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ہاں تمام نجی اداروں کا یہی حال ہے، جب چاہا جس وقت چاہا جاب سے فارغ کردیا۔ کوئی ہم غریبوں کے بارے میں نہیں سوچتا۔ صحیح کہہ رہی ہو تم، اُف یہ کن باتوں میں لگا دیا، یہ سب چھوڑو بس بتاؤ کہ کہاں نوکریاں آئی ہیں؟ کیا کرنا ہے؟ ہم دونوں اشتہار، اہلیت کا معیار اور اپلائی کرنے کے طریقہ کار وغیرہ دیکھنے میں مصروف ہوگئے۔
سرکاری اسکولوں میں جاب حاصل کرنا ہراساتذہ کا خواب ہوتا ہے۔ عرصہ دراز سے ایک نجی ادارے میں کام کرنے کے بعد میں بھی ایک سرکاری اسکول کی اساتذہ بننے کے خواب دیکھنے لگی تھی۔ ایک وقت تھا جب میں یہ سمجھتی تھی کہ مجھے آرام سے کسی بھی سرکاری اسکول میں نوکری مل جائے گی، مگر درحقیقت صبح شام پسینہ بہانے کے بعد مجھے پتا چلا کہ یہاں نوکری حاصل کرنا کس قدر مشکل کام ہے۔
اگلے روز ہم نے آفس سے خصوصی طور پر چھٹی لی اور اپنے دستاویزات اکھٹے کرنے میں لگ گئے۔ یقین جانیے صبح سے شام ہوگئی کبھی ایک ڈگری نہیں ملتی تو کبھی دوسری، اوپر سے اتنی لمبی لائن کہ نہ پوچھیں۔ آج ہمیں زندگی میں پہلی بار اُن لوگوں کا احساس ہوا جو بل جمع کرانے یا بینک سے پنشن لینے کے چکر میں کڑی دھوپ میں قطار میں کھڑے رہتے ہیں۔ شام کو فارم جمع کروا کر جب ہم تھک ہار کر گھر پہنچے تو شکر ادا کیا کہ کم از کم پہلا مرحلہ تو طے ہوا، ابھی میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ میری بہن بول اٹھی ؛
ستاروں کے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں
بس پھر کیا تھا میں نے بھی نہ دن دیکھا نہ رات امتحان کو پار کرنے کی تیاری کے لئے میدان میں اتر آئی۔ قصہ مختصر دن گرزتے گئے اور امتحان کی تاریخ نزدیک آگئی۔
کل ٹیسٹ ہے اور مجھے بے حد پریشانی ہورہی ہے، تم کیا کررہی ہو؟ تیاری مکمل ہے تمہاری؟ فوزیہ نے فون کرتے ہی ایک ہی سانس میں بہت سے سوال کر ڈالے۔
میں اس کی پریشانی سمجھ سکتی تھی، دراصل سرکاری اسکول میں نوکری حاصل کرنا میرا اور فوزیہ دونوں خواب تھا، اب ہم اس خواب کی تعبیر سے چند قدم سے ہی دور تھے، لہذا خوشی کے ساتھ پریشانی ہونا بھی لازمی تھی۔ میں نے اسے تسلی دی اور مثبت سوچ کی نصیحت کرتے ہوئے فون بند کردیا۔
11 بج گئے، مجھے کسی نے اٹھایا کیوں نہیں؟ میں فوراً اٹھ کر بھاگی۔ ٹیسٹ 1 بجے تھا اور 10 سے 15 منٹ پہلے امتحانی مرکز پہنچنا بھی ضروری تھا۔
امتحانی مرکز کے باہر بہت بھیڑ تھی۔ سب یہاں کیوں کھڑے ہیں، کیا اندر جانے نہیں دیا جارہا؟ میں نے اسکول کے گیٹ کے قریب کھڑی لڑکی سے پوچھا۔
ابھی اندر پہلی شفت کا امتحان چل رہا ہے، ہماری دوسری شفٹ ہوگی، اسی لئے سب یہاں انتظار میں کھڑے ہیں۔
تقریباً 1 گھنٹے بعد اسکول کا دروازہ کھلا اور ہم کمرہ امتحان میں پہنچے۔ میں 3 گھنٹے کا امتحان دے کر نکلی تو ہر ایک کی زبان پر یہی سوال تھا کہ ٹیسٹ کیسا ہوا؟ سچ پوچھیں تو میرے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا، انتی بڑی تعداد میں نوکری کی خواہشمند خواتین اور لڑکیوں کو دیکھ کر میری تو ہمت آگے پیچھے ہورہی تھی۔ خیر ہم دونوں گھر آگئے اور دعا اور نتیجے کا طویل انتظار کرنے لگے۔
خدا خدا کرکے نتیجہ آیا، میں نے فوراً فوزیہ کو فون کیا لیکن اس کی بجھی ہوئی آواز سن کر میں آگے کچھ نہ بول سکی۔ ہم دونوں نے ہی محنت کی تھی لیکن مجھے اپنے پاس ہونے کی خوشی سے زیادہ اس کے لئے افسوس ہورہا تھا، کیونکہ صرف ایک نمبر کی وجہ سے اس کی ساری محنت پانی میں مل گئی۔
بہرحال آگے کا مرحلہ مجھے اکیلے ہی طے کرنا تھا، چند دن بعد ہی مجھے اطلاع ملی کی جن اساتذہ نے ٹیسٹ پاس کیا تھا ان کے اپائنٹمنٹ لیٹرز آگئے ہیں۔ محض ایک کاغذ کا ٹکڑا ہی تھا لیکن اسے حاصل کرنے میں جتنی محنت و مشقت سے مجھے گزرنا پڑا اس کا اندازہ صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جنہوں نے کسی سرکای نوکری کے لئے درخواست دی ہو اور ساتھ ہی دھکے بھی کھائیں ہوں۔
آج میں ایک استاد کی حیثیت سے سرکاری اسکول میں فرائض سرانجام دے رہی ہوں اور اپنے اس فیصلے پر بے حد خوش اور مطمئن ہوں۔ میری خواہش ہے کہ میں تمام طالب علموں کو ایک روشن مستقبل کی جانب گامزن کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکوں۔ ساتھ ہی وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ سرکاری نوکری آسانی سے مل جاتی ہے اور گورنمنٹ ٹیچر بننا کون سی بڑی بات ہے، وہ ایک دفعہ اس تمام صورتحال سے گزریں تو انہیں ''لگ پتا جائے گا '' ۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔