ایں مدارس بزورِ بازو نیست

پاکستان میں اس وقت مختلف فقہی اور فرقئی مدارس کی رجسٹرڈ تعداد پچیس ہزار کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔


Wasat Ullah Khan February 20, 2015

KARACHI: گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں سعودی سفارت خانے کی جانب سے جاری کردہ یہ وضاحت خاصی اہم ہے کہ شاہی حکومت کی جانب سے پاکستان میں کسی مدرسے یا خیراتی ادارے کو اس وقت تک امداد نہیں دی جاتی جب تک پاکستانی وزارتِ خارجہ کی جانب سے ایسی کسی درخواست کی منظوری نہیں مل جاتی۔یہ وضاحت یوں جاری کرنا پڑی کیونکہ ان دنوں ذرایع ابلاغ میں بعض عناصر کی جانب سے تاثر دیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینے میں شامل مدارس کو سعودی مالی معاونت حاصل ہے۔ کچھ عرصے پہلے ایران بھی اس تاثر کی تردید کر چکا ہے کہ وہ براہ راست کچھ شیعہ مدارس کو امداد دیتا ہے اور یوں پاکستانی سرزمین سعودی ایران فرقہ وارانہ رسہ کشی کا مسلسل میدانِ جنگ بنی ہوئی ہے۔

ان تردیدوں کے بعد اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان مدارس کی مالی معاونت آخر کون کر رہا ہے؟ اگر تو کوئی عرب یا ایرانی شخص یا ادارہ نجی طور پر کچھ مدارس کی معاونت کر رہا ہے تو اس سے حکومتوں کا کوئی لینا دینا نہیں۔ یا اگر کوئی حکومت کسی نجی ادارے یا شخصیت کے توسط سے کچھ مدارس یا خیراتی اداروں کی مدد کر رہی ہے تب بھی پکڑائی بہت مشکل ہے کہ جو امداد آ رہی ہے وہ نجی ہے کہ سرکاری۔

پاکستان میں اس وقت مختلف فقہی اور فرقئی مدارس کی رجسٹرڈ تعداد پچیس ہزار کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے جن کا انتظام و انصرام و نصاب لگ بھگ پانچ انتظامی بورڈوں کے تحت ہے۔ ان بورڈوں کو آپ مدارس کی ایسوسی ایشنز سمجھ لیجیے جو بطور اجتماعی سوداکاری ایجنٹ حکومت ِ وقت سے انتظامی و نصابی امور کے سلسلے میں رابطے میں رہتے ہیں۔ مگر یہ بورڈ اور ان کے تحت آنے والے مدارس اپنی اندرونی تعلیمی و انتظامی پالیسیوں کے بارے میں عملاً خود مختار ہیں۔

حکومت ان پر کسی مخصوص مسئلے کی بابت زور تو ڈال سکتی ہے لیکن آمدن و اخراجات کے آڈٹ سمیت بزور کچھ بھی نہیں منوا سکتی۔ کیونکہ ایک تو ان مدارس اور ان کے انتظامی اتحاد کی اپنی طاقت ہے اور دوسرے انھیں لگ بھگ ان تمام مذہبی سیاسی جماعتوں کی موثر پشت پناہی بھی ہے جن کی قیادت کا ان مدارس سے بلا واسطہ یا بلواسطہ استادانہ، شاگردانہ یا نظریاتی تعلق ہے۔

حکومتِ وقت کو چونکہ روزمرہ معاملات اور اپنی سیاسی بقا کے لیے عددی حمایت کی وقتاً فوقتاً ضرورت پڑتی رہتی ہے لہذا قطع نظر کس حکومت کا کیا نظریہ ہے وہ ان مذہبی سیاسی جماعتوں کی سیاسی و دینی ناراضی مول نہیں لے سکتی اور اکثر اوقات حکومت کو ہی اپنی ضرورت و مصلحت کی خاطر اس دینی و سیاسی اتحاد کے آگے جھکنا پڑتا ہے۔ جب بھی کوئی حکومت مدارس کی اصلاحات کی بات کرتی ہے تو اس اتحاد کا سب سے موثر ہتھیار یہ الزام ہوتا ہے کہ حکومت مدارس کے انتظامی و نصابی معاملات میں غیر ملکی ( یعنی امریکی ) سیکولر ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مداخلت کرنا چاہ رہی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اس وقت جتنے رجسٹرڈ مدارس ہیں کم و بیش اتنے ہی غیر رجسٹرڈ مدارس بھی ہیں۔ لہذا ان کے مالی و نظریاتی شجرے کی جڑ تک پہنچنا اور بھی مشکل ہے۔ رجسٹرڈ یا غیر رجسٹرڈ سے قطع نظر ان مدارس کی بابت خود حکومت کے متعلقہ اداروں کا شماریاتی و تحقیقی سروے اور ریکارڈ بھی نہایت فرسودہ ہے۔ چنانچہ حکومت اگر ان مدارس کو کسی قومی پالیسی یا دھارے کے تحت لانا بھی چاہے تو ابتدائی جوش و خروش کے بعد اس کا سانس پھول جاتا ہے اور رہ جانے والا خلا تاویلات، حیلہ سازی، نیم دلانہ دباؤ اور کچھ لو کچھ دو کے طریقوں سے بھرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ویسے بھی ان مدارس پر کون اور کیسے بھرپور ہاتھ ڈال کے انھیں کسی ایک قومی پالیسی کی چھتری تلے لا سکتا ہے کہ جن کی نظریاتی و افرادی قوت وقتاً فوقتاً ریاست اور ریاستی اداروں کی داخلہ و خارجہ پالیسیوں پر عمل درآمد کے لیے استعمال کرنے کی ضرورت پیش آتی رہتی ہو۔

ایران اور خلیجی ریاستوں سمیت جن ممالک پر پاکستانی مدارس کی مدد اور فروغِ فرقہ واریت کا کچا پکا شبہ ہے خود ان ممالک کے بنیادی قانونی تقاضے مکمل کر کے سرکاری اجازت نامہ ملے بغیر کسی مسجد و مدرسے کے قیام کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ نصاب بھی سرکاری طور پر منظور شدہ پڑھایا جاتا ہے اور اساتذہ و طلبا کے پس منظر کی تفصیلات سمیت انتظامی و مالیاتی تفصیلات بھی سرکار کے ملاحظے سے نہیں چوک سکتیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان دینی مدارس کی جنت ہے۔

یہاں کسی بھی قطعہِ اراضی پر کسی کو بھی خاطر میں لائے بغیر بلا سرکاری و نجی منظوری راتوں رات مسجد بن سکتی ہے، مدرسہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ اور جب ایک بار وہاں پہلی نماز یا پہلا درس ہو گیا تو اس کے بعد سرکار سمیت کس مائی کے لال میں ہمت ہے کہ کوئی سوال کر سکے۔ چیلنج کرنے کی صورت میں ایک پورے فرقے یا فقہ یا تنظیم کی طاقت سے نپٹنے کی اگر کسی ادارے میں ہمت ہے تو شوق سے چیلنج کرے۔ اس بابت سرکاری و غیر سرکاری مساجد و مدارس کی کوئی تمیز نہیں۔ (سرکاری لال مسجد اور غیر سرکاری جامعہ حفصہ کی مثال آپ کے سامنے ہے)۔

یہ بات درست ہے کہ بہت کم مدارس ایسے ہوں گے جہاں مذہب کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کو پناہ دی جاتی ہو یا کسی دیگر مادی طریقے سے ان کی مدد کی جاتی ہو۔ اگر ایسا ہے بھی تو یہ بات ہضم ہونی بہت مشکل ہے کہ اس طرح کے مدارس سرکاری ایجنسیوں کے علم میں نہیں۔ مگر کسی بھی مدرسے کو کیا پڑی کہ وہ شدت پسندوں کو پناہ دے یا انھیں راہداری، قیام و رہنمائی سمیت کوئی سہولت فراہم کرے۔ چنانچہ جب بھی کوئی ایجنسی اسلحے یا براہِ راست تعلق کی تلاش میں کسی مدرسے پر چھاپہ مارتی ہے تو اکثر سوائے مایوسی اور بدنامی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

فیصلہ ساز لال بھجکڑوں کے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اصل شے بندوق نہیں ذہن سازی ہے۔ اور ذہن سازی کی غذا نصاب اور اس نصاب کی تشریح کرنے والے استاد کا زندگی و آخرت کو دیکھنے کا زاویہ ہے۔ غیر رجسٹرڈ مدارس کو تو جانے دیجیے خود رجسٹرڈ مدارس بھی عملاً خودمختار ہیں۔ لہذا لکیر کے فقیر اہلکار نہ تو ان مدارس کے اساتذہ کا شجرہِ تعلیم و تربیت چھاننے کی اہلیت رکھتے ہیں اور نہ ہی وہ ان اساتذہ کے درس میں بیٹھ کے یا ان کی تفصیلات جان کے واضح یا بین السطور تعلیمی و تشریحی نکات کا ادراک کر سکتے ہیں اور نہ ہی ایسا کرنے کی کوئی مدرسہ کبھی اجازت دے گا۔

جس طرح تمام عدالتی فیصلے مجلد شکل میں باقاعدگی سے شایع کیے جاتے ہیں اسی طرح اگر تمام رجسٹرڈ مدارس کے مفتیانِ کرام کے فتاوی بھی ماہانہ، سہہ ماہی، شش ماہی یا سالانہ بنیادوں پر باقاعدگی سے رجسٹرڈ مجلد شکل میں دستیاب ہوں تو ان سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ کس مدرسے کا فرقہ واریت، مسلکی تشریح، سیاستِ حاضرہ اور روزمرہ معاملات و الجھنوں کے شرعی حل کے بارے میں کیا زاویہِ نظر ہے۔ اور ایک ہی مسئلے پر ایک ہی فقہہ سے تعلق رکھنے والے دو مختلف مدارس کے فتاوی میں کیا مماثلت اور کتنا فرق ہے۔ مگر اس طرح کا چونکہ کوئی نظام نہیں لہذا کوئی بھی خواندہ و نیم خواندہ جوشیلا شخص یا شاگرد کسی بھی ایک استاد یا مفتی کے فتوی کا سہارا لے کر اسے پوری دنیا پر نافذ کرنے کا خواب دیکھ سکتا ہے۔

جب تک مذکورہ بنیادی مسائل مربوط انداز میں کسی کی پکڑ میں نہیں آتے تب تک آپ مدارس کی لاکھ نگرانی کرتے رہیں، رجسٹریشن پر زور دیتے رہیں، اتحاد بین المسلیمن کا راگ الاپتے رہیں، علما کی امن کمیٹیاں بناتے رہیں، محرم و ربیع الاول میں علما کی ضلع بدری کے احکامات جاری کرتے رہیں، ملکی و غیر ملکی طلبا میں تمیز کرنے کے قوانین بناتے رہیں، لاؤڈ اسپیکرز کے اشتعال انگیز استعمال کی حوصلہ شکنی کے لیے پولیس کو ادھر سے ادھر دوڑاتے رہیں، بیرونی امداد کو کوستے رہیں، اشتعال انگیز مواد بک اسٹالوں سے اٹھا کے ضبط کرتے رہیں، ہاتھ پاؤں جوڑیں، کچھ بھی کر لیں۔ کچھ بھی نہیں ہونے کا۔ کیا سایہ بھی کسی کے ہاتھ آیا ؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں