کرکٹ کا بھوت
سڑک پر عوام کا ہجوم اور پرجوش بچوں کے ہاتھوں میں جھنڈے جن پر خیر مقدمی کلمات تحریر تھے
کرکٹ پاکستان اور بھارت میں کوئی آج کا کھیل نہیں بلکہ جب دونوں ممالک آزادی کے ثمرات سے فیض یاب ہوئے تب سے ہی یہ نوآبادیاتی کھیل رائج ہے اور خاصا مقبول عام ہے۔ تقسیم ہند کے بعد دونوں ملکوں میں باقاعدگی سے یہ کھیل ہوتا رہا 50ء کی دہائی میں یہ کھیل دوستانہ نوعیت کا ہوتا تھا۔ ظاہر ہے اس میں ملکی اور قومی جذبے کا عنصر تو ہمیشہ سے تھا مگر عفریت کی شکل اختیار کبھی نہ کیا تھا۔ اس کو اس شکل میں لانے میں کاروباری حلقے، انتہا پسند جذبات رکھنے والوں اور سیاسی اختلاف رکھنے والوں نے سیاسی کڑاہی میں ڈبو دیا۔ گویا یہ دونوں ملکوں کے فنی اور کھیل کے مد و جزر کا مقابلہ نہیں بلکہ یہ معرکہ حرب و ضرب ہے۔
ایک سیاسی لیڈر نے میچ سے ایک روز قبل یعنی 14 فروری کو نظریاتی جنگ قرار دے دیا گویا سرخ گیند، سفید بلّا نظریات کے عکاس ہیں۔ آئیے ذرا پرانے اوراق الٹتے ہیں۔ 1962ء کی بات ہے نویں جماعت میں میری کلاس و اسکول صدر کی بات ہے ایک روز اسکول میں بڑا شور تھا کہ حنیف محمد کرکٹر آئے ہوئے تھے ان کے چھوٹے بھائی مشتاق محمد بھی ساتھ تھے۔ معلوم ہوا کہ مشتاق محمد داخلہ لینے آئے ہیں انھیں داخلہ مل گیا اور وہ اسکول کی ٹیم کے کیپٹن بھی بن گئے مشتاق بہت عمدہ لیگ بریک کراتے تھے اور اچھے بیٹسمین تھے ان کی ٹیم میں کھیلنے کا موقع بھی ملا، کھیل کے اصول بھی سنے سیکھے، اسپورٹس مین اسپرٹ کا درس بھی ملا، کہ کھیل کے وقت صف دشمناں اور خاتمے کے بعد شیر و شکر۔ نوہارٹ فیلنگ No Heart Feeling کوئی دل میں نفاق نہیں اسی طرز پر پاکستان اور بھارت کے میچ ہوا کرتے تھے۔
اس زمانے کے ممتاز کھلاڑیوں میں فضل محمود، نذر محمد، امتیاز محمد، حنیف محمد، مشتاق محمد، بھارتی ٹیم کے مایہ ناز کھلاڑی منجیکر، امریگر ہوا کرتے تھے میچوں میں نہ کوئی ہوڑدنگ ہوتا تھا اور نہ کچھ اور، مگر سیاست کا سایہ کھیل پر پڑتا گیا سیاست قومی کھیل میں بھی داخل ہو گئی ان دنوں کراچی جہانگیر پارک میں ٹیسٹ کرکٹرز کی پریکٹس ہوتی تھی اور تمام کرکٹر میرٹ پر ہی آتے تھے وقت گزرنے کے ساتھ پاکستان میں زندگی کے ہر شعبے میں خصوصیت کے ساتھ سیاست میں انحطاط پذیری بڑھتی گئی جن کے اثرات تمام شعبہ ہائے زندگی پر پڑتے رہے۔ چونکہ سیاست کے نئی نسل پر زیادہ اثرات پڑتے ہیں اس لیے نظم و ضبط، آداب و اطوار پر بھی اس کے برے اثرات پڑنے لگے۔
کیونکہ لیڈرشپ کپڑوں سے لے کر انداز تکلم تک پر اثرات چھوڑتی ہے جیسے چے گویرا کی کیپ، ماؤزے تنگ کی کیپ، جناح کیپ، بھٹو کا شلوار قمیض، جناح کیپ وغیرہ وغیرہ پاکستان میں گزشتہ 5/6 برس سے پورے میڈیا پر بازاروں میں، ایک تصادم کی فضا پیدا کی جا رہی ہے جیسے کوئی جنگ ہونے کو ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کمزور ذہنوں پر منفی اور پستی کے اثرات مرتب ہوتے ہیں کھیل پھر کھیل ہے اس کی عمر قلیل ہوتی ہے پوری قوم کو کرکٹ کی بھٹی میں جھونک دینا مناسب نہیں ہے، آپ کے سائنس داں جوتیاں چٹخاتے پھر رہے ہیں اگر تکریم کرنی ہے تو ان کی کریں، ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی گزر گئے کون جانتا ہے ان کو؟ ڈاکٹر عثمانی بھی چل بسے۔
آئیے ماضی کا ایک اور ورق ڈاکٹر عبدالسلام جب وہ 1964ء میں نیشنل کالج کراچی میں ایک تقریب میں طلبا یونین نے انھیں مدعو کیا تھا تو ان کی تقریر سے مختصر اقتباسات سناتا چلوں بقول ان کے کہ قومیں کیسے بنتی ہیں اور قوم کی قدآور شخصیتیں کون ہوتی ہیں اور ریاست کا پرنٹ میڈیا اور دیگر میڈیا کا کیا کردار ہوتا ہے بقول ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کے، انھوں نے تقریر میں کہا ''میں حال ہی میں سوویت یونین سے آیا ہوں وہاں کی یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کا جائزہ لیا ایک روز کا واقعہ سناتا ہوں کہ سڑک سے روسی وزیر اعظم نکیتا خروشیف گزر رہے تھے بس چند منٹ کی سیٹیاں بجیں نہ کوئی پروٹوکول نہ دھوم دھڑکا نہ عوام رکے اور نہ پذیرائی ہوئی'' چند دنوں بعد کیا ہوا کہ وہ کریملن کے قریب سے گزرے دیکھتے کیا ہیں کہ اسکولوں اور کالجوں کے لڑکے سڑک کے دونوں طرف گلی کوچوں سے لوگ نکل کر آ رہے ہیں ۔
سڑک پر عوام کا ہجوم اور پرجوش بچوں کے ہاتھوں میں جھنڈے جن پر خیر مقدمی کلمات تحریر تھے یہ سواری تھی وہاں کے ایٹمی سائنسدانوں کی ظاہر ہے اس قوم میں اعتراف ہنر کے نغمے بجائے جا رہے تھے تو پھر کیوں کر نہ وہاں ترقی اور علم کا بول بالا ہو جب کہ اسلام علم، جستجو اور تحقیق کا علم بردار ہے۔ مگر یہ ہماری تہذیب سے رخصت ہوتے جا رہے ہیں ہماری سوسائٹی میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر مبارک ابھی موجود ہیں مگر ان کی صلاحیت کو استعمال کرنے کے لیے سوسائٹی تیار نہیں البتہ اگر کوئی اسٹیج ڈانسر ہو تو اس کا برمحل استعمال کرنے کو تیار ہے، ڈانسر ہونا بھی کوئی معیوب نہیں مگر ان کا مقام اور منزل جدا ہے۔
آپ کو یقینا یاد ہو گا کہ میچ سے قبل ہی میچ کے نتائج پر تبصرے مخالف کی ہجو جیسے اللہ کے برگزیدہ بندے یہی ہیں ہر طرف تکبر کی باتیں نہ اخلاق کو زیب دیتی ہیں اور نہ مسلمانوں کا یہ شیوہ ہے یہ میدان جنگ نہ تھا کہ رجز پڑھتے ہوئے نکلا جائے فیصلہ کھیل کا میدان خود کرے گا کہ کس نے کس قدر ریاض کیا ہے۔ ہر کھیل کسی نہ کسی ہنر کو اپنے اندر پوشیدہ رکھتا ہے اسی طرح کرکٹ کا سب سے اہم پہلو وقت اور فاصلہ، وقت اور رفتار کا ہے (Times & Distance) یعنی کتنی دیر میں گیند بیٹ پر پہنچ سکتی ہے اور بلّا کب اٹھایا جائے رن بناتے وقت کتنی دیر میں گیند وکٹ کو ہٹ کر سکتی ہے۔
یہاں رفتار اور فاصلے کا طے کرنا عمل ہے کرکٹ کا کھلاڑی اچھا ڈرائیور ثابت ہو سکتا ہے مقصود نہیں مگر کھیل کو کھیل کے بجائے قوموں کی عزت اور ذلت کا سودا کرنا ایسے عمل سے لوگوں کی امیدوں کو پست کرنے کے مترادف ہے اچھے وقت کا گزر جانا حریف کے ہنر کو سمجھنا بھی ایک اچھا عمل ہے اسلام وسیع نظریات اور علوم کا مذہب ہے۔ بقول علامہ اقبال:
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
یہ کھیل قوموں کے مابین رنجشیں دور کرنے کا ذریعہ ہیں، بین المذاہب افراد سے تعلقات بحال کرنا اور اپنی عادات و اطوار سے ادیان عالم کے ماننے والوں کو متعارف کرانا یا اپنا ہم نوا بنانا نہ کہ ایسے نقش چھوڑنا جس سے اسلامی افکار و نظریات کو ٹھیس لگے۔ مگر آپ غور فرمائیں نہ کرکٹ آپ کا قومی کھیل ہے اور نہ بھارت کا اگر پاکستان کا قومی کھیل ہاکی رکھ دیا گیا ہے تو یہ بھی کوئی غلطی حکومت سے غالباً سرزد ہو گئی ہے دونوں ملکوں کا قومی کھیل تو کبڈی ہونا چاہیے تھا کیونکہ یہ یہاں کے روایتی انداز سے بھرپور ہے۔
مگر دونوں ملکوں کے عوام اس کو پست کھیل سمجھتے ہیں اور نہ اس کی پروموشن ہوتی ہے مگر کرکٹ میں ایسا لگتا ہے کہ پوری بزنس کمیونٹی بھی میدان میں کود پڑتی ہے کیونکہ ان کی مصنوعات کی تشہیر کا ذریعہ ہے بچوں اور بڑوں پر کرکٹ جو کھیل ہے اس کو مذہبی جذبات داخل کرنا کہاں کی دانش مندی ہے۔ ہر کھیل میں یوگا کا کوئی نہ کوئی آسن پوشیدہ ہوتا ہے جو انسانی صحت کو توانائی بخشنے کا ذریعہ ہے مگر جب کھیل کارزار بن جائے اور شکست کے بعد قوم کا جوش جھاگ کی طرح بیٹھ جائے تو اس میں کرکٹر حضرات کا بھی خاصا دخل ہے حالانکہ اگر چینل والے حضرات کسی بیٹسمین سے کچھ پوچھیں تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ کھیل کے درمیان ہی کچھ بتایا جا سکتا ہے نہ کہ یہ کہنا کہ ہمارا ورلڈ کپ تو انڈیا سے شروع ہوتا ہے اور یہیں پر گویا ختم ہوتا ہے یہ رویہ تو یقینا ٹیم کو بدلنا ہو گا ورنہ بھارت سے ہارنے کی روایت ٹیم میں برقرار رہے گی۔
اگر ہم نفسیاتی طور پر پاکستانی ٹیم کا جائزہ لیں تو یہ ٹیم اعصابی تناؤ، دباؤ اور نفسیاتی کھنچاؤ کا شکار رہتی ہے پہلا بیٹسمین جب وکٹ پر کھڑا ہوتا ہے وہ میڈیا اور عوام کے دباؤ کا شکار رہتا ہے ہر گیند پر ٹیم کو عوام کی جانب دیکھنا پڑتا ہے کہ اگر اچھا کھیل نہ ہوا تو کیا ہو گا وہ ٹیم منیجر یا کپتان کو جوابدہ نہ ہو گا بلکہ کروڑوں شایقین کرکٹ کے روبرو ہوں گے۔ غرض عوام کی نادانی اور ہماری ٹیم کے عاقبت نااندیش رویوں کی وجہ سے ٹیم کی کارکردگی متاثر ہوتی رہتی ہے اور ہر بار شکست کے در پر یہ کھڑی رہتی ہے درحقیقت پاکستانی کرکٹ ٹیم عوامی دباؤ اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہے جس نے ہماری ٹیم کو فتح سے دور کر دیا ہے۔
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو؟
ایک سیاسی لیڈر نے میچ سے ایک روز قبل یعنی 14 فروری کو نظریاتی جنگ قرار دے دیا گویا سرخ گیند، سفید بلّا نظریات کے عکاس ہیں۔ آئیے ذرا پرانے اوراق الٹتے ہیں۔ 1962ء کی بات ہے نویں جماعت میں میری کلاس و اسکول صدر کی بات ہے ایک روز اسکول میں بڑا شور تھا کہ حنیف محمد کرکٹر آئے ہوئے تھے ان کے چھوٹے بھائی مشتاق محمد بھی ساتھ تھے۔ معلوم ہوا کہ مشتاق محمد داخلہ لینے آئے ہیں انھیں داخلہ مل گیا اور وہ اسکول کی ٹیم کے کیپٹن بھی بن گئے مشتاق بہت عمدہ لیگ بریک کراتے تھے اور اچھے بیٹسمین تھے ان کی ٹیم میں کھیلنے کا موقع بھی ملا، کھیل کے اصول بھی سنے سیکھے، اسپورٹس مین اسپرٹ کا درس بھی ملا، کہ کھیل کے وقت صف دشمناں اور خاتمے کے بعد شیر و شکر۔ نوہارٹ فیلنگ No Heart Feeling کوئی دل میں نفاق نہیں اسی طرز پر پاکستان اور بھارت کے میچ ہوا کرتے تھے۔
اس زمانے کے ممتاز کھلاڑیوں میں فضل محمود، نذر محمد، امتیاز محمد، حنیف محمد، مشتاق محمد، بھارتی ٹیم کے مایہ ناز کھلاڑی منجیکر، امریگر ہوا کرتے تھے میچوں میں نہ کوئی ہوڑدنگ ہوتا تھا اور نہ کچھ اور، مگر سیاست کا سایہ کھیل پر پڑتا گیا سیاست قومی کھیل میں بھی داخل ہو گئی ان دنوں کراچی جہانگیر پارک میں ٹیسٹ کرکٹرز کی پریکٹس ہوتی تھی اور تمام کرکٹر میرٹ پر ہی آتے تھے وقت گزرنے کے ساتھ پاکستان میں زندگی کے ہر شعبے میں خصوصیت کے ساتھ سیاست میں انحطاط پذیری بڑھتی گئی جن کے اثرات تمام شعبہ ہائے زندگی پر پڑتے رہے۔ چونکہ سیاست کے نئی نسل پر زیادہ اثرات پڑتے ہیں اس لیے نظم و ضبط، آداب و اطوار پر بھی اس کے برے اثرات پڑنے لگے۔
کیونکہ لیڈرشپ کپڑوں سے لے کر انداز تکلم تک پر اثرات چھوڑتی ہے جیسے چے گویرا کی کیپ، ماؤزے تنگ کی کیپ، جناح کیپ، بھٹو کا شلوار قمیض، جناح کیپ وغیرہ وغیرہ پاکستان میں گزشتہ 5/6 برس سے پورے میڈیا پر بازاروں میں، ایک تصادم کی فضا پیدا کی جا رہی ہے جیسے کوئی جنگ ہونے کو ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کمزور ذہنوں پر منفی اور پستی کے اثرات مرتب ہوتے ہیں کھیل پھر کھیل ہے اس کی عمر قلیل ہوتی ہے پوری قوم کو کرکٹ کی بھٹی میں جھونک دینا مناسب نہیں ہے، آپ کے سائنس داں جوتیاں چٹخاتے پھر رہے ہیں اگر تکریم کرنی ہے تو ان کی کریں، ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی گزر گئے کون جانتا ہے ان کو؟ ڈاکٹر عثمانی بھی چل بسے۔
آئیے ماضی کا ایک اور ورق ڈاکٹر عبدالسلام جب وہ 1964ء میں نیشنل کالج کراچی میں ایک تقریب میں طلبا یونین نے انھیں مدعو کیا تھا تو ان کی تقریر سے مختصر اقتباسات سناتا چلوں بقول ان کے کہ قومیں کیسے بنتی ہیں اور قوم کی قدآور شخصیتیں کون ہوتی ہیں اور ریاست کا پرنٹ میڈیا اور دیگر میڈیا کا کیا کردار ہوتا ہے بقول ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کے، انھوں نے تقریر میں کہا ''میں حال ہی میں سوویت یونین سے آیا ہوں وہاں کی یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کا جائزہ لیا ایک روز کا واقعہ سناتا ہوں کہ سڑک سے روسی وزیر اعظم نکیتا خروشیف گزر رہے تھے بس چند منٹ کی سیٹیاں بجیں نہ کوئی پروٹوکول نہ دھوم دھڑکا نہ عوام رکے اور نہ پذیرائی ہوئی'' چند دنوں بعد کیا ہوا کہ وہ کریملن کے قریب سے گزرے دیکھتے کیا ہیں کہ اسکولوں اور کالجوں کے لڑکے سڑک کے دونوں طرف گلی کوچوں سے لوگ نکل کر آ رہے ہیں ۔
سڑک پر عوام کا ہجوم اور پرجوش بچوں کے ہاتھوں میں جھنڈے جن پر خیر مقدمی کلمات تحریر تھے یہ سواری تھی وہاں کے ایٹمی سائنسدانوں کی ظاہر ہے اس قوم میں اعتراف ہنر کے نغمے بجائے جا رہے تھے تو پھر کیوں کر نہ وہاں ترقی اور علم کا بول بالا ہو جب کہ اسلام علم، جستجو اور تحقیق کا علم بردار ہے۔ مگر یہ ہماری تہذیب سے رخصت ہوتے جا رہے ہیں ہماری سوسائٹی میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر مبارک ابھی موجود ہیں مگر ان کی صلاحیت کو استعمال کرنے کے لیے سوسائٹی تیار نہیں البتہ اگر کوئی اسٹیج ڈانسر ہو تو اس کا برمحل استعمال کرنے کو تیار ہے، ڈانسر ہونا بھی کوئی معیوب نہیں مگر ان کا مقام اور منزل جدا ہے۔
آپ کو یقینا یاد ہو گا کہ میچ سے قبل ہی میچ کے نتائج پر تبصرے مخالف کی ہجو جیسے اللہ کے برگزیدہ بندے یہی ہیں ہر طرف تکبر کی باتیں نہ اخلاق کو زیب دیتی ہیں اور نہ مسلمانوں کا یہ شیوہ ہے یہ میدان جنگ نہ تھا کہ رجز پڑھتے ہوئے نکلا جائے فیصلہ کھیل کا میدان خود کرے گا کہ کس نے کس قدر ریاض کیا ہے۔ ہر کھیل کسی نہ کسی ہنر کو اپنے اندر پوشیدہ رکھتا ہے اسی طرح کرکٹ کا سب سے اہم پہلو وقت اور فاصلہ، وقت اور رفتار کا ہے (Times & Distance) یعنی کتنی دیر میں گیند بیٹ پر پہنچ سکتی ہے اور بلّا کب اٹھایا جائے رن بناتے وقت کتنی دیر میں گیند وکٹ کو ہٹ کر سکتی ہے۔
یہاں رفتار اور فاصلے کا طے کرنا عمل ہے کرکٹ کا کھلاڑی اچھا ڈرائیور ثابت ہو سکتا ہے مقصود نہیں مگر کھیل کو کھیل کے بجائے قوموں کی عزت اور ذلت کا سودا کرنا ایسے عمل سے لوگوں کی امیدوں کو پست کرنے کے مترادف ہے اچھے وقت کا گزر جانا حریف کے ہنر کو سمجھنا بھی ایک اچھا عمل ہے اسلام وسیع نظریات اور علوم کا مذہب ہے۔ بقول علامہ اقبال:
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
یہ کھیل قوموں کے مابین رنجشیں دور کرنے کا ذریعہ ہیں، بین المذاہب افراد سے تعلقات بحال کرنا اور اپنی عادات و اطوار سے ادیان عالم کے ماننے والوں کو متعارف کرانا یا اپنا ہم نوا بنانا نہ کہ ایسے نقش چھوڑنا جس سے اسلامی افکار و نظریات کو ٹھیس لگے۔ مگر آپ غور فرمائیں نہ کرکٹ آپ کا قومی کھیل ہے اور نہ بھارت کا اگر پاکستان کا قومی کھیل ہاکی رکھ دیا گیا ہے تو یہ بھی کوئی غلطی حکومت سے غالباً سرزد ہو گئی ہے دونوں ملکوں کا قومی کھیل تو کبڈی ہونا چاہیے تھا کیونکہ یہ یہاں کے روایتی انداز سے بھرپور ہے۔
مگر دونوں ملکوں کے عوام اس کو پست کھیل سمجھتے ہیں اور نہ اس کی پروموشن ہوتی ہے مگر کرکٹ میں ایسا لگتا ہے کہ پوری بزنس کمیونٹی بھی میدان میں کود پڑتی ہے کیونکہ ان کی مصنوعات کی تشہیر کا ذریعہ ہے بچوں اور بڑوں پر کرکٹ جو کھیل ہے اس کو مذہبی جذبات داخل کرنا کہاں کی دانش مندی ہے۔ ہر کھیل میں یوگا کا کوئی نہ کوئی آسن پوشیدہ ہوتا ہے جو انسانی صحت کو توانائی بخشنے کا ذریعہ ہے مگر جب کھیل کارزار بن جائے اور شکست کے بعد قوم کا جوش جھاگ کی طرح بیٹھ جائے تو اس میں کرکٹر حضرات کا بھی خاصا دخل ہے حالانکہ اگر چینل والے حضرات کسی بیٹسمین سے کچھ پوچھیں تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ کھیل کے درمیان ہی کچھ بتایا جا سکتا ہے نہ کہ یہ کہنا کہ ہمارا ورلڈ کپ تو انڈیا سے شروع ہوتا ہے اور یہیں پر گویا ختم ہوتا ہے یہ رویہ تو یقینا ٹیم کو بدلنا ہو گا ورنہ بھارت سے ہارنے کی روایت ٹیم میں برقرار رہے گی۔
اگر ہم نفسیاتی طور پر پاکستانی ٹیم کا جائزہ لیں تو یہ ٹیم اعصابی تناؤ، دباؤ اور نفسیاتی کھنچاؤ کا شکار رہتی ہے پہلا بیٹسمین جب وکٹ پر کھڑا ہوتا ہے وہ میڈیا اور عوام کے دباؤ کا شکار رہتا ہے ہر گیند پر ٹیم کو عوام کی جانب دیکھنا پڑتا ہے کہ اگر اچھا کھیل نہ ہوا تو کیا ہو گا وہ ٹیم منیجر یا کپتان کو جوابدہ نہ ہو گا بلکہ کروڑوں شایقین کرکٹ کے روبرو ہوں گے۔ غرض عوام کی نادانی اور ہماری ٹیم کے عاقبت نااندیش رویوں کی وجہ سے ٹیم کی کارکردگی متاثر ہوتی رہتی ہے اور ہر بار شکست کے در پر یہ کھڑی رہتی ہے درحقیقت پاکستانی کرکٹ ٹیم عوامی دباؤ اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہے جس نے ہماری ٹیم کو فتح سے دور کر دیا ہے۔
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو؟