انگلینڈکی بدترین کارکردگیدیگرٹیموں کے لیے موقع
آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست کے باوجود انگلینڈ چند مثبت پہلوؤں کے ساتھ میدان سے لوٹا۔
ISLAMABAD:
ورلڈ کپ کی تاریخ کی تیز ترین نصف سنچری، ٹورنامنٹ کی تاریخ کی بہترین باؤلنگ، کارکردگیوں میں سے ایک اور سب سے بڑی وکٹ حاصل کرنے کے لیے ایک ناقابل یقین کیچ، یہ ہے نیوزی لینڈ کی تیسری جیت کی اہم جھلکیاں، جس نے ثابت کردیا ہے کہ اگر کسی کے ذہن میں شائبہ بھی تھا تو وہ اچھی طرح جان لے کہ نیوزی لینڈ عالمی چیمپئن بننے کے لیے مضبوط ترین امیدواروں میں سے ایک ہے۔
لیکن نیوزی لینڈ کی اس کارکردگی سے ہٹ کر یہ لمحہ فکریہ ہے انگلینڈ کے لیے۔ ایک ایسے ورلڈ کپ میں جس سے پہلے ہی بین الاقوامی کرکٹ کونسل اعلان کرچکی ہے کہ آیندہ ورلڈ کپ میں صرف 10 ٹیمیں کھیلیں گی تاکہ کرکٹ کے اس سب سے بڑے ٹورنامنٹ میں برابر کے مقابلے ہوں اور شائقین کو یکطرفہ مقابلوں کی کوفت سے دوچار نہ ہونا پڑے، لیکن اسی عالمی کپ میں بدترین کارکردگی آئرلینڈ، بنگلہ دیش، متحدہ عرب امارات یا زمبابوے کی نہیں بلکہ "بابائے کرکٹ" انگلینڈ کی ہے۔
ایلسٹر کک کو ہٹا کر ایون مورگن کو کپتان بنائے جانے کے بعد انگلینڈ کی ٹیم میں ایک جوش نظر آرہا تھا اور اس میں کچھ کر دکھانے کی لگن بھی محسوس ہورہی تھی۔ پھر ٹیم نے ورلڈ کپ سے عین پہلے سہ فریقی سیریز میں بھارت کو دو مرتبہ شکست دے کر فائنل تک رسائی بھی حاصل کی لیکن یہ تمام تیاریاں اور ان کی بنیاد پر ہونے والے دعووں کی عمارت، عالمی کپ کے آغاز کے ساتھ ہی ڈھیر ہوتی جارہی ہیں۔
پہلے آسٹریلیا کے ہاتھوں 111 رنز کی بدترین شکست اور اب نیوزی لینڈ کے خلاف صرف 123 رنز پر آل آؤٹ اور پھر صرف 12.2 اوورز میں نیوزی لینڈ کی جانب سے ہدف کا کامیابی سے تعاقب کرنا نہ صرف انگلینڈ بلکہ ان تمام متعصب ماہرین کے لیے بھی شرمناک ہے جو انگلینڈ کو پاکستان اور سری لنکا بلکہ دفاعی چیمپئن بھارت سے بھی زیادہ مضبوط ٹیم سمجھ رہے تھے۔
آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست کے باوجود انگلینڈ چند مثبت پہلوؤں کے ساتھ میدان سے لوٹا۔ اسٹیون فن نے آخر میں ہیٹ ٹرک کی اور بعد میں جیمز ٹیلر نے 98 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلی، لیکن ویلنگٹن میں انگلینڈ کو کیا ملا؟ اسی فن نے صرف 2 اوورز میں 49 رنز کھائے اور جیمز ٹیلر صفر کی ہزیمت سے دوچار ہوئے۔ باقیوں کا حال وہی رہا جو پچھلے میچ میں تھا جنھیں نیوزی لینڈ بے رحمی سے کچلتا ہوا مقابلہ جیت گیا۔
انگلینڈ کی اس ناقص کارکردگی کو دیکھ کر بنگلہ دیش کی آنکھیں چمک اٹھی ہیں۔ اگر آج آسٹریلیا کے خلاف ہونے والا ان کا مقابلہ واقعی بارش کی نذر ہوگیا، جس کے امکانات بہت زیادہ ہیں تو اسے ایک قیمتی پوائنٹ ملے گا اور پھر اسکاٹ لینڈ کو شکست دے کر وہ انگلینڈ کے لیے مزید مشکلات کھڑی کرسکتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ 9 مارچ کو ایڈیلیڈ میں ہونے والے مقابلے میں بنگلہ دیش 2011ء کے ورلڈ کپ کی کہانی دہرا دے؟ یعنی انگلینڈ کو شکست دے دے۔
بہرحال، انگلینڈ کو اب 23 فروری کو اسکاٹ لینڈ سے کھیلنا ہے، وہی ٹیم جس نے 143 رنز کا تعاقب کرنے والے نیوزی لینڈ کو 7 وکٹوں سے محروم کردیا تھا اور ان کے خلاف کھیلتے ہوئے انگلینڈ کے پاس غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ دوسری جانب نیوزی لینڈ ابتدائی تینوں مقابلوں میں فتوحات کے بعد کوارٹر فائنل میں پہنچنے کے بہت قریب پہنچ گیا ہے اور اس کی تین فتوحات نے 28 فروری کو آسٹریلیا کے خلاف مقابلے کے لیے بھی زبردست ماحول بنا دیا ہے۔
ورلڈ کپ کی تاریخ کی تیز ترین نصف سنچری، ٹورنامنٹ کی تاریخ کی بہترین باؤلنگ، کارکردگیوں میں سے ایک اور سب سے بڑی وکٹ حاصل کرنے کے لیے ایک ناقابل یقین کیچ، یہ ہے نیوزی لینڈ کی تیسری جیت کی اہم جھلکیاں، جس نے ثابت کردیا ہے کہ اگر کسی کے ذہن میں شائبہ بھی تھا تو وہ اچھی طرح جان لے کہ نیوزی لینڈ عالمی چیمپئن بننے کے لیے مضبوط ترین امیدواروں میں سے ایک ہے۔
لیکن نیوزی لینڈ کی اس کارکردگی سے ہٹ کر یہ لمحہ فکریہ ہے انگلینڈ کے لیے۔ ایک ایسے ورلڈ کپ میں جس سے پہلے ہی بین الاقوامی کرکٹ کونسل اعلان کرچکی ہے کہ آیندہ ورلڈ کپ میں صرف 10 ٹیمیں کھیلیں گی تاکہ کرکٹ کے اس سب سے بڑے ٹورنامنٹ میں برابر کے مقابلے ہوں اور شائقین کو یکطرفہ مقابلوں کی کوفت سے دوچار نہ ہونا پڑے، لیکن اسی عالمی کپ میں بدترین کارکردگی آئرلینڈ، بنگلہ دیش، متحدہ عرب امارات یا زمبابوے کی نہیں بلکہ "بابائے کرکٹ" انگلینڈ کی ہے۔
ایلسٹر کک کو ہٹا کر ایون مورگن کو کپتان بنائے جانے کے بعد انگلینڈ کی ٹیم میں ایک جوش نظر آرہا تھا اور اس میں کچھ کر دکھانے کی لگن بھی محسوس ہورہی تھی۔ پھر ٹیم نے ورلڈ کپ سے عین پہلے سہ فریقی سیریز میں بھارت کو دو مرتبہ شکست دے کر فائنل تک رسائی بھی حاصل کی لیکن یہ تمام تیاریاں اور ان کی بنیاد پر ہونے والے دعووں کی عمارت، عالمی کپ کے آغاز کے ساتھ ہی ڈھیر ہوتی جارہی ہیں۔
پہلے آسٹریلیا کے ہاتھوں 111 رنز کی بدترین شکست اور اب نیوزی لینڈ کے خلاف صرف 123 رنز پر آل آؤٹ اور پھر صرف 12.2 اوورز میں نیوزی لینڈ کی جانب سے ہدف کا کامیابی سے تعاقب کرنا نہ صرف انگلینڈ بلکہ ان تمام متعصب ماہرین کے لیے بھی شرمناک ہے جو انگلینڈ کو پاکستان اور سری لنکا بلکہ دفاعی چیمپئن بھارت سے بھی زیادہ مضبوط ٹیم سمجھ رہے تھے۔
آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست کے باوجود انگلینڈ چند مثبت پہلوؤں کے ساتھ میدان سے لوٹا۔ اسٹیون فن نے آخر میں ہیٹ ٹرک کی اور بعد میں جیمز ٹیلر نے 98 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلی، لیکن ویلنگٹن میں انگلینڈ کو کیا ملا؟ اسی فن نے صرف 2 اوورز میں 49 رنز کھائے اور جیمز ٹیلر صفر کی ہزیمت سے دوچار ہوئے۔ باقیوں کا حال وہی رہا جو پچھلے میچ میں تھا جنھیں نیوزی لینڈ بے رحمی سے کچلتا ہوا مقابلہ جیت گیا۔
انگلینڈ کی اس ناقص کارکردگی کو دیکھ کر بنگلہ دیش کی آنکھیں چمک اٹھی ہیں۔ اگر آج آسٹریلیا کے خلاف ہونے والا ان کا مقابلہ واقعی بارش کی نذر ہوگیا، جس کے امکانات بہت زیادہ ہیں تو اسے ایک قیمتی پوائنٹ ملے گا اور پھر اسکاٹ لینڈ کو شکست دے کر وہ انگلینڈ کے لیے مزید مشکلات کھڑی کرسکتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ 9 مارچ کو ایڈیلیڈ میں ہونے والے مقابلے میں بنگلہ دیش 2011ء کے ورلڈ کپ کی کہانی دہرا دے؟ یعنی انگلینڈ کو شکست دے دے۔
بہرحال، انگلینڈ کو اب 23 فروری کو اسکاٹ لینڈ سے کھیلنا ہے، وہی ٹیم جس نے 143 رنز کا تعاقب کرنے والے نیوزی لینڈ کو 7 وکٹوں سے محروم کردیا تھا اور ان کے خلاف کھیلتے ہوئے انگلینڈ کے پاس غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ دوسری جانب نیوزی لینڈ ابتدائی تینوں مقابلوں میں فتوحات کے بعد کوارٹر فائنل میں پہنچنے کے بہت قریب پہنچ گیا ہے اور اس کی تین فتوحات نے 28 فروری کو آسٹریلیا کے خلاف مقابلے کے لیے بھی زبردست ماحول بنا دیا ہے۔