میری سندھی رلی جیسا میرا وطن

ہم میں بہت سے بریلوی تھے تو دیوبندی تھے، کوئی اہل تشیع کا تھا تو کوئی صوفی تھا، کوئی ہندو تھا تو کوئی کرسچن تھا۔


جاوید قاضی February 20, 2015
[email protected]

یوں لگتا ہے کہ یہ امام بارگاہیں نہ ہوں جیسے مقتل ہوں اور پھر فیض ہمارے کانوں میں ہولے سے جیسے ہرزہ سرائی کرتے ہوں۔ ''ہے جاں کے زیاں کی بھی تشویش مگر کیا کیجے، ہر راہ ادھر کو جاتی ہے مقتل سے گزر کے جاتی ہے۔'' جانا بھی مقصود کہ خدا کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوں اور ساتھ یہ بھی فکر کہ کہیں قتل نہ ہوجائیں۔ مگر وہ ان مساجد پر حملہ نہیں کرتے جن مساجد کے رکھوالے ان کو واجب القتل قرار دیتے ہیں۔ اور یہ ہے وہ فرق جو ہمیں سمجھنا چاہیے۔

مگر کیوں ، بات یہاں تک تو نہیں ہے۔ وہ بچے جن کے سینوں کو انھوں نے چھلنی کردیا وہ تو واجب القتل نہیں تھے، اس جگہ تو کوئی امام بارگاہ نہیں تھی؟ جب شہر اجڑ جاتے ہیں، جب کوئی لوٹ کر ان کی طرف دیکھتا ہے تو شکارپور کو دیکھ کر اس بار میرے آنسو لبوں پر اپنی نمکینی لے کر آتے ہیں اور میں کہہ اٹھتا ہوں ''یہ کیا شہر ہے دوستو یہ کون سا دیار ہے۔'' مکاں وہی ہے مکیں وہ نہیں۔ زماں وہ نہیں۔ زمین وہی ہے مگر اب کے زور والوں کے پاؤں تلے ہے۔ بندوقوں سے بھی بات بڑھ گئی اور اب کلاشنکوفیں چنگھاڑتی ہیں۔ ہر طرف شہر کی فصیلوں پر دیو کا سایہ ہے اور نہ جانے کب اور کیسے آدمی ہنستے ہوئے پھر نظر آئے گا شہر پھر بسنا شروع ہوں گے۔

اس 16 فروری کو ہر ماہ کی اس تاریخ کی طرح جو سول سوسائٹی نے تعمیر کیا ہوا ہے کہ جرأت سے اب ہم سب کہیں گے'' دہشت گردی نہیں چلے گی'' جب تین تلوار پر جب جمع ہوئے، مجھے واقعی لگا، ہم اب بہت بڑھ گئے ہیں، ہمیں اب کوئی ڈر سے مات نہیں دے سکتا میں نے جب اٹھاسی سال کے میرے بزرگ جناب اقبال الوی صاحب کو دیکھا تو میں حیران ہوگیا، وہ جو چل نہیں سکتے پھر بھی آئے اور بلند آواز نعرے لگا رہے تھے۔اور ایک شخص تو اپنے آپ کے ویل چیئر پر لے کے وہاں پہنچا تھا۔ ہم سب میں بہت رنگ تھے، کوئی بچے تھے کوئی شاگرد، مائیں تھیں، بہنیں، ڈاکٹر، انجینئر، وکلا تھے، ہم میں کوئی سندھی تھا، کوئی سندھ کا مہاجر تھا، پٹھان، پنجابی اور ایک بلوچ تو سوشل میڈیا پر میری اپیل پر لبیک کہتے ہوئے ''سوئی'' سے آیا تھا۔

ہم میں بہت سے بریلوی تھے تو دیوبندی تھے، کوئی اہل تشیع کا تھا تو کوئی صوفی تھا، کوئی ہندو تھا تو کوئی کرسچن تھا۔ بالکل اس طرح تھے جس طرح سندھ کی دھاگے سے بنی ہوئی چادر جس کو ہم ''رلّی'' کہتے ہیں۔ کتنے رنگ ہوتے ہیں اس میں، اور وہ رلی ہاتھ سے بنائی جاتی ہے، سوئی اور دھاگے سے مختلف رنگوں اورکپڑوں کے ٹکڑوں سے بنائی جاتی ہے۔ بالکل دھنک (Rainbow) کی طرح رنگوں میں پھیلی ہوئی رلی۔

میری اماں کے پاس جاڑوں میں گاؤں سے کچھ دہقانوں کی عورتیں آتی تھیں جن کے مردوں کے کیسز میرے ابا مفت میں کورٹوں میں گایا کرتے تھے تو اماں ان کو اپنے گھر میں ٹھہرا لیتی تھیں اور ان سے ایک دو رلی بنا لیا کرتی تھیں۔ اور میں چھوٹا سا بچہ ان عورتوں کے ہاتھوں کو غور سے دیکھا کرتا تھا، کس طرح وہ گھنٹوں دھوپ میں ہمارے گھر کے آنگن میں سخت سردی میں چارپائی پر بیٹھ کر رلی بنایا کرتی تھیں۔

اب یوں لگتا ہے کوئی میری اور ہم سب کی رلی چرا کے لے گیا ہے۔ کون سا سندھی کا گھر مکمل ہو گا رلی کے بغیر۔ کتنا بے حس تھا میں یا کوئی اور جب خیبر پختونخوا تک یہ بات محدود تھی تو ہم نے اسے پختونوں کا معاملہ سمجھا اور جب یہ وبا سندھ میں آ وارد ہوئی ہے تو ہماری نیند اڑ گئی ہے۔

کتنی بے معنی سی لگتی ہے اب یہ بات کہ اس پر بحث کریں یہ سب کیوں ہوا، کیسے ہوا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ ثمر ہے اس خارجہ پالیسی کا جو ہم نے چھپ کے بنائی تھی، یہ ثمر ہے آمریتوں کا اس ملک میں مسلط کرنے کا جس کی وجہ سے ہمیشہ اس ملک میں حالت جنگ کے طبل بجاتے رہے کہ ہمیں یرغمال جو کرنی تھی جمہوریت۔

اور اب جو ہمیں سول قیادت نصیب ہوئی ہے، اس کو غلاموں نے ووٹ دیے ہیں، اور یہ غلام اندھے، بہرے اور گونگے ہوتے ہیں۔ یہ ہیں سندھ کے دہقان جن کے اسکول، اسپتال، دوائیاں، میونسپلٹی کے پیسے یہ وڈیرے کھا جاتے ہیں، ساری ترقی کا بجٹ اڑا جاتے ہیں اور یہ نیم غلام قوم ان وڈیروں کو ووٹ دینے پر مجبور ہیں کہ سندھ کی مڈل کلاس کی سیاست کرنے والے قوم پرستوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔ اور کیوں نہ کریں بائیکاٹ کہ کہاں سے لائیں بیس بیس کروڑ جوکہ الیکشن جیتنے کے لیے ضروری ہوتے تھے۔ اس سے پہلے سندھیوں پر بھٹوؤں کا سحر ہوتا تھا تو وڈیرے چھپ کے بے نظیر سے ملتے تھے کہ کہیں ناراض نہ ہوجائے اور وہ فیصلہ بہت حد تک اپنی مرضی سے کرتی تھی ۔ سوچتی تھی کہ پارٹی ٹکٹ کس کو دینا ہے۔

اب کے بھٹوؤں کا سحر قائم علی شاہ کے 8 سالہ بری حکمرانی نے پر کیا تو جواں خون بلاول بھی تھک ہار کے لندن بیٹھ گیا ۔ اب یہ وڈیرے اس مرتبہ اپنی طاقت سے الیکشن لڑیں گے۔ ان کے ساتھ تھانیدار بھی ہے تو ریٹرننگ آفیسر ۔ بس یہ نیم غلام ان کے حلقوں میں رہنے والے لوگ اس بات میں خوش ہیں کہ ان کے پاس شناختی کارڈ ہے اور یہ وڈیرا جب الیکشن قریب آتا ہے تو ان کے سامنے چھپر پر جھومتا ناچتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس ووٹ کی طاقت ہے۔ مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ بیلٹ باکس میں سوراخ ہے۔ ان میں سے بہت سے جانتے بھی ہیں اور پھر وہ اپنا ووٹ گندم کی بوری کے واسطے، نوکری کے واسطے، گھی کے ڈبے کے واسطے بیچ دیتے ہیں۔ اور وڈیرا ہے کہ جب سے پاکستان بنا ہے اب تک ہارتا نہیں اور اب تو سندھ کے ان وڈیروں کو سرداروں کا سردار جناب آصف علی زرداری کے روپ میں ملا ہے۔

کیا روپ سنہرا ہے۔ کسی زمانے میں مشہور و مقبول تھا کہ مورو کے جتوئیوں کے پاس چالیس ہزار ایکڑ زمین ہے۔ اب کی بار کہتے ہیں زرداریوں کے سردار کے پاس ایک لاکھ نوے ہزار ایکڑ زمین ہے تو اٹھارہ شوگر ملیں ہیں اور ریئل پراپرٹی اس ملک کے بڑے شہروں میں الگ تو ملک سے باہر الگ ۔ خیر مروج سائنسی اصول کے مطابق حکمران 80 فیصد عمر کا حصہ بتا چکے ہیں، لیکن ہوس ہو ہے نشاط کار کیا کیا ۔ ان کے حوصلے بلند ہیں مگر اپنی تجوریاں بھرنے کے لیے۔ ان کا یہ مسئلہ نہیں کہ ملک کو دہشت گردی اندر سے کھوکھلا کر رہی ہے۔

شکارپور میں سندھ کا 9/11 ہوگیا، مگر بچوں کے ساتھ ایک موم بتی بھی اس اقتداری پارٹی نے کال دے کر نہیں جلائی۔ سندھ کا بٹوارا کیا ہوا ہے، ادھر تم ادھر ہم۔ تم دیہاتوں میں جو کچھ کرو تمہاری مرضی اور ہم شہروں میں جو کچھ کریں وہ ہماری مرضی۔ لیکن تین تلوار پر اس شام کھڑے ہوکے جب ہم پشاور آرمی اسکول کے شہید بچوں کے ماؤں کا درد اپنے کلیجے سے لگائے بیٹھے تھے، ہم بارگاہوں کے قتل گاہ بننے پر افسردہ تھے، اتنے سارے لوگ دیکھ کر ہماری آنکھوں میں چمک آگئی تھی اب لوگ راستوں پر بغیر کرپٹ سیاستدانوں کے آنے کو تیار ہیں۔

لیکن ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ اب شہباز شریف صاحب و قائم علی شاہ صاحب بلدیاتی الیکشن کروائیں اور اقتدار کو نچلی سطح تک جانے دیں ورنہ دہشت گردی جس کی بنیادی وجہ حکومت کی نااہلی ہے کہیں ریاست کی لغزشوں سے وہ جان لیوا ثابت نہ ہو۔ ہمیں اسی رنگوں والی رلی جیسی 11 اگست کی جناح کی تحریر والا پاکستان واپس لینا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔