توانائی منصوبوں کیلیے16ارب ڈالر کے بین الاقوامی فنڈز استعمال نہ ہو سکے
وفاقی حکومت کی فنڈزکے استعمال میں ناکامی سے ٹیکس دہندگان پر سالانہ21ملین ڈالرکا بوجھ پڑے گا۔
سول بیوروکریسی کی نااہلی کے باعث بین الاقوامی اداروں کی جانب سے توانائی منصوبوں کے آغازکے لیے فراہم کیے گئے 16ارب ڈالر کے فنڈزاستعمال نہیں کیے جاسکے۔
وزارت خزانہ کے اکنامک افیئرز ڈویژن کی تیارکردہ تجزیاتی رپورٹ میں چونکا دینے والے انکشافات میں بتایا گیا ہے کہ 16ارب ڈالر کی یہ رقم بین الاقوامی ڈونرز کی طرف سے منظور کردہ 18ارب 80کروڑ ڈالر کی مجموعی رقم کا 85فیصد بنتی ہے جس سے نہ صرف بجلی کی پیداوار بلکہ ٹرانسمیشن نظام کی بہتری کے منصوبے شروع کیے جانے تھے۔
وفاقی حکومت کی طرف سے فنڈزکے استعمال میں ناکامی سے ٹیکس دہندگان پر سالانہ 21ملین ڈالرجرمانے کا بوجھ پڑے گاجس میں سے صرف چین کو 15ملین ڈالر کمٹمنٹ فیس کے طورپر ادا کرنا پڑیں گے۔ غیرملکی فنڈزکی دستیابی کے باوجود ابھی بجلی کے 34منصوبوں پرکام شروع ہونا باقی ہے۔ ان میں سے 24منصوبے زرداری حکومت، 3مشرف حکومت اور 7نواز شریف حکومت کے تجویزکردہ ہیں۔ اگران منصوبوں پر کام شروع ہوچکا ہوتا تواب تک نہ صرف 4ہزار میگاواٹ بجلی حاصل ہوچکی ہوتی بلکہ بجلی کے ترسیلی نظام اورتقسیمی گرڈزمیں بھی بہتری آچکی ہوتی۔
یہ مسئلہ وزیراعظم نوازشریف کوحالیہ بریفنگ میں اٹھایا گیا لیکن بریفنگ میں شریک وزارت پانی وبجلی کے حکام نے فرائض سے پہلوتہی پرکسی کو ذمے دارنہیں ٹھہرایا تھا۔ ان غیر ملکی قرضوں میں سے نصف سے زائد معاہدے وزارت پانی وبجلی نے کیے اور 9ارب ڈالریا 90فیصد فنڈز کوابھی تک ہاتھ تک نہیں لگایا گیا۔ اس وزارت کے ایک سے زیادہ سیاسی سربراہ ہیں اورمبینہ طورپر وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف براہ راست اس وزارت کومانیٹر کرتے ہیں۔
بجلی کی پیداوار کے 16منصوبے جو وزارت پانی وبجلی کی طرف سے شروع کیے جانے تھے اس میں سے 7ارب 70 کروڑ یا 92فیصد فنڈز ابھی استعمال نہیں کیے جاسکے۔ اسی طرح پاورڈسٹری بیوشن کی مد میں 80فیصد قرضے تاحال استعمال ہونے کے منتظرہیں۔ بیوروکریسی کی نااہلی کی بدترین مثال ایشیائی بینک کی طرف سے ایک ارب 30کروڑ ڈالر فنڈ سے بجلی کے عام میٹروں کی جگہ اسمارٹ میٹرنصب کرنے کاہے۔
ایشیائی بینک نے اس پروجیکٹ کے لیے 990ملین ڈالرقرضہ فراہم کرنے کاوعدہ کیا ہے۔ منصوبے کا پی سی ون بروقت مکمل نہ ہونے کی وجہ سے منیلا سے آئی بینک کی ٹیم کے ساتھ مذاکرات کادرجہ 'تکنیکی بات چیت' تک گھٹانا پڑا۔ ایشیائی بینک نے توانائی کے شعبے کے لیے مجموعی طورپر 2ارب 40کروڑ فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے اوراس میں سے 86فیصد کا کوئی استعمال نہیں ہوسکا۔ عالمی بینک نے 5.2ارب ڈالر کا وعدہ کیا اور اس میں سے 98فیصد کا ابھی کچھ نہیں سوچا جاسکا۔
چین نے 8.5ارب ڈالر کاقرضہ دینے کا ارادہ کیاہے اوراس کا بھی 80فیصد ابھی استعمال کرنے کاکوئی منصوبہ نہیں بنایا گیا۔ یورپی یونین نے جتنی رقم دینے کا وعدہ کیاہے اس کاایک فیصد بھی استعمال نہیں کیا جاسکا۔ وزیراعظم کوبریفنگ میں بتایا گیا کہ ان رقوم کے استعمال نہ ہونے کی وجوہ میں حکومت کی منظوری کا سست عمل، قرضوں کے لیے مذاکرات میں تاخیر، پروکیورمنٹ کی تفصیل کو حتمی شکل دینے کے لیے حکومتی اداروں میں کوآرڈی نیشن کافقدان، بڈنگ کے عمل کی طوالت اور عملدرآمد کے ذمے دار اداروں میں صلاحیت کی کمی شامل ہیں۔
ہرکیس کے پیچھے منصوبوں پر عملدرآمد کے ذمے دار بیوروکریٹس کی نااہلی دکھائی دیتی ہے۔ پلاننگ کمیشن کے سابق ڈپٹی چیئرمین ندیم الحق نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ موجودہ نظام مکمل طورپر ناکام ہوچکا ہے اور جامع سول سروس اصلاحات کے بغیرنتائج نہیں دے سکتا۔ ندیم الحق نے سب سے پہلے بیوروکریسی میں اصلاحات کی حمایت کی تھی جسے بظاہران کے پیشرواحسن اقبال نے بالآخر آگے بڑھانے کابیڑا اٹھایا۔ حتیٰ کے اب توخود اعلیٰ ترین سطح پر بیوروکریٹ اصلاحات کے حامی نظرآتے ہیں۔
وزارت خزانہ کے اکنامک افیئرز ڈویژن کی تیارکردہ تجزیاتی رپورٹ میں چونکا دینے والے انکشافات میں بتایا گیا ہے کہ 16ارب ڈالر کی یہ رقم بین الاقوامی ڈونرز کی طرف سے منظور کردہ 18ارب 80کروڑ ڈالر کی مجموعی رقم کا 85فیصد بنتی ہے جس سے نہ صرف بجلی کی پیداوار بلکہ ٹرانسمیشن نظام کی بہتری کے منصوبے شروع کیے جانے تھے۔
وفاقی حکومت کی طرف سے فنڈزکے استعمال میں ناکامی سے ٹیکس دہندگان پر سالانہ 21ملین ڈالرجرمانے کا بوجھ پڑے گاجس میں سے صرف چین کو 15ملین ڈالر کمٹمنٹ فیس کے طورپر ادا کرنا پڑیں گے۔ غیرملکی فنڈزکی دستیابی کے باوجود ابھی بجلی کے 34منصوبوں پرکام شروع ہونا باقی ہے۔ ان میں سے 24منصوبے زرداری حکومت، 3مشرف حکومت اور 7نواز شریف حکومت کے تجویزکردہ ہیں۔ اگران منصوبوں پر کام شروع ہوچکا ہوتا تواب تک نہ صرف 4ہزار میگاواٹ بجلی حاصل ہوچکی ہوتی بلکہ بجلی کے ترسیلی نظام اورتقسیمی گرڈزمیں بھی بہتری آچکی ہوتی۔
یہ مسئلہ وزیراعظم نوازشریف کوحالیہ بریفنگ میں اٹھایا گیا لیکن بریفنگ میں شریک وزارت پانی وبجلی کے حکام نے فرائض سے پہلوتہی پرکسی کو ذمے دارنہیں ٹھہرایا تھا۔ ان غیر ملکی قرضوں میں سے نصف سے زائد معاہدے وزارت پانی وبجلی نے کیے اور 9ارب ڈالریا 90فیصد فنڈز کوابھی تک ہاتھ تک نہیں لگایا گیا۔ اس وزارت کے ایک سے زیادہ سیاسی سربراہ ہیں اورمبینہ طورپر وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف براہ راست اس وزارت کومانیٹر کرتے ہیں۔
بجلی کی پیداوار کے 16منصوبے جو وزارت پانی وبجلی کی طرف سے شروع کیے جانے تھے اس میں سے 7ارب 70 کروڑ یا 92فیصد فنڈز ابھی استعمال نہیں کیے جاسکے۔ اسی طرح پاورڈسٹری بیوشن کی مد میں 80فیصد قرضے تاحال استعمال ہونے کے منتظرہیں۔ بیوروکریسی کی نااہلی کی بدترین مثال ایشیائی بینک کی طرف سے ایک ارب 30کروڑ ڈالر فنڈ سے بجلی کے عام میٹروں کی جگہ اسمارٹ میٹرنصب کرنے کاہے۔
ایشیائی بینک نے اس پروجیکٹ کے لیے 990ملین ڈالرقرضہ فراہم کرنے کاوعدہ کیا ہے۔ منصوبے کا پی سی ون بروقت مکمل نہ ہونے کی وجہ سے منیلا سے آئی بینک کی ٹیم کے ساتھ مذاکرات کادرجہ 'تکنیکی بات چیت' تک گھٹانا پڑا۔ ایشیائی بینک نے توانائی کے شعبے کے لیے مجموعی طورپر 2ارب 40کروڑ فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے اوراس میں سے 86فیصد کا کوئی استعمال نہیں ہوسکا۔ عالمی بینک نے 5.2ارب ڈالر کا وعدہ کیا اور اس میں سے 98فیصد کا ابھی کچھ نہیں سوچا جاسکا۔
چین نے 8.5ارب ڈالر کاقرضہ دینے کا ارادہ کیاہے اوراس کا بھی 80فیصد ابھی استعمال کرنے کاکوئی منصوبہ نہیں بنایا گیا۔ یورپی یونین نے جتنی رقم دینے کا وعدہ کیاہے اس کاایک فیصد بھی استعمال نہیں کیا جاسکا۔ وزیراعظم کوبریفنگ میں بتایا گیا کہ ان رقوم کے استعمال نہ ہونے کی وجوہ میں حکومت کی منظوری کا سست عمل، قرضوں کے لیے مذاکرات میں تاخیر، پروکیورمنٹ کی تفصیل کو حتمی شکل دینے کے لیے حکومتی اداروں میں کوآرڈی نیشن کافقدان، بڈنگ کے عمل کی طوالت اور عملدرآمد کے ذمے دار اداروں میں صلاحیت کی کمی شامل ہیں۔
ہرکیس کے پیچھے منصوبوں پر عملدرآمد کے ذمے دار بیوروکریٹس کی نااہلی دکھائی دیتی ہے۔ پلاننگ کمیشن کے سابق ڈپٹی چیئرمین ندیم الحق نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ موجودہ نظام مکمل طورپر ناکام ہوچکا ہے اور جامع سول سروس اصلاحات کے بغیرنتائج نہیں دے سکتا۔ ندیم الحق نے سب سے پہلے بیوروکریسی میں اصلاحات کی حمایت کی تھی جسے بظاہران کے پیشرواحسن اقبال نے بالآخر آگے بڑھانے کابیڑا اٹھایا۔ حتیٰ کے اب توخود اعلیٰ ترین سطح پر بیوروکریٹ اصلاحات کے حامی نظرآتے ہیں۔