حضرت انساں اک تم ہی نہیں تنہا۔۔۔۔ جانور بھی سیکھتے ہیں
کبوتروں نےصرف 64 دن میں ہر کیٹیگری میں مختلف اشیاء کو فٹ کرنے کا مرحلہ سیکھ لیا۔
لاہور:
کیا کبوتر انسانی بچوں کی طرح ہیں؟ کیا وہ ان کی طرح بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں؟ یقینی طور پر بہت سے پرندے جن میں کبوتر بھی شامل ہیں، انسانی بچوں کی طرح ہیں اور وہ الفاظ کو اسی طرح سیکھتے ہیں جس طرح شیرخوار یاد دودھ پیتے بچے الفاظ سیکھتے ہیں۔
اس سلسلے میں یونی ورسٹی آف لاوا کے سائنس دانوں نے کبوتروں کی بھی انسانی بچوں کی طرح تربیت کی اور انہیں ٹچ اسکرین کمپیوٹرز استعمال کرنا سکھائے جس کے نتیجے میں کبوتروں نے 128مختلف تصاویر کو 16بنیادی کیٹیگریز میں چھانٹنا اور الگ کرنا سیکھ لیا۔ پھر ان کبوتروں کو شاباشی بھی دی گئی اور انہیں ان کے ہر صحیح جواب پر خوراک کی گولیاں انعام میں دی گئیں۔ یہ کبوتر معمولی نہیں تھے، انہوں نے اچھی خاصی ذہانت کا مظاہرہ کیا اور صرف 64 دن میں ہر کیٹیگری میں مختلف اشیاء کو فٹ کرنے کا مرحلہ سیکھ لیا۔
سائنس داں کہتے ہیں کہ یہ پورا عمل ایسے ہی ہے جیسے والدین اپنے بچوں کو مختلف الفاظ سکھانا شروع کرتے ہیں اور پھر ان بچوں کی یہ صلاحیت رفتہ رفتہ بڑھتی چلی جاتی ہے، تاہم ان پرندوں کو بہترین انداز سے سیکھنے اور عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے 45,000اسباق کی ضرورت پڑی، جب کہ انسانی بچے صرف ایک گھنٹے میں اشیاء کو 16کیٹیگریز میں ڈال سکتے ہیں۔ لیکن انسان اور جانور کے درمیان یہ فرق تو بہرصورت قائم رہے گا۔
کبوتر ایک ایسا معصوم سا پرندہ ہے جس کا ننھا منا سا دماغ بظاہر ایک انگشتانے کے سائز کا ہوتا ہے، لیکن اس میں وہ خوبی موجود ہوتی ہے کہ یہ مختلف اشیا کے ناموں اور ان کے درجوں کو اسی طرح یاد رکھ سکتا ہے جس طرح ایک انسانی بچہ نئے الفاظ سیکھتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا، حال ہی میں یونی ورسٹی آف لاوا کے سائنس دانوں نے کبوتروں پر ایک نئی اسٹڈی کی، انہیں ٹچ اسکرین کمپیوٹرز استعمال کرنا سکھائے جس کے نتیجے میں ان کبوتروں نے بھی ان ماہرین کو مایوس نہیں کیا۔ انہوں نے 128مختلف تصاویر کو 16بنیادی کیٹیگریز میں چھانٹنا سیکھ لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس میں انہیں بہت زیادہ وقت لگا اور کیوں نہ لگتا، وہ بے چارے جانور جو ٹھیرے!
یونی ورسٹی کے سائنس دانوں نے تین خاص کبوتروں کی کچھ اس انداز سے تربیت کی کہ انہیں کتوں کی مختلف نسلوں یا ان کے پیروں کی اقسام کی تصویریں دکھائیں اور ایک ایسا عمل اختیار کیا، جس سے وہ ان کو کس طرح ایک دوسرے سے الگ کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر انہوں نے کبوتروں کو یہ چیز بھی سکھائی کہ اگر وہ کسی خاص رنگ، علامت یا چیز کو پہچان لیں گے اور دوسری علامت سے الگ کرلیں گے تو انہیں بدلے میں انعام بھی ملے گا۔
کبوتروں نے بھی ان ماہرین کی ہدایات کو سمجھا اور یہ ثابت کیا کہ وہ بالکل اسی طرح چیزوں کو پہچان سکتے ہیں جس طرح انسانی بچہ الفاظ سیکھتا ہے۔ مثال کے طور پر جب ان تینوں کبوتروں کو کتوں یا ان کے پیروں کی وہ سیاہ و سفید تصاویر دکھائی گئیں جو اس سے پہلے انہیں نہیں دکھائی گئی تھیں تو وہ کبوتر انہیں پہچان گئے اور انہوں نے انہیں بالکل صحیح علامات کے مطابق درست کیٹیگریز کا انتخاب کرلیا۔ اس پراجیکٹ کو چلانے والے سائنس دانوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہوں نے پوری اسٹڈی یہ بات ذہن میں رکھ کر شروع کی ہے کہ جس طرح ننھے منے بچے پہلی بار نئے نئے الفاظ سیکھتے ہیں، اسی طرح ہم کبوتروں کو بھی چیزوں کو شناخت کرنا سکھا سکتے ہیں۔
تاہم ریسرچ کرنے والوں نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے ان کبوتروں کو16 کیٹیگریز میں یہ ٹاسک نہایت عمدگی سے مکمل کرنے کے لیے لگ بھگ 40 دن کا وقت دیا تھا۔
پروفیسر ایڈورڈ ویسر مین جو یونی ورسٹی آف لاوا میں ایک ماہر نفسیات ہیں، اس اسٹڈی کے لیڈر تھے۔ ان کا کہنا ہے:''ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے پرندوں میں سیکھنے کی رفتار خاصی کم ہے۔ بالغ انسان باقاعدگی سے صرف ایک گھنٹے کی مدت میں 16 کیٹیگریز کو سیکھ اور سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن ان پرندوں نے اپنے اس ہدف تک پہنچنے میں 45,000 اسباق یا کوششوں کی مدد لی تھی۔''
اس موقع پر پروفیسرایڈورڈ سے یہ سوال کیا گیا:''کیا انسانی بچے کبوتروں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے سیکھتے ہیں؟''
اس سوال کے جواب میں پروفیسر ایڈورڈ ویسر مین نے کہا:''جی یقینی طور پر ایسا ممکن ہے۔ لیکن ایک مسئلہ یہ تھا کہ ہمارے کبوتر چوں کہ تجرباتی مرحلے کے لیے لائے گئے تھے اور ان کے پاس کوئی ماضی کی معلومات یا سابقہ تجربہ نہیں تھا، اس لیے ہمیں اس کام میں خاصی مشکل پیش آئی، کیوں کہ ہمارے کبوتر اس ٹاسک کی نوعیت کو نہیں سمجھ پارہے تھے اور اس سے پہلے ان کا سابقہ اس طرح کی کیٹیگریز سے بھی نہیں پڑا تھا۔ گویا ان کے پاس نہ حروف تھے اور نہ الفاظ، یعنی وہ لغت سے محروم معصوم پرندے تھے۔ دوسری جانب انسانی بچوں کے پاس ایسی تمام چیزیں ہوتی ہیں جو انہیں الفاظ سیکھنے میں مدد دیتی ہیں اور وہ ان تمام مشکلات سے بچتے ہوئے یہ کام جلدی کرلیتے ہیں۔ چناں چہ ان کبوتروں کے ساتھ متعلقہ شعبے میں موازنہ کرنے والا گروپ شیر خوار بچے ہی ہیں جو بلاشبہہ 6 سے 9 ماہ میں اپنے پہلے الفاظ ادا کرنا سیکھ لیتے ہیں۔''
کبوتروں کی تربیت کے ہر دن ریسرچ کرنے والوں نے انہیں 128ایسی تصاویر دکھائیں جن کی ترتیب وہ روزانہ بدل دیتے تھے۔
ہر تصویر 16 مختلف کیٹیگریز کی تھی، جیسے بچہ، بوتل، کیک، کار، آتش بازی، کتا، بطخ، مچھلی، پھول، ہیٹ، چابی، قلم، فون، جہاز، جوتا، درخت۔اس کے بعد کبوتر ان میں سے ایک یا دو مختلف رنگوں کی علامات پر اپنی چونچ مارتے تھے جو ان کے سامنے ٹچ اسکرین کمپیوٹرز پر پیش کی جاتی تھیں۔ ان میں سے ایک کا تعلق بالکل صحیح کیٹیگری سے ہوتا تھا اور دوسری کا غلط کیٹیگری سے۔ اگر کبوتر صحیح علامت کا انتخاب کرتے تو انہیں انعام میں ایک غذائی گولی دی جاتی تھی۔ اگر کبوتر غلط انتخاب کرتے تو تھوڑی دیر یعنی چند سیکنڈ کے لیے وہ تاریکی میں ڈوب جاتے تھے۔ یہ گویا ان کی غلطی کی سزا تھی۔
اس تربیت کی تکمیل کے بعد ان کبوتروں کے سامنے انہی کیٹیگریز کی تصاویر پیش کی گئیں جنہیں وہ اس سے پہلے دیکھ چکے تھے، جن میں سے انہیں صحیح یا غلط کا انتخاب کرنا تھا۔ ان کبوتروں کو مذکورہ بالا مثال میں رنگین علامات منتخب کرنی ہوتی تھیں اور ان کا تعلق اشیاء کے ساتھ جوڑنا یا ملانا ہوتا تھا۔ کبوتر جب علامات کو صحیح طور پر منتخب کرلیتے تو پھر انہیں صحیح تصویر کا انتخاب کرنا ہوتا تھا جو اس سے پہلے انہیں کمپیوٹر اسکرین پر دکھائی گئی تھیں۔
کبوتروں کے بارے میں ایک بات زمانۂ قدیم سے مشہور چلی آرہی ہے، وہ یہ کہ یہ کبھی اپنے گھونسلے کا راستہ نہیں بھولتے، بلکہ راستہ بھٹکنے کی صورت میں کسی نہ کسی طرح بالکل صحیح راستہ تلاش کرکے اپنے گھونسلے تک پہنچ ہی جاتے ہیں، چاہے انہیں اس میں کتنا ہی وقت کیوں نہ لگ جائے۔ مگر حالیہ اسٹڈی یہ کہہ رہی ہے کہ کبوتر اس سے بھی زیادہ ذہین اور اسمارٹ ہوتے ہیں۔ ان کی یادداشت محض اچھی نہیں بلکہ بہت اچھی اور غیرمعمولی حد تک اچھی ہوتی ہے۔
ہم نے پہلے لکھا تھا کہ اس ٹریننگ میں تین کبوتروں نے حصہ لیا تھا، جن میں سے ایک کبوتر نے 80 فی صد درستی حاصل کی تھی اور دوسرے نے 70 فی صد، جب کہ تیسرے کبوتر کی درستی کی شرح 65فی صد رہی۔
Cognitionنامی جرنل میں انہوں نے لکھا ہے:''ہمارا یہ تجربہ نہایت سادہ اور آسان ہے، جس طرح بچوں کو ان کی شیرخوارگی کے زمانے میں رنگ، تصاویر اور علامات دکھاکر الفاظ سکھائے اور یاد کرائے جاتے ہیں، بالکل اسی طریقے سے ان کبوتروں کو بھی تربیت دی جاتی ہے اور انہیں بھی یہ سب سکھایا جاتا ہے۔''
ان کا یہ بھی کہنا ہے:''یہ الفاظ کے سیکھنے کا ایک نادر و یکتا حیاتیاتی مگر پیچیدہ نمونہ ہے۔ ان کے ذریعے سیکھنے والا متعدد کیٹیگرز کو سیکھتا اور سمجھتا ہے اور بعد میں اس سلسلے کو آگے بڑھاتا ہے۔''
پروفیسر ایڈورڈ ویسر مین نے مزید کہا:''الفاظ کو سکھانے کی سابقہ کوششوں کے برعکس جو حیوانات مثلاً کتوں اور طوطوں کو الفاظ سکھانے کے لیے کی گئیں، ان میں سے ہمارے کبوتروں کو علیحدہ علیحدہ تمام 16 کیٹیگریز کے لیے تربیت دی گئی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بچے کس طرح مختلف کیٹیگریز کے الفاظ سیکھتے ہیں۔ ''
لیکن انسانوں اور جانوروں میں فرق ہوتا ہے اور یہ ہونا بھی چاہیے جس کے بارے میں پہلے ہی سب جانتے ہیں، بہرحال انسانی بچے جو الفاظ سیکھ لیتے ہیں، بعد میں اپنے اس خزانے میں مسلسل اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں، جب کہ کبوتروں کے بارے میں ایسا نہیں ہے۔ وہ بہرحال جانور ہیں اور وہ ان میں از خود اضافہ نہیں کرسکتے۔
سائنس دانوں نے کبوتروں کو یہ بھی سکھایا کہ پہلے دکھائی گئی 16مختلف کیٹیگریز میں حقیقی چیزوں کی تصویریں کس طرح گروپ کی جاتی ہیں۔ کبوتروں کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ دوسرے متعدد پرندوں سے زیادہ ذہین اور اسمارٹ ہوتے ہیں، ان کی یادداشت دوسرے پرندوں کے مقابلے میں کہیں بہتر ہوتی ہے، اسی لیے یہ اپنے گھونسلے اور اپنے درخت یا کسی اور مقام کا راستہ کبھی نہیں بھولتے۔ یہاں تک کہ یہ سینکڑوں میل دور سے بھی اپنے آشیانے پر واپس پہنچ جاتے ہیں۔
بائیں چونچ اور دائیں چونچ والے کوے
کووں کے بارے میں ہمیشہ سے یہ کہا جاتا تھا کہ وہ پرندوں میں سب سے زیادہ ذہین ہوتے ہیں، لیکن ایک حالیہ اسٹڈی کے بعد یہ انکشاف ہوا ہے کہ وہ سابقہ خیال کے مقابلے میں کہیں زیادہ زہین ہوتے ہیں۔ یہ بڑے مشکل اور پیچیدہ کام بھی کرڈالتے ہیں۔ پہلے یہ خیال تھا کہ صرف انسان ہی مشکل اور پیچیدہ کام انجام دے سکتا ہے، مگر اب یہ ثابت ہوچکا ہے کہ کوے، بندر اورایپس (بے دُم بندر) بھی انسان کی طرح پیچیدہ کام انجام دے سکتے ہیں۔ زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انہوں نے کسی سابقہ تربیت کے بغیر ہی مذکورہ مشکل اور پیچیدہ کام کرڈالے۔
کلاہ والے دو کوے فولادی تاروں سے تیار کردہ ایک پنجرے میں رکھے گئے جس کے اندر پلاسٹک کی ایک ٹرے میں تین چھوٹے کپ بھی رکھے تھے۔ یہ کپ کبھی کبھار ہی رکھے جاتے تھے۔بیچ والا کپ ایک چھوٹے کارڈ سے ڈھکا ہوتا تھا جس میں کوئی خاص رنگ، بناوٹ یا اشیا کی تعداد لکھی ہوتی تھی اور ان کی تصویر بنی ہوتی تھی۔ دوسرے دو کپ بھی کارڈز سے ڈھکے ہوتے تھے، ایک کپ سیمپل سے میچ کرتا ہوتا تھا اور دوسرا نہیں تھا۔ میچنگ کارڈ کے نیچے لاروے ہوتے تھے جو کووں کو ان کی کامیابی پر بطور انعام دیے جاتے تھے، کیوں کہ انہوں نے بالکل صحیح میچ منتخب کیا تھا۔اس کے بعد ان کووں کو کارڈز پر بنی تصویروں کے ساتھ ایسا ہی ایک اور کام کرنا ہوتا تھا جسے انہوں نے پہلے میچ نہیں کیا تھا۔
تحقیق کار یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ جن کووں نے یہ میچ صحیح طور پر انجام دیے، ان کا تناسب 78 فی صد تھا، 50فی صد کو چانس دیا گیا تھا، لیکن انہوں نے یہ تمام کام کسی بھی طرح کی واضح تربیت کے بغیر کیا تھا۔
New Caledonian میں تحقیق کرنے والے ماہرین نے حال ہی میں یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ ان کے ہاں زیر تربیت کووں نے اپنی چونچ کی ایک خاص سمت میں ایک تنکا پکڑا ہوا تھا، جس سے ان کے وژن کی فیلڈ زیادہ واضح ہوگئی تھی۔ ریسرچ کرنے والوں کا خیال تھا کہ یہ کوے اپنا تنکا اپنی چونچ میں اس طرح پکڑتے ہیں کہ اس کا سرا ان کی نظر کے سامنے رہے، تاکہ وہ دوسری جانب کا منظر واضح طور پر دیکھ سکیں۔ ان میں جس کوے نے چونچ کی بائیں جانب تنکا پکڑا ہوا تھا، وہ لیفٹ پیکڈ تھے اور جنہوں نے دائیں جانب تنکا پکڑا تھا، وہ رائٹ پیکڈ تھے۔ New Caledonianکے کووں نے تنکے استعمال کرنے کی اپنی قابلیت دکھاکر ماہرین کو حیران کردیا، انہوں نے لاروے نکال کر بھی سب کو حیران کیا اور دوسرے کاموں سے بھی۔ یہ پوری اسٹڈی ''جرنل کرنٹ بایولوجی'' میں شائع ہوئی ہے جو یہ تجویز بھی پیش کرتا ہے کہ جو پرندے غیرمعمولی طور پر زیادہ وسیع فیلڈ آف وژن رکھتے ہیں، یہ بلاشبہہ ایک آنکھ سے زیادہ بہتر طور سے دیکھتے ہیں۔
کیا کبوتر انسانی بچوں کی طرح ہیں؟ کیا وہ ان کی طرح بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں؟ یقینی طور پر بہت سے پرندے جن میں کبوتر بھی شامل ہیں، انسانی بچوں کی طرح ہیں اور وہ الفاظ کو اسی طرح سیکھتے ہیں جس طرح شیرخوار یاد دودھ پیتے بچے الفاظ سیکھتے ہیں۔
اس سلسلے میں یونی ورسٹی آف لاوا کے سائنس دانوں نے کبوتروں کی بھی انسانی بچوں کی طرح تربیت کی اور انہیں ٹچ اسکرین کمپیوٹرز استعمال کرنا سکھائے جس کے نتیجے میں کبوتروں نے 128مختلف تصاویر کو 16بنیادی کیٹیگریز میں چھانٹنا اور الگ کرنا سیکھ لیا۔ پھر ان کبوتروں کو شاباشی بھی دی گئی اور انہیں ان کے ہر صحیح جواب پر خوراک کی گولیاں انعام میں دی گئیں۔ یہ کبوتر معمولی نہیں تھے، انہوں نے اچھی خاصی ذہانت کا مظاہرہ کیا اور صرف 64 دن میں ہر کیٹیگری میں مختلف اشیاء کو فٹ کرنے کا مرحلہ سیکھ لیا۔
سائنس داں کہتے ہیں کہ یہ پورا عمل ایسے ہی ہے جیسے والدین اپنے بچوں کو مختلف الفاظ سکھانا شروع کرتے ہیں اور پھر ان بچوں کی یہ صلاحیت رفتہ رفتہ بڑھتی چلی جاتی ہے، تاہم ان پرندوں کو بہترین انداز سے سیکھنے اور عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے 45,000اسباق کی ضرورت پڑی، جب کہ انسانی بچے صرف ایک گھنٹے میں اشیاء کو 16کیٹیگریز میں ڈال سکتے ہیں۔ لیکن انسان اور جانور کے درمیان یہ فرق تو بہرصورت قائم رہے گا۔
کبوتر ایک ایسا معصوم سا پرندہ ہے جس کا ننھا منا سا دماغ بظاہر ایک انگشتانے کے سائز کا ہوتا ہے، لیکن اس میں وہ خوبی موجود ہوتی ہے کہ یہ مختلف اشیا کے ناموں اور ان کے درجوں کو اسی طرح یاد رکھ سکتا ہے جس طرح ایک انسانی بچہ نئے الفاظ سیکھتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا، حال ہی میں یونی ورسٹی آف لاوا کے سائنس دانوں نے کبوتروں پر ایک نئی اسٹڈی کی، انہیں ٹچ اسکرین کمپیوٹرز استعمال کرنا سکھائے جس کے نتیجے میں ان کبوتروں نے بھی ان ماہرین کو مایوس نہیں کیا۔ انہوں نے 128مختلف تصاویر کو 16بنیادی کیٹیگریز میں چھانٹنا سیکھ لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس میں انہیں بہت زیادہ وقت لگا اور کیوں نہ لگتا، وہ بے چارے جانور جو ٹھیرے!
یونی ورسٹی کے سائنس دانوں نے تین خاص کبوتروں کی کچھ اس انداز سے تربیت کی کہ انہیں کتوں کی مختلف نسلوں یا ان کے پیروں کی اقسام کی تصویریں دکھائیں اور ایک ایسا عمل اختیار کیا، جس سے وہ ان کو کس طرح ایک دوسرے سے الگ کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر انہوں نے کبوتروں کو یہ چیز بھی سکھائی کہ اگر وہ کسی خاص رنگ، علامت یا چیز کو پہچان لیں گے اور دوسری علامت سے الگ کرلیں گے تو انہیں بدلے میں انعام بھی ملے گا۔
کبوتروں نے بھی ان ماہرین کی ہدایات کو سمجھا اور یہ ثابت کیا کہ وہ بالکل اسی طرح چیزوں کو پہچان سکتے ہیں جس طرح انسانی بچہ الفاظ سیکھتا ہے۔ مثال کے طور پر جب ان تینوں کبوتروں کو کتوں یا ان کے پیروں کی وہ سیاہ و سفید تصاویر دکھائی گئیں جو اس سے پہلے انہیں نہیں دکھائی گئی تھیں تو وہ کبوتر انہیں پہچان گئے اور انہوں نے انہیں بالکل صحیح علامات کے مطابق درست کیٹیگریز کا انتخاب کرلیا۔ اس پراجیکٹ کو چلانے والے سائنس دانوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہوں نے پوری اسٹڈی یہ بات ذہن میں رکھ کر شروع کی ہے کہ جس طرح ننھے منے بچے پہلی بار نئے نئے الفاظ سیکھتے ہیں، اسی طرح ہم کبوتروں کو بھی چیزوں کو شناخت کرنا سکھا سکتے ہیں۔
تاہم ریسرچ کرنے والوں نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے ان کبوتروں کو16 کیٹیگریز میں یہ ٹاسک نہایت عمدگی سے مکمل کرنے کے لیے لگ بھگ 40 دن کا وقت دیا تھا۔
پروفیسر ایڈورڈ ویسر مین جو یونی ورسٹی آف لاوا میں ایک ماہر نفسیات ہیں، اس اسٹڈی کے لیڈر تھے۔ ان کا کہنا ہے:''ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے پرندوں میں سیکھنے کی رفتار خاصی کم ہے۔ بالغ انسان باقاعدگی سے صرف ایک گھنٹے کی مدت میں 16 کیٹیگریز کو سیکھ اور سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن ان پرندوں نے اپنے اس ہدف تک پہنچنے میں 45,000 اسباق یا کوششوں کی مدد لی تھی۔''
اس موقع پر پروفیسرایڈورڈ سے یہ سوال کیا گیا:''کیا انسانی بچے کبوتروں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے سیکھتے ہیں؟''
اس سوال کے جواب میں پروفیسر ایڈورڈ ویسر مین نے کہا:''جی یقینی طور پر ایسا ممکن ہے۔ لیکن ایک مسئلہ یہ تھا کہ ہمارے کبوتر چوں کہ تجرباتی مرحلے کے لیے لائے گئے تھے اور ان کے پاس کوئی ماضی کی معلومات یا سابقہ تجربہ نہیں تھا، اس لیے ہمیں اس کام میں خاصی مشکل پیش آئی، کیوں کہ ہمارے کبوتر اس ٹاسک کی نوعیت کو نہیں سمجھ پارہے تھے اور اس سے پہلے ان کا سابقہ اس طرح کی کیٹیگریز سے بھی نہیں پڑا تھا۔ گویا ان کے پاس نہ حروف تھے اور نہ الفاظ، یعنی وہ لغت سے محروم معصوم پرندے تھے۔ دوسری جانب انسانی بچوں کے پاس ایسی تمام چیزیں ہوتی ہیں جو انہیں الفاظ سیکھنے میں مدد دیتی ہیں اور وہ ان تمام مشکلات سے بچتے ہوئے یہ کام جلدی کرلیتے ہیں۔ چناں چہ ان کبوتروں کے ساتھ متعلقہ شعبے میں موازنہ کرنے والا گروپ شیر خوار بچے ہی ہیں جو بلاشبہہ 6 سے 9 ماہ میں اپنے پہلے الفاظ ادا کرنا سیکھ لیتے ہیں۔''
کبوتروں کی تربیت کے ہر دن ریسرچ کرنے والوں نے انہیں 128ایسی تصاویر دکھائیں جن کی ترتیب وہ روزانہ بدل دیتے تھے۔
ہر تصویر 16 مختلف کیٹیگریز کی تھی، جیسے بچہ، بوتل، کیک، کار، آتش بازی، کتا، بطخ، مچھلی، پھول، ہیٹ، چابی، قلم، فون، جہاز، جوتا، درخت۔اس کے بعد کبوتر ان میں سے ایک یا دو مختلف رنگوں کی علامات پر اپنی چونچ مارتے تھے جو ان کے سامنے ٹچ اسکرین کمپیوٹرز پر پیش کی جاتی تھیں۔ ان میں سے ایک کا تعلق بالکل صحیح کیٹیگری سے ہوتا تھا اور دوسری کا غلط کیٹیگری سے۔ اگر کبوتر صحیح علامت کا انتخاب کرتے تو انہیں انعام میں ایک غذائی گولی دی جاتی تھی۔ اگر کبوتر غلط انتخاب کرتے تو تھوڑی دیر یعنی چند سیکنڈ کے لیے وہ تاریکی میں ڈوب جاتے تھے۔ یہ گویا ان کی غلطی کی سزا تھی۔
اس تربیت کی تکمیل کے بعد ان کبوتروں کے سامنے انہی کیٹیگریز کی تصاویر پیش کی گئیں جنہیں وہ اس سے پہلے دیکھ چکے تھے، جن میں سے انہیں صحیح یا غلط کا انتخاب کرنا تھا۔ ان کبوتروں کو مذکورہ بالا مثال میں رنگین علامات منتخب کرنی ہوتی تھیں اور ان کا تعلق اشیاء کے ساتھ جوڑنا یا ملانا ہوتا تھا۔ کبوتر جب علامات کو صحیح طور پر منتخب کرلیتے تو پھر انہیں صحیح تصویر کا انتخاب کرنا ہوتا تھا جو اس سے پہلے انہیں کمپیوٹر اسکرین پر دکھائی گئی تھیں۔
کبوتروں کے بارے میں ایک بات زمانۂ قدیم سے مشہور چلی آرہی ہے، وہ یہ کہ یہ کبھی اپنے گھونسلے کا راستہ نہیں بھولتے، بلکہ راستہ بھٹکنے کی صورت میں کسی نہ کسی طرح بالکل صحیح راستہ تلاش کرکے اپنے گھونسلے تک پہنچ ہی جاتے ہیں، چاہے انہیں اس میں کتنا ہی وقت کیوں نہ لگ جائے۔ مگر حالیہ اسٹڈی یہ کہہ رہی ہے کہ کبوتر اس سے بھی زیادہ ذہین اور اسمارٹ ہوتے ہیں۔ ان کی یادداشت محض اچھی نہیں بلکہ بہت اچھی اور غیرمعمولی حد تک اچھی ہوتی ہے۔
ہم نے پہلے لکھا تھا کہ اس ٹریننگ میں تین کبوتروں نے حصہ لیا تھا، جن میں سے ایک کبوتر نے 80 فی صد درستی حاصل کی تھی اور دوسرے نے 70 فی صد، جب کہ تیسرے کبوتر کی درستی کی شرح 65فی صد رہی۔
Cognitionنامی جرنل میں انہوں نے لکھا ہے:''ہمارا یہ تجربہ نہایت سادہ اور آسان ہے، جس طرح بچوں کو ان کی شیرخوارگی کے زمانے میں رنگ، تصاویر اور علامات دکھاکر الفاظ سکھائے اور یاد کرائے جاتے ہیں، بالکل اسی طریقے سے ان کبوتروں کو بھی تربیت دی جاتی ہے اور انہیں بھی یہ سب سکھایا جاتا ہے۔''
ان کا یہ بھی کہنا ہے:''یہ الفاظ کے سیکھنے کا ایک نادر و یکتا حیاتیاتی مگر پیچیدہ نمونہ ہے۔ ان کے ذریعے سیکھنے والا متعدد کیٹیگرز کو سیکھتا اور سمجھتا ہے اور بعد میں اس سلسلے کو آگے بڑھاتا ہے۔''
پروفیسر ایڈورڈ ویسر مین نے مزید کہا:''الفاظ کو سکھانے کی سابقہ کوششوں کے برعکس جو حیوانات مثلاً کتوں اور طوطوں کو الفاظ سکھانے کے لیے کی گئیں، ان میں سے ہمارے کبوتروں کو علیحدہ علیحدہ تمام 16 کیٹیگریز کے لیے تربیت دی گئی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بچے کس طرح مختلف کیٹیگریز کے الفاظ سیکھتے ہیں۔ ''
لیکن انسانوں اور جانوروں میں فرق ہوتا ہے اور یہ ہونا بھی چاہیے جس کے بارے میں پہلے ہی سب جانتے ہیں، بہرحال انسانی بچے جو الفاظ سیکھ لیتے ہیں، بعد میں اپنے اس خزانے میں مسلسل اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں، جب کہ کبوتروں کے بارے میں ایسا نہیں ہے۔ وہ بہرحال جانور ہیں اور وہ ان میں از خود اضافہ نہیں کرسکتے۔
سائنس دانوں نے کبوتروں کو یہ بھی سکھایا کہ پہلے دکھائی گئی 16مختلف کیٹیگریز میں حقیقی چیزوں کی تصویریں کس طرح گروپ کی جاتی ہیں۔ کبوتروں کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ دوسرے متعدد پرندوں سے زیادہ ذہین اور اسمارٹ ہوتے ہیں، ان کی یادداشت دوسرے پرندوں کے مقابلے میں کہیں بہتر ہوتی ہے، اسی لیے یہ اپنے گھونسلے اور اپنے درخت یا کسی اور مقام کا راستہ کبھی نہیں بھولتے۔ یہاں تک کہ یہ سینکڑوں میل دور سے بھی اپنے آشیانے پر واپس پہنچ جاتے ہیں۔
بائیں چونچ اور دائیں چونچ والے کوے
کووں کے بارے میں ہمیشہ سے یہ کہا جاتا تھا کہ وہ پرندوں میں سب سے زیادہ ذہین ہوتے ہیں، لیکن ایک حالیہ اسٹڈی کے بعد یہ انکشاف ہوا ہے کہ وہ سابقہ خیال کے مقابلے میں کہیں زیادہ زہین ہوتے ہیں۔ یہ بڑے مشکل اور پیچیدہ کام بھی کرڈالتے ہیں۔ پہلے یہ خیال تھا کہ صرف انسان ہی مشکل اور پیچیدہ کام انجام دے سکتا ہے، مگر اب یہ ثابت ہوچکا ہے کہ کوے، بندر اورایپس (بے دُم بندر) بھی انسان کی طرح پیچیدہ کام انجام دے سکتے ہیں۔ زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انہوں نے کسی سابقہ تربیت کے بغیر ہی مذکورہ مشکل اور پیچیدہ کام کرڈالے۔
کلاہ والے دو کوے فولادی تاروں سے تیار کردہ ایک پنجرے میں رکھے گئے جس کے اندر پلاسٹک کی ایک ٹرے میں تین چھوٹے کپ بھی رکھے تھے۔ یہ کپ کبھی کبھار ہی رکھے جاتے تھے۔بیچ والا کپ ایک چھوٹے کارڈ سے ڈھکا ہوتا تھا جس میں کوئی خاص رنگ، بناوٹ یا اشیا کی تعداد لکھی ہوتی تھی اور ان کی تصویر بنی ہوتی تھی۔ دوسرے دو کپ بھی کارڈز سے ڈھکے ہوتے تھے، ایک کپ سیمپل سے میچ کرتا ہوتا تھا اور دوسرا نہیں تھا۔ میچنگ کارڈ کے نیچے لاروے ہوتے تھے جو کووں کو ان کی کامیابی پر بطور انعام دیے جاتے تھے، کیوں کہ انہوں نے بالکل صحیح میچ منتخب کیا تھا۔اس کے بعد ان کووں کو کارڈز پر بنی تصویروں کے ساتھ ایسا ہی ایک اور کام کرنا ہوتا تھا جسے انہوں نے پہلے میچ نہیں کیا تھا۔
تحقیق کار یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ جن کووں نے یہ میچ صحیح طور پر انجام دیے، ان کا تناسب 78 فی صد تھا، 50فی صد کو چانس دیا گیا تھا، لیکن انہوں نے یہ تمام کام کسی بھی طرح کی واضح تربیت کے بغیر کیا تھا۔
New Caledonian میں تحقیق کرنے والے ماہرین نے حال ہی میں یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ ان کے ہاں زیر تربیت کووں نے اپنی چونچ کی ایک خاص سمت میں ایک تنکا پکڑا ہوا تھا، جس سے ان کے وژن کی فیلڈ زیادہ واضح ہوگئی تھی۔ ریسرچ کرنے والوں کا خیال تھا کہ یہ کوے اپنا تنکا اپنی چونچ میں اس طرح پکڑتے ہیں کہ اس کا سرا ان کی نظر کے سامنے رہے، تاکہ وہ دوسری جانب کا منظر واضح طور پر دیکھ سکیں۔ ان میں جس کوے نے چونچ کی بائیں جانب تنکا پکڑا ہوا تھا، وہ لیفٹ پیکڈ تھے اور جنہوں نے دائیں جانب تنکا پکڑا تھا، وہ رائٹ پیکڈ تھے۔ New Caledonianکے کووں نے تنکے استعمال کرنے کی اپنی قابلیت دکھاکر ماہرین کو حیران کردیا، انہوں نے لاروے نکال کر بھی سب کو حیران کیا اور دوسرے کاموں سے بھی۔ یہ پوری اسٹڈی ''جرنل کرنٹ بایولوجی'' میں شائع ہوئی ہے جو یہ تجویز بھی پیش کرتا ہے کہ جو پرندے غیرمعمولی طور پر زیادہ وسیع فیلڈ آف وژن رکھتے ہیں، یہ بلاشبہہ ایک آنکھ سے زیادہ بہتر طور سے دیکھتے ہیں۔