پاکستان اور بھارت کی میزائل دوڑ

مسلم حکمرانوں، حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے غاصبوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک نیا ہتھیار ’’راکٹ‘‘ استعمال کیا تھا


ع محمود February 22, 2015
دنیا کی دو بڑی عسکری طاقتوں کے میزائلوں پہ دلچسپ تقابلی رپورٹ۔ فوٹو: فائل

لاہور: یہ اٹھارہویں صدی کے اواخر کا ذکر ہے، ہندوستان پہ حملہ آور انگریز مسلمانوں کی آخری آزاد سلطنت میسور کو ہڑپ کرنے کی کوششیں کرنے لگے۔

مسلم حکمرانوں، حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے غاصبوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک نیا ہتھیار ''راکٹ'' استعمال کیا۔ یہ فولادی نالیوں والے راکٹ تھے جو 2 کلو میٹر تک مار رکھتے تھے۔ان راکٹوں کے ذریعے اپنے علاقے میں موجود رہتے ہوئے ہی دور بیٹھے دشمن کو ضرب لگانا ممکن ہوگیا۔ اسی لیے میسور راکٹوں کی نقل میں انگریزوں اور دیگر یورپی اقوام نے اپنے راکٹ بھی ایجاد کرلیے۔ تاہم راکٹوں کا نشانہ درست نہ تھا۔ وہ کبھی ٹارگٹ تباہ کردیتے کبھی نہ کرتے۔ گویا ایسے راہنما (گائڈینس) نظام کی ضرورت تھی جو راکٹ کو سیدھا نشانے تک لے جائے۔ اس قسم کا پہلا راکٹ دوسری جنگ عظیم میں جرمنوں نے بنایا۔

دنیا کا پہلا میزائل

نازی جرمن سائنس دانوں نے11.8 فٹ لمبا راکٹ بنایا۔ اس میں جیٹ انجن نصب کیا اور گائرو کمپاس (Gyrocompass) کی بنیاد پر کام کرنے والا آٹو پائلٹ راہنما نظام لگا دیا۔ یوں راہنما نظام والا دنیا کا پہلا باقاعدہ راکٹ ''V-2" تیار ہوگیا۔ اسے ''میزائیل'' کا نام ملا۔ V-2 ہی دنیا کا پہلا کروز میزائل بھی ہے۔جرمنی نے پہلا V-2 کروز میزائل لندن کے باسیوں پر 13 جون 1944ء کو داغا۔ اس نے آٹھ برطانوی ہلاک کر ڈالے۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک جرمنوںنے دس ہزار V-2 میزائل برطانیہ پر پھینکے۔ ان کی وجہ سے 6184 برطانوی ہلاک جبکہ تقریباً اٹھارہ ہزار زخمی ہوئے۔خاتمہ جنگ کے بعد امریکہ، سویت یونین، برطانیہ اور فرانس V-2 کی بنیاد پر اپنے میزائل بنانے کے لیے تجربے کرنے لگے۔ یوں دنیا میں''میزائل دور'' شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔ پچھلے ستر سال کے دوران سیکڑوں اقسام کے میزائل ایجاد ہوچکے جو متفرق راہنما نظاموں سے چلتے ہیں۔ انہیں بہتر سے بہتر بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔

میزائل آج ہر ملک کے لیے بہترین دفاعی ہتھیار بن چکا کیونکہ اس نے دور بیٹھے دشمن کو روکنا اور اسے تباہ کرنا ممکن بنا دیا،جبکہ اپنے آپ کو گزند نہیں پہنچتی۔ دنیا میںتمام بڑی قوتیں مثلاً امریکا، روس، بھارت اور چین اپنی عسکری طاقت بڑھانے کے لیے جدید ترین میزائل بنارہی ہیں ۔لیکن پاکستان کا مطمح نظر صرف اپنے دفاع کو مضبوط کرنا ہے۔ انگریزی کہاوت ہے :''جو اپنا دفاع مضبوط کرلے وہ اچھا حملہ بھی کرسکتا ہے۔''

https://img.express.pk/media/images/Pak-indo-missile21/Pak-indo-missile21.webp

پاک بھارت میزائل دوڑ کا آغاز

یہ 1983ء کی بات ہے، بھارت نے مقامی ساختہ ''پرتھوی'' میزائل بنانے کی خاطر جامع میزائل منصوبہ شروع کیا۔ اس منصوبے کے باعث قدرتاً پاکستان کے عسکری حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ چناں چہ مختلف حلقوں سے یہ مطالبہ آنے لگا کہ پاکستانی میزائل منصوبے کا بھی آغاز ہونا چاہیے۔

پاکستان کے میزائل منصوبے کی بنیاد 1985ء میں پڑی۔ اس سال میجر جنرل مرزا اسلم بیگ نے پاک افواج کو جدید سائنسی و تکنیکی بنیادوں پر منضبط کرنے کی خاطر ایک نئے شعبے، سی ڈی ڈائریکٹوریٹ (Combat Development Directorate) کی بنیاد رکھی۔ تب میجر جنرل اسلم بیگ پاک بری فوج کے چیف آف جنرل سٹاف تھے۔اس نئے شعبے میں ایسے فوجی افسر رکھے گئے جو سائنس و ٹیکنالوجی پر غیرمعمولی دسترس رکھتے ہوں۔ مارچ 1987ء میں مرزا اسلم بیگ پاک فوج کے وائس چیف آف سٹاف مقرر ہوئے۔ تب تک بھارتی میزائل منصوبہ کا غلغلہ بلند ہوچکا تھا۔ چناں چہ دشمن کا مقابلہ کرنے کی خاطر سی ڈی ڈائریکٹوریٹ کو یہ ذمے داری سونپی گئی کہ خلائی تحقیق کے قومی ادارے، سپارکو کے ساتھ مل کر پاکستانی میزائل پروگرام شروع کیا جائے۔جلد ہی اس منصوبے میں سائنس و ٹیکنالوجی سے متعلق دیگر قومی ادارے مثلاً ڈیسٹو (DESTO)، کے آر ایل، این ڈی سی، نیسکوم، پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن وغیرہ کے سائنس دان و انجینئر بھی شامل ہوگئے۔

اسی دوران 1988ء میں بھارت نے اپنے پہلے مقامی ساختہ میزائل، پرتھوی اول کا تجربہ کر ڈالا۔ اب پہلا پاکستانی میزائل تیار کرنے کی کوششیں مزید تیز ہوگئیں۔ چناں چہ اگلے سال 1989ء میں پاکستانی ہنر مندوں نے اپنے پہلے مقامی ساختہ میزائل ''حتف اول'' کا تجربہ کرڈالا اور دشمن کو منہ توڑ جواب دے کر سکون کا سانس لیا۔

دلچسپ بات یہ کہ پرتھوی اول اور حتف اول، دونوں میزائل نہیں بلکہ راکٹ تھے...ان میں کوئی راہنما نظام نصب نہیں تھا۔ بھارت نے 1998ء میں راہنما نظام رکھنے والا پرتھوی اول کا نمونہ یا ورژن تیار کیا۔ جبکہ پاکستانیوں نے 2001ء میں اپنا ایسا پہلا میزائل ''حتف اول آئی بی''(Hatf IB) تخلیق کیا۔ یہ انرٹیل نیوی گیشن سسٹم (inertial navigation system) نامی راہنما نظام رکھتا ہے۔ حتف عربی لفظ ہے اوراس کے معنی ہیں: موت۔

بہرحال پرتھوی اور حتف میزائلوں کی ایجاد کے بعد بھارت اور پاکستان کے مابین نت نئے میزائل بنانے کی دوڑ شروع ہوگئی۔ چناں چہ دونوں ممالک ربع صدی میں مختلف اقسام کے میزائل ایجاد کرچکے۔اس اثنا میں ایک نئے عجوبے نے جنم لیا۔

پچھلے ایک عشرے میں زبردست معاشی ترقی کے باعث بھارت اب علاقائی سپرپاور بننا چاہتا ہے۔ اسی لیے وہ اپنے میزائل منصوبے کو بہت وسیع کرچکا۔اس حقیقت کا اندازہ یوں لگائیے کہ بھارتی ماہرین بیک وقت ''16''مختلف میزائل بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ پاکستان حریف کے مانند زیادہ وسائل نہیں رکھتا، مگر پاکستانی ہنرمند بھرپور کوشش کررہے ہیں کہ دفاع وطن اتنا مضبوط بنا دیا جائے کہ دشمن کو حملہ کرنے سے قبل ہزار بار سوچنا پڑے۔یہ امر اطمینان بخش ہے کہ ہمارے سائنس دان اور ٹیکنالوجسٹ ایسے بلاسٹک اور کروز میزائل ایجاد کرچکے جن کے ذریعے وطن عزیز کا دفاع مستحکم ہوچکا۔ اب ان میزائلوں کو بہتر سے بہتر بنانے کی سعی جاری ہے۔ اس لیے وقتاً فوقتاً میزائل ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔

https://img.express.pk/media/images/Pak-indo-missile3/Pak-indo-missile3.webp

بلاسٹک میزائل

یہ یاد رہے کہ بڑے میزائلوں کی دو اقسام ہیں: بلاسٹک(Ballistic missile) اور کروز میزائل(Cruise missile)۔ بلاسٹک میزائل زیادہ بڑے، بھاری اور مہنگے ہوتے ہیں۔ ان میں نصب بم بھی بڑا ہوتا ہے۔ جب انہیں چھوڑا جائے، تو تب انہیں راہنما نظام کی ضرورت ہوتی ہے۔

بلاسٹک میزائل راہنما نظام اور جیٹ انجن کی مدد سے فضا (Atmosphere) سے اوپر اٹھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پھر ان کا رخ نشانے کی طرف ہو ،تو گرتے وقت کشش ثقل خود بخود ان کی رفتار سپر سونک بنا ڈالتی ہے۔ بلاسٹک میزائل کا فائدہ یہ ہے کہ اس پر بڑا بم رکھ کر اسے دور تک پھینکنا ممکن ہے۔ ایسے میزائل ''10 ہزار میل'' دور تک بھی جاسکتے ہیں اور ان کا نقصان یہ کہ بلاسٹک میزائل ریڈار پر نظرآجاتے ہیں نیز ان پر پیسہ بھی زیادہ لگتا ہے۔شاہین اول، شاہین دوم، غوری اول، غوری، حتف اول، ابدالی، غزنوی اور نصر پاکستانی ماہرین کے تیار کردہ مشہور ومعروف بلاسٹک میزائل ہیں۔ ان میں شاہین دوم سب سے بڑا ہے۔ یہ 25 ہزارکلو وزنی بم ڈھائی ہزار کلو میٹر دور تک لے جاسکتا ہے۔ اس پر ایٹم بم بھی لادنا ممکن ہے۔

''نصر'' پاکستان کا جدید ترین بلاسٹک میزائل ہے۔ یہ 60 کلو میٹر کی حدِ مار رکھتا ہے۔ اس پر چھوٹے ایٹم بم رکھے جاسکتے ہیں۔ نصر دراصل حملہ آور دشمن کے ٹینک، توپیں اور نفری تباہ کرنے والا (Tactical ) چھوٹا بلاسٹک میزائل ہے۔ نصر کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ دوران پرواز دشمن کے راکٹوں، گولوں اور میزائلوں کو غچّہ دیتے ہوئے ٹارگٹ کی سمت بڑھتا چلا جاتا ہے۔

اگنی اول تا پنجم، پرتھوی اول تا سوم، پرہار، ساگریکا، اور دھنوش بھارت کے بلاسٹک میزائل ہیں۔ ان میں اگنی پنجم سب سے طاقتور ہے جس کا حال ہی میں تجربہ کیا گیا۔ 50 ہزار کلو وزنی یہ میزائل پانچ ہزار کلو میٹر سے زیادہ حد مار رکھتا ہے۔

بھارت اگنی ششم بھی تیار کررہا ہے۔ یہ 70 ہزارکلو بھاری میزائل آٹھ تا بارہ ہزار کلو میٹر تک مار کرسکے گا۔ یہ میزائل بناکر بھارت خود کہ بہ حیثیت عالمی طاقت منوانا چاہتا ہے۔

کروز میزائل

یہ میزائل چھوٹے، ہلکے اور کم تیز رفتار ہوتے ہیں۔ ان میں بم بھی چھوٹا لگتا ہے۔ انہیں ٹارگٹ تک پہنچنے کی خاطر مسلسل راہنما نظام کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ کروز میزائل سیدھا نشانے پر گرتا ہے۔(بلاسٹک میزائیل عین نشانے پہ نہیں گر سکتا) نیز نیچی پرواز کرنے کی وجہ سے یہ ریڈار پر بہ مشکل نظر آتا ہے۔ اس پر خرچ بھی کم اٹھتا ہے۔بلاسٹک میزائل زمین یا آبدوز سے چھوڑے جاتے ہیں۔ کروز میزائلوں کو طیارے سے بھی چھوڑنا ممکن ہے۔

''بابر'' پاکستان ساختہ پہلا کروز میزائل ہے۔ یہ 2005ء میں تیار ہوا۔ یہ 1500 کلو وزنی میزائل 700 کلو میٹر دور تک جاسکتا ہے۔ اسے خاص طور پر بھارت کے میزائل شکن دفاعی نظام کو ناکارہ بنانے کی خاطر بنایا گیا۔بابر کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے تجربات جاری ہیں۔ ہمارے ماہرین اس کی حد مار 1000 کلو میٹر تک بڑھانا چاہتے ہیں۔ نیز بابر کے ایسے نمونے یا ورژن پر بھی کام جاری ہے جسے اگوسٹا آبدوز سے چھوڑا جاسکے۔ فی الوقت اسے زمین سے داغا جاتا ہے۔

''رعد'' ہمارے ماہرین کا ایجاد کردہ دوسرا کروز میزائل ہے۔ اسے طیارے سے چھوڑا جاتا ہے۔ 1100 کلو وزنی یہ کروز میزائل 350 کلو میٹر دور تک اپنا ٹارگٹ تباہ کرسکتا ہے۔ اگنی پنجم کے جواب میں پاکستان نے حال ہی میں اسی میزائل کا تجربہ کیا تھا۔ان مقامی ساختہ کروز میزائلوں کے علاوہ پاک افواج دیگر ممالک کے بنے میزائل بھی اپنے اسلحے خانے میں رکھتی ہیں۔ ان میں AS-30L(فرانس)، AGM-65 Maverick (امریکا)اورC-803 (چین)شامل ہیں۔

وطن عزیز کے ماہرین راہنما نظام رکھنے والے دو گلائڈ بم (Glide Bomb) بھی ایجاد کرچکے ہیں۔ H-4 SOW اور H-2 SOW نامی یہ بم طیارے سے چھوڑے جاتے ہیں۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، روایتی بموں کے برعکس یہ بم ہوا میں تیرتے ہوئے اپنے نشانے کی طرف بڑھتے ہیں۔

طیارہ شکن ''عنزہ'' میزائل بھی پاکستانی ماہرین کی محنت کا شاہکار ہے۔ پاک فوج کے جوانوں نے اسی میزائل سے 1999ء میں کارگل جنگ کے دوران دو بھارتی طیارے مارگرائے تھے۔یہ بھی چھوٹی قسم کا کروز میزائیل ہے۔

بھارتی اب تک دو کروز میزائل، شوریا اور براہموس اول تیار کرچکے جبکہ براہموس دوم اور نربھا پر کام جاری ہے۔ بھارتی روسیوں کے ساتھ مل کر براہموس کروز میزائل بنارہے ہیں۔ جبکہ شوریا ابھی تجربات سے گزر رہا ہے اور بھارتی افواج کے حوالے نہیں ہوا۔

https://img.express.pk/media/images/Pak-indo-missile11/Pak-indo-missile11.webp

تیز ترین بھارتی میزائیل

بھارت کے اسلحہ ساز ادارے، ڈرڈو (Defence Research and Development Organisation) کے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا میں تیز ترین کروز میزائل ''شوریا'' تیار کرچکے۔ 2011ء میں اس میزائل کا پہلا تجربہ انجام پایا تھا۔ اس میزائل کی رفتار 7.5 ماک(Mach ) بتائی جاتی ہے یعنی آواز کی رفتار (1236 کلو میٹر فی گھنٹہ) سے ساڑھے سات گنا زیادہ۔

یہ حقیقت ہے کہ انتہائی تیزی سے سفر کرتے دشمن کے میزائل کو روکنے کے لیے ہمارے پاس بھی تیز رفتار میزائل ہونے چاہیے۔ دشمن کے طیاروں، میزائلوں اور راکٹوں کو ہوا ہی میں تباہ کرنے کی خاطر پاک فوج نے S-75 Dvina (روس) اور RIM-66 Standerd (امریکا) میزائل خرید رکھے ہیں۔ یہ دونوں 3.5 ماک رفتار رکھتے ہیں۔

S-75 زمین سے چھوڑا جانے والا 2300 کلو وزنی میزائل ہے۔ یہ 45 کلو میٹر دور اڑتے میزائل یا طیارے کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ میزائل پاک فضائیہ کے زیر استعمال ہیں۔

RIM-66 بحری جہاز سے چھوڑا جانے والا 700 کلو وزنی میزائل ہے۔ یہ 74 سے 167 کلو میٹر دور اڑتے ہوائی جہاز، میزائل یا پانی پر تیرتے جہاز کو نشانہ بناسکتا ہے۔ پاک بحریہ کے جنگی جہازوں میں یہ میزائل نصب ہے۔

اگر دشمن7.5 یا زیادہ ماک کی رفتار سے سفر کرنے والا میزائل رکھتا ہے، تو یہ ضروری نہیں کہ ہم بھی اتنا ہی تیز رفتار میزائل بنا ڈالیں۔ دراصل دشمن کے حملہ آور طیاروں اور میزائلوں کو تباہ کرنے کی خاطر دفاعی اسلحے کی جگہ(پوزیشن) بہت اہمیت اختیار کرجاتی ہے۔

مثال کے طور پر فرض کیجیے کہ بھارت نے ایک شوریا میزائل لاہور کی سمت داغ دیا۔ اب پاکستان کے دفاع پر مامور میزائل بیٹریاں درست پوزیشن پر کھڑی ہیں، تو ان سے چھوڑا جانے والا محض 3 ماک رفتار والا چھوٹا میزائل بھی شوریا کی عین سیدھ میں سفر کرتے ہوئے اسے تباہ کرسکتا ہے۔مزید برآں ایک میزائل میں تیزی سے زیادہ بہ سرعت حملہ آور گولے یا میزائل کو غّچہ دینے کی صلاحیت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں