پُل ایک تعمیر کی تخریب کا قصہ
تاریکی سارا سارا دن ان گلیوں میں پڑی اینڈتی رہتی اور دھوپ نکڑوں پر آکر یوں رک جاتی تھی جیسے آگے جانے کی ممانعت ہو۔
چھوٹے چھوٹے کچے اور نیم پختہ مکانات تنگ گلیوں میں یوں آمنے سامنے کھڑے تھے، جیسے ایک دوسرے سے سرگوشیاں کررہے ہوں۔
تاریکی سارا سارا دن ان گلیوں میں پڑی اینڈتی رہتی اور دھوپ نکڑوں پر آکر یوں رک جاتی تھی جیسے آگے جانے کی ممانعت ہو۔ یہ گھر اور گلیاں ''ہوا کالونی'' کے نام سے جانے جاتے تھے۔ بستی کا یہ نام اس علاقے کی فرّاٹے بھرتی ہواؤں کے باعث پڑا تھا۔ شہر کی سرحد پر سمندر کے قریب بس آبادی کو بسے ہوئے ابھی دو عشرے ہی ہوئے تھے اور یہ قریب ہی واقع ایک فیکٹری کی دین تھی۔ ابتدا میں اس فیکٹری سے وابستہ کچھ مزدوروں نے جو دوردراز قصبوں اور دیہات سے آئے تھے، اس مقام پر جھونپڑیاں ڈال کر اس بستی کی بنیاد رکھی تھی، اور پھر یہ مختصر سی آبادی بستے بستے بستی کی شکل اختیار کرگئی۔ فیکٹری کب کی بند ہوچکی تھی اور اب ہوا کالونی کے مرد روزگار کے لیے میلوں دور واقع فیکٹریوں سے وابستہ ہوچکے تھے۔
ہوا کالونی کے باسیوں کے ساتھ ''ہندوستاں میں رہتے ہیں ہندوستاں سے دور'' والا معاملہ تھا۔ عورتوں کی دنیا تو خیر گھر اور پاس پڑوس تک محدود ہی تھی، مرد بھی اپنی دنیا میں مگن تھے۔ وہ اپنے اپنے کام سے واپس آنے کے بعد کھانا کھاتے ہی بستر کی طرف لپکتے۔ فرصت کے لمحات میں وہ گلی کے نکڑ پر بیٹھ کر گپیں لگاتے یا ڈبو، تاش اور لوڈو کھیل کر دل بہلاتے۔ مہینے کی پہلی اتوار یا مہینے کی کسی شروع کی تاریخ میں کوئی تعطیل آجاتی تو وہ اپنے گھر والوں کو لے کر کسی تفریح گاہ کا رخ کرتے۔ گویا ہوا کالونی سے آگے پورا شہر ان کے لیے پردیس تھا، جہاں وہ معاشی ضروریات کے تحت یا کبھی کبھی تفریح کے لیے جاتے اور واپس آکر اپنی دنیا میں مگن ہوجاتے۔
کالونی کی پہلی گلی میں ایک دروازہ چرچراہٹ کے ساتھ کھلا اور ایک تیس بتیس سال کا شخص فلمی گیت گنگناتا گھر میں داخل ہوا اور ''سلام علیکم اماں'' کا نعرہ لگاتے ہوئے اس نے خود کو چارپائی پر گرادیا۔
''آگیا'' بوڑھی عورت نے کمرے سے جھانک کر پتا نہیں آنے والے سے پوچھا یا خود کو اطلاع دی۔ پھر وہ ہائے اوئی کرتی جھلنگے پلنگ سے اٹھی اور تنومند جسم کو بہ مشکل سنبھالے چارپائی سے نصف گھرے صحن میں آکر پڑوس کی طرف منہ کر کے پھیپھڑوں کا پورا زور لگاکر پکاری:
''روشن ن ن ن!۔۔۔۔۔۔ گلو آگیا ہے''
''اچھا اماں'' کچی پکی دیوار کے اس طرف سے جواب آیا اور چند لمحوں بعد ہی جواب دینے والی خود چلی آئی۔ اس نے چارپائی پر غنودگی کی حالت میں آڑے ترچھے پڑے گلو کو پیار بھری نظروں سے دیکھا اور صحن کے کونے میں بنے باورچی خانے میں سما کر روٹیاں پکانے لگی۔
اس وقت ہوا کالونی کے تقریباً ہر گھر میں کوئی ایسا ہی منظر تھا۔ چرچراہٹ، کھٹ پٹ دھڑ بھڑ کی آوازوں کے ساتھ کھلتے بند ہوتے دروازے، چوڑیوں کی کھنکھناہٹ اور روٹی پکانے کی تھپتھاہٹ گھروندے سے گھروں میں رات کے سکوت سے نبردآزما تھیں۔
''آج بہت دیر ہوگئی'' روشن نے گلو کے سامنے کھانا رکھتے ہوئے کہا، جو منہ پر چھینٹا مارنے کے بعد اپنی قمیص کے دامن سے ہاتھ پونچھ رہا تھا۔
''ارے وہ پُل کے چکر میں ۔۔۔۔۔۔'' باقی کا جملہ وہ بڑے سے نوالے کے ساتھ نگل گیا۔
''پُل!'' ہوا کالونی کی حدود سے کبھی کبھار ہی نکلنے والی روشن کی آنکھوں میں حیرت تھی۔
''اپنے اسٹاپ سے وہ ہ ہ ہ آگے تک پُل بن رہا ہے ناں'' گلو نے ہاتھ پھیلا کر پل کی لمبائی ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ ''وہ جو دیوار ہے ناں، بنگلوں والی، اس کے ساتھ ساتھ بن رہا ہے، اس کی وجہ سے بس لمبا چکر کاٹ کر آتی ہے اور ٹریفک بھی جام ہوجاتا ہے۔'' دیوار سے گلو کا اشارہ ہوا کالونی کے بس اسٹاپ سے کچھ دور واقع امیر طبقے کی آبادی ''خواب نگر'' کی طرف تھا۔ چاردیواری میں چھپا یہ رہائشی منصوبہ چند سال قبل ہی مکمل ہوکر آباد ہوا تھا۔ ہواکالونی سے شہر کی طرف جانے والی واحد بس ''خواب نگر'' کی اونچی دیوار کے برابر سے گزرتی تھی۔
گلو نے کھانا کھاکر ڈکار لی اور باہر نکل گیا۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا گلی کے کونے پر پہنچا اور وہاں پڑے کوڑے کے ڈھیر کے پاس اکڑوں بیٹھ گیا۔ اس نے جیب سے سگریٹ اور ماچس نکالی سگریٹ سلگا کر دھواں اُڑانے لگا۔
''کیا حال ہے، بے گلو!'' پاس سے گزرتے ہوئے جان محمد نے رسمی انداز میں پوچھا۔
''بس، مزے میں'' گلو نے ایک زوردار کش لیتے ہوئے جواب دیا۔ سگریٹ ختم کرکے وہ گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔
پُل بننے تک گلو اور اس کی بستی کے دیگر مرد ایک ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر سے گھر پہنچ پارہے تھے۔ یہ پُل بیرون شہر سے آنے والی مال بردار گاڑیوں کے لیے بنایا جارہا تھا، جو خواب نگر سے قریب واقع گنجان آبادی اور ٹرکوں کے اڈے کی وجہ سے ٹریفک جام میں پھنس جاتی تھیں۔ اﷲ اﷲ کرکے پُل کی تعمیر مکمل ہوگئی۔
آج گلو اور اس کے ہم سفروں کو لے کر بس پہلی بار نوتعمیرشدہ پُل سے گزر رہی تھی۔ اس بس کے تمام مسافر ہوا کالونی کے باسی تھے۔ ان کا سفر صبح کے ساتھ شروع ہوتا تھا اور ٹوٹ جانے والی ادھوری نیند بس کے ہچکولوں میں پوری ہوتی تھی۔ مگر آج جب بس نے پُل پر چڑھنا شروع کیا تو ایک ان جانی فرحت کے ساتھ ان کی آنکھیں چوپٹ کُھل گئیں۔ گلو نے کھڑکی کے پار دیکھا۔ اترتی صبح کی سفیدی میں خواب نگر کسی خواب ہی کی طرح اس کے سامنے تھا، پُل کی اونچائی نے دیوار کی رکاوٹ دور کردی تھی۔ تازہ رنگ وروغن سے دمکتے کشادہ مکانات، ان کے آگے درختوں اور سلیقے سے کاٹی گئی گھاس کا آنکھوں کو لوریاں دیتا سبزہ، آنگنوں میں کھڑی رنگ برنگی چمکتی گاڑیاں، مکانوں کے درمیاں صاف ستھری سڑکیں، آبادی کے عین وسط میں وسیع وعریض، نیلے پیلے سرخ پھولوں سے مہکتا اور سرسبز درختوں سے لہکتا پارک، جس میں کچھ بوڑھے اور نوجوان لڑکے لڑکیاں دھیرے دھیرے دوڑ رہے تھے۔
حقیقت تھی یا طلسم کدہ، گلو اور اس کے ہم سفر اس منظر میں کھو سے گئے، مگر کچھ پل میں یہ منظر پُل کے ساتھ ہی ختم ہوگیا۔ اس وقت گلو کو احساس ہوا کہ یہ پُل لمبا نہیں بلکہ بہت چھوٹا ہے۔
''کیا مکان ہیں'' ساتھ بیٹھے رحمت نے خودکلامی کے انداز میں گلو سے کہا۔
''ہاں'' گلو کی سحرزدہ آواز آہ کی صورت میں نکلی۔
شام واپسی کے وقت پُل شروع ہوتے ہی بس کے مسافروں کی نظریں کھڑکیوں میں اٹکی تھیں۔ ملگجے اندھیرے میں وہ دل ربا منظر حسن کی نقاب اتار کر سکون کی چادر اوڑھ چکا تھا۔ مکانوں کے آگے اُگے سبزے پر پڑی کرسیوں پر بیٹھے مرد عورتیں، ان کے قریب کھیلتے بچے، دور پارک میں پھیلی دودھیا روشنی میں چہل قدمی کرتے اور سستاتے لوگ۔ درختوں کے پتوں سے پھسل کر سیاہ چکنی سڑک کو چمکاتی اسٹریٹ لائٹس کی روشنی۔ کس قدر خواب آگیں ماحول تھا۔ مسافروں نے جلدی جلدی اس پورے منظر کو اپنی نگاہوں میں سمیٹنا چاہا، مگر ناکام رہے۔ بس پُل سے نیچے اتر چکی تھی۔
''ہواکالونی والے'' کنڈیکٹر نے اسٹاپ کی طرف دیکھے بغیر آواز لگائی۔ وہ ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا نوٹ گننے میں مصروف تھا۔ مسافر خلاف معمول تیزی کے بجائے بڑی آہستگی سے نیچے اترے اور اپنے گھروں کی طرف روانہ ہوگئے۔
گلو اور اس کا پڑوسی قادر بخش آہستہ خرامی سے ٹمٹماتی روشنیوں کی طرف گام زن تھے۔ آج انھیں اپنی بستی کچھ زیادہ ہی اندھیری لگ رہی تھی۔
وہ اپنی گلی کے نکڑ پر پہنچے تو انھوں نے بے اختیار اپنی ناک پر ہاتھ رکھ لیے۔ کب سے پڑے کچرے کے ڈھیر سے آج بدبو اُٹھ رہی تھی۔
اب صبح شام پُل سے گزرتے ہوئے ہواکالونی کے باسی خواب نگر کا نظارہ ضرور کرتے۔ اس معمول کو کئی ماہ ہوچکے تھے، مگر ان کی نظر سیر نہیں ہوئی تھی۔ ہر کچھ عرصے بعد اس منظر میں کوئی دل کش اضافہ ہوجاتا، کبھی ٹینس کھلیتی شوخ وشنگ لڑکیاں، کبھی سڑک پر سائیکل چلاتے خوب صورت بچے اور کبھی کسی خوب صورت مکان میں داخل ہوتی کوئی بیش قیمت کار، ہر نظارہ اپنی جھلک دکھا کر زن سے گزرجاتا اور آنکھوں کو تشنہ چھوڑ جاتا۔
برسات میں جب ہوا کالونی کی گلیاں اور گھر جوہڑ بن گئے، خواب نگر کچھ اور طلسمی ہوگیا۔ مکان دھل کر نکھر گئے اور ان کے ارد گرد موجود سبزہ مزید لہلہا اٹھا۔ آدھی رات تک اپنے اپنے مکانوں سے پانی نکالنے کی مشقت سے نڈھال گلو اور اس کے دیگر ہم سفروں نے سوئی جاگی آنکھوں سے خواب نگر کو دیکھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے سارے مکان، سڑک، پیڑپودے سب گہری خمار آلود نیند میں ڈوبے ہوں۔ ایسی ہی نیند جیسی گلو کو تعطیل سے پہلے والی رات کوآتی تھی۔ بے فکرے پن سے بھرپور اور بے سدھ کردینے والی۔ پُل ختم ہونے کے بعد مسافروں نے سونا چاہا مگر وہ آنکھیں پٹپٹا کر رہ گئے۔
روشن کئی دنوں سے دیکھ رہی تھی کہ گلو خاصا چڑچڑا ہوگیا ہے۔ وہ بات بات پر کاٹنے کو دوڑنے لگا تھا۔ ابھی کل ہی کی بات ہے اس نے گلو سے بڑے پیار سے کہا تھا،''کمیٹی کُھلے گی تو میں نیا پردہ لے کر باہر والے دروازے پر ڈالوں گا، دیکھ پرانا والا کتنا پھٹ گیا ہے، گھر بُرا لگتا ہے۔''
گلو نے اسے خوں خوار نظروں سے دیکھا،''اوئے، یہ گھر ہے'' اس نے درودویوار پر غصیلی نظر ڈالتے ہوئے کہا اور ایک جھٹکے سے اٹھ کر باہر نکل گیا۔
روشن نے جب اپنی ہم سائی پروین کو گلو کے مزاج میں تبدیلی کے بارے میں بتایا تو وہ اپنے شوہر فرید کا رونا رونے بیٹھ گئی، وہ بھی پہلی سی خوش مزاجی چھوڑ کر بدمزاج ہوگیا تھا۔ روشن اور پروین ہی نہیں ہواکالونی کی تقریباً ہر عورت ہی اپنے شوہر، بیٹے، باپ اور بھائی کے بارے میں اسی قسم کی شکایتیں کرنے لگی تھی۔
وہ خود نہیں جانتے تھے کہ ان کے پُرسکون دلوں اور دماغوں میں یہ بے کلی اور برہمی سی کیوں گھر کرگئی ہے۔ غصہ اب گھروں کی چاردیواری سے نکل کر گلیوں میں آگیا تھا۔ گلو اور چند گھر چھوڑ کر رہنے والا فرید ایک ہفتے پہلے صرف اس بات پر آپس میں لڑ پڑے تھے کہ تنگ گلی سے تیزی کے ساتھ گزرتے فرید کا کندھا گلو کے بازو سے ٹکرا یا گیا تھا۔ پہلے گالیوں کا تبادلہ ہوا اور پھر ہاتھا پائی شروع ہوگئی۔ وہ تو محلے والوں نے بیچ بچاؤ کرادیا ورنہ ان میں سے ایک دوسرے کے ہاتھوں مارا جاتا۔ لیکن پچھلی گلی میں رہنے والے جان محمد اور سعید کا معرکہ ایسا زبردست تھا کہ محلے والے بھی سہم کر اپنے اپنے گھروں میں دبک گئے۔ یہ لڑائی شروع تو نہ جانے کس بات پر ہوئی تھی مگر اس کا خاتمہ سعید کے ہاتھوں میں آجانے والی اینٹ سے جان محمد کا سر لہولہان ہونے پر ہوا۔
جان محمد ایمبولینس آنے سے پہلے پہلے جان گنوا چکا تھا۔ پولیس والے آئے اور قریب ہی اپنے سالے کے مکان میں روپوش سعید کو بری طرح مارتے ہوئے لے گئے۔ یہ اس علاقے میں قتل اور پولیس کی مداخلت کا پہلا واقعہ تھا۔ پھر ہر کچھ روز بعد پولیس ہواکالونی میں نظر آنے لگی، کبھی کسی جھگڑے کے ملزمان کی گرفتاری کے لیے اور کبھی بجلی جانے پر بہ طور احتجاج شاہ راہ پر چلنے والی گاڑیوں پر پتھراؤ کرنے والوں کو سبق سکھانے کی خاطر۔
ہر دوسرے دن ہونے والی گرفتاریوں کے باعث جیل کی ''تربیت گاہ'' نے ہواکالونی کے کئی نوجوانوں کو راہ زن اور ڈکیت بنادیا ہے۔ ان کا آسان ہدف قریب ترین واقع پوش آبادی ہوتی ہے، جہاں ڈکیتی کی وارداتوں کے دوران تین افراد قتل ہوچکے ہیں۔
ہوا کالونی کے مسافر اب بھی پل پر سے گزرتے ہوئے خواب نگر پر نظر ڈالتے ہیں اور وہاں ہُو کا عالم دیکھ کر وہ آنکھیں موند لیتے ہیں۔
تاریکی سارا سارا دن ان گلیوں میں پڑی اینڈتی رہتی اور دھوپ نکڑوں پر آکر یوں رک جاتی تھی جیسے آگے جانے کی ممانعت ہو۔ یہ گھر اور گلیاں ''ہوا کالونی'' کے نام سے جانے جاتے تھے۔ بستی کا یہ نام اس علاقے کی فرّاٹے بھرتی ہواؤں کے باعث پڑا تھا۔ شہر کی سرحد پر سمندر کے قریب بس آبادی کو بسے ہوئے ابھی دو عشرے ہی ہوئے تھے اور یہ قریب ہی واقع ایک فیکٹری کی دین تھی۔ ابتدا میں اس فیکٹری سے وابستہ کچھ مزدوروں نے جو دوردراز قصبوں اور دیہات سے آئے تھے، اس مقام پر جھونپڑیاں ڈال کر اس بستی کی بنیاد رکھی تھی، اور پھر یہ مختصر سی آبادی بستے بستے بستی کی شکل اختیار کرگئی۔ فیکٹری کب کی بند ہوچکی تھی اور اب ہوا کالونی کے مرد روزگار کے لیے میلوں دور واقع فیکٹریوں سے وابستہ ہوچکے تھے۔
ہوا کالونی کے باسیوں کے ساتھ ''ہندوستاں میں رہتے ہیں ہندوستاں سے دور'' والا معاملہ تھا۔ عورتوں کی دنیا تو خیر گھر اور پاس پڑوس تک محدود ہی تھی، مرد بھی اپنی دنیا میں مگن تھے۔ وہ اپنے اپنے کام سے واپس آنے کے بعد کھانا کھاتے ہی بستر کی طرف لپکتے۔ فرصت کے لمحات میں وہ گلی کے نکڑ پر بیٹھ کر گپیں لگاتے یا ڈبو، تاش اور لوڈو کھیل کر دل بہلاتے۔ مہینے کی پہلی اتوار یا مہینے کی کسی شروع کی تاریخ میں کوئی تعطیل آجاتی تو وہ اپنے گھر والوں کو لے کر کسی تفریح گاہ کا رخ کرتے۔ گویا ہوا کالونی سے آگے پورا شہر ان کے لیے پردیس تھا، جہاں وہ معاشی ضروریات کے تحت یا کبھی کبھی تفریح کے لیے جاتے اور واپس آکر اپنی دنیا میں مگن ہوجاتے۔
کالونی کی پہلی گلی میں ایک دروازہ چرچراہٹ کے ساتھ کھلا اور ایک تیس بتیس سال کا شخص فلمی گیت گنگناتا گھر میں داخل ہوا اور ''سلام علیکم اماں'' کا نعرہ لگاتے ہوئے اس نے خود کو چارپائی پر گرادیا۔
''آگیا'' بوڑھی عورت نے کمرے سے جھانک کر پتا نہیں آنے والے سے پوچھا یا خود کو اطلاع دی۔ پھر وہ ہائے اوئی کرتی جھلنگے پلنگ سے اٹھی اور تنومند جسم کو بہ مشکل سنبھالے چارپائی سے نصف گھرے صحن میں آکر پڑوس کی طرف منہ کر کے پھیپھڑوں کا پورا زور لگاکر پکاری:
''روشن ن ن ن!۔۔۔۔۔۔ گلو آگیا ہے''
''اچھا اماں'' کچی پکی دیوار کے اس طرف سے جواب آیا اور چند لمحوں بعد ہی جواب دینے والی خود چلی آئی۔ اس نے چارپائی پر غنودگی کی حالت میں آڑے ترچھے پڑے گلو کو پیار بھری نظروں سے دیکھا اور صحن کے کونے میں بنے باورچی خانے میں سما کر روٹیاں پکانے لگی۔
اس وقت ہوا کالونی کے تقریباً ہر گھر میں کوئی ایسا ہی منظر تھا۔ چرچراہٹ، کھٹ پٹ دھڑ بھڑ کی آوازوں کے ساتھ کھلتے بند ہوتے دروازے، چوڑیوں کی کھنکھناہٹ اور روٹی پکانے کی تھپتھاہٹ گھروندے سے گھروں میں رات کے سکوت سے نبردآزما تھیں۔
''آج بہت دیر ہوگئی'' روشن نے گلو کے سامنے کھانا رکھتے ہوئے کہا، جو منہ پر چھینٹا مارنے کے بعد اپنی قمیص کے دامن سے ہاتھ پونچھ رہا تھا۔
''ارے وہ پُل کے چکر میں ۔۔۔۔۔۔'' باقی کا جملہ وہ بڑے سے نوالے کے ساتھ نگل گیا۔
''پُل!'' ہوا کالونی کی حدود سے کبھی کبھار ہی نکلنے والی روشن کی آنکھوں میں حیرت تھی۔
''اپنے اسٹاپ سے وہ ہ ہ ہ آگے تک پُل بن رہا ہے ناں'' گلو نے ہاتھ پھیلا کر پل کی لمبائی ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ ''وہ جو دیوار ہے ناں، بنگلوں والی، اس کے ساتھ ساتھ بن رہا ہے، اس کی وجہ سے بس لمبا چکر کاٹ کر آتی ہے اور ٹریفک بھی جام ہوجاتا ہے۔'' دیوار سے گلو کا اشارہ ہوا کالونی کے بس اسٹاپ سے کچھ دور واقع امیر طبقے کی آبادی ''خواب نگر'' کی طرف تھا۔ چاردیواری میں چھپا یہ رہائشی منصوبہ چند سال قبل ہی مکمل ہوکر آباد ہوا تھا۔ ہواکالونی سے شہر کی طرف جانے والی واحد بس ''خواب نگر'' کی اونچی دیوار کے برابر سے گزرتی تھی۔
گلو نے کھانا کھاکر ڈکار لی اور باہر نکل گیا۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا گلی کے کونے پر پہنچا اور وہاں پڑے کوڑے کے ڈھیر کے پاس اکڑوں بیٹھ گیا۔ اس نے جیب سے سگریٹ اور ماچس نکالی سگریٹ سلگا کر دھواں اُڑانے لگا۔
''کیا حال ہے، بے گلو!'' پاس سے گزرتے ہوئے جان محمد نے رسمی انداز میں پوچھا۔
''بس، مزے میں'' گلو نے ایک زوردار کش لیتے ہوئے جواب دیا۔ سگریٹ ختم کرکے وہ گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔
پُل بننے تک گلو اور اس کی بستی کے دیگر مرد ایک ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر سے گھر پہنچ پارہے تھے۔ یہ پُل بیرون شہر سے آنے والی مال بردار گاڑیوں کے لیے بنایا جارہا تھا، جو خواب نگر سے قریب واقع گنجان آبادی اور ٹرکوں کے اڈے کی وجہ سے ٹریفک جام میں پھنس جاتی تھیں۔ اﷲ اﷲ کرکے پُل کی تعمیر مکمل ہوگئی۔
آج گلو اور اس کے ہم سفروں کو لے کر بس پہلی بار نوتعمیرشدہ پُل سے گزر رہی تھی۔ اس بس کے تمام مسافر ہوا کالونی کے باسی تھے۔ ان کا سفر صبح کے ساتھ شروع ہوتا تھا اور ٹوٹ جانے والی ادھوری نیند بس کے ہچکولوں میں پوری ہوتی تھی۔ مگر آج جب بس نے پُل پر چڑھنا شروع کیا تو ایک ان جانی فرحت کے ساتھ ان کی آنکھیں چوپٹ کُھل گئیں۔ گلو نے کھڑکی کے پار دیکھا۔ اترتی صبح کی سفیدی میں خواب نگر کسی خواب ہی کی طرح اس کے سامنے تھا، پُل کی اونچائی نے دیوار کی رکاوٹ دور کردی تھی۔ تازہ رنگ وروغن سے دمکتے کشادہ مکانات، ان کے آگے درختوں اور سلیقے سے کاٹی گئی گھاس کا آنکھوں کو لوریاں دیتا سبزہ، آنگنوں میں کھڑی رنگ برنگی چمکتی گاڑیاں، مکانوں کے درمیاں صاف ستھری سڑکیں، آبادی کے عین وسط میں وسیع وعریض، نیلے پیلے سرخ پھولوں سے مہکتا اور سرسبز درختوں سے لہکتا پارک، جس میں کچھ بوڑھے اور نوجوان لڑکے لڑکیاں دھیرے دھیرے دوڑ رہے تھے۔
حقیقت تھی یا طلسم کدہ، گلو اور اس کے ہم سفر اس منظر میں کھو سے گئے، مگر کچھ پل میں یہ منظر پُل کے ساتھ ہی ختم ہوگیا۔ اس وقت گلو کو احساس ہوا کہ یہ پُل لمبا نہیں بلکہ بہت چھوٹا ہے۔
''کیا مکان ہیں'' ساتھ بیٹھے رحمت نے خودکلامی کے انداز میں گلو سے کہا۔
''ہاں'' گلو کی سحرزدہ آواز آہ کی صورت میں نکلی۔
شام واپسی کے وقت پُل شروع ہوتے ہی بس کے مسافروں کی نظریں کھڑکیوں میں اٹکی تھیں۔ ملگجے اندھیرے میں وہ دل ربا منظر حسن کی نقاب اتار کر سکون کی چادر اوڑھ چکا تھا۔ مکانوں کے آگے اُگے سبزے پر پڑی کرسیوں پر بیٹھے مرد عورتیں، ان کے قریب کھیلتے بچے، دور پارک میں پھیلی دودھیا روشنی میں چہل قدمی کرتے اور سستاتے لوگ۔ درختوں کے پتوں سے پھسل کر سیاہ چکنی سڑک کو چمکاتی اسٹریٹ لائٹس کی روشنی۔ کس قدر خواب آگیں ماحول تھا۔ مسافروں نے جلدی جلدی اس پورے منظر کو اپنی نگاہوں میں سمیٹنا چاہا، مگر ناکام رہے۔ بس پُل سے نیچے اتر چکی تھی۔
''ہواکالونی والے'' کنڈیکٹر نے اسٹاپ کی طرف دیکھے بغیر آواز لگائی۔ وہ ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا نوٹ گننے میں مصروف تھا۔ مسافر خلاف معمول تیزی کے بجائے بڑی آہستگی سے نیچے اترے اور اپنے گھروں کی طرف روانہ ہوگئے۔
گلو اور اس کا پڑوسی قادر بخش آہستہ خرامی سے ٹمٹماتی روشنیوں کی طرف گام زن تھے۔ آج انھیں اپنی بستی کچھ زیادہ ہی اندھیری لگ رہی تھی۔
وہ اپنی گلی کے نکڑ پر پہنچے تو انھوں نے بے اختیار اپنی ناک پر ہاتھ رکھ لیے۔ کب سے پڑے کچرے کے ڈھیر سے آج بدبو اُٹھ رہی تھی۔
اب صبح شام پُل سے گزرتے ہوئے ہواکالونی کے باسی خواب نگر کا نظارہ ضرور کرتے۔ اس معمول کو کئی ماہ ہوچکے تھے، مگر ان کی نظر سیر نہیں ہوئی تھی۔ ہر کچھ عرصے بعد اس منظر میں کوئی دل کش اضافہ ہوجاتا، کبھی ٹینس کھلیتی شوخ وشنگ لڑکیاں، کبھی سڑک پر سائیکل چلاتے خوب صورت بچے اور کبھی کسی خوب صورت مکان میں داخل ہوتی کوئی بیش قیمت کار، ہر نظارہ اپنی جھلک دکھا کر زن سے گزرجاتا اور آنکھوں کو تشنہ چھوڑ جاتا۔
برسات میں جب ہوا کالونی کی گلیاں اور گھر جوہڑ بن گئے، خواب نگر کچھ اور طلسمی ہوگیا۔ مکان دھل کر نکھر گئے اور ان کے ارد گرد موجود سبزہ مزید لہلہا اٹھا۔ آدھی رات تک اپنے اپنے مکانوں سے پانی نکالنے کی مشقت سے نڈھال گلو اور اس کے دیگر ہم سفروں نے سوئی جاگی آنکھوں سے خواب نگر کو دیکھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے سارے مکان، سڑک، پیڑپودے سب گہری خمار آلود نیند میں ڈوبے ہوں۔ ایسی ہی نیند جیسی گلو کو تعطیل سے پہلے والی رات کوآتی تھی۔ بے فکرے پن سے بھرپور اور بے سدھ کردینے والی۔ پُل ختم ہونے کے بعد مسافروں نے سونا چاہا مگر وہ آنکھیں پٹپٹا کر رہ گئے۔
روشن کئی دنوں سے دیکھ رہی تھی کہ گلو خاصا چڑچڑا ہوگیا ہے۔ وہ بات بات پر کاٹنے کو دوڑنے لگا تھا۔ ابھی کل ہی کی بات ہے اس نے گلو سے بڑے پیار سے کہا تھا،''کمیٹی کُھلے گی تو میں نیا پردہ لے کر باہر والے دروازے پر ڈالوں گا، دیکھ پرانا والا کتنا پھٹ گیا ہے، گھر بُرا لگتا ہے۔''
گلو نے اسے خوں خوار نظروں سے دیکھا،''اوئے، یہ گھر ہے'' اس نے درودویوار پر غصیلی نظر ڈالتے ہوئے کہا اور ایک جھٹکے سے اٹھ کر باہر نکل گیا۔
روشن نے جب اپنی ہم سائی پروین کو گلو کے مزاج میں تبدیلی کے بارے میں بتایا تو وہ اپنے شوہر فرید کا رونا رونے بیٹھ گئی، وہ بھی پہلی سی خوش مزاجی چھوڑ کر بدمزاج ہوگیا تھا۔ روشن اور پروین ہی نہیں ہواکالونی کی تقریباً ہر عورت ہی اپنے شوہر، بیٹے، باپ اور بھائی کے بارے میں اسی قسم کی شکایتیں کرنے لگی تھی۔
وہ خود نہیں جانتے تھے کہ ان کے پُرسکون دلوں اور دماغوں میں یہ بے کلی اور برہمی سی کیوں گھر کرگئی ہے۔ غصہ اب گھروں کی چاردیواری سے نکل کر گلیوں میں آگیا تھا۔ گلو اور چند گھر چھوڑ کر رہنے والا فرید ایک ہفتے پہلے صرف اس بات پر آپس میں لڑ پڑے تھے کہ تنگ گلی سے تیزی کے ساتھ گزرتے فرید کا کندھا گلو کے بازو سے ٹکرا یا گیا تھا۔ پہلے گالیوں کا تبادلہ ہوا اور پھر ہاتھا پائی شروع ہوگئی۔ وہ تو محلے والوں نے بیچ بچاؤ کرادیا ورنہ ان میں سے ایک دوسرے کے ہاتھوں مارا جاتا۔ لیکن پچھلی گلی میں رہنے والے جان محمد اور سعید کا معرکہ ایسا زبردست تھا کہ محلے والے بھی سہم کر اپنے اپنے گھروں میں دبک گئے۔ یہ لڑائی شروع تو نہ جانے کس بات پر ہوئی تھی مگر اس کا خاتمہ سعید کے ہاتھوں میں آجانے والی اینٹ سے جان محمد کا سر لہولہان ہونے پر ہوا۔
جان محمد ایمبولینس آنے سے پہلے پہلے جان گنوا چکا تھا۔ پولیس والے آئے اور قریب ہی اپنے سالے کے مکان میں روپوش سعید کو بری طرح مارتے ہوئے لے گئے۔ یہ اس علاقے میں قتل اور پولیس کی مداخلت کا پہلا واقعہ تھا۔ پھر ہر کچھ روز بعد پولیس ہواکالونی میں نظر آنے لگی، کبھی کسی جھگڑے کے ملزمان کی گرفتاری کے لیے اور کبھی بجلی جانے پر بہ طور احتجاج شاہ راہ پر چلنے والی گاڑیوں پر پتھراؤ کرنے والوں کو سبق سکھانے کی خاطر۔
ہر دوسرے دن ہونے والی گرفتاریوں کے باعث جیل کی ''تربیت گاہ'' نے ہواکالونی کے کئی نوجوانوں کو راہ زن اور ڈکیت بنادیا ہے۔ ان کا آسان ہدف قریب ترین واقع پوش آبادی ہوتی ہے، جہاں ڈکیتی کی وارداتوں کے دوران تین افراد قتل ہوچکے ہیں۔
ہوا کالونی کے مسافر اب بھی پل پر سے گزرتے ہوئے خواب نگر پر نظر ڈالتے ہیں اور وہاں ہُو کا عالم دیکھ کر وہ آنکھیں موند لیتے ہیں۔