ٹیکس دیں عوام ۔۔۔ شہرت کمائیں حکمران

جب کسی ادارے کو مشہورشخصیت سے وابستہ کیا جاتا ہے تو سب کو مسرت کا احساس ہوتا ہے۔

خزانہ قوم کی ملکیت ہے جسے ملک کی تعمیر و ترقی پر لگانا عوام پر احسان نہیں بلکہ حکمرانوں کا فرض ہے۔ فوٹو: فائل

ایسے سائن بورڈ یا ہورڈنگ تو سب کی نظروں سے گزرتے ہوں گے جن میں سڑکوں، ہسپتالوں، اسکولوں یا عوامی فلاحی اداروں کو قومی ہیروز یا نیک شخصیات سے منسوب کیا گیا ہوتا ہے، جیسے فاطمہ جناح روڈ ، علامہ اقبال میڈیکل کالج، عزیر بھٹی شہید روڈ، گنگا رام ہسپتال، باغ جناح وغیرہ۔

ان ناموں سے سب کو محبت اور عقیدت ہوتی ہے اسی لئے جب کسی ادارے کو ایسی شخصیت سے وابستہ کیا جاتا ہے تو سب کو مسرت کا احساس ہوتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی نیک یا نامور شخصیت جس علاقے یا محلے میں رہائش پذیر ہوتی ہے تو اس علاقے کے لوگ اس شخصیت سے محبت اور عقیدت کی وجہ سے گلی یا محلے کو اس کے نام سے منسوب کر دیتے ہیں یا سڑک کا نام خود بخود کسی نامور شخصیت کے نام سے مشہور ہو جاتا ہے کیونکہ دور و نزدیک سے لوگ جب اس شخصیت سے ملنے کے لئے آتے ہیں تو پتہ پوچھتے یا بتاتے ہوئے اس شخصیت کا حوالہ دیتے ہیں تو آہستہ آہستہ لوگ اس علاقے یا سڑک کا اصل نام بھول کر اس علاقے کو اس شخصیت کے نام سے پکارنے لگتے ہیں جیسے فصیح روڈ، فضل سٹریٹ وغیرہ۔ ان سڑکوں کے نام اس لئے ان شخصیات کے نام پر پڑے کیونکہ یہ دونوں شخصیات ان سڑکوں پر رہائش رکھے ہوئے تھیں، اسی طرح لاہور میں علامہ اقبال روڈ کا نام اس لئے مشہور ہوا کیونکہ اس سڑک پر علامہ اقبال کی رہائش تھی۔



بہت سے لوگ فلاحی ادارے بناتے ہیں تو وہ اس کا نام اپنے کسی بزرگ کے نام سے منسوب کر دیتے ہیں، انھیں اس کا حق بھی ہوتا ہے کیونکہ وہ اس ادارے کے قیام کے تمام اخراجات خود برداشت کرتے ہیں جیسے ثریا عظیم ہسپتال وغیرہ، ایسے ادارے ٹرسٹ کے طور پر کام کرتے ہیں جس سے عوام کو کم اخراجات میں بہتر سہولتیں میسر آتی ہیں۔ بہت سے مخیر حضرات کوئی ادارہ بنا کر حکومت کے سپرد کر دیتے ہیں یا حکومت کو کسی سرکاری ادارے کے لئے اراضی درکار ہوتی ہے تو کوئی فرد اس شرط پر مفت اراضی فراہم کر دیتا ہے کہ ادارے کا نام اس کے خاندان کے کسی بزرگ کے نام پر رکھا جائے گا، ایسے میں حکومت ادارے کا نام اس کی شرط کے مطابق رکھ دیتی ہے مگر ساتھ میں ''گورنمنٹ'' کا لاحقہ بھی لکھا جاتا ہے جیسے گورنمنٹ منشی خان ہسپتال وغیرہ۔



یہ تو اداروں یا سڑکوں وغیرہ کو ہیروز، نیک یا نامور شخصیات کے نام سے منسوب کرنے کے روایتی طریقے ہیں جن پر کسی کو اعتراض بھی نہیں مگر حکومت میں آنے والے عوامی نمائندے جو اقتدار کی مسند تک اس عہد کے ساتھ پہنچتے ہیں کہ عوام کی خدمت کریں گے مگر اقتدار میں آتے ہی حکمرانی کے نشے میں اس عہد کو بھول جاتے ہیں اور اداروں، سڑکوں یا پارکوں وغیرہ کو اپنے نام سے خود منسوب کرنے لگتے ہیں۔

جیسے مری کے ساتھ ہی ایوبیہ نیشنل پارک ہے جو جنرل ایوب خان کے دور میں بنا اس لئے اس کا نام انھی سے منسوب کر دیا گیا اور جنرل صاحب نے بھی اسے اپنا حق سمجھا، اسی طرح سابق صدر غلام اسحاق خان کے نام پر صوابی میں انجینئرنگ انسٹی ٹیوٹ قائم کیا گیا جو انھی کے صدارتی دور میں بنا، بینظیر ائر پورٹ اسلام آباد، بینظیر میڈیکل کالج میرپور، گورنمنٹ نواز شریف ہسپتال یکی گیٹ، نواز شریف میڈیکل کالج گجرات اور شاہراہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف سرگودھا یہ سب ایسی ہی مثالیں ہیں، یہ سب ادارے اس لئے ان شخصیات کے نام سے منسوب کئے گئے کہ وہ اقتدار میں رہے اور حکومتی خزانے سے بنائے گئے ان اداروں کو اپنے نام سے منسوب کر لیا یا کر دیا گیا۔



بعض اوقات ان حکمرانوں کو ایسے خوشامدی بڑی وافر تعداد میں میسر آ جاتے ہیں جو خود سے انھیں یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ فلاں سکول ، کالج یا ہسپتال کا نام ان کے نام پر رکھ دیا جائے، وہ صاحب تو پہلے ہی ایسے موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ کسی طرح سے ان کے نام کی شہرت ہو اور ان کو آئندہ بھی اقتدار میں آنے کا موقع ملے، اس لئے وہ فوراً حامی بھر لیتے ہیں، یوں خوشامدی ٹولے کی بھی بن آتی ہے اور وہ اسی بناء پر ان سے خوب ذاتی فوائد حاصل کرتا ہے۔ پہلے ایسے کم تھا مگر یہ وتیرہ اب عام ہو چکا ہے، اگر حکومتی گرانٹ سے تعمیر ہونے والے ادارے کا نام اپنے نام سے منسوب نہیں کر پاتے تو کم از کم گرانٹ کی تختی ضرور لگائی جاتی ہے جس میں جلی الفاظ میں ایم پی اے ، ایم این اے، وزیر، چیئر مین وغیرہ کے نام لکھے گئے ہوتے ہیں جبکہ سرکار کا ذکر بھی کسی حد تک کر دیا جاتا ہے وہ بھی بہ امر مجبوری، کیونکہ گرانٹ تو آخر کار حکومت نے ہی دی ہوتی ہے۔



یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ حکومت سے کیا مراد ہے ؟ عام طور پر لوگ حکومت سے مراد کسی پارٹی یا فرد کی حکومت لیتے ہیں حالانکہ حکومت سے مراد عوام ہیں جن کی وجہ سے ملک اور اس کے ادارے قائم و دائم ہیں، اور عوام نے ہی اپنے نمائندوں کو وہ حکومت سونپی ہوتی ہے کہ وہ ملک کا نظم و نسق چلائیں ، گویا یہ وزیر اعظم یا دیگر وزراء حکومت نہیں بلکہ ایک خاص وقت تک حکومت چلاتے ہیں اگر وہ نہ رہیں تو حکومتی نظم و نسق تو تب بھی چلتا رہتا ہے، اس لئے طے یہ ہوا کہ وزیر اعظم خود حکومت نہیں بلکہ حکومت کا ایک نمائندہ ہے اور اس کی حیثیت ایک سرکاری ملازم کی سی ہے، گو اس کے اختیارات زیادہ ہوتے ہیں ، مگر وہ ہر حال میں عوام کے سامنے جوابدہ ہے۔ اس طرح حکومت چونکہ عوام کی ہوتی ہے تو پھر گرانٹ بھی انھی کی ہوئی۔




سب سے اہم بات یہ ہے کہ آخر یہ سارا پیسہ بھی تو عوام ہی سے اکٹھا کیا جاتا ہے جو گرانٹوں کی شکل میں عوامی نمائندوں میں تقسیم کیا گیا ہوتا ہے اور اس سے سڑکیں، سکول، کالج ، ہسپتال یا دیگر ادارے تعمیر کئے جاتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق حکومتی خزانے کو بھرنے کے لئے عوام پر 70سے زائد ٹیکس لگائے گئے ہیں جو 37 سے زائد ادارے وصول کرنے کے مجاز ہیں ان میں جنرل سیلز ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، ٹیکس آن وہیکلز، تفریح ٹیکس، پٹرولیم ٹیکس، غیر ملکی اشیاء پر ڈیوٹی یعنی کسٹم، یوٹیلٹی بلوں میں ٹیکس، ویلتھ ٹیکس، رقوم کے تبادلے پر ٹیکس، پیدائش کے اندراج پر ٹیکس، اموات کے اندراج پر ٹیکس، پارکنگ ٹیکس، واش روم ٹیکس، ٹول ٹیکس، شاپ ٹیکس اور آفات ناگہانی کی صورت میں ٹیکس شامل ہیں۔ اس طرح ہر سال عوام کو اربوں روپے ٹیکس کی صورت میں دینا پڑتے ہیں۔



حالیہ بجٹ کا مجموعی حجم 4302 ارب روپے ہے جس میں سے 2225 ارب روپے عوام سے ٹیکسوں کی صورت میں وصول کئے جائیں گے جو سابقہ بجٹ سے سولہ فیصد زیادہ ہے، جبکہ باقی بجٹ مختلف اداروں سے ہونے والی آمدن اور قرضوں سے پورا کیا جائے گا ۔ ٹیکسوں پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں جنرل سیلز ٹیکس ایک ایسا ٹیکس ہے جس سے ہر شہری ، جسے دو وقت کی روٹی کے ہی لالے کیوں نہ پڑے ہوں وہ بھی متاثر ہو رہا ہے کیونکہ بازار میں فروخت ہونے والی ہر چیز پر اس کا نفاذ ہوتا ہے، اب روٹی کو ہی لے لیں، فلور ملز سے آنے والی آٹے کی ہر بوری پر جی ایس ٹی کی مد میں ٹیکس دیا جاتا ہے جو مل مالکان کبھی بھی اپنی جیب سے ادا نہیں کرتے بلکہ اسے بوری کی مجموعی قیمت میں جمع کر دیا جاتا ہے۔

حکومتی نمائندے یا سرکاری اہلکار جن کی ڈیوٹی ٹیکس جمع کرنے پر لگی ہوتی ہے کبھی بھی اس بات پر غور نہیں کرتے کہ مل مالکان ٹیکس کس صورت میں ادا کر رہے ہیں، انھیں تو بس اس بات سے غرض ہوتی ہے کہ حکومتی خزانے میں پیسے جمع ہونے چاہیئں کیونکہ یہی ان کی ڈیوٹی ہوتی ہے، اور وہ ارباب اختیار جنھیں عوام نے اقتدار سونپا ہوتا ہے انھیں بھی صرف اس بات کی ہی غرض ہوتی ہے کہ ملکی خزانے میں رقم جمع کی جائے تا کہ وہ نئے نئے منصوبے شروع کریں اور ان کی نیک نامی اور شہر ت میں اضافہ ہو۔



اس کے علاوہ انھی منصوبوں کی وجہ سے کرپٹ عوامی نمائندوں اور سرکاری اہلکاروں کو اپنی جیبیں بھرنے کا بھی موقع ملتا ہے۔ رواں سال بھی 839 ارب روپے ترقیاتی منصوبوں کے لئے مختص کئے گئے ہیں جبکہ ملک قرضوں، دہشت گردی ، بجلی کی لوڈشیڈنگ اور مہنگائی جیسے مسائل میں گردن تک ڈوبا ہوا ہے۔گویا پہلے ان مسائل کو حل کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے نہ کہ بڑے بجٹ کے منصوبے شروع کرنے کی ۔

اس میں دو رائے نہیں ہیں کہ ملک کی تعمیرو ترقی کے لئے ضرور کوشش کی جانی چاہیے ۔ مگر یہ سب عوامی نمائندے کے طور پر اپنا فرض سمجھ کر کیا جانا چاہیے نہ کہ عوامی خزانے کو اپنی مرضی سے نیک نامی اور شہرت کمانے کے لئے خرچ کیا جائے اور پھر عوام پر احسان بھی دھرا جائے کہ دیکھیں ہم نے اتنا بڑا کام کیا ہے یا انھیں نوکریاں فراہم کی ہیں ۔ کیا ضرورت ہے اگر حکومت کسی پروجیکٹ کا افتتاح کر رہی ہو تو اس کی تشہیر پر کروڑوں روپے خرچ کئے جائیں ، یہ کام سادگی سے بھی کیا جائے تو تب بھی کریڈٹ اسی عوامی نمائندے کو جائے گا جس کے دور میں یا حلقے میں اس پروجیکٹ کو شروع کیا ہوگا، مگر یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ اگر کسی بڑے پروجیکٹ کا افتتاح کرنا ہو تو ہفتوں پہلے ہی اس کے افتتاح کے اشتہارات میڈیا میں آنا شروع ہو جاتے ہیں۔



یوں عوام کی جیبوں سے نکالا گیا قیمتی خزانہ محض اپنی نمود و نمائش کے لئے خرچ کر دیا جاتا ہے جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ خزانے کو بھرنے کے لئے مزید رقوم درکار ہوتی ہیں ، اور بوجھ پھر عوام پر ہی ڈالا جاتا ہے ۔ جب پرو جیکٹ کا افتتاح کیا جاتا ہے تو تب بھی بہت بڑی تقریب منعقد کی جاتی ہے جس کی آڑ میں لاکھوں، کروڑوں روپے قومی خزانے سے نکلوائے جاتے ہیں اور بعض اوقات مہمان گرامی کو خبر تک نہیں ہوتی ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ایسے کسی منصوبے کا افتتاح حکومتی شخصیت خود کرنے کے بجائے اسی علاقے کی کسی علمی و ادبی یا نیک، رفاہ عامہ کے کام کرنے والی شخصیت سے سادگی سے کرائے اور افتتاحی تختی پر صرف گرانٹ کا تخمینہ، تاریخ اور حکومت کا حوالہ درج ہو کسی ایم پی اے، ایم این اے یا وزیر وغیرہ کا کوئی ذکر نہ کیا جائے۔

اس افتتاحی تختی سے بھی حکومت کی ہی کارکردگی ظاہر ہو گی ۔ اگر کوئی ایم پی اے، ایم این اے یا وزیر اپنی مدد آپ کے تحت علاقے میں کوئی ادارہ قائم کرے تو پھر اسے بالکل حق حاصل ہے کہ وہ اسے اپنے نام سے منسوب کرے یا وہ عوام کی بے لوث خدمت کرتا رہے پھر یہ عوام کی مرضی ہے کہ وہ کسی علاقے یا ادارے کا نام خود سے اس کے نام سے منسوب کر دیں۔
Load Next Story