پانی کے بحران سے میں تو بچ جاؤں گا

ہم ایک جمہوری ملک کے جمہوری حکمران ہیں ہم جمہوریت کی یہ خلاف ورزی کیسے کر سکتے ہیں


Abdul Qadir Hassan February 22, 2015
[email protected]

KARACHI: بات یہ ہے کہ نہ حالات حاضرہ بدلتے ہیں نہ ہماری سوچ بدلتی ہے۔ ہر روز اخباروں کا ایک پلندہ وصول ہوتا ہے اور اسے پڑھنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے لیکن حالات حاضرہ جوں کے توں ہی رہتے ہیں جو کل تھے وہی آج ہیں اور ان پر ہمارا رونا دھونا بھی حسب سابق۔ اب ایک اور بحران کا اعلان کیا جا رہا ہے کہ بجلی گیس وغیرہ کے بحران کے بعد پانی کا خوفناک بحران بھی آنے والا ہے۔ ہمارے حکمران بڑے اللہ والے ہیں جو کہتے ہیں وہی ہوتا ہے اس لیے اب پانی کے بحران کے لیے تیار رہئے۔

کسی بھی چیز کے بغیر کسی نہ کسی حد تک گزر بسر ہو سکتی ہے لیکن پانی کے بغیر زندگی ناممکن ہے لیکن میں تو ایک بارانی علاقے کا رہنے والا ہوں جہاں سب سے قیمتی چیز پانی ہوا کرتا ہے اور اس کا بحران مستقل رہتا ہے۔ اسے جس کنجوسی سے استعمال کیا جاتا ہے وہ میں الفاظ میں شاید بیان نہ کر سکوں۔ پانی کے قطرے قطرے کے حساب کا منظر یاد آتا ہیں۔ میری مرحومہ والدہ میرے اصرار پر ایک دفعہ لاہور آئیں اور جب انھوں نے باورچی خانے میں پانی کی ٹونٹی دیکھی کہ اسے کھولیں تو اس میں سے پانی کی تیز اور موٹی دھار نکلتی ہے تو وہ حیرت کے مارے دم بھر کے لیے ہوش حواس کھو بیٹھیں کہ کیا یہ بھی کہیں ممکن ہے۔

پھر میں نے ان کو غسل خانے اور دوسری جگہوں پر پانی کی ٹوٹیاں دکھائیں اور گھر سے باہر لان میں سبزے کو سیراب کرنے کے لیے بڑی ٹونٹی تو وہ انکار تو نہ کر سکیں مگر اپنے آپ کو اس کا یقین نہ دلا سکیں اور گاؤں جا کر اپنی ملنے والیوں کو یہ سب بتاتی رہیں اور انھیں حیران کرتی رہیں اس لیے میرے لیے پانی کا بحران کوئی بڑی بات نہیں کہ میں تو پانی کا پیدائشی بحرانی ہوں۔

بارش ہوتی ہے تو فصل چلتی ہے اور بارش پر ہی زندہ رہتی ہے تاآنکہ وہ پک کر کھلیان سے ہوتی ہوئی چکی تک پہنچ جاتی ہے اور پھر توے تک اور کاشتکار کے پیٹ کے اندر جا کر اس کی بھوک مٹاتی ہوئی اسی بھوک کو مٹانے کے لیے اس نے زمین کا سینہ چیرا اور اپنے دست محنت کا پھل پایا لیکن یہ سب کچھ بارش کا محتاج کہ اس کی زمین آبپاش نہیں بارانی ہے یعنی بارشی۔ پاکستان کی برکت سے ہماری خشک بارانی زمینوں کی آبپاشی کے دوسرے ذریعے بھی نکل آئے۔

ہمارا علاقہ پہاڑی ہے وہاں نہر نہیں جاتی لیکن ہم نے اپنے دستی ہل کی طرح ایک بار پھر زمین کا سینہ چاک کیا ہمیں ایسے اوزار اور آلات مل گئے کہ ہم جو پانی کے لیے کنوئیں کھودتے تھے اب سیکڑوں فٹ گہرے ٹیوب ویل کھودنے لگے اور ان پر بجلی کی موٹر لگا کر زمین کی تہہ سے پانی اوپر لا کر زمینوں کو سیراب کرنے لگے۔ دنیا بھی بدل گئی اور ٹریکٹر نے بیلوں کی مدد سے چلنے والے ہل ایک پرانے تاریخی آلات بن گئے' اب شاید ہی گاؤں کے کسی گھر میں کوئی ہل پڑا ہو اور کچھ بعید نہیں کہ اسے بھی اپنی مشقت کی یاد گار سمجھ کر ضایع کر دیا جائے۔

بجلی جب بھی ملے کاشتکار تیار بیٹھا ہے دن ہو یا رات وہ خدا کی اس نعمت کے استقبال کے لیے تیار ہے اور صد شکر کے ساتھ تو جناب ہم گاؤں والوں نے تو پانی کے بحران کا حل کسی سرکاری بحران سے پہلے ہی تلاش کر لیا ہے یوں شاید ہم اپنے شہری بھائیوں سے زیادہ دور اندیش ہیں۔ ہم پاکستانیوں کا دست محنت اور دست ہنر جس نے عربوں کے صحراؤں کو گل و گلزار بنا دیا اپنے وطن کو نہ جانے کیا کچھ بنا دینا چاہتے ہیں حکومت ان کی مدد نہ بھی کرے لیکن ان کی راہ میں کرپشن کی رکاوٹیں کھڑی نہ کرے۔ بہر حال یہ تو دیہاتی زندگی کی بات ہے جہاں پانی کا بحران کسی حد تک بے اثر ہو سکتا ہے لیکن شہروں کی زندگی تو وافر پانی سے چلتی ہے اور ہمارے وسیع و عریض کھیت نہروں کے پانی کے محتاج ہیں۔

نہریں جو دریاؤں سے نکلتی ہیں اور ان دنوں اپنی ان نہروں کو خطرہ ہے کہ بھارت نے ہمارے پانی بند کرنے اور کم کرنے شروع کر دیے ہیں یعنی ہمارا ہوشیار اور سرگرم دشمن ہمیں پیاسا مارنا چاہتا ہے مگر ہم اس کے خلاف صرف اخباری قسم کی بات کرتے ہیں اسے روکتے نہیں ہیں۔ اخباروں میں بھارتی آبی جارحیت کے بارے میں ہر روز کچھ نہ کچھ چھپ رہا ہے لیکن یہ کاغذی احتجاج ہے اور اس میں بھی کتنی جان ہے اس کا اندازہ آپ اپنے حکمرانوں کی اس بات سے لگائیں کہ ان کے بقول پاکستانیوں نے انھیں اتنے ڈھیر سارے دیے ہی ووٹ بھارت کے ساتھ دوستی کے لیے تھے۔ اب اگر وہ بھارت سے دوستی نہ کریں بلکہ الٹا اسے ناراض کریں تو یہ عوامی مینڈیٹ کی توہین ہو گی۔

ہم ایک جمہوری ملک کے جمہوری حکمران ہیں ہم جمہوریت کی یہ خلاف ورزی کیسے کر سکتے ہیں خواہ ہمارا لاہور کا دریائے راوی بھی خشک ہی کیوں نہ ہو جائے جو بڑی حد تک ہو بھی چکا ہے۔ ہم اس کے پلوں سے آتے جاتے اسے ہر روز دیکھتے ہیں۔ پطرس بخاری کے بقول راوی اپنے مغل بادشاہوں کی یاد میں ہوکے بھرا کرتا ہے جو اس دریا کے عاشق تھے اور اس کے قُرب و جوار میں زندگی بسر کرتے تھے۔

قلعے اور محل تعمیر کرتے تھے اور ان میں عشق و عاشقی والی زندگی بسر کرتے تھے ان کے درباروں میں انارکلیاں رقص کرتی تھیں اور شہزادوں کے عشق میں جان دے دیتی تھیں اور سزا میں دیواروں میں زندہ چن دی جاتی تھیں یہی راوی دریا تھا جن کے کناروں کے قریب مغلوں نے شاہانہ زندگی کی اور پھر اسی کے کناروں کے قریب گم بھی ہو گئے اور ان کے مقبرے ان کی یاد دلانے کے لیے باقی رہ گئے۔

ایک راوی ہی نہیں دوسرے کئی دریا بھی نیم خشک ہوتے جا رہے ہیں یا کیے جا رہے ہیں۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ دریائے چناب تخت ہزارے کے رانجھے اور سیالوں کی ہیر کی داستان عشق والا دریا بھی بس کچھ دنوں کا مہمان ہو سکتا ہے۔ ایوب خان کے ساتھ معاہدے میں تین دریا تو پہلے ہی بھارت کو دے دیے۔ دوسرے دریاؤں پر بھارت بند باندھ رہا ہے اور ان کا پانی اپنی طرف کر رہا ہے۔

دریاؤں میں پانی کے سوا اور ہوتا ہی کیا ہے سوائے ان کے سر سبز رومانوی کناروں کے یہ بھیانک صورت حال میں تو برداشت نہیں کر سکتا اس سے ناراض ہو کر کسی بھی دن اہل لاہور کے ساتھ عمر بھر کا ساتھ توڑ کر گاوں کا رخ کروں گا جہاں ٹیوب ویل چل رہے ہیں 'زمین سر سبز ہے اور گرد و پیش کے پہاڑوں پر سبزہ لہرا رہا ہے۔ قدرتی سبزے کی آغوش میں آنکھ کھولی اور اسی میں آ کر بند ہو جائے تو کیا ہرج ہے تا کہ پانی کے بحران سے بچ جاؤں جس کا اہل لاہور کو ان کے ہم شہر 'مژدہ' سنا رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |