ذرا نم ہو تو…
یہ تو ہمارے علم میں پہلے سے تھا کہ گزشتہ دس برس میں اس یونیورسٹی نے ہر شعبے میں غیر معمولی ترقی کی ہے۔
حقیقت، افسانے سے زیادہ دلچسپ کیسے ہو سکتی ہے۔ اس کا ایک عملی مظاہرہ 19 فروری کی دوپہر ایک ظہرانے کے دوران اس وقت دیکھنے میں آیا جب وائس چانسلر سرگودھا یونیورسٹی برادرم ڈاکٹر اکرم چوہدری نے بتایا کہ وہ ہم تینوں مہمانوں یعنی ڈاکٹر خورشید رضوی، انور مسعود اور مجھے یونیورسٹی کی کامیابیوں کے بارے میں بریفنگ دینا چاہتے ہیں۔ یہ تو ہمارے علم میں پہلے سے تھا کہ گزشتہ دس برس میں اس یونیورسٹی نے ہر شعبے میں غیر معمولی ترقی کی ہے۔
آٹھ برسوں میں طلبہ و طالبات کی تعداد ساڑھے پانچ ہزار سے انتیس ہزار ہو گئی ہے بلکہ اس وقت اس کے نو سو کے لگ بھگ اساتذہ میں سے 280 پی ایچ ڈی اور ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ایم فل کی ڈگریوں کے حامل ہیں۔ آج تک یہاں ہڑتال نہیں ہوئی اور یہ کہ امتحانات کے نتائج ہر صورت میں تین ماہ کے اندر اندر مرتب اور مشتہر کر دیے جاتے ہیںلیکن جن باتوں نے ہمیں مبہوت کر کے رکھ دیا وہ یہ تھیں کہ یونیورسٹی کے شعبہ زراعت کے تحت کینو، آلو، گاجر، گنے اور گندم کی پیداوار میں شاندار پیشرفت ہوئی ہے کہ زرعی شعبے میں انقلاب آ جائے گا کہ فی الوقت یہاں بغیر بیج والا کینو، آٹھ فٹ اونچائی کا حامل گنا، تین گنا زیادہ میٹھی اور زیرو شوگر کی حامل گاجر، صحت کے لیے انتہائی مفید اور بے ضرر آلو اور موجودہ فی ایکڑ حاصل کردہ گندم سے دگنی فصل کے کامیاب تجربات نہ صرف ہو چکے ہیں بلکہ یونیورسٹی ان سے باقاعدہ اس قدر کمائی بھی کر رہی ہے کہ اب اس کے بیشتر منصوبے خود کفالت کے تحت آگے بڑھ رہے ہیں۔
اسی طرح میڈیسن کے شعبے میں یونیورسٹی نے بغیر کسی سرکاری گرانٹ کے کروڑوں کی مشینری درآمد کی ہے جس کی مدد سے ادویہ سازی کے بیشتر مراحل اس کی لیبارٹریوں میں ہی انجام پاتے ہیں۔اس لنچ آمیز بریفنگ کا موقع یوں نکلا کہ معروف تعلیمی ادارے ILM کی مقامی شاخ کے وائس چیئرمین چوہدری لیاقت وڑائچ اور کالج ہذا کے پرنسپل محبوب احمد نے 17 دسمبر 2014ء کو ایک محفل مشاعرہ کے حوالے سے ہم تینوں کو مدعو کیا تھا لیکن 16 دسمبر کے سانحہ پشاور کی وجہ سے اس تقریب کو ملتوی کر دیا گیا۔ 18 فروری کی یہ تقریب دراصل اسی ملتوی شدہ مشاعرے کی ایک شکل تھی ۔
جس میں رابطے کے فرائض حسین احمد پراچہ صاحب نے ادا کیے تھے اور یہ انھی کا آئیڈیا تھا کہ ہم تینوں اگلے روز سرگودھا یونیورسٹی کے اپنے اپنے متعلقہ شعبوں میں ایک عدد لیکچر بھی دیں جس کے بعد وی سی صاحب کا لنچ نوشِ جان کر کے گھروں کو روانہ ہوں۔ سو اب کچھ ذکر اس مشاعرے کا بھی ہو جائے۔ جو اس سفر کا اصل محرک تھا۔ طے پایا کہ میں برادرم خورشید رضوی کو لے کر لاہور سے چلوں گا اور انور مسعود کم و بیش اسی وقت اسلام آباد سے روانہ ہوں گے کہ سرگودھا دونوں شہروں کے تقریباً درمیان میں پڑتا ہے۔
انور مسعود کی طبیعت فلو کی وجہ سے سخت ناساز تھی مگر اس کے باوجود وہ اپنی وضع داری کے ہاتھوں مجبور ہو کر مع ہماری بھابی یعنی اپنی بیگم کے پہنچ گئے، یہ اور بات ہے کہ مشاعرے میں انھوں نے نسبتاً بہت کم کلام سنایا اور وہ بھی بہت دقت اور شدید کھانسی کے ساتھ۔ خورشید رضوی صاحب کو ان کے شاگرد عزیز ڈاکٹر حسین پراچہ اپنے گھر لے گئے جب کہ میرے، بیگم و انور مسعود، زاہد فخری اور سلمان گیلانی کے قیام کا انتظام چوہدری لیاقت وڑائچ کی رہائش گاہ پر تھا ۔مشاعرہ شاعری کے معیار اور سامعین کی مقدار، دونوں اعتبار سے بہت عمدہ اور شاندار تھا۔ ہر چیز نک سک سے درست اور جاذب نظر تھی۔
معلوم ہوا کہ اس کا سارا کریڈٹ وائس پرنسپل محترمہ راشدہ کو جاتا ہے جو ہمارے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ آرٹ اور ڈیزائن کی تعلیم یافتہ تھیں اور عزیزی احمد بلال کی کلاس فیلو اور برادرم شاہنواز زیدی کی شاگرد رہی ہیں۔ مقامی شعرا میں سے یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے استاد طارق حبیب، بزرگ شاعر مولوی اسلم اور پنجابی کے شاعر اور یونیورسٹی ریڈیو چینل کی محبوب آواز برادرم قاسم نے زیادہ متاثر کیا۔ ناشتے میں صاحب خانہ نے ہماری فرمائش پر مکئی اور باجرے کے پراٹھوں اور ساگ کا خصوصی اہتمام کر رکھا تھا جو بے حد لذیذ اور ناسٹیلجیا آمیز تھا کہ اب ہم شہروں میں رہنے والوں کو اس طرح کے کھانے صرف بزرگوں کی باتوں اور لوک کہانیوں میں ہی دستیاب ہوتے ہیں۔ادبی عتبار سے بھی سرگودھا کی سرزمین بڑی مردم خیز رہی ہے۔
اردو ادب کے ایک عظیم اور تاریخ ساز نام احمد ندیم قاسمی اور معروف شاعر، نقاد اور مدیر اوراق ڈاکٹر وزیر آغا کا آبائی تعلق بھی اسی کے نواح سے تھا۔ ماضی قریب کے اہم نام شکیب جلالی، رام ریاض، غلام جیلانی اصغر اور جوہر نظامی بھی اسی کی زلف گرہ کے اسیر تھے جب کہ ڈاکٹر خورشید رضوی، ریاض احمد شاد اور ڈاکٹر انور سدید نے بھی بسلسلہ ملازمت کافی عرصہ اسی کی ہوا میں سانس لیا۔
قیام پاکستان کے وقت یہ ایک چھوٹا مگر امکانات سے بھر پور شہر تھا جو 65ء کی جنگ کے حوالے سے شاہینوں کا شہر بھی کہلایا لیکن اس کے بعد یہ خاصے عرصے تک اگر گمنام نہیں تو اپنی سطح کے دوسرے شہروں کی نسبت کم نام ضرور رہا لیکن موٹروے کی تعمیر کے بعد نہ صرف کئی شہروں سے اس کا فاصلہ کم ہوا ہے بلکہ زراعت اور انڈسٹری دونوں حوالوں سے اس کی اہمیت، پھیلاؤ اور رونق میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
پی اے ایف اسکول کے قریب سے گزرتے ہوئے دھیان بار بار عزیز دوست ریٹائرڈ ایئر وائس مارشل ساجد حبیب کی طرف گیا جو آج کل یہاں پرنسپل ہیں مگر اس روز کسی سرکاری مصروفیت کی وجہ سے اسلام آباد میں تھے۔سرگودھا یونیورسٹی چند برس قبل تک گورنمنٹ ڈگری کالج ہوا کرتی تھی۔ اگرچہ HEC اور ڈاکٹر عطاء الرحمن کی کوششوں سے ملک بھر میں کئی بڑے کالجوں کو یونیورسٹی کا درجہ ملا ہے لیکن میری ذاتی رائے میں جس قدر ترقی سرگودھا یونیورسٹی نے کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر اکرم چوہدری کا اپنا مضمون تو عربی ہے مگر ان کے دور میں اس یونیورسٹی نے سائنس کے مختلف شعبوں میں جو شاندار پیش رفت کی ہے وہ اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ کارکردگی کا تعلق صرف محنت لگن اور صلاحیت سے ہوتا ہے باقی سب باتیں اضافی ہیں۔