شکست درشکستاب کیا ہوگا
پاکستان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ ورلڈ کپ ابھی ابتدائی مرحلے میں موجود ہے اس لیے فی الحال تو کچھ نہیں کہا جاسکتا
روایتی حریف بھارت کے ہاتھوں پہلے ہی مقابلے میں شکست نے پاکستان کے کھلاڑیوں کی نفسیات پر کتنا گہرا اثر مرتب کیا، اس کا اندازہ ویسٹ انڈیز کے خلاف میچ سے ہوگیا ہے۔ ایک ایسے میچ میں کہ جہاں پاکستان کو جیت کی سخت ضرورت تھی، اتنی ہی بدترین کارکردگی دکھائی گئی اور ٹیم عالمی کپ تاریخ کی بدترین شکست سے دوچار ہوئی۔
مسائل وہی جانے پہچانے اور پرانے، گیند باز وکٹیں لینے کے اہل نہیں، فیلڈر کیچ پکڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور بلے باز رنز کرنے کا گْر نہیں جانتے۔ اس کے مقابلے میں ویسٹ انڈیز نے بہترین کھیل پیش کیا، جس کی جتنی داد دی جائے کم ہے۔ بدقسمتی سے ہم پاکستان کی شکست میں حریف کی کارکردگی کو سراہنا بھول جاتے ہیں۔ ویسٹ انڈیز نے ان تمام غلطیوں کا ازالہ کیا، جو اس سے آئرلینڈ کے خلاف مقابلے میں ہوئی تھیں۔ مجموعے کو ایک بار پھر 300 سے اوپر لے کر انھوں نے اپنی بیٹنگ اہلیت تو ثابت کی ہی لیکن کل باؤلنگ میں انھوں نے پاکستان کی کمزوری کا پورا پورا فائدہ اٹھایا اور اپنے امکانات دوبارہ زندہ کردیے۔
سب سے پہلے تو پاکستان کو سمجھنا ہوگا کہ کرکٹ ''آج'' کا کھیل ہے، آپ نے ''کل'' جو کر دکھایا تھا، اس کی سوائے ریکارڈ بک کے کوئی جگہ نہیں۔ بھارت اور ویسٹ انڈیز کے خلاف شکست کو بھی قصہ پارینہ سمجھیں اور 23 سال پہلے 1992ء کے عالمی کپ میں ابتدائی شکستوں کے پاکستان کے سنبھلنے کی خوش فہمیوں سے بھی دامن چھڑائیں۔ اب حالات تبدیل، ورلڈ کپ فارمیٹ بدلا ہوا اور 1992ء کے مقابلے میں کرکٹ کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے 60ء کی دہائی میں ہاکی پر پاکستان اور بھارت کا راج تھا، لیکن آج ان دونوں کا دور دور تک پتہ نہیں۔ اسی طرح کرکٹ بھی کافی حد تک بدل چکی ہے اور پاکستان کو جدید طور کے تقاضوں کے مطابق کھیلنا ہوگا۔
پاکستان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ ورلڈ کپ ابھی ابتدائی مرحلے میں موجود ہے اس لیے فی الحال تو کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کون کوارٹر فائنل مرحلے تک رسائی حاصل کرے گا لیکن آئرلینڈ کی اپ سیٹ فتح اور اب پاکستان کی ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں شکست نے ''گروپ آف ڈیتھ'' یعنی پول 'بی' مزید خطرناک بنا دیا ہے۔ جنوبی افریقہ جس کارکردگی کا مظاہرہ کرتا آ رہا ہے، اس سے لگتا تو یہی ہے کہ وہ گروپ میں سرفہرست مقام حاصل کرے گا اور اتوار کو بھارت کے خلاف اس کا مقابلہ ممکنہ طور پر گروپ کی سرفہرست پوزیشن کا اعلان کرے گا۔ دونوں ٹیموں نے عالمی کپ میں آغاز بہترین انداز میں کیا ہے اور آیندہ مقابلوں میں بھی کوئی ان کو شکست دیتا نہیں نظر آتا یعنی دونوں کی کوارٹر فائنل نشست اس وقت تو یقینی دکھائی دیتی ہے، الا یہ کہ کچھ بہت بڑے اپ سیٹس ہوجائیں۔
اب گروپ میں صرف دو مقام بچیں گے کہ یعنی باقی 5 میں سے صرف دو ٹیمیں ہی کوارٹر فائنل میں پہنچیں گی۔ عالمی درجہ بندی دیکھیں تو پاکستان اور ویسٹ انڈیز کو پہنچنا چاہیے لیکن آئرلینڈ اور زمبابوے نے اپنے کھیل سے بہت متاثر کیا ہے۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف آئرلینڈ کی جیت نے گروپ کے توازن کو بگاڑ دیا ہے اور اب اگر آئرلینڈ نے ایک اور اپ سیٹ کردیا تو پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے لیے سخت مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زمبابوے اور آئرلینڈ کے مقابلے کو بھی خاص اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔ اس وقت آئرلینڈ اور زمبابوے دونوں کے دو، دو پوائنٹس ہیں اور وہ آیندہ مقابلوں میں دو فتوحات حاصل کرکے اپنے امکانات روشن کرسکتے ہیں۔ آئرلینڈ آیندہ مقابلوں میں متحدہ عرب امارات کو شکست دے سکتا ہے۔ البتہ پاکستان اور زمبابوے کے خلاف اس کے مقابلے بہت اہمیت کے حامل ہوں گے، جہاں جیتنے کی صورت میں اس کے پوائنٹس کی تعداد بھی 6 ہوسکتی ہے۔ زمبابوے نے جنوبی افریقہ کے خلاف پہلے مقابلے میں جم کر کھیل پیش کیا، پھر متحدہ عرب امارات کو سخت مقابلے میں شکست دی اور اب دو پوائنٹس کے ساتھ پوائنٹس ٹیبل پر موجود ہے۔ بھارت، آئرلینڈ، ویسٹ انڈیز اور پاکستان کے خلاف اس کے مقابلے ابھی باقی ہیں جن میں سے دو بھی جیت گیا تو گروپ پھنس جائے گا۔
متحدہ عرب امارات سے فی الحال کوئی توقع نہیں ہے کہ وہ کوئی اپ سیٹ کرے گا، لیکن کرکٹ میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس لیے اگر پاکستان، آئرلینڈ یا ویسٹ انڈیز کسی بھی ٹیم کو عرب امارات سے شکست ہوئی تو سمجھیں اس کے امکانات ختم ہوجائیں گے۔
پاکستان کو یہ صورتحال درپیش ہے کہ اگر وہ باآسانی اگلے مرحلے تک پہنچنا چاہتا ہے تو اسے اپنے چاروں میچز جیتنے پڑیں گے، یعنی جنوبی افریقہ کو بھی ہرانا ہوگا۔ اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہا تو اسے متحدہ عرب امارات، زمبابوے اور آئرلینڈ کو شکست دینے کے ساتھ دیگر نتائج کا انتظار بھی کرنا پڑے گا یعنی وہی 1992ء والی صورتحال۔
تو دل تھام کر رکھیں، پاکستان ابھی ورلڈ کپ سے باہر نہیں ہوا، حوصلے ضرور ٹوٹے ہیں، ڈریسنگ روم کا ماحول بھی بہت اداس ہوگا اور امیدیں بھی بہت کم دکھائی دے رہی ہیں۔ لیکن ابھی اپنے غصے کی لگامیں تھامیں رکھیں، پاکستان کے اب بھی آگے جانے کے امکانات اتنے ہی ہیں جتنے کہ ورلڈ کپ 1992ء میں تھے۔