تیسرا فتنہ
دنیا میں جمہوریت کا بول بالا کرنا امریکا کا ’’فرض‘‘ اور مہلک ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت اس کا ’’پیشہ‘‘ ہے
ISLAMABAD:
فرانس کے ہفت روزہ میگزین ''چارلی ہیبڈو''کے ٹائٹل پر توہین آمیز خاکوں کی اشاعت پر جذباتی رد عمل کے اظہار کے بعد اشتعال کے بجائے سنجیدگی،جوش کے بجائے ہوش اور حماقت کے بجائے زکاوت سے کام لے کر اس مسلسل اشتعال انگیزی کا گہری نظر سے جائزہ لینے کی جتنی آج ضرورت ہے وہ پہلے کبھی نہیں تھی پہلے پس منظر پر ایک طائرانہ نظر ۔
جس طرح آج پاکستان کا پس ماندہ شمال مغربی علاقہ وزیرستان (امریکی فرمائشی پروگرام میں شرکت کے سبب) دہشت گردوں کی جنت بنا ہوا ہے، ہوبہو اسی طرح آج کا ترقی یافتہ، تہذیب یافتہ، اخلاق باختہ مغربی یورپ ماضی میں براعظم یورپ کا وزیرستان رہ چکا ہے مثلاً یہ علاقہ بین الاقوامی قبضہ مافیا (یعنی نوآبادیاتی نظام کے بانیوں فرانس، ہالینڈ، برطانیہ وغیرہ) کا گڑھ پاپائیت (یعنی جنت کے پروانے جاری کرنیوالوں) اورصلیبی جنگوں کے شیدائیوں (فرانس، جرمنی، ہالینڈ، بیلجیم،اسپین وغیرہ) مرکز، فسطائیت اورنسل پرستوں (ہٹلر،مسولینی،نپولین کا مادر وطن اور دوعالمی جنگوں کا میدان جنگ رہ چکا ہے۔
اس کے علاوہ افریقی باشندوں کو اغوا کرکے غلاموں کی تجارت کرنیوالے، ہندوستان پر''لڑاؤ اورحکومت کرو'' کے ذریعے قبضہ کرنیوالے لارنس آف عربیا کے ذریعے عرب قوم پرستی کو ہوا دے کر خلافت عثمانیہ کا شیرازہ بکھیرنے والے، عرب دنیا کو اسرائیلی ریاست کا تحفہ دینے والے چین کو افیون پلاکر سلانے والے سب کے سب یورپی وزیرستان سے تعلق رکھتے تھے۔سوال یہ ہے کہ ماضی کے Ph-Dلیول کے دہشت گرد نسلی (ہولوکاسٹ) مذہبی (پاپائیت) تعصبات سے متوجہ ہوکر یہودیوں کی زندگی عذاب جینا حرام اورموت آسان کرنے والے جن کے دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ آج یہودیوںکی پشت پناہی کررہے ہیں اور ان کے ناز و نخرے برداشت کررہے ہیں تو بالآخر کیوں؟
تاریخ گواہ ہے کہ صحرائے سینائے میں 20 سال تک بھٹکنے والی، دربدر ٹھوکریں کھانیوالی یہودی قوم کو حضرت عمرؓ کے دور حکومت میں پہلی مرتبہ بیت المقدس میں داخلے کی اجازت ملی بلکہ ان کو بسایا بھی گیا۔ اس کے علاوہ بنی اسرائیل کا واحد ترقی اورخوش حالی کا، امن و سکون کا طویل سنہری دور اسپین میں بنو امیہ کے مسلم حکومت کے زیرسایہ گزرا۔
حالات حاضرہ کے مطابق مٹھی بھر یہودی اقلیت کا اکلوتی سپر پاور امریکی اکثریت پر مکمل غلبہ ہے کیسے؟ عوام کے ذہنوں اورطاقت کے سر چشموں پر قبضہ کرکے اور بے تحاشا دولت کماکر عوام کے ذہنوں پر قبضہ کرنے کے لیے تحریری، برقی ذرایع ابلاغ اور شوبز، ہر غلبہ حاصل کرتے ہیں اور طاقت کے سر چشموں (پینٹا گون، وائٹ ہاؤس، ٹریڈ منسٹرز) قبضہ کے لیے اعلیٰ ترین تعلیمی قابلیت پیشہ ورانہ عبادت اور سفارت کارانہ صلاحیت استعمال کرتے ہیں۔
مافیاز کی سرپرستی، تجارتی و صنعتی اداروں پر تسلط اور تحقیق و ایجادات پر دسترس سے بے تحاشا دولت کماتے ہیں۔قابل غور نکتہ یہ ہے کہ چارلی ہیبڈو کے دفتر میں دہشت گردی کے خلاف پیرس کی سڑکوں پر جو مارچ ہوا تھا وہ احتجاجی مارچ ہر گز نہیں تھا بلکہ یکجہتی مارچ تھا جس میں پیرس کے ہزاروں مسلمان باشندے اور تقریباً آدھے درجن مسلم سربراہان مملکت شامل تھے، سوال یہ ہے کہ آزادیٔ اظہار کی بد معاشی سے کام لے کر اس کو صرف احتجاجی مارچ کیوں ظاہر کیا گیا؟ کیا اس طرح کے یہ تاثر پھیلانا مقصد نہیں تھا کہ مسلمان دہشت گردی کی مخالفت کے ساتھ ساتھ توہین آمیز خاکوں کے معاملے میں بھی اتنے سنجیدہ نہیں ہیں۔
اگر یکجہتی مارچ میں شریک روشن خیال عیسائی برادری بھی اپنے مسلمان بھائیوں سے یکجہتی کی خاطر ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی دل آزاری کا خیال کرتے ہوئے، چند بینر توہین آمیز خاکوں کی مذمت کے بھی شامل کرلیتے توکیا چارلی ہیبڈو کی یہ جرأت ہوتی کہ دوبارہ 60 ہزار چھپنے والے میگزین کی 30 لاکھ کاپیاں چھپواکر ساری دنیا میں پھیلاتا؟یاد رہے کہ یہ قابل اعتراض خاکے پہلی مرتبہ ستمبر 2005 میں ڈنمارک کے رسالے جیلن پوسٹن میں شایع ہوئے تھے اس کے بعد بڑے منظم انداز میں وقفے وقفے سے منصوبے کے تحت شایع ہورہے ہیں ۔
ماضی میں غازی علم الدین نے بھی شاتم رسول راج پال کو قتل کردیا تھا لیکن کسی مسلمان کو معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی مفکر اسلام علامہ اقبال نے فرمایا تھا ''جو کام ہم نہ کرسکے وہ ایک ترکھان کے بیٹے نے کر دکھایا'' جس کے مقدمے میں قائد اعظم جیسی کٹر اصول پسند شخصیت نے دلچسپی لی۔کیوں؟ اس نے دہشت پھیلانے کے لیے نہیں بلکہ دشمن اسلام کو قتل کیا تھا اس لیے بیک وقت غازی کا اور ناموس رسالت پر اپنی جان قربان کردی تھی اس لیے شہادت کا رتبہ پایا اور غازی علم الدین شہید کہلایا۔
توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کا تسلسل اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ پچھلے دو فتنوں کی کامیاب تکمیل کے بعد یہ تیسرا فتنہ مشتعل عالم اسلام کا ''ہانکا'' کرکے شکارگاہ کی طرف لے جانے کا کام کرے گا۔ پہلے پچھلے دو فتنوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
فتنہ اول: اقوام عالم میں مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لیے انتہائی معصومانہ انداز میں ان پر بنیاد پرست کا لیبل چسپاں کیا گیا۔ پھر یہ بنیاد پرست شدت پسندی سے ہوتے ہوئے انتہا پسند کہلانے لگے۔ انتہا پسندی سے عسکریت پسندی میں ڈھل گئے۔ اس کے بعد دھڑلے سے دہشت گرد کہلانے لگے۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ آج اگر کسی مغربی ملک میں دہشت گردی کی واردات ہوتی ہے اور جائے واردات پر اگر کوئی قسمت کا مارا معصوم مسلمان پایا جاتا ہے جس کی داڑھی بھی ہے تو وہ بلا سوچے سمجھے، بلا تخصیص و تفتیش، بغیر کسی اصول قاعدے کے مجرم سمجھ لیا جائے گا۔
فتنہ دوم: عالم اسلام میں دو بڑے فرقے (شیعہ سنی) اپنے فروعی اختلافات کے ساتھ لڑنے مرنے پر آمادہ پہلے سے موجود تھے۔ بس ذرا ان کے درمیان تعصب کا زہر گھولنے، اکثریت کے غلبے کا خوف پیدا کرنے اور ہاتھوں میں اسلحہ تھمانے کی دیر تھی۔ یہ سوچنے اور تحقیق کرنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی جاتی کہ کوئی تیسرا (جو دونوں کا دشمن ہو) تو نہیں ہے؟
فتنہ سوم: آزادی رائے کی بدمعاشی کے تحت توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کا تسلسل، تاکہ عالم اسلام میں اشتعال پھیلے اور وہ زچ آجائیں۔ یہ سلسلہ 2005 سے ڈنمارک کے اخبار میں اشتعال انگیز توہین آمیز خاکوں کی پہلی بار اشاعت سے شروع ہوا جواباً پہلے اپنی ہی املاک نذرآتش کرتے تھے اب چرچ بھی جلانے لگے ہیں۔سوال یہ ہے کہ مغربی دنیا کیا مقصد حاصل کرنا چاہتی ہے؟ امکانی مقاصد درج ذیل ہیں:
A۔صلیبی جنگوں کا احیاء۔B۔قیامت سے پہلے دنیا پر یہودی حکمرانی کی آخری جنگ۔C۔تہذیبوں کا تصادم
A:صلیبی جنگوں کا شیدائی کیتھولک فرقہ دبئی سٹی تک محدود ہوگیا ہے اور مغربی یورپ صدیوں کی خانہ جنگی، صلیبی جنگوں کے علاوہ دو عالمی جنگوں کو بھگتانے کے بعد یورپی یونین کے جھنڈے تلے متحد ہوگیا ہے اپنی پارلیمنٹ اور کرنسی تک ایک کرچکے ہیں۔ اب ان کی خواہش ہے کہ اگر عالمی جنگ چھڑے تو میدان جنگ براعظم ایشیا بنے۔ ویسے بھی بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ نہیں ہے پھرصلیبی جنگوں کا فائدہ؟ B۔یہودی عقیدے کیمطابق خونی چاند گہن (پورے چاند گہن) کے تسلسل کے نتیجے میں(قرب قیامت) اسرائیل کے لیے کسی بڑی جنگ کا آغاز ہوگا۔
جس کے نتیجے میں دنیا پر یہودیوں کی حکمرانی قائم ہوگی۔ جس کے عیسائی بھی قائل ہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں حضرت عیسیٰؑ کا دوبارہ نزول اجلال ہو گا۔ یہی وجہ ہے آج عیسائی دنیا اسرائیلیوں کی ناز برداریوں میں مصروف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کروڑوں سال سے نظام شمسی کی گردش کے نتیجے میں اپنے مقررہ وقت پرچاند گہن (بشمول خونی چاند گہن) ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔قیامت کی علامتیں اوربشارتیں اپنی جگہ لیکن دنیا پر یہودیوں کی حکمرانی کے لیے ہونے والی جنگ کا آغاز اللہ کی طرف ہونا لازمی ہے ،اگر دنیا پر حکمرانی کی جلدی میں یہ جنگ یہودی اورعیسائی ملکر چھیڑ دیتے ہیں تو نتیجتاً تباہی بھی ہوسکتی ہے۔
C۔تہذیبوں کے تصادم کے امکانات کو یکسر رد نہیں کیا جاسکتا وجوہات درج ذیل ہیں۔
1۔دنیا میں جمہوریت کا بول بالا کرنا امریکا کا ''فرض'' اور مہلک ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت اس کا ''پیشہ'' ہے اور عالم اسلام (57مسلم ممالک) کے بے تحاشا قدرتی وسائل اس کی ''ضرورت''۔2۔معاشی برتری کا توازن مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہوچکا ہے۔ مغرب سے مشرق کی طرف بڑی تیزی سے ''سرمایہ'' کا فرار جاری ہے۔3۔ BRICS (برازیل، روس، انڈیا، چائنا، ساؤتھ افریقہ) مستقبل کے معاشی سپرپاور کے پانچ ممالک میں سے تین کا تعلق ایشیا سے ہے۔ ایک کا جنوبی امریکا اورایک کاافریقہ سے ہے۔ شمالی امریکا اور پورے یورپ سے ایک بھی نہیں۔
آج مہلک ہتھیاروں کے بیوپاری اشتعال پھیلاکر عالم اسلام میں بڑی جنگوں کا جمعہ بازار لگانا چاہتے ہیں لیکن ان احمقوں کو یہ پتہ نہیں ہے کہ کیا کالایا گورا،کیا عربی یا عجمی،کیا ہندی یا ترکی، توہین رسالت پر یہ صرف مشتعل ہی نہیں ہوتے بلکہ دشمنان اسلام کے خلاف کندھے سے کندھا ملاکر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنکرکھڑے بھی ہو جاتے ہیں۔