جسم مثالی اور ذاتی تجربہ
ماسکو اسٹیٹ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ تمام جاندار چیزیں دراصل نورانی ہوتی ہیں۔
RAWALPINDI:
ماسکو اسٹیٹ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ تمام جاندار چیزیں دراصل نورانی ہوتی ہیں۔ ڈپارٹمنٹ آف سوائل بائیولوجی نے مختلف زندہ اور جاندار چیزوں کی چھان بین کرکے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ہر زندہ چیز میں مختلف درجے کی نورانیت (Hemoluminisence) پائی جاتی ہے اور اب عکس کو بڑا کرکے دکھانے والے آلے (فوٹو ایمپلی فائر) کے ذریعے سائنسدان یہ دیکھ سکتے ہیں کہ کسی زندہ چیز میں کتنی نورانیت پائی جاتی ہے۔
یہاں تک کہ پودوں کی جڑیں اور ٹہنیاں بھی نورانیت سے محروم نہیں ہوتیں۔ آرے گاسانوف اور وی اے ویسلووکی نے گیہوں اور جو کی مختلف قسموں کو تاریک کمرے میں رکھ کر انھیں ایک خاص درجے کی گرمی پہنچائی تو مختلف درجے کی روشنیاں چمکنے لگیں۔ ماسکو یونیورسٹی کے شعبہ زرعی تحقیقات نے یہ بھی دریافت کیا ہے کہ حیوانوں کے جسم میں بھی نور کی تہیں اور روشنی کے پرت پائے جاتے ہیں اور اس کا تعلق عمل تنفس اور تکسید (Oxidation) سے ہے۔ اس ایک انکشاف سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ جو سانس کی مشقوں پر اتنا زور دیا جاتا ہے اس کا سبب کیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ منظم طریقے پر سانس کی مشقیں کرتے ہیں ان کے جسم کا ہالہ نور اور تابناک و درخشاں ہوجاتا ہے۔ یہ جو اندھا، بہرا، گونگا اور دق زدہ شخص سڑک کے کنارے بیٹھا بھیک مانگ رہا ہے، جس کے گرد کتے بھونک رہے ہیں، چہرے پر مکھیاں بھنبھنا رہی ہیں، منہ سے رال بہہ رہی ہے، آپ نے اسے دیکھا، آگے بڑھیے، اس کا ہاتھ پکڑیے اور کہیے کہ اے سڑک پر کتے بلی کی طرح زندگی بسر کرنے والے اپاہج شخص، تہرا جسم کتنا ہی کمزور اور بیکار کیوں نہ سہی، تیرے اندر کا انسان ایسی عظیم، لافانی، امر، اٹل اور حیرت انگیز قوت کا مالک ہے کہ تو اسی اندرونی قوت کا اگر دسواں حصہ بھی اپنے استعمال میں لے آئے تو پوری کائنات کو فتح کرسکتا ہے۔
خلا میں ہزاروں میل رفتار سے چکر لگانے والا خلاباز ہو یا کراچی کی سڑکوں پر دھکے کھانے والا گداگر، یہ دونوں قدرت کے عظیم شاہکار ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک شخص نے اپنی قوت کو پہچان لیا اور دوسرا اپنی عظمت سے بے خبر ہے۔ دنیا کا ہر انسان، انسان برتر ہے، ہر عورت کامل عورت ہے، ہر مرد کامل مرد، ضرورت صرف یہ ہے کہ ہم اپنے عجائبات سے واقف ہوجائیں۔ ہم جس ہالۂ نور کا ذکر کررہے تھے اس کو تصوف اور علوم باطنی کی اصطلاح میں ''جسم مثالی'' یا ''پیکر نورانی'' کہتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ جسم مثالی انسان کے خاکی جسم سے واضح طور پر الگ ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں ہم ایک کالم ''جسم مثالی کی پرواز'' کے نام سے بھی لکھ چکے ہیں جس میں اس نورانی پیکر پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی تھی۔
اس بات کا اعتراف کرنے میں حرج نہیں کہ ناچیز جب پندرہ سولہ کے سن میں تھا تو تواتر سے ہپناٹزم، ٹیلی پتھی اور دیگر مخفی علوم سے متعلقہ مشقیں کرنے کے خبط میں مبتلا تھا۔ اس دور میں سانس کی مشقوں کے ساتھ نقطہ بینی، شمع بینی اور ماہ بینی کی مشقیں بھی جاری تھیں۔ لیکن چونکہ رہنمائی صرف کتابوں کی حد تک حاصل تھی اور کوئی استاد میسر نہ تھا اس لیے فوائد کے ساتھ کچھ نقصانات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
یہی وجہ ہے کہ ہم بار بار مشقوں کے سلسلے میں کسی ماہر استاد اور رہنما کی موجودگی پر زور دیتے ہیں۔ بہرحال بات ہورہی تھی اپنی ذاتی مشقوں کی۔ اس دور میں نگاہوں میں اتنی قوت پیدا ہوچلی تھی کہ تمام اجسام چاہے وہ زندہ ہوں یا بے جان، کے گرد موجود نورانی ہالہ برہنہ آنکھوں سے نظر آنے لگا تھا، بعض اوقات یہ نورانی ہالہ اس قدر واضح نظر آتا تھا کہ اس ہالے میں موجود مختلف رنگ تیرتے ہوئے نظر آتے تھے۔ اس دور میں کچھ ایسے واقعات بھی پیش آئے جس نے اندرونی طور پر انتہائی خوفزدہ بھی کردیا، ایسے ہی واقعات میں جسم مثالی کا خود سے الگ ہونا بھی شامل ہے۔
دوران مشق ایک رات سوتے ہوئے عجیب واقعہ پیش آیا، یہ بھی واضح کردوں کہ کم سنی کی ناپختگی کے باعث اس واقعے کو ہم نے محض خواب سمجھا تھا، لیکن بعد کے واقعات سے علم ہوا کہ یہ ہمارے جسم مثالی کی ان چاہی پرواز تھی۔ رات کے آخری پہر جب نیند اپنے عروج پر تھی، اچانک جاگ جانے کا احساس ہوا، احساس اس لیے کیونکہ جاگ جانے کے باوجود آنکھیں بند تھیں اور جسم ایسا محسوس ہوتا تھا کسی نے جکڑ لیا ہے، باوجود کوشش کے کوئی جنبش نہیں تھی، دل پر دباؤ محسوس ہورہا تھا اور ایسا لگتا تھا جیسے دم گھٹ رہا ہو، لیکن اس گھبراہٹ زدہ کیفیت کے باوجود جسم ہلنے سے قاصر تھا۔
اچانک محسوس ہوا جیسے میں خود میں موجود نہیں ہوں بلکہ پلنگ کے سائیڈ میں کھڑا اپنے جسم کو دیکھ رہا ہوں۔ جی ہاں یہ حقیقت ہے۔ میں پلنگ کے پاس کھڑا خود کو دیکھ رہا تھا، کمرے میں نیم تاریکی تھی لیکن تمام چیزیں واضح نظر آرہی تھیں، میں بنا آئینے کے اپنا مکمل جائزہ لے رہا تھا، جسم بے سدھ تھا لیکن چہرے کے عضلات تنے ہوئے تھے جیسے اندرونی کشمکش میں مبتلا ہوں۔ میں نے اپنے جسم سے نگاہیں ہٹالیں اور گھوم کر کمرے کا جائزہ لیتے ہوئے باہر نکل آیا، صحن میں کوئی نہیں تھا، ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا لیکن حیرت کی بات، رات کے اس سمے میں بھی ہر چیز بالکل واضح اور روشن دکھائی دے رہی تھی (یعنی جسم مثالی کے لیے اندھیرا حیثیت نہیں رکھتا، اندھیرے کی رکاوٹ صرف ہماری ظاہری نگاہ کے لیے ہے)۔ میں ایک ایک کرکے گھر کے مختلف حصوں اور کمروں میں گھومتا رہا، گھر کے تمام لوگ اپنے بستروں میں محو خواب تھے۔
کچھ دیر چکر لگانے کے بعد میں واپس اپنے کمرے میں آگیا۔ میرا جسم اب تک بے سدھ پڑا تھا، جیسے ہی میں پلنگ کے پاس پہنچا میرے جسم کو ایک برقی جھٹکا سا لگا اور مجھے ایسا لگا جیسے میں بلندی سے گر رہا ہوں، میں نے خود کو سنبھالنے کے اپنے بدن کو اوپر کی جانب اچھالا اور اس کوشش میں میری آنکھ کھل گئی اور میں جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔ دم گھٹنے کا احساس اب تک قائم تھا اور جسم پسینے میں شرابور۔ اچانک والدہ اور بھائی گھبرائے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے۔ مجھے بالکل احساس نہیں ہوا تھا جاگنے کے دوران میرے حلق سے چیخ بھی نکلی تھی اور وہ لوگ میری آواز سن کر آئے تھے۔
والدہ سمجھیں کہ میں کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ کر چیخا ہوں، انھوں نے مجھے گلے لگا کر دم کیا اور سونے کی تاکید کرکے چلی گئیں۔ اس واقعے کو میں نے ابتدا میں محض خواب ہی سمجھا تھا لیکن بعد ازاں متواتر ایسے واقعات پیش آئے جن کا تعلق سراسر میری مشقوں سے تھا تو حقیقت سمجھ میں آنے لگی۔ اس واقعے کی خاص بات یہ تھی کہ جسم مثالی کے الگ ہونے کے بعد دماغی طور پر حاضر تھا اور سب کچھ سوچ اور سمجھ سکتا تھا، نہ صرف یہ بلکہ شعوری طور پر جاگنے کے بعد بھی ذہن میں یہ سب یادیں قائم تھیں۔
نوٹ:۔گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں
www.facebook .com/shayan.tamseel
ماسکو اسٹیٹ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ تمام جاندار چیزیں دراصل نورانی ہوتی ہیں۔ ڈپارٹمنٹ آف سوائل بائیولوجی نے مختلف زندہ اور جاندار چیزوں کی چھان بین کرکے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ہر زندہ چیز میں مختلف درجے کی نورانیت (Hemoluminisence) پائی جاتی ہے اور اب عکس کو بڑا کرکے دکھانے والے آلے (فوٹو ایمپلی فائر) کے ذریعے سائنسدان یہ دیکھ سکتے ہیں کہ کسی زندہ چیز میں کتنی نورانیت پائی جاتی ہے۔
یہاں تک کہ پودوں کی جڑیں اور ٹہنیاں بھی نورانیت سے محروم نہیں ہوتیں۔ آرے گاسانوف اور وی اے ویسلووکی نے گیہوں اور جو کی مختلف قسموں کو تاریک کمرے میں رکھ کر انھیں ایک خاص درجے کی گرمی پہنچائی تو مختلف درجے کی روشنیاں چمکنے لگیں۔ ماسکو یونیورسٹی کے شعبہ زرعی تحقیقات نے یہ بھی دریافت کیا ہے کہ حیوانوں کے جسم میں بھی نور کی تہیں اور روشنی کے پرت پائے جاتے ہیں اور اس کا تعلق عمل تنفس اور تکسید (Oxidation) سے ہے۔ اس ایک انکشاف سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ جو سانس کی مشقوں پر اتنا زور دیا جاتا ہے اس کا سبب کیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ منظم طریقے پر سانس کی مشقیں کرتے ہیں ان کے جسم کا ہالہ نور اور تابناک و درخشاں ہوجاتا ہے۔ یہ جو اندھا، بہرا، گونگا اور دق زدہ شخص سڑک کے کنارے بیٹھا بھیک مانگ رہا ہے، جس کے گرد کتے بھونک رہے ہیں، چہرے پر مکھیاں بھنبھنا رہی ہیں، منہ سے رال بہہ رہی ہے، آپ نے اسے دیکھا، آگے بڑھیے، اس کا ہاتھ پکڑیے اور کہیے کہ اے سڑک پر کتے بلی کی طرح زندگی بسر کرنے والے اپاہج شخص، تہرا جسم کتنا ہی کمزور اور بیکار کیوں نہ سہی، تیرے اندر کا انسان ایسی عظیم، لافانی، امر، اٹل اور حیرت انگیز قوت کا مالک ہے کہ تو اسی اندرونی قوت کا اگر دسواں حصہ بھی اپنے استعمال میں لے آئے تو پوری کائنات کو فتح کرسکتا ہے۔
خلا میں ہزاروں میل رفتار سے چکر لگانے والا خلاباز ہو یا کراچی کی سڑکوں پر دھکے کھانے والا گداگر، یہ دونوں قدرت کے عظیم شاہکار ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک شخص نے اپنی قوت کو پہچان لیا اور دوسرا اپنی عظمت سے بے خبر ہے۔ دنیا کا ہر انسان، انسان برتر ہے، ہر عورت کامل عورت ہے، ہر مرد کامل مرد، ضرورت صرف یہ ہے کہ ہم اپنے عجائبات سے واقف ہوجائیں۔ ہم جس ہالۂ نور کا ذکر کررہے تھے اس کو تصوف اور علوم باطنی کی اصطلاح میں ''جسم مثالی'' یا ''پیکر نورانی'' کہتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ جسم مثالی انسان کے خاکی جسم سے واضح طور پر الگ ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں ہم ایک کالم ''جسم مثالی کی پرواز'' کے نام سے بھی لکھ چکے ہیں جس میں اس نورانی پیکر پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی تھی۔
اس بات کا اعتراف کرنے میں حرج نہیں کہ ناچیز جب پندرہ سولہ کے سن میں تھا تو تواتر سے ہپناٹزم، ٹیلی پتھی اور دیگر مخفی علوم سے متعلقہ مشقیں کرنے کے خبط میں مبتلا تھا۔ اس دور میں سانس کی مشقوں کے ساتھ نقطہ بینی، شمع بینی اور ماہ بینی کی مشقیں بھی جاری تھیں۔ لیکن چونکہ رہنمائی صرف کتابوں کی حد تک حاصل تھی اور کوئی استاد میسر نہ تھا اس لیے فوائد کے ساتھ کچھ نقصانات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
یہی وجہ ہے کہ ہم بار بار مشقوں کے سلسلے میں کسی ماہر استاد اور رہنما کی موجودگی پر زور دیتے ہیں۔ بہرحال بات ہورہی تھی اپنی ذاتی مشقوں کی۔ اس دور میں نگاہوں میں اتنی قوت پیدا ہوچلی تھی کہ تمام اجسام چاہے وہ زندہ ہوں یا بے جان، کے گرد موجود نورانی ہالہ برہنہ آنکھوں سے نظر آنے لگا تھا، بعض اوقات یہ نورانی ہالہ اس قدر واضح نظر آتا تھا کہ اس ہالے میں موجود مختلف رنگ تیرتے ہوئے نظر آتے تھے۔ اس دور میں کچھ ایسے واقعات بھی پیش آئے جس نے اندرونی طور پر انتہائی خوفزدہ بھی کردیا، ایسے ہی واقعات میں جسم مثالی کا خود سے الگ ہونا بھی شامل ہے۔
دوران مشق ایک رات سوتے ہوئے عجیب واقعہ پیش آیا، یہ بھی واضح کردوں کہ کم سنی کی ناپختگی کے باعث اس واقعے کو ہم نے محض خواب سمجھا تھا، لیکن بعد کے واقعات سے علم ہوا کہ یہ ہمارے جسم مثالی کی ان چاہی پرواز تھی۔ رات کے آخری پہر جب نیند اپنے عروج پر تھی، اچانک جاگ جانے کا احساس ہوا، احساس اس لیے کیونکہ جاگ جانے کے باوجود آنکھیں بند تھیں اور جسم ایسا محسوس ہوتا تھا کسی نے جکڑ لیا ہے، باوجود کوشش کے کوئی جنبش نہیں تھی، دل پر دباؤ محسوس ہورہا تھا اور ایسا لگتا تھا جیسے دم گھٹ رہا ہو، لیکن اس گھبراہٹ زدہ کیفیت کے باوجود جسم ہلنے سے قاصر تھا۔
اچانک محسوس ہوا جیسے میں خود میں موجود نہیں ہوں بلکہ پلنگ کے سائیڈ میں کھڑا اپنے جسم کو دیکھ رہا ہوں۔ جی ہاں یہ حقیقت ہے۔ میں پلنگ کے پاس کھڑا خود کو دیکھ رہا تھا، کمرے میں نیم تاریکی تھی لیکن تمام چیزیں واضح نظر آرہی تھیں، میں بنا آئینے کے اپنا مکمل جائزہ لے رہا تھا، جسم بے سدھ تھا لیکن چہرے کے عضلات تنے ہوئے تھے جیسے اندرونی کشمکش میں مبتلا ہوں۔ میں نے اپنے جسم سے نگاہیں ہٹالیں اور گھوم کر کمرے کا جائزہ لیتے ہوئے باہر نکل آیا، صحن میں کوئی نہیں تھا، ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا لیکن حیرت کی بات، رات کے اس سمے میں بھی ہر چیز بالکل واضح اور روشن دکھائی دے رہی تھی (یعنی جسم مثالی کے لیے اندھیرا حیثیت نہیں رکھتا، اندھیرے کی رکاوٹ صرف ہماری ظاہری نگاہ کے لیے ہے)۔ میں ایک ایک کرکے گھر کے مختلف حصوں اور کمروں میں گھومتا رہا، گھر کے تمام لوگ اپنے بستروں میں محو خواب تھے۔
کچھ دیر چکر لگانے کے بعد میں واپس اپنے کمرے میں آگیا۔ میرا جسم اب تک بے سدھ پڑا تھا، جیسے ہی میں پلنگ کے پاس پہنچا میرے جسم کو ایک برقی جھٹکا سا لگا اور مجھے ایسا لگا جیسے میں بلندی سے گر رہا ہوں، میں نے خود کو سنبھالنے کے اپنے بدن کو اوپر کی جانب اچھالا اور اس کوشش میں میری آنکھ کھل گئی اور میں جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔ دم گھٹنے کا احساس اب تک قائم تھا اور جسم پسینے میں شرابور۔ اچانک والدہ اور بھائی گھبرائے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے۔ مجھے بالکل احساس نہیں ہوا تھا جاگنے کے دوران میرے حلق سے چیخ بھی نکلی تھی اور وہ لوگ میری آواز سن کر آئے تھے۔
والدہ سمجھیں کہ میں کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ کر چیخا ہوں، انھوں نے مجھے گلے لگا کر دم کیا اور سونے کی تاکید کرکے چلی گئیں۔ اس واقعے کو میں نے ابتدا میں محض خواب ہی سمجھا تھا لیکن بعد ازاں متواتر ایسے واقعات پیش آئے جن کا تعلق سراسر میری مشقوں سے تھا تو حقیقت سمجھ میں آنے لگی۔ اس واقعے کی خاص بات یہ تھی کہ جسم مثالی کے الگ ہونے کے بعد دماغی طور پر حاضر تھا اور سب کچھ سوچ اور سمجھ سکتا تھا، نہ صرف یہ بلکہ شعوری طور پر جاگنے کے بعد بھی ذہن میں یہ سب یادیں قائم تھیں۔
نوٹ:۔گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں
www.facebook .com/shayan.tamseel