تم سوتے رہو
کیا سائبر کرائم یہ ہے جس پر پوری دنیا کو تشویش ہے یا پھر وہ ہے جس کے تحت صرف اور صرف فحش فلموں کو روکا جائے
ہمیں محسوس ہی نہیں ہوتا کہ دنیا ہمیں کیسے کیسے ذلیل کرتی ہے یہ سانحہ ہے کہ ہم روشنی سے ڈرتے ہیں ۔ ہمیں ڈرایا جاتا ہے کہ روشنی میں آنے سے اندھیرا بھی ہاتھ سے چلا جائے گا ۔ ایسے رہنما ملے ہیں جو جہالت میں کنجوسی نہیں کرنا چاہتے ۔ دنیا مریخ پر اپنا گھر بسانا چاہتی ہے اور ہم لاؤڈ اسپیکر کے گلے دبانے میں لگے ہوئے ہیں ۔
یہ بھی کیا لطیفہ ہے کہ چند عشروں پہلے جس لاؤڈ اسپیکر کو جو لوگ برا کہتے تھے وہ ہی لوگ آج اس بات پر احتجاج کر رہے ہیں کہ ان کا اسپیکر کیوں بند کیا جا رہا ہے۔ دنیا کی ڈور ہوا میں اڑتی جا رہی ہے اور ہمارا دھاگہ الجھتا ہی جارہا ہے ۔ ان لوگوں کو آج کی خبر نہیں ہوتی اور یہ ہمیں کل کے خواب دکھاتے ہیں ۔ دنیا جب کسی چیز کو پھینک دیتی ہے تو وہ کچرا ہمارے پاس جدید کہلاتا ہے ۔ چاہے وہ ٹرین کے انجن ہوں یا پھر گھومتے ہوئے پنکھے ۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ امریکا میں ایک پاکستانی پر فرد جرم عائد کی گئی ۔ اس لیے نہیں کہ وہ پاکستانی ہے بلکہ اس لیے کہ اس نے اپنی عقل اور اپنی سمجھ سے ایسی ٹیکنالوجی بنائی جس پر امریکی حکومت اور اس کے جاسوسی کرنے والے ادارے سمجھتے ہیں کہ یہ کام بس وہ ہی کر سکتے ہیں ۔ امریکی محکمہ انصاف نے کیلی فورنیا کے مرکزی شہر لاس اینجلس سے اُسے گرفتار کیا ۔
اس پر الزام یہ تھا کہ اس نے ایک ایسی موبائل کی app بنائی جس کے ذریعہ آپ پندرہ فٹ کے اندر کسی بھی موبائل سے کی جانے والی کال کو سُن سکتے ہیں۔ امریکی محکمہ انصاف بڑے فخر سے یہ بتاتا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ موبائل فون کی نگرانی کے پروگرام کی فروخت کے سلسلے میں کسی پر فوجداری مقدمہ درج کیا گیا ۔ کیا ہم میں سے کسی نے آواز بلند کی کہ کیوں گرفتاری کی گئی جب کہ آپ کی حکومت ہمارے موبائل فون کی ریکارڈنگ سُنتی ہے۔
حالیہ ہمارے منہ پر تھپڑ یہ ہے کہ امریکی اور برطانوی ایجنسیوں نے فون کالز سُننے کے لیے ''سم'' بنانے والی کمپنی کے نیٹ ورک تک رسائی حاصل کی ۔ ایران ، افغانستان ، بھارت ، روس ، سربیا سمیت 30 ممالک میں انھوں نے یہ مداخلت کی یا کرنے کی کوشش کی ۔ مگر ہمیں کیا فرق پڑتا ہے۔ ہمارے لیے تو یہ اعزاز ہے ۔ اس وقت ٹیکنالوجی اور سائبر کی لڑائی ہے جس میں ہم صرف اور صرف شرمندہ ہو رہے ہیں ۔ہمارا کام بس یہ ہے کہ کوئی فلم یا ویب سائٹ ایسی نہ چلے جس سے نوجوانوں کے رویے خراب ہوں ۔
اس کے علاوہ ہمارے یہاں کے اداروں کا کوئی اور کام ہی نہیں ہے ۔ حال یہ ہے دنیا بھر میں اس حوالے سے جرائم میں اضافہ ہو چکا ہے اور ہمارا رونا یہ ہے کہ کوئی قانون ہی نہیں ہے ۔ پچھلے ایک سال میں سائبر حملوں کے ذریعہ ایک کھرب سے زیادہ روپے بینکوں سے لوٹے جاچکے ہیں ۔انٹر پول اور یورو پول ان کو ڈھونڈنے میں ناکام ہے ۔ امریکا ، روس اور یورپین ممالک کے ہاتھ وہ چور نہیں آرہے ہیں ۔تو اندازہ لگائیں کہ ہم انھیں پکڑ سکیں گے ؟ ہم آج تک انھیں تلاش نہیں کرسکتے جن کی cctv فوٹیج ہوتی ہے تو ہم سائبر کے ذریعہ لوٹنے والوں کو ڈھونڈ لینگے ۔ہم اپنے ایک سابق وزیر اعظم اور مقتول گورنر کے بیٹوں کو نہیں ڈھونڈ سکے تو ان چوروں کو کیسے روکیں گے جو امریکا بہادر کو جال میں پھنسا دیتے ہیں ۔
بس جو سامنے نظر آجائے اسے پکڑو۔کاغذ کا پیٹ بھرو اور سارے گناہ معاف ۔میں نے اسی لیے کہا کہ ہماری حکومتیں لاوڈ اسپیکر کے پیچھے پڑی ہیں کہ اُس سے دہشت گردی ختم ہو گی ۔مگر انھیں اس بات کا کوئی دھیان نہیں ہے کہ دنیا بھر میں دہشت گردوں کی بھرتی اور ان کا پروپیگنڈا انٹر نیٹ کے ذریعہ ہو رہا ہے ۔ یہ بس اس بات میں دلچسپی لیتے ہیں کہ کسی طرح یو ٹیوب نہ چل جائے ۔بے حیائی نہ پھیلے۔
برطانیہ نے سائبر کرائم کو روکنے کے لیے وزارت دفاع میں ایک یونٹ بنا دیا ۔ ان کے نزدیک یہ جرم ایسا نہیں جسے ہمارے یہاں سمجھا جاتا ہے ۔ وہ اس کے ذریعے پورے سماج کو کنٹرول کر رہے ہیں مگر ہمیں کیا؟یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارا مسئلہ ہی نہیں ہے ۔ ہمارے بینکوں سے پیسے نہیں نکلیں گے ۔سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ ایک کمیٹی 2006 میں بنی جسے بین الوزارتی کمیٹی کہا گیا ۔ کس ویب سائٹ کو بند کرنا ہے اور کسے کھولنا ہے اس کا فیصلہ یہ کرتی ۔ عموماً اس کے فیصلے حکومتی ہی ہوتے ۔ PTA میں بھی ایک کمیٹی ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ PTA نگرانی کرتا ہے اور FIA پکڑتی ہے ۔لیکن کس قانون کے تحت ؟
کیا سائبر کرائم یہ ہے جس پر پوری دنیا کو تشویش ہے یا پھر وہ ہے جس کے تحت صرف اور صرف فحش فلموں کو روکا جائے ۔ یہاں ہر نوجوان ( لڑکا اور لڑکیاں)سوشل میڈیا پر ہے ۔ ان کی ذاتی معلومات کو چوری کر کے انھیں شایع کرنا کیا ٹھیک ہے ۔ یہاں کئی لوگوں کی زندگیوں کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ اداروں کی ویب سائٹس میں گھُسا جا رہا ہے۔ کوئی بھی معلومات ذاتی نہیں رہی ۔ابھی ہمارے ایک اینکر دوست کی email کو ہیک کر دیا گیا ۔ مگر کون پوچھے گا ۔؟کیا FIA کے سیل سے لوگ اُس حد تک فائدہ اٹھا پا رہے ہیں کہ اُن کی مشکلیں آسان ہو سکیں ؟
یہ سوتے نہیں ہیں لیکن ہم جاگ نہ جائیں اس لیے یہ ہمیشہ ہمیں یہ جتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم بھی آپ کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔ ہر وہ معاملہ جس میں ان کا فائدہ ہو وہ سالوں میں نہیں بلکہ منٹوں میں ہو جاتا ہے ۔ایک قانون بنانے میں بھی سب اپنا سر اونچا رکھنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ سابقہ دور حکومت میں تو کچھ نہ ہو سکا لیکن پچھلے سال مئی کے مہینے میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر ڈاکٹر کریم احمد خواجہ نے ایک بل پیش کیا تھا ۔ وہ تو گھوم گھوم کر آج تک بس کمیٹیوں کے چکر میں پھنسا ہوا ہے ۔
سنا ہے اس کا ستارا کسی 26تاریخ کو گردش میں آئے گا ۔پیپلز پارٹی والوں کو معلوم ہے کہ اگر اگلے چند دنوں میں یہ معاملہ کمیٹی سے نکل کر سینیٹ میں نہیں آیا تو پھر اس کی منظوری بھی مسلم لیگ (ن) کے ہاتھ میں ہو گی۔ اور لگتا یہ ہے کہ مسلم لیگ بھی یہی چاہتی ہے ۔ مگر اُس کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی میں ایک بل لایا گیا ہے ۔ جو اللہ اللہ کر کے 4 فروری کو اسٹینڈنگ کمیٹی نے منظور کر دیا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کب اسمبلی میں آئے گا اور کب منظوری ہو گی ۔
ادھر اُدھر سے پکڑ کر اس بل میں وہ ساری چیزیں ڈال دی گئی ہیں جو سب جگہ استعمال ہوچکی ہیں ۔ آیندہ دنوں میں اس پر بھی سیاست ہونے والی ہے اور کچھ لوگ اس کو خبروں میں رکھیں گے ۔ لیکن کیا اس سے قانون سازی ہوسکے گی؟اور اس سے بڑھ کر لوگوں کی عزتیں، دولت،اور ذاتی معلومات کے علاوہ دہشت گردی کی روک تھام ہو سکے گی یا پھر اس کے لیے بھی ایک کمیٹی بنا دی جائے گی اور وہ اپنی سفارشات اس حکومت کے خاتمے کے بعد پیش کردے گی ۔
جب تک ہم جدید دور میں داخل نہیں ہوتے تب تک آئیے پوری طاقت کے ساتھ اسپیکر کو ڈھونڈیں جس میں کوئی حبیب جالب سُنا رہا ہو ''میں نہیں مانتا ، میں نہیں جانتا ''۔۔۔۔۔۔۔!