مچھلی نے ڈھیل پائی
یہ حقیقت ہے کہ دنیا بہت تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ جس کی وجہ سے اس کے تقاضے بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ ملک میں اصل حکومت کس کی ہے؟ کیونکہ گزشتہ ایک سال سے بالعموم اور آرمی پبلک اسکول پشاور کے سانحہ کے بعد سے بالخصوص ہر اعلیٰ سطح کے اجلاس میں آرمی چیف وزیراعظم کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں مسلم لیگ (ن) کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے میرے ایک دوست اسے میاں نواز شریف کی ذہانت اور دانشمندی قرار دیتے ہیں کہ اس طرح انھوں نے فوج کے اقتدار میں آنے کا راستہ روک دیا ہے، جب کہ ایک ریٹائرڈ فوجی دوست کا کہنا ہے کہ فوج منتخب حکومتوں سے ہر سطح پر تعاون کر کے دراصل ملک اور جمہوریت دونوں کو بچانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وفاق اور صوبوں میں قائم منتخب حکومتوں نے اپنی نااہلی اور غیر فعالیت سے جمہوریت کے ساتھ ملک کے مستقبل کو بھی دائو پر لگا دیا ہے۔ ایسی صورت میں تبدیلی ناگزیر ہو چکی تھی، مگر فوج نے اس سے بچتے ہوئے موجودہ راہ اپنانے کو ترجیح دی۔ لہٰذا یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کون سا موقف درست ہے اور اس کے کیا ممکنہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟
یہ حقیقت ہے کہ دنیا بہت تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ جس کی وجہ سے اس کے تقاضے بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔ اب شخصی یا فوجی آمریتوں یا پشتینی بادشاہتوں کے لیے گنجائش ختم ہو رہی ہے، جب کہ کثیرالجماعتی شراکتی جمہوریت کی قبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جہاں تک پاکستانی عوام کا تعلق ہے تو انھوں نے آمریت کے خلاف طویل جدوجہد کر کے جمہوری نظم حکمرانی قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ لیکن جن جماعتوں پر انھوں نے تکیہ کیا، وہ فیوڈل اور برادری نظام کی فکری زنجیروں میں جکڑی ہونے کے باعث عوام کے جذبات و احساس کو سمجھنے سے محروم رہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد ایسے اقدامات کرتی رہیں، جو عوام کی سوچ اور تصورات سے متصادم تھے، یوں مایوسی کے عالم میں عوام ایک بار پھر فوج کی طرف دیکھنے پر مجبور ہو جاتے۔
ملک میں 2008ء سے شروع ہونے والے جمہوری عمل کے نتیجے میں بعض خوش کن اقدامات سامنے آئے۔ جن میں اٹھارویں ترمیم اور NFC ایوارڈ وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن اچھی حکمرانی کے اصولوں سے انحراف سے حکمرانی متاثر ہوئی اور عوام مایوسیوں کا شکار ہوئے۔ کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ کرپشن کوئی بڑا ایشو نہیں، بلکہ ملک کو درپیش مختلف مسائل کی طرح ایک عام سا ایشو ہوتی ہے۔ لیکن یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ کرپشن بری حکمرانی (Bad Governance) کی اولین علامت ہوتی ہے، جو دیگر خرابیوں اور خامیوں کو جنم دیتی ہے۔
اس تناظر میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کا سرسری جائزہ لیا جائے تو بھی کوئی ایسا نکتہ نہیں ملتا، جو ان کی اہلیت اور سیاسی عزم و بصیرت کی دلالت کرتا ہو۔ وفاق میں قائم حکومتیں 2008ء سے قومی ترجیحات کا تعین کرنے میں مسلسل ناکام ہیں۔ موجودہ حکومت جو جون 2013ء کو اقتدار میں آئی، دہشت گردی کے بارے میں ڈیڑھ برس تک گومگو کا شکار رہی۔ ضرب عضب آپریشن شروع ہونے تک حکومت شدت پسند عناصر کو مذاکرات کے ذریعے رام کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف رہی۔
اسی طرح تحریک انصاف سمیت دائیں بازو کی بیشتر جماعتیں شدت پسند عناصر کی انسانیت سوز کارروائیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کے ساتھ مذاکرات کے حق میں دلائل دے کر ملک میں فکری تقسیم کو مزید گہرا کرتی رہیں۔ اے پی ایس پشاور کا سانحہ نے قومی اتفاق رائے پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن 21 ویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کے قیام کے حوالے سے معاشرے میں ایک نئی تقسیم نے جنم لیا۔ جب کہ سیاسی جماعتوں کی دہری پالیسی بھی فیصلہ کن اقدامات کی راہ میں رکاوٹ بنی۔ مگر اس حساس مسئلے کو سیاسی بصیرت کے ساتھ حل کرنے کے بجائے ساری ذمے داری فوج پر ڈال کو خود کو بری الذمہ کرنے کی پالیسی قومی سطح پر نئے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہے۔
دوسری طرف صوبوں کی کارکردگی وفاق سے بھی ابتر ہے۔ جن میں سب سے بری حکمرانی کا نمونہ سندھ حکومت پیش کر رہی ہے، جہاں کرپشن، اقربا پروری اور بدانتظامی اپنے عروج پر ہے۔ گزشتہ پیر کو کراچی میں وزیراعظم کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا، جس میں گورنر، وزیراعلیٰ اور صوبائی کابینہ کے علاوہ آرمی چیف، ڈی جی ISI، کورکمانڈر کراچی اور خصوصی دعوت پر سابق صدر مملکت اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری بھی شریک ہوئے۔ اس اجلاس میں سندھ حکومت کی کارکردگی پر شدید تنقید کی گئی۔ اس موقع پر نااہل، غیر فعال اور بے صلاحیت کے علاوہ بعض ایسے الفاظ بھی استعمال کیے گئے جن کا ترجمہ اخلاقی حدود و قیود کے باعث پیش نہیں کیا جا سکتا، مگر یہ جملے سندھ حکومت کے لیے کھلا محضرنامہ ہیں۔
اس پر طرہ یہ کہ اجلاس میں کیے گئے بعض فیصلوں پر قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ بپھر گئے۔ انھیں اپنی صوبائی حکومت کی ناقص ترین کارکردگی تو نظر نہیں آئی، لیکن انھوں نے وزیراعظم کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔ دراصل سندھ میں پولیس سمیت انتظامی اداروں میں تقرریوں، تعیناتیاں اور تبادلوں کو Apex کمیٹی کی منظوری سے مشروط کیا جانا، ان کی طبع نازک پر گراں گزرا ہے۔ کاش وہ برہم ہونے سے قبل 5 کروڑ کی بکتربند گاڑیاں 17 کروڑ میں خریدی جانے پر IGP سندھ کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کی جانب سے جاری کردہ نوٹس پر بھی نظر ڈال لیتے۔
اعتراض اٹھانے سے پہلے وہ اپنی صوبائی حکومت سے یہ استفسار بھی کر لیتے کہ تھر میں ہونے والے موت کے رقص کو نظر انداز کرتے ہوئے اس نے اپنے وزراء، مشیران اور افسران کے لیے ایک ارب کی نئی پرتعیش گاڑیاں کیوں خریدی ہیں۔ کاش ان کی نظریں اپنے صوبے کے ان ترقیاتی منصوبوں پر بھی چلی جاتیں جو گزشتہ ساڑھے چھ برسوں سے دھول میں اٹے ہوئے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ مگر پارٹی مفادات کی عینک سے کبھی اپنی جماعت کی خرابیاں نظر نہیں آتیں۔
خیبرپختونخوا جہاں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی مخلوط حکومت قائم ہے، پونے دو برس میں کوئی نمایاں کارکردگی دکھانے میں ناکام ہے۔ حالانکہ دعوے بہت بڑے بڑے ہیں۔ وہ مقامی حکومتی نظام جس کی تحریک انصاف کے منشور میں نمایاں حیثیت تھی اور عمران خان جس کے فوری نفاذ کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتے تھے، شرمندہ تعبیر ہونے کو مسلسل ترس رہا ہے۔
ان سے بہتر تو بلوچستان میں ڈاکٹر مالک کی حکومت ہے، جس نے شورش زدہ صوبے میں جیسے تیسے مقامی حکومتوں کے انتخابات کرا کے انھیں قائم کر دیا۔ جہاں تک پنجاب حکومت کا تعلق ہے، تو اس کی ترجیحات عوامی مسائل کا حل نہیں، بلکہ وہ سڑکیں، پل اور لاہور سجانے کو ترقی سمجھ بیٹھی ہے۔ جب کہ پورے صوبے میں امن و امان کی صورتحال مسلسل تنزل کا شکار ہے اور قانون نام کی کسی شے کا وہاں کوئی وجود نہیں۔
سیاستدان اس بات پر خفا ہوتے ہیں کہ جب بھی موقع ملتا ہے، فوج انھیں اقتدار سے بے دخل کر دیتی ہے۔ لیکن 68 برس کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ فوج کو اقتدار سنبھالنے کے مواقع ہمیشہ خود سیاستدانوں نے فراہم کیے۔ دور کیوں جائیں، چند برسوں کے دوران سویلین حکومتوں اور اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے جو طرز عمل اختیار کیا، وہ فوج کو دعوت اقتدار دینے کے مترادف رہا ہے۔
مئی 2013ء کے عام انتخابات سے APS سانحہ تک مذہبی شدت پسندی اور دہشت گردی کے بارے میں حکمران جماعت سمیت ملک کی مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کا طرزعمل سب کے سامنے رہا ہے۔ اگر فوج ضرب عضب شروع نہ کرتی اور APS سانحہ کے بعد سیاسی جماعتوں کو ایکشن پلان پر مجبور نہ کرتی تو شاید بیشتر سیاسی جماعتیں دہشت گردوں سے مذاکرات کی رٹ لگائے رکھتیں۔
لہٰذا اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ کچھ ماضی کے تلخ تجربات اور کچھ تبدیل ہوتے عالمی اور خطے کے حالات نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کو براہ راست اقدامات سے گریز پر مجبور کیا ہے۔ اس لیے وہ پالیسی سازی کو اپنے ہاتھوں میں رکھ کر سویلین حکومت کو محض نمائشی طور پر چلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ یوں وفاق اور صوبوں میں قائم حکومتوں کی حیثیت دکانوں میں سجے ان بے جان مجسموں سے زیادہ نہیں رہ گئی ہے، جنھیں دکاندار حسب ضرورت ہر روز ایک نئے رنگ کا لبادہ چڑھا دیتا ہے۔ حالات و واقعات کی مناسبت سے اکبر الہٰ آبادی کا یہ شعر برمحل ہے کہ:
مچھلی نے ڈھیل پائی، لقمہ پہ شاد ہے
صیاد مطمئن ہے، کہ کانٹا نگل گئی