سیاسی جماعتوں کا اندرونی حال
سیاسی جماعتوں میں اختلافات، ٹوٹ پھوٹ کا سلسلہ کوئی نیا کلچر نہیں ہے
لاہور:
سیاسی جماعتوں میں اختلافات، ٹوٹ پھوٹ کا سلسلہ کوئی نیا کلچر نہیں ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات ہوتے ہیں لیکن ان ملکوں میں اختلافات عموماً اصولوں کی بنیاد پر ہوتے ہیں اورکم ہوتے ہیں ۔ پسماندہ ملکوں کی سیاسی جماعتوں میں اختلافات اور دھڑے بندی ایک وبائی شکل اختیارکرچکی ہے ۔ اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ ان پارٹیوں کے اندر اختلافات اصولوں کی بنیاد پر ہوتے ہیں نہ ان کا تعلق عوامی مفادات سے ہوتا ہے بلکہ یہ اختلافات عموماً ذاتی مفادات اور لوٹ مار میں حصے داری کی بنیاد پر پیدا ہوتے ہیں۔
اگر سیاست دانوں کے ذاتی مفادات پورے ہوجاتے ہیں اور حصے داری کا مسئلہ ''پر امن بقائے باہمی'' کی بنیاد پر حل ہوجاتے ہیں تو اختلافات ختم ہوجاتے ہیں اور متحارب افراد شیر وشکر بن جاتے ہیں۔ اس قسم کے اختلافات اگرچہ افراد کے درمیان نظر آتے ہیں لیکن ان اختلافات کا ذرا گہرائی سے مطالعہ کریں تو یہ بات سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی کہ ان اختلافات کی اصل بنیاد ہمارا وہ فرسودہ نظام ہے جس میں ''منی ریس'' نچلی سطح سے اعلیٰ سطح تک ایک برقی لہر کی طرح جاری رہتی ہے، ہماری سیاسی اشرافیہ اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے ان اختلافات کو جمہوریت کا حسن قرار دیتی ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ پارٹی کے اندر اور پارٹیوں کے درمیان جمہوریت کے اس حسن سے مالا مال ہوتا ہے اس پارٹی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے عوام میں پہلی بار سیاسی بیداری پیدا کی اور اس کے کارکنوں کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ رو شن خیالی کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔ بد قسمتی سے یہ شناخت بہت کم عرصے میں نظروں سے اوجھل ہوگئی کیونکہ زمینی اشرافیہ نے اس عوامی پارٹی پر قبضہ کرکے اسے پیو پلاؤ، کھاؤ کھلاؤ پارٹی میں بدل دیا۔ ویسے تو اس پارٹی میں اختلافات پارٹی پر وڈیروں کے قبضے کے بعد ہی شروع ہوگئے تھے لیکن انھیں ہمیشہ ''پر امن بقائے باہمی'' کے اصولوں پر نمٹایا جاتا رہا۔
2013 کے الیکشن میں جب پیپلزپارٹی کا صفایا ہوگیا تو جمہوریت کا یہ حسن ایک ایسی بدصورتی میں بدل گیا جس کا مشاہدہ آج عوام کررہے ہیں۔ جب تک کوئی جماعت بر سر اقتدار رہتی ہے تو ناراض اور باغی رہنماؤں کو دے دلاکر قابو کرلیتی ہے لیکن جب کوئی جماعت اقتدار سے باہر آجاتی ہے تو اس کی ''دینے دلانے'' کی صلاحیت بہت کم ہوجاتی ہے اور جمہوریت کا حسن بری طرح گہنا جاتا ہے۔
2013 سے قبل اور 2008 کے بعد پارٹی میں مثالی اتحاد اس لیے تھا کہ مرکز اور سندھ میں اس کی حکومت تھی اور بلوچستان اور پختونخوا میں بھی وہ اقتدار کا حصہ تھی یوں پارٹی کے اندر پائے جانے والے اختلافات کو حل کرنے کی پارٹی کی قیادت کے پاس بڑی صلاحیت تھی، اس حوالے سے پارٹی کے سربراہ کی صلاحیتوں کا ہر طرف ڈنکا بجتا تھا۔
2013 کے بعد پیپلزپارٹی چونکہ اپنی کارکردگی کے حوالے سے سندھ تک سکڑ کر رہ گئی غالباً اسی وجہ سے اس کے اندر اختلافات کا سلسلہ اس وقت سنگین ہوگیا ہے کہ دوسرے درجے کی قیادت کے درمیان ہی چکا چوند نہیں دیکھی جارہی ہے بلکہ ا علیٰ سطحی قیادت کے درمیان بھی اختلافات ایسی جگہ پہنچ گئے ہیں کہ باپ بیٹوں کا رشتہ بھی ان اختلافات کو روکنے میں ناکام نظر آرہاہے۔
پی پی پی کے صف اول کے رہنما مخدوم امین فہیم اور ''حکومت'' کے درمیان اختلافات کی خبریں تو عرصے سے جاری ہیں لیکن زرداری صاحب کی مفاہمتی پالیسی کی وجہ سے مفادات اور مفاہمت کا یہ سلسلہ جاری رہا، بلاول بھٹو زرداری کے حوالے سے یہ خبریں گرم بلکہ بہت گرم رہیں کہ وہ اپنے والد محترم کی سیاست سے سخت ناراض ہیں اس ناراضگی کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بلاول اپنی والدہ محترمہ کی برسی کی تقریب میں بھی شریک نہیں ہوئے۔
باپ بیٹے کے اس اختلاف نے اب عملاً پارٹی کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے اور زرداری صاحب کی عنایت خسروانہ سے محروم لوگ جوق در جوق بلاول کی طرف کھینچے چلے جارہے ہیں۔ ذوالفقار مرزا ملک میں سخت اختلافی بیانات دینے کے بعد بلاول کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں جہاں مخدوم صاحب بھی موجود ہیں۔
لندن میں مخدوم امین فہیم سے ملاقات کے دوران بلاول بھٹو نے فرمایا ہے کہ ''سندھ کی حکومت عوام کی توقعات پر پورا اترنے میں سخت ناکام رہی ہے، ہر سطح پر کرپشن نے ذوالفقار علی بھٹو کی قائم کردہ پارٹی پر عوام کا اعتماد مجروح کردیا ہے اگر عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اسی ملاقات کے دوران مخدوم صاحب نے سندھ کی صورت حال سے بلاول بھٹو کو کھل کر آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں ''مفاہمت کی سیاست کے نام پر لوٹ مار کا بازار گرم ہے، بلاول بھٹو نے بھی اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ایک قریبی رشتے دار خاتون کے حوالے سے انھیں سخت تحفظات ہیں جنھیں وہ کرپشن کی جڑ سمجھتے ہیں۔
بلاول بھٹو نے اس سے قبل بھی اپنے محترم والد کے ساتھیوں پر اعلیٰ سطحی کرپشن کے الزامات عائد کیے ہیں اور میڈیا کے مطابق بلاول نے اپنے والد سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان کرپٹ ساتھیوں سے جان چھڑائیں۔ بلاول نے اس حوالے سے کہاہے کہ جب تک انھیں چھانٹی کے مکمل اختیارات نہیں دیے جائیںگے وہ پاکستان نہیں آئیںگے۔
ہم نے سیاسی جماعتوں کے اندرونی اختلافات کے حوالے سے پیپلزپارٹی کے اندرونی حالات کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ وہ ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہے اور میڈیا میں اس کے اندرونی اختلافات کے حوالے سے خبروں کی بھر مار ہے۔ سندھ کے سابق وزیرداخلہ ذوالفقار مرزا پارٹی کے اندرونی اختلافات کے حوالے سے بیرونی حلقوں کو سب سے زیادہ خبریں پہنچا رہے ہیں اور اب وہ بلاول کو ان حقائق سے آگاہ کرنے کے لیے لندن پہنچے ہوئے ہیں۔
سندھ کے وزیراطلاعات شرجیل میمن نے ایک پریس کانفرنس میں مرزا صاحب پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ موصوف ''تمام حدیں پھلانگ گئے ہیں'' اور اب ان کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں رہا، ان کی پارٹی پر تنقید ذاتی رنجشوں کے حوالے سے ہوسکتی ہے اصولی اختلافات سے مرزا کے اختلافات کا کوئی تعلق نہیں ہوسکتا۔ مرزا صاحب نے تنقید کا جو راستہ اختیار کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اختلافات کی تمام حدود کو پھلانگ گئے ہیں۔
پارٹی کے اندر اختلافات کا مسئلہ کم اور زیادہ کے حوالے سے ہر پارٹی میں موجود ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا حال بھی مختلف نہیں ہے، اطلاعات کے مطابق (ن) لیگ میں بھی اختلافات دھڑے بندیوں تک پہنچ گئے ہیں۔ میاں نواز شریف کے سب سے زیادہ قابل اعتماد سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور مسلم لیگ اور پنجاب کی گورنری کو چھوڑکر عمران خان کی تحریک انصاف میں شامل ہوگئے ہیں اور (ن) لیگ کی اندرونی اور بیرونی خرابیوں اور خامیوں سے دنیا کو آگاہ کررہے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کا تعلق مڈل کلاس سے ہے اس پارٹی میں بھی ماں اور بیٹا ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے ہیں اور ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کررہے ہیں، متحدہ کے ایک رہنما نبیل گبول نے بھی متحدہ کے اندرونی اختلافات کا باہر ذکر کیا ہے۔
پارٹیوں کے اندر اور پارٹیوں کے درمیان اختلافات کوئی نئی بات نہیں لیکن اس حوالے سے جو بات اہمیت کی حامل ہے وہ یہ ہے کہ پارٹیوں کے اندر اور مختلف پارٹیوں کے درمیان اختلافات کا عوام کے مسائل عوام کے بدلتی حالات کی بہتری سے کوئی تعلق ہے؟ یہی وہ کسوٹی ہے جس پر پسماندہ ملکوں کی سیاسی پارٹیوں کے اندر اور باہر کے اختلافات کو پرکھا جاسکتا ہے اور اسی حوالے سے ان اختلافات کو جمہوریت کا حسن یا جمہوریت کی بد صورتی قرار دیا جاسکتا ہے۔