جیولیس فیوچک کی یاد میں…
وہ ایک قلمکار تھا ایسا قلمکار جو صحافی بھی تھا نقاد بھی تھا ادیب بھی تھا
لاہور:
وہ ایک قلمکار تھا ایسا قلمکار جو صحافی بھی تھا نقاد بھی تھا ادیب بھی تھا ۔ان تمام خوبیوں کے ساتھ ساتھ وہ ایک سیاسی کارکن بھی تھا کیونکہ اسے اس حقیقت کا پورا پورا ادراک تھا کہ ادب کے بہت سارے مسائل ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں سیاست کے میدانوں میں حل کیا جاتا ہے۔
یا یوں کہ ان مسائل کا حل سیاست میں ہی ہوتا ہے اسے زندگی سے بے حد پیار تھا اس کا خیال تھا دنیا کو ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جہاں مفلسی، جہالت، عدم مساوات، ناانصافی، ظلم، جبر، تشدد و جارحیت کے نام سے بھی لوگ ناآشنا ہوں، ایسے ہی نظام کے لیے وہ زندگی بھر کوشاں رہا یا یہ طبقاتی جنگ لڑتا رہا اور بالآخر اسی جنگ میں اس نے اپنی جان دے دی۔ میں جیولیس فیوچک کا ذکر کر رہا ہوں جس کو ایک چیک ماں نے جنم دیا اور اپنی چھاتیوں سے دودھ پلایا۔ پھر نوالہ نوالہ کھلا کر اس کی پرورش کی۔
فیوچک کا باپ ایک فولاد سازی کے کارخانے میں ملازمت کرتا تھا مگر تھا بڑا زندہ دل۔ اسے فن و ادب کے ساتھ ساتھ تھیٹر میں بھی کام کرنے کا بے حد شوق تھا فیوچک کا تعلق ایک چیک خاندان سے تھا۔ وہ چیک والدین کی اولاد تھا مگر جس مقصد کے لیے اس نے جان دی وہ مقصد تو تمام دنیا کے مظلوموں کا مقصد تھا۔ فیوچک نے 23 فروری1903کو پراگ میں پیدا ہوا وہی پراگ جہاں کے باسی زندہ دلی کے باعث پوری دنیا میں اپنا ثانی نہیں رکھتے بالخصوص بہار کے دنوں میں تو پراگ کے لوگ دیوانے ہوجاتے ہیں۔ فیوچک 17برس کا ہی تھا۔ جب اس نے اپنی سیاسی زندگی یا سیاسی جدوجہد کا آغاز کردیا۔
یہ آغاز فیوچک نے مزدور تحریکوں میں حصہ لے کر کیا ۔فیوچک نے یونیورسٹی Level تک تعلیم حاصل کی اور ادب آرٹ و موسیقی کا مطالعہ کیا جب کہ فیوچک نے اپنے زمانہ طالب علمی کے دوران ایک کارخانے میں ملازمت بھی کی اور کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت بھی اختیار کرلی۔ یہی وہ دور تھا جب فیوچک نے سوشلسٹ ریویو کے لیے مضامین لکھنے شروع کردیے اور بڑی جلدی اس شعبے میں کمال مہارت حاصل کرلی۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ 1929 میں جب فیوچک فقط 26 برس کا تھا تو چیکو سلواکیہ کے ایک مقبول ادبی رسالہ تخلیق کا ایڈیٹر مقرر ہوگیا۔ جب کہ کچھ ہی عرصے بعد کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان اخبار کا ایڈیٹر مقرر ہوگیا۔
1938تک فیوچک ایک مکمل صحافی ایک مکمل ادیب اور ایک پرجوش سیاسی کارکن بن چکا تھا جب کہ 1938 میں ستمبر کے مہینے میں جنگی جنون میں مبتلا ہوکر جرمن آمر اڈولف ہٹلر پوری دنیا کا امن تہس نہس کرنے کا عزم لے کر پرامن چھوٹے بڑے ممالک پر چڑھ دوڑا جب کہ اڈولف ہٹلرکا حقیقی ہدف کامریڈ اسٹالین کا دیس و عالمی محنت کشوں کی امیدوں کا محور سوویت یونین تھا جب کہ چیکو سلواکیہ کو نازی فوجیں اپنے بوٹوں تلے روند رہی تھیں یہ وہ وقت تھا جب چیکو سلواکیہ کے حکمرانوں نے ان جارح نازی فوجوں کا مقابلہ کرنے کی بجائے ان کے آگے گھٹنے ٹیک دیے تھے البتہ ان تمام حالات میں ڈاکٹر لبنیش ان کے حامی اور خلاف قانون قرار دی جانے والی کمیونسٹ پارٹی کے ممبران نے نازی فوجوں کے سامنے مزاحمت کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
کمیونسٹ پارٹی کے ممبران کی یہ مزاحمت دوبدو لڑائی نہ تھی بلکہ یہ لڑائی سیاسی طریقے سے لڑی جا رہی تھی یوں بھی یہ مزاحمت کار دو بدو لڑائی لڑنے کی پوزیشن میں نہ تھے۔فیوچک نے اگرچہ روپوش زندگی اختیار کر رکھی تھی مگر اس کے باوجود محنت کشوں کے اجتماعات سے خطاب کرتا، ادبی نشستوں میں شرکت کرتا، کسانوں کے مظاہرے منظم کرتا، عام شہری فیوچک کو پناہ دیتے رہے۔ اگرچہ فیوچک سے محبت کے عوض ان کو ہر قسم کا جبر سہنا پڑا۔
فیوچک چار برس تک جرمن سامراج کے لیے درد سر بنا رہا بالآخر اپریل 1942 میں جب وہ دیگر 6 پارٹی رہنماؤں کے ساتھ ایک میٹنگ میں شریک تھا۔ تو ابھی گفتگو کا آغاز ہی ہوا تھا کہ جرمن خفیہ پولیس کے ہاتھوں 6 ساتھیوں سمیت گرفتار ہوگیا اور 16 ماہ نازی جیل میں رکھا گیا مگر ایک بات ضرور تھی فیوچک اور اس کے ساتھیوں کی سیاسی جدوجہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ پورے چیکوسلواکیہ کے عوام بیدار ہوچکے تھے اور نازی فوجیوں کے لیے نفرت کا ایک لاوا تھا جو کہ ان کے سینوں میں پک چکا تھا۔
یہ فیوچک کا مقصد تھا مگر اب چیکو سلواکیہ کی عوام کو بیدار کرنے کی قیمت وہ چکا رہا تھا۔ ہر روز اس کا بدن نازی فوجیوں کے دیے گئے زخموں سے چور چور ہوتا ہر شب وہ اپنی زندگی کی آخری شب جان کر بسر کرتا تصور کیا جاسکتا ہے یہ کیسی زندگی تھی جو 16 ماہ فیوچک نے جیل میں گزاری۔ ان کٹھن ترین حالات میں بھی وہ اپنی ادبی ذمے داریوں سے غافل نہ تھا وہ جوکہتے ہیں نا نیت صاف منزل آسان۔ فیوچک کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہوا کہ جب ایک چیک سپاہی نے اسے یہ پیشکش کی کہ ان حالات میں لکھنے کی تمنا ہو تو میں پنسل و کاغذ کا بندوبست کیے دیتا ہوں؟
بھلا ایک ترقی پسند ادیب ہو اور اس کی لکھنے کی تمنا ختم ہوجائے ناممکن ہے چنانچہ فیوچک لکھتا رہا اور چیک سپاہی جوکہ خود کو جرمن ظاہرکرکے نازی کیمپ میں ملازمت کرتا وہ یہ تحریریں محفوظ کرتا رہا جب کہ فیوچک آنیوالے کل کے لیے لکھتا رہا مگر یکم مئی 1943 اس نے اپنے ساتھیوں سے مشاورت کے ساتھ شاندار طریقے سے منانے کا فیصلہ کیا۔ فیوچک اور اس کے جیل کے نظریاتی ساتھی اس تہوار کو ایک یادگار بنانا چاہتے تھے چنانچہ آج یکم مئی 1943 کو سب نے صاف ستھرے لباس زیب تن کیے۔
آج سب قیدیوں کو ناشتے میں دو کی بجائے تین روٹیاں دی گئیں یہ ناشتہ دینے والوں کی جانب سے محبت کا اظہار تھا ناشتے کے بعد سب ورزش کے لیے پریڈ کے لیے کھڑے ہوگئے۔ فیوچک سب سے آگے تھا کیونکہ اسے ورزش کرانا تھی۔ پھر ورزش اس طریقے سے ہوئی کہ گویا ہتھوڑا چلایا جا رہا تھا یا کھیت میں درانتی سے فصل کاٹی جا رہی تھی۔ جب کہ قیدی خواتین بھی اس حصے میں جہاں وہ مقید تھیں یکم مئی کا تہوار اپنے طور پر منا رہی تھیں۔ یکم مئی کا یہ تہوار فیوچک کی زندگی کا آخری تہوار ثابت ہوا کیونکہ 25 اگست 1943کو اسے خود ساختہ نازی فوج کی عدالت نے سزائے موت سنائی اور 8 ستمبر 1943 کو اسے پھانسی دے دی گئی۔
بہرکیف جب مئی 1945 کو نازی فوجوں کو شکست فاش ہوئی تو ان کی قید سے وہ قیدی رہا ہوئے جنھیں قتل کرنے کی نازی فوجوں کو فرصت نہ مل سکی تھی ان قیدیوں میں فیوچک کی محبوب بیوی گسٹینا بھی تھی جسے اگرچہ اپنے محبت کرنیوالے شوہر کی موت کی خبر مل چکی مگر دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ اپنے شوہر کی تلاش میں نکلی جیسے کہ چیکوسلواکیہ کے دیگر لوگ اپنے پیاروں کی تلاش میں نکلے تھے۔ مگر حقیقت اس کے خیالات کے برعکس تھی البتہ گسٹینا کی ملاقات اس چیک سپاہی سے ضرور ہوگئی جس نے فیوچک کو لکھنے کے لیے پنسل وکاغذ فراہم کیا تھا اور اس کی تحریروں کو محفوظ کیا تھا۔ اس چیک سپاہی اولف کولنسکی نے وہ تمام تحریریں گسٹینا کے حوالے کردیں۔
گسٹینا نے وہ تمام تحریریں کتابی شکل میں پھانسی کے سائے کے نام سے شایع کروائیں تو دنیا بھر میں ایک ہنگامہ برپا ہوگیا۔ اور یہ کتاب آج اپنی اشاعت کے تقریباً 70 برس پورے کرچکی ہے۔ مگر ہر آنیوالا دن اس کتاب کی مقبولیت کا باعث بن رہا ہے۔ فیوچک نے سچ ہی تو کہا تھا کہ میں فانی ہوں مگر میری تحریریں لافانی ہیں میری تحریروں کو کبھی زوال نہیں آئے گا۔ یہ لازوال ہیں۔ 23 فروری 2015 کو جیولیس فیوچک کی 112 ویں سالگرہ پر فقط اتنا عرض کروں گا آج تم نہیں ہم ہیں کل ہم نہ ہوں گے کوئی اور ہوگا اور طبقاتی لڑائی جاری رہے گی مکمل فتح تک۔