امید
دیکھیے کہ ہم سب کے دنیا میں آنے سے قبل ایک امید جاگی تھی۔
RIYADH:
دو آدمی کھڑکی کے پاس کھڑے تھے۔ ایک کو زمین پر گندگی دکھائی دے رہی تھی تو دوسرے کو آسمان پر کہکشاں۔ بیوی نے شوہر سے کہا کہ نہ کپڑے رکھنے کو اتنے ہینگر ہیں اور نہ اتنی الماریاں۔ خاوند نے خوش ہوکر کہا کہ شکر ہے کہ اب ہمارے پاس اتنے زیادہ کپڑے ہیں کہ جگہ کم پڑگئی ہے۔ تصویر کے کتنے رخ ہوتے ہیں؟ دو۔ روشن اور تاریک۔ آج کا کالم اگلے سات منٹ میں آپ کے دل میں امید کے دیے جلا دے گا۔
دیکھیے کہ ہم سب کے دنیا میں آنے سے قبل ایک امید جاگی تھی۔ ہماری ماؤں نے کہا تھا کہ وہ امید سے ہیں۔ ہمارے والدین ہمارے دنیا میں آنے سے قبل خوش تھے۔ ہماری پیدائش کے بعد ان کی خوشیاں اپنی انتہا پر تھیں۔ آس کا الٹ مایوسی ہے۔ اخبارات کے اوراق پلٹتے ہوئے آپ کا ادارتی صفحے تک آجانا امید ہی تو ہے۔ نام ''عزم نو'' ہے تو امید کے پھول نہ بیچیں تو کیا مایوسی کی ریڑھی لگائیں؟
مصباح الحق اور سعید اجمل کی زندگی سے ہمیں امید کی کرنیں پھوٹتی دکھائی دیتی ہیں۔ 33 سالہ بلے باز کرکٹ ٹیم کا مستقل ممبر نہ بن سکا تھا۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ پھر اگلے سات آٹھ برسوں میں ورلڈ کپ تک کپتانی۔ یقین جانیے! زندگی کے ہر ہر صفحے پر امید اور صرف امید لکھی نظر آتی ہے۔ یہی معاملہ باہر کا تھا۔ بڑے عرصے تک سعید ٹیم میں جگہ نہ بنا سکے تھے۔ خاندان کا دباؤ تھا کہ گیند بازی چھوڑو اور سوداگری دنیا میں آجاؤ۔ یوں دنیا کے نمبر ون بالر بننے کے عمل نے امید کو جگائے رکھنے کا سبق دیا۔ بالنگ پر پابندی اور بحران سے نکلنے کو امید کا دیا جلائے رکھنا ہی کہہ سکتے ہیں۔
وہ کون سی شخصیات ہیں جنھوں نے طویل عرصے تک جدوجہد کے بعد بھی مایوسی کو قریب نہیں پھٹکنے دیا؟ ساڑھے نو سو سال تک قوم کو امن کا پیغام دینے والے حضرت نوحؑ تھے۔ ان کی بنائی ہوئی کشتی میں ایک سو سے بھی کم لوگ سوار تھے۔ جدوجہد کا عرصہ اور وفادار ساتھیوں کی تعداد جب بھی دیکھی جائے گی تو امید کی کرن ضرور جاگے گی۔
حضرت ابراہیمؑ کا آگ میں ڈالا جانا، جلاوطنی، بیوی اور بیٹے کو حکم الہی کے تحت صحرا میں چھوڑ جانا اور آخر میں قربانی کے حکم پر لبیک کہنے کی ادا نے انھیں ''خلیل اللہ'' بنایا۔ آج دو تہائی سے زیادہ دنیا ان کی ماننے والی ہے۔ رسول اکرمؐ کی حیات طیبہ پر نظر دوڑائیں تو اہل مکہ کی سنگدلی اور طائف کے لوگوں کی بے مروتی دکھائی دیتی ہے۔ ایسے میں امید کے دامن کو تھامے رکھنا اور رب کے در رحمت سے مایوس نہ ہونے میں ہمارے لیے بڑے سبق پوشیدہ ہیں۔
کرکٹ کی دنیا سے ہوتے ہوئے ہم نے عظیم پیغمبروں کی زندگیوں سے امید کے دیے جلائے۔ چراغ مصطفویؐ سے ہدایت کی کرنیں پانے کی کوشش کی کہ اس سے بڑھ کر تو کچھ بھی نہیں۔ اگر ہم تحریک آزادی میں قائداعظم اور گاندھی جی کی زندگی پر نظر دوڑائیں تو محسوس ہوتا ہے کہ راہ کے پکے لوگوں کے ہی کامیابی قدم چومتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کو ساتواں سال لگ چکا تھا۔ ستر سالہ جناح اور 77 سالہ گاندھی کی کامیابی کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ گجرات کے جسمانی طور پر دو کمزور رہنماؤں کی عمر کی نقدی دن بہ دن ختم ہو رہی تھی۔
پہلے ہٹلر نے انگریزوں کو کمزور کیا تو پھر ایٹم بموں نے جنگ کا خاتمہ کیا۔ یوں آزادی حاصل کی گاندھی نے اور پاکستان قائم کیا جناح نے۔ کرنسی نوٹوں پر ان کی تصاویر ہیں۔ ہندوستانی انھیں مہاتما تو پاکستانی انھیں قائداعظم کہتے ہیں۔ جیب یا پرس سے نوٹ نکالیے اور کہیے کہ اس بطل جلیل کی زندگی میں جھانکنے کے بعد بھی آپ مایوس ہوں گے۔ بالکل نہیں۔ اپنی زندگی کی چھوٹی چھوٹی مایوسیوں کو ذہن سے جھٹک دیجیے اور اس کائنات کے دیگر بڑے بڑے لوگوں کی زندگی کو دیکھیے۔ یقین رکھیے کہ آخر میں ہم آپ کی مایوسی پر بھی گفتگو کریں گے۔
نیوٹن، مارکونی، گراہم بیل، آئن اسٹائن اور گلیلو جیسے سائنسدان جہد مسلسل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ گوتم بدھ، سینٹ پال، ڈارون، کارل مارکس، ایڈم اسمتھ، افلاطون، فرائڈ، لنکن اور مارٹن لوتھر جیسے نظریات عطا کرنے والے لوگ زمانے سے لڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ ملکوں کی تاریخ کھنگالیں تو واشنگٹن، ماؤ، گاندھی، جناح، مصطفیٰ کمال، لینن، ہوچی منہ، نیلسن منڈیلا جیسے لوگ نظر آتے ہیں۔
ان کی خوبی یہی تھی کہ انھوں نے مایوس قوم کے اندر امید کی روشنی جگائے رکھی۔ انھیں محرومی سے لڑنے والا بناکر غلامی کی زنجیر توڑ کر آزادی کی راہ دکھائی۔ سکندر اعظم ہو یا اشوک، عمرؓ خطاب ہوں یا خالد بن ولیدؓ، کولمبس ہو یا واسکوڈی گاما، صلاح الدین ایوبی ہوں یا محمود غزنوی، شیرشاہ سوری ہو یا ہمایوں، تمام کی لغت میں ہمیں ''نہیں'' کا لفظ دکھائی نہیں دیتا۔
''دنیا میں پیدا ہونے والا ہر بچہ ہمارے لیے ایک پیغام ہوتا ہے کہ قدرت ابھی ہم سے مایوس نہیں۔'' دو سو سال پہلے دنیا کی آبادی ایک ارب تھی۔ اگر ان لوگوں کو بتایا جاتا کہ آنے والے دنوں میں دنیا کی آبادی سات گنا بڑھ جائے گی تو کیا ردعمل ہوتا؟ وہ سوچتے کہ لوگ کھائیں گے کیسے اور رہیں گے کہاں؟ سائنسی ایجادات اور دواؤں و احتیاط نے اوسط عمر بڑھا دی ہے۔ آج کے انسانوں کو وہ کچھ میسر ہے جو سو سال قبل بادشاہوں کے نصیب میں بھی نہ تھا۔
اپنے قریب رکھے موبائل فون اور ٹی وی ریموٹ کو ہی دیکھ لیں۔ پچاس سال قبل شہنشاہ ایران جیسے حکمران کے دو دو دارالخلافے ہوتے تھے۔ ایک سردیوں کا اور ایک گرمیوں کا۔ آج دنیا کے گرم ترین علاقے کو بھی مشینوں کی مدد سے سرد ترین علاقے میں بدلا جاسکتا ہے۔ نصف صدی میں اتنی بڑی تبدیلی لانا تصویر کے تاریک رخ کو دیکھنے والوں کا کام نہ تھا۔ یہ سب کچھ اچھی امید اور بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ ہوا۔
نواز شریف، آصف زرداری اور عمران خان آج کے مقبول ترین سیاستدان ہیں۔ ان تینوں کی دس سالہ زندگی میں ہمیں امید کی کرنیں دکھائی دیتی ہیں۔ جدہ میں جلاوطنی کے بعد تیسری مرتبہ وزیراعظم بننا کسی مایوس آدمی کا کام نہ تھا۔ گرفتاریوں و مقدموں کے بعد جلاوطنی اور پھر اہلیہ کا قتل۔ ایسے میں سیاسی طور پر زندہ رہنا آصف زرداری کی ''لغت'' میں مایوسی کا لفظ نہ ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔
عمران کا نئی صدی کے ابتدائی عشرے میں مسلسل سیاسی ناکامیوں کے باوجود جمے رہنا کسی بات کی جانب اشارہ کرتا ہے؟ اب ذرا پرویز مشرف کو تو دیکھیں۔ ستر سال کی عمر ہوجانے اور صدر پاکستان و آرمی چیف جیسے عہدوں پر رہ چکنے کے باوجود متحرک رہنا۔ وہ ایوب کی طرح مایوس ہوکر گھر نہیں بیٹھ گئے۔
چلیں اب آپ کی بات کرتے ہیں کہ بہت ہوگیا تاریخ میں جھانکنا۔ ہم سب کی زندگیوں میں بھی مایوسی کی جھلک ہے۔ کسی نوجوان کی شادی نہیں ہو رہی تو کوئی بیٹی کے رشتے کے لیے پریشان ہے۔ پڑھا لکھا بے روزگار ہے تو شادی شدہ بے اولاد۔ کوئی آمدنی میں کمی پر کڑھتا ہے تو کوئی حریف کے آگے نکل جانے پر پریشان ہے۔ کوئی بیماری سے ادھ موا ہوگیا ہے تو کسی کو انتخابی ناکامی کا صدمہ ہے۔
کوئی بچوں کے اختلاف پر پریشان ہے تو کوئی جاب کے ختم ہونے کے خدشے کا شکار ہے۔ کوئی بہو اپنی ساس کے ہاتھوں پریشان ہے تو کسی کا جینا اس کی نند نے دوبھر کیا ہوا ہے۔ کوئی بیوی شوہر کی بدمزاجی پر اداس ہے تو کوئی اس کی عاشق مزاجی سے۔ کوئی بیرون ملک سے وطن واپسی پر سیٹ نہ ہوسکنے پر دوراہے پر کھڑا ہے تو کوئی ریٹائرڈ لائف سے بور اور آنے والے وقت سے خوف زدہ ہے۔
امید کی کرن یہی ہے کہ ہر کوئی جدوجہد کر رہا ہے۔ ہم سب سے کہیں زیادہ مشکلات کا سامنا انھوں نے کیا جن کا ذکر ہم کالم میں کرچکے ہیں۔ جب ہر ایک کے مسئلے کی نوعیت مختلف ہے تو ہم کیا انوکھے ہیں؟ ہمیں قومی و ذاتی الجھنوں پر فکرمند ضرور ہونا چاہیے لیکن مایوس نہیں۔ بادشاہ کو کوئی اور گتھی سلجھانی ہے تو فقیر کے مسئلے کی نوعیت کچھ اور ہے۔ سرمایہ دار بینک کے قرضوں کی ادائیگی کے دکھ جھیل رہا ہے تو نوکری پیشہ مہنگائی کا عذاب بھگت رہا ہے۔
اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے۔ پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے۔ یہ شعر ہمارے پورے کالم کا حاصل ہے۔ کوشش و جدوجہد ہمارا کام ہے، پھر نتیجہ مالک پر چھوڑ دینا چاہیے۔ مالی کا کام پانی دینا ہوتا ہے اور وہ بھی مشکیں بھر بھر کر۔ پھول دینا نہ دینا مالک کا کام ہے۔ جب حقیقت یہ ہے تو مایوسی کیسی؟ مسکرائیے اور کہیے کہ یہ پانچ منٹ کیسے گزرے؟ مایوسی کو جھٹکیے کہ ہمارے تو چاروں طرف ہونی چاہیے صرف اور صرف امید۔
دو آدمی کھڑکی کے پاس کھڑے تھے۔ ایک کو زمین پر گندگی دکھائی دے رہی تھی تو دوسرے کو آسمان پر کہکشاں۔ بیوی نے شوہر سے کہا کہ نہ کپڑے رکھنے کو اتنے ہینگر ہیں اور نہ اتنی الماریاں۔ خاوند نے خوش ہوکر کہا کہ شکر ہے کہ اب ہمارے پاس اتنے زیادہ کپڑے ہیں کہ جگہ کم پڑگئی ہے۔ تصویر کے کتنے رخ ہوتے ہیں؟ دو۔ روشن اور تاریک۔ آج کا کالم اگلے سات منٹ میں آپ کے دل میں امید کے دیے جلا دے گا۔
دیکھیے کہ ہم سب کے دنیا میں آنے سے قبل ایک امید جاگی تھی۔ ہماری ماؤں نے کہا تھا کہ وہ امید سے ہیں۔ ہمارے والدین ہمارے دنیا میں آنے سے قبل خوش تھے۔ ہماری پیدائش کے بعد ان کی خوشیاں اپنی انتہا پر تھیں۔ آس کا الٹ مایوسی ہے۔ اخبارات کے اوراق پلٹتے ہوئے آپ کا ادارتی صفحے تک آجانا امید ہی تو ہے۔ نام ''عزم نو'' ہے تو امید کے پھول نہ بیچیں تو کیا مایوسی کی ریڑھی لگائیں؟
مصباح الحق اور سعید اجمل کی زندگی سے ہمیں امید کی کرنیں پھوٹتی دکھائی دیتی ہیں۔ 33 سالہ بلے باز کرکٹ ٹیم کا مستقل ممبر نہ بن سکا تھا۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ پھر اگلے سات آٹھ برسوں میں ورلڈ کپ تک کپتانی۔ یقین جانیے! زندگی کے ہر ہر صفحے پر امید اور صرف امید لکھی نظر آتی ہے۔ یہی معاملہ باہر کا تھا۔ بڑے عرصے تک سعید ٹیم میں جگہ نہ بنا سکے تھے۔ خاندان کا دباؤ تھا کہ گیند بازی چھوڑو اور سوداگری دنیا میں آجاؤ۔ یوں دنیا کے نمبر ون بالر بننے کے عمل نے امید کو جگائے رکھنے کا سبق دیا۔ بالنگ پر پابندی اور بحران سے نکلنے کو امید کا دیا جلائے رکھنا ہی کہہ سکتے ہیں۔
وہ کون سی شخصیات ہیں جنھوں نے طویل عرصے تک جدوجہد کے بعد بھی مایوسی کو قریب نہیں پھٹکنے دیا؟ ساڑھے نو سو سال تک قوم کو امن کا پیغام دینے والے حضرت نوحؑ تھے۔ ان کی بنائی ہوئی کشتی میں ایک سو سے بھی کم لوگ سوار تھے۔ جدوجہد کا عرصہ اور وفادار ساتھیوں کی تعداد جب بھی دیکھی جائے گی تو امید کی کرن ضرور جاگے گی۔
حضرت ابراہیمؑ کا آگ میں ڈالا جانا، جلاوطنی، بیوی اور بیٹے کو حکم الہی کے تحت صحرا میں چھوڑ جانا اور آخر میں قربانی کے حکم پر لبیک کہنے کی ادا نے انھیں ''خلیل اللہ'' بنایا۔ آج دو تہائی سے زیادہ دنیا ان کی ماننے والی ہے۔ رسول اکرمؐ کی حیات طیبہ پر نظر دوڑائیں تو اہل مکہ کی سنگدلی اور طائف کے لوگوں کی بے مروتی دکھائی دیتی ہے۔ ایسے میں امید کے دامن کو تھامے رکھنا اور رب کے در رحمت سے مایوس نہ ہونے میں ہمارے لیے بڑے سبق پوشیدہ ہیں۔
کرکٹ کی دنیا سے ہوتے ہوئے ہم نے عظیم پیغمبروں کی زندگیوں سے امید کے دیے جلائے۔ چراغ مصطفویؐ سے ہدایت کی کرنیں پانے کی کوشش کی کہ اس سے بڑھ کر تو کچھ بھی نہیں۔ اگر ہم تحریک آزادی میں قائداعظم اور گاندھی جی کی زندگی پر نظر دوڑائیں تو محسوس ہوتا ہے کہ راہ کے پکے لوگوں کے ہی کامیابی قدم چومتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کو ساتواں سال لگ چکا تھا۔ ستر سالہ جناح اور 77 سالہ گاندھی کی کامیابی کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ گجرات کے جسمانی طور پر دو کمزور رہنماؤں کی عمر کی نقدی دن بہ دن ختم ہو رہی تھی۔
پہلے ہٹلر نے انگریزوں کو کمزور کیا تو پھر ایٹم بموں نے جنگ کا خاتمہ کیا۔ یوں آزادی حاصل کی گاندھی نے اور پاکستان قائم کیا جناح نے۔ کرنسی نوٹوں پر ان کی تصاویر ہیں۔ ہندوستانی انھیں مہاتما تو پاکستانی انھیں قائداعظم کہتے ہیں۔ جیب یا پرس سے نوٹ نکالیے اور کہیے کہ اس بطل جلیل کی زندگی میں جھانکنے کے بعد بھی آپ مایوس ہوں گے۔ بالکل نہیں۔ اپنی زندگی کی چھوٹی چھوٹی مایوسیوں کو ذہن سے جھٹک دیجیے اور اس کائنات کے دیگر بڑے بڑے لوگوں کی زندگی کو دیکھیے۔ یقین رکھیے کہ آخر میں ہم آپ کی مایوسی پر بھی گفتگو کریں گے۔
نیوٹن، مارکونی، گراہم بیل، آئن اسٹائن اور گلیلو جیسے سائنسدان جہد مسلسل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ گوتم بدھ، سینٹ پال، ڈارون، کارل مارکس، ایڈم اسمتھ، افلاطون، فرائڈ، لنکن اور مارٹن لوتھر جیسے نظریات عطا کرنے والے لوگ زمانے سے لڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ ملکوں کی تاریخ کھنگالیں تو واشنگٹن، ماؤ، گاندھی، جناح، مصطفیٰ کمال، لینن، ہوچی منہ، نیلسن منڈیلا جیسے لوگ نظر آتے ہیں۔
ان کی خوبی یہی تھی کہ انھوں نے مایوس قوم کے اندر امید کی روشنی جگائے رکھی۔ انھیں محرومی سے لڑنے والا بناکر غلامی کی زنجیر توڑ کر آزادی کی راہ دکھائی۔ سکندر اعظم ہو یا اشوک، عمرؓ خطاب ہوں یا خالد بن ولیدؓ، کولمبس ہو یا واسکوڈی گاما، صلاح الدین ایوبی ہوں یا محمود غزنوی، شیرشاہ سوری ہو یا ہمایوں، تمام کی لغت میں ہمیں ''نہیں'' کا لفظ دکھائی نہیں دیتا۔
''دنیا میں پیدا ہونے والا ہر بچہ ہمارے لیے ایک پیغام ہوتا ہے کہ قدرت ابھی ہم سے مایوس نہیں۔'' دو سو سال پہلے دنیا کی آبادی ایک ارب تھی۔ اگر ان لوگوں کو بتایا جاتا کہ آنے والے دنوں میں دنیا کی آبادی سات گنا بڑھ جائے گی تو کیا ردعمل ہوتا؟ وہ سوچتے کہ لوگ کھائیں گے کیسے اور رہیں گے کہاں؟ سائنسی ایجادات اور دواؤں و احتیاط نے اوسط عمر بڑھا دی ہے۔ آج کے انسانوں کو وہ کچھ میسر ہے جو سو سال قبل بادشاہوں کے نصیب میں بھی نہ تھا۔
اپنے قریب رکھے موبائل فون اور ٹی وی ریموٹ کو ہی دیکھ لیں۔ پچاس سال قبل شہنشاہ ایران جیسے حکمران کے دو دو دارالخلافے ہوتے تھے۔ ایک سردیوں کا اور ایک گرمیوں کا۔ آج دنیا کے گرم ترین علاقے کو بھی مشینوں کی مدد سے سرد ترین علاقے میں بدلا جاسکتا ہے۔ نصف صدی میں اتنی بڑی تبدیلی لانا تصویر کے تاریک رخ کو دیکھنے والوں کا کام نہ تھا۔ یہ سب کچھ اچھی امید اور بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ ہوا۔
نواز شریف، آصف زرداری اور عمران خان آج کے مقبول ترین سیاستدان ہیں۔ ان تینوں کی دس سالہ زندگی میں ہمیں امید کی کرنیں دکھائی دیتی ہیں۔ جدہ میں جلاوطنی کے بعد تیسری مرتبہ وزیراعظم بننا کسی مایوس آدمی کا کام نہ تھا۔ گرفتاریوں و مقدموں کے بعد جلاوطنی اور پھر اہلیہ کا قتل۔ ایسے میں سیاسی طور پر زندہ رہنا آصف زرداری کی ''لغت'' میں مایوسی کا لفظ نہ ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔
عمران کا نئی صدی کے ابتدائی عشرے میں مسلسل سیاسی ناکامیوں کے باوجود جمے رہنا کسی بات کی جانب اشارہ کرتا ہے؟ اب ذرا پرویز مشرف کو تو دیکھیں۔ ستر سال کی عمر ہوجانے اور صدر پاکستان و آرمی چیف جیسے عہدوں پر رہ چکنے کے باوجود متحرک رہنا۔ وہ ایوب کی طرح مایوس ہوکر گھر نہیں بیٹھ گئے۔
چلیں اب آپ کی بات کرتے ہیں کہ بہت ہوگیا تاریخ میں جھانکنا۔ ہم سب کی زندگیوں میں بھی مایوسی کی جھلک ہے۔ کسی نوجوان کی شادی نہیں ہو رہی تو کوئی بیٹی کے رشتے کے لیے پریشان ہے۔ پڑھا لکھا بے روزگار ہے تو شادی شدہ بے اولاد۔ کوئی آمدنی میں کمی پر کڑھتا ہے تو کوئی حریف کے آگے نکل جانے پر پریشان ہے۔ کوئی بیماری سے ادھ موا ہوگیا ہے تو کسی کو انتخابی ناکامی کا صدمہ ہے۔
کوئی بچوں کے اختلاف پر پریشان ہے تو کوئی جاب کے ختم ہونے کے خدشے کا شکار ہے۔ کوئی بہو اپنی ساس کے ہاتھوں پریشان ہے تو کسی کا جینا اس کی نند نے دوبھر کیا ہوا ہے۔ کوئی بیوی شوہر کی بدمزاجی پر اداس ہے تو کوئی اس کی عاشق مزاجی سے۔ کوئی بیرون ملک سے وطن واپسی پر سیٹ نہ ہوسکنے پر دوراہے پر کھڑا ہے تو کوئی ریٹائرڈ لائف سے بور اور آنے والے وقت سے خوف زدہ ہے۔
امید کی کرن یہی ہے کہ ہر کوئی جدوجہد کر رہا ہے۔ ہم سب سے کہیں زیادہ مشکلات کا سامنا انھوں نے کیا جن کا ذکر ہم کالم میں کرچکے ہیں۔ جب ہر ایک کے مسئلے کی نوعیت مختلف ہے تو ہم کیا انوکھے ہیں؟ ہمیں قومی و ذاتی الجھنوں پر فکرمند ضرور ہونا چاہیے لیکن مایوس نہیں۔ بادشاہ کو کوئی اور گتھی سلجھانی ہے تو فقیر کے مسئلے کی نوعیت کچھ اور ہے۔ سرمایہ دار بینک کے قرضوں کی ادائیگی کے دکھ جھیل رہا ہے تو نوکری پیشہ مہنگائی کا عذاب بھگت رہا ہے۔
اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے۔ پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے۔ یہ شعر ہمارے پورے کالم کا حاصل ہے۔ کوشش و جدوجہد ہمارا کام ہے، پھر نتیجہ مالک پر چھوڑ دینا چاہیے۔ مالی کا کام پانی دینا ہوتا ہے اور وہ بھی مشکیں بھر بھر کر۔ پھول دینا نہ دینا مالک کا کام ہے۔ جب حقیقت یہ ہے تو مایوسی کیسی؟ مسکرائیے اور کہیے کہ یہ پانچ منٹ کیسے گزرے؟ مایوسی کو جھٹکیے کہ ہمارے تو چاروں طرف ہونی چاہیے صرف اور صرف امید۔