گندی ذہنیت
سب سے پہلے تو گوگل جو دنیا کی سب سے بڑی سرچ ویب سائٹ ہے وہ فحش سائٹس کے کوئی بھی اعداد و شمار جاری نہیں کرتی۔
افسوس پاکستان کا نام آج جہاں بھی لکھا جاتا ہے برے الفاظ میں لکھا جاتا ہے، کوئی پاکستانی اگر اپنے قریبی امریکن انگلش دوست سے یہ کہہ دے کہ میں چھٹیوں پر پاکستان جارہا ہوں تو گورا آپ کو ایسے روکنے کی کوشش کرتا ہے جیسے آپ تیز بھاگ رہے ہوں اور سامنے بڑا سا گڑھا ہو۔
گورے کی غلطی نہیں ہے۔ 2001 سے پہلے امریکا میں کسی سے پاکستان کا ذکر کرو تو پہلے تو وہ منہ ٹیڑھا کرکے پاکستان بولنے کی ناکام کوشش کرتا تھا پھر پوچھتا تھا کہ پاکستان کہاں ہے؟ جس کا آسان سا جواب ہوتا تھا کہ ہم پہلے انڈیا کا حصہ تھے، گورا ہمارے ملک کے ساتھ بھی بٹر چکن اور بھنگڑا جوڑ دیتا تھا اور بات وہیں ختم ہوجاتی تھی۔
2001 آیا اور ہماری یہ معصوم سی پہچان بدل کر رہ گئی، پہلے گورا ہم کو غلط سمجھتا تھا اور بعد میں بھی۔ ہم طالبان نہیں تھے لیکن گورے کو امریکا کے میڈیا نے یہی دکھایا کہ ہم پاکستان میں بہت سا اسلحہ لیے کسی غار میں بیٹھے ہیں اور ہر اس شخص کو مارنے کو تیار ہیں جو ہمارے سامنے آجائے۔
چیزیں اتنی بری نہیں تھیں جتنی انٹرنیشنل میڈیا نے لوگوں کو دکھائیں۔ ایک خاتون اپنی دوست سے گلہ کررہی تھیں کہ میں جب بھی گھر صاف کرتی ہوں تو کوئی کچھ نہیں کہتا لیکن اگر گھر گندا ہوتا ہے تو سب کو نظر آتا ہے۔ بس ویسے ہی جو اچھی چیزیں ہم نے پچھلے 14 سال میں پاکستان میں کیں اس پر انٹرنیشنل میڈیا خاموش رہتا ہے لیکن وہ ضرور نظر آرہا ہوتا ہے جو غلط ہوتا ہے، دس اچھی باتوں پر ایک غلطی بھاری پڑتی ہے۔
جس ہفتے یہ رپورٹ آئی کہ پاکستانی سب سے زیادہ عطیات دینے والی قوم ہے، اسی ہفتے انٹرنیشنل میڈیا یہ لکھتی نظر آئی کہ پاکستان میں ڈزنی جیسی بڑی امریکن کمپنی نے اپنی ساری پروڈکشن بری کوالٹی کنٹرول کی وجہ سے روک دی ہے، پاکستانی لڑکی پہلی بار آسکر ایوارڈ جیتی نہ صرف یہ بلکہ دنیا کے سامنے وہ وہ پیغام بھی لاپائی جس سے ہزاروں لڑکیوں کی زندگی بہتر ہو پائے گی لیکن اس وقت بھی انٹرنیشنل میڈیا کو ہمارے یہاں ہونے والے چھوٹے موٹے حملوں میں زیادہ دلچسپی تھی۔
ایک بار کراچی کے چڑیا گھر سے شیر نکل کر بھاگ گیا۔ بھگدڑ مچ گئی، لوگ اپنی جان بچانے کے لیے ادھر ادھر چھپ گئے، جب ان کی شیر پر نظر پڑی تو دیکھا کہ وہ تو آس پاس کے درختوں کے پتے کھانے کی کوشش کررہا ہے یعنی اگر ایک شیر کو بار بار کھانے کے لیے پتے دے کر یہ احساس دلایا جائے کہ تم بکری ہو تو وہ بھی اس پر یقین کرلے گا۔ آج ہم پاکستانی کچھ بھی پاکستان کے بارے میں غلط سنتے ہیں تو جھٹ سے اسے سچ مان لیتے ہیں بغیر کسی تصدیق کے۔
پچھلے کچھ سال میں ایک خبر لوگوں نے یا تو نیوز پیپرز میں یا پھر فیس بک پر اپنے دوستوں کو شیئر کرتے دیکھی ہوگی کہ انٹرنیٹ پر فحش ویب سائٹس کی سرچ میں پاکستان نمبر ایک ہے۔ سرچ رزلٹ ہر سال کے شروع میں مختلف بین الاقوامی اخبارات میں شایع ہوتے ہیں اور پاکستان ان میں ہر بار ٹاپ پر ہوتا ہے جو دنیا کو یہ بتاتا ہے کہ ہم مسلمان ہونے کے باوجود وہ قوم ہیں جو سب سے زیادہ فحش ویب سائٹس دیکھتی ہے۔
نہ صرف پاکستانی بلکہ ٹاپ ٹین میں اور مسلمان ملک جس میں ایران، سعودی عرب اور مسلمانوں کی اکثریت والا ترکی شامل ہے، خبر یہ بھی کہتی ہے کہ یہ مسلمان ملک ہی ہیں جن کی وجہ سے یہ فحش سائٹس اتنا بزنس کرتی ہیں، پاکستان جیسے مسلمان ملک اس طرح کی ویب سائٹس کے لیے سونے کی کان ہیں۔ کیوں کہ ضروری نہیں کہ پاکستان کی برائی کرتی ہر خبر سچ ہو اور انٹرنیٹ یوزرز اسپیڈ اور سنسرشپ کو ذہن میں رکھتے اور اپنے کمپیوٹر انجینئرنگ بیک گرائونڈ کی وجہ سے ہم نے سوچا کہ چلو ذرا ان خبروں کی چھان بین کرتے ہیں۔
سب سے پہلے تو گوگل جو دنیا کی سب سے بڑی سرچ ویب سائٹ ہے وہ فحش سائٹس کے کوئی بھی اعداد و شمار جاری نہیں کرتی۔ نوے فیصد (90) سرچ جو ہورہی ہے وہ گوگل پر ہے جس کا ڈیٹا خبریں بنانے والوں کے پاس نہیں ہے، لیکن دوسرے ایسے ٹولز ضرور ہیں جن سے پتہ چلایا جاسکتا ہے کہ کون سے الفاظ کس ملک سے زیادہ سرچ کیے جاتے ہیں۔
کئی ہفتوں کی ریسرچ کے بعد ہمیں جو نتائج حاصل ہوئے وہ یہ ہیں ''دنیا میں سب سے زیادہ فحش ویب سائٹس پاکستان میں نہیں پپوا (نیوگنی) میں سرچ کی جاتی ہیں، اس کے بعد ٹرنی ڈیڈ، ٹوبیگو، سولومون آئی لینڈز پھر انڈیا، پھر فجی اور پھر کہیں جا کر دس میں سے چھٹے نمبر پر پاکستان۔
صرف اگر شہروں کو دیکھا جائے تو سب سے اوپر نیو دلی آتا ہے اس کے بعد پونا، ممبئی، پھر کوالالمپور، ڈبلن، ڈیلس اور پھر لندن، کوئی بھی پاکستانی شہر اس ٹاپ ٹین لسٹ میں نہیں۔ چلیے اب صرف اپنے ریجن کو دیکھتے ہیں یعنی پاکستان کے آس پاس کے ملک، یہاں فحش سائٹس کی سرچ کرنے میں سب سے پہلے سری لنکا، بنگلہ دیش وغیرہ ہیں اور پاکستان یہاں بھی چھٹے نمبر پر ہے، شہروں کے حساب سے بھی انڈیا سب سے آگے ہے یعنی اس کا شہر پونا، پھر چنائے، بنگلور جس کے بعد ڈھاکا اور ہاوڑا۔
ہاں پاکستانی ضرور کہیں نہ کہیں ٹاپ ٹین لسٹ میں ہیں لیکن نمبر ون کہیں سے نہیں، خبریں ہمیں ہر سال یہ بتاکر شرمندہ کرتی ہیں کہ ہم غلط ذہنیت میں دنیا کی کسی بھی قوم سے آگے ہیں جو ہمارے امیج کے لیے ہر طرح سے غلط ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی فحش ویب سائٹ کی سرچ رزلٹ کا تجزیہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ اس ویب سائٹ پر خرچ امریکنز کرتے ہیں پھر برطانیہ جس کے بعد جرمنی، انڈیا اور فرانس آتا ہے۔
نہ ہم سرچ میں نمبر ایک ہیں نہ ہی ہم اس طرح کی ویب سائٹس کے لیے سونے کی کان۔ کبھی بھی آج کے بعد اگر کوئی آپ کو یہ گندی ذہنیت میں دنیا میں نمبر ہونے کی بات پاکستانیوں کے بارے میں کرتا نظر آئے تو اس کالم کا ذکر ضرور کیجیے گا۔ ہر خبر صحیح نہیں ہوتی جس طرح ہر بار ہم پاکستانی غلط نہیں ہوتے۔