اور اس نے خودکشی کرلی

ان معمولی پیار،عشق اور محبت کی باتوں کو سر پر سوار کرکے زندگی کے مقصد کو بھلا دینا سب سے بڑی ناکامی ہے۔


ان معمولی پیار،عشق اور محبت کی باتوں کو سر پر سوار کرکے زندگی کے مقصد کو بھلا دینا سب سے بڑی ناکامی ہے۔ فوٹو رائٹرز

ISLAMABAD: سنو لڑکی

ابھی تم عشق مت کرنا

ابھی گڑیا سے کھیلو تم

تمہاری عمر ہی کیا ہے

فقط سترہ برس کی ہو

ابھی معصوم بچی ہو

ابھی تم عشق مت کرنا

فریحہ اور زوہیب کے درمیان سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ دونوں کے گھر والوں نے بچوں کی خوشی کے خاطر ان کی منگنی بھی کردی اور پھر یہ سلسلہ پانچ سال تک رہا۔ لیکن اچانک فریحہ کے گھر والوں کے سر پر ایک نئی ضد سوار ہوگئی، وہ اس کی شادی بیرون ملک کسی اچھے خاندان میں کرنا چاہتے تھے۔ یہ سنتے ہی فریحہ کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔

فریحہ نے اپنی زندگی کے پانچ سالوں میں زوہیب کے ساتھ ڈھیروں خواب سجائے تھے، لیکن گھر والوں کے اچانک اور بے جا فیصلہ کے آگے فریحہ سوچنے پر مجبور ہوگئی۔

یونیورسٹی کی وہ شام بڑی عجیب تھی۔ فریحہ اور اس کی دوستیں کینٹین میں کھڑی شام کی رنگینیوں سے محظوظ ہورہی تھیں کہ اچانک وہاں سے زوہیب اور اس کے دوستوں کا ٹولہ گزرا۔ زوہیب کے ایک دوست نے مزاق میں ایک بات فریحہ کی دوست کو کہہ دی تھی، بس پھر کیا تھا، دونوں جانب سے جملوں کے تبادلے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

اتفاق سے فریحہ اور زوہیب ہی اپنے گروپس کے لیڈر تھے، ان کے بروقت سمجھانے پر یہ معاملہ رفع دفع ہوگیا تھا۔ لیکن اس دن کے بعد اکثر زوہیب اور فریحہ کی چلتے پھرتے ملاقات ہو جایا کرتی۔ مسکراہٹوں کا تبادلہ اب پیار میں تبدیل ہو چکا تھا۔ پڑھائی مکمل ہوتے ہی زوہیب نے ملازمت شروع کردی، ساتھ ہی فریحہ نے بھی اسکول میں پڑھانا شروع کردیا تھا ۔ دونوں نے اپنے گھر والوں کو اپنی پسند سے آ گاہ کیا اور گھر والوں نے رشتے کو بہتر جانتے ہوئے دونوں کی منگنی کردی اور یوں دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ مستقبل کے خواب بُنتے ہوئے 5 سال کا عرصہ گزار دیا۔

فریحہ بڑی حساس طبیعت کی مالک تھی۔ اُس نے ہمیشہ خود سے جڑی چھوٹی چھوٹی چیزوں کی خود سے زیادہ پرواہ کی۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے بچپن میں اپنے ایک طوطے کے مرجانے پر پورا ہفتہ کھانا نہیں کھایا تھا۔ اپنی یونیورسٹی کی کلاس میں بیٹھی وہ اکثر کاپیوں پر تصویریں بنایا کرتی تھی۔ اس کا خواب تھا کہ کوئی اس کا بے انتہا خیال رکھے اور کبھی اس کا دل نا دکھائے۔ فریحہ چونکہ اکلوتی اور والد کی لاڈلی تھی اسی وجہ سے اپنی ہر بات ان سے ہی شیئر کیا کرتی تھی۔

اسی دوران فریحہ کے دور کے رشتہ دار جو آسٹریلیا میں مقیم تھے، انہوں نے اچانک فریحہ کے لئے رشتہ بھیج دیا تھا۔ حالانکہ وہ یہ جانتے تھے کہ فریحہ منگنی کے بندھن میں بندھ چکی تھی۔ یہی وجہ تھی کے جب والدہ نے فریحہ کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی، جب اُس نے والد سے بات کرنا چاہی تو معلوم ہوا کہ والد کی رائے بھی اس فیصلے میں شامل ہے۔ اب اُسے اپنا آپ اکیلا محسوس ہونے لگا، وہ کس سے کیا کہتی، یہاں تو کوئی بھی اس کا ہمدرد نہ تھا۔

اگلی صبح فریحہ کے گھر میں کہرام مچ گیا۔ والدہ غم سے نڈھال زور زور سے کہی رہی تھیں کہ میری بیٹی بس ایک بار آنکھیں کھول لو، پھر جس سے چاہوگی اس سے شادی کرادوں گی۔

یقیناً والدین اپنے بچوں کی بھلائی اور فلاح کے بارے میں ہی سوچتے ہیں، لیکن فریحہ کے والدین نے خود ہی اپنی بیٹی کی آنکھوں میں خواب سجا کر روند ڈالے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ فریحہ کی کہانی بناوٹی نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی ہے۔ اس کی خود کشی کا ذمہ دار اس کے والدین ہی ٹہرتے ہیں کیونکہ اُس کے والدین اُس کی حساس طبیعت سے اچھی طرح واقف تھے۔ ایسے میں اپنے ہاتھوں سے اسے دی ہوئی قیمتی چیز اس سے چھین لینا ہی اس کی موت کی وجہ بنا۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خود کشی ہی تمام مسائل کا حل ہے ؟

کیا اس کے علاوہ کوئی حکمت عملی ترتیب نہیں دی جاسکتی تھی ؟

کیا اپنے دلائل سے سامنے والے شخص کو زیر نہیں کیا جاسکتا تھا ؟

تمام سوال ہمیشہ سے ایک ہی ہیں، بس جواب تبدیل ہوجاتے ہیں ۔

ناامیدی اور امید ایک ساتھ جڑے دو راستے ہیں، جس میں سے امید کا انتخاب خدا کے وہ بندے کرتے ہیں جنہیں اس پر بھروسہ ہوتا ہے۔ زندگی کا سفر چاہے کتنا ہی دشوار ہو، ان کی آخرت سنور جاتی ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ ناامیدی میں خودکشی کا حرام راستہ اختیار کرتے ہیں، وہ نا تو زندگی کو صحیح طور گزار پاتے ہیں بلکہ اپنی آ خرت بھی تباہ و برباد کر دیتے ہیں ۔

ان معمولی پیار،عشق اور محبت کی باتوں کو سر پر سوار کرکے زندگی کے مقصد کو بھلا دینا سب سے بڑی ناکامی ہے۔

زندگی خدا کا دیا ہو انمول تحفہ ہے جس کی قدر نا کرنا، خدا کی قدرت سے منحرف ہونا ہے۔ مندرجہ بالہ کہانی کا مقصد کسی کی دل آزاری اور خود کی سوچ کو آپ پر مسلط کرنا ہرگز نہیں ہے۔ میری تو والدین سے صرف اتنی گزارش ہے کہ اپنے بچوں کی خوشیوں کا خیال رکھیں اور ان کے فیصلے کا احترام کریں، ورنہ فریحہ کی طرح نجانے کتنی حساس لڑکیاں اسی طرح اپنی زندگی کا خاتمہ کرتی رہیں گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں