خاندان اور بیماریوں کا اہم تعلق

ہماری آنے والی نسل ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنےکے بجائے اپنی زندگیاں صرف بیماریوں کے سہارے بوجھ بن کر گزار دیگی


ضمیر آفاقی February 25, 2015
ہماری آنے والی نسل ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنےکے بجائے اپنی زندگیاں صرف بیماریوں کے سہارے بوجھ بن کر گزار دیگی۔ فوٹو فائل

FAISALABAD: دنیا بھر خصوصاً امریکہ، یورپ اور اسرائیل ریسرچ کے میدان میں ایسے محیر العقول کارنامے سر انجام دے رہے ہیں کہ عقل حیران ہی نہیں مزید کی جستجو میں آگے بڑھ جاتی ہے۔

انسان، حیوان، جمادات اور نبادات میں پیدا ہونے والی بیماریوں کے علاج معالجے کے لئے نت نئی دریافتیں ہورہی ہیں۔ موسموں کے تغیر و تبدل کی کھوج لگائی جارہی ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ سوال جو کسی بھی علم کے پھیلاؤ کی بنیاد ہے اُسے اٹھانے والے دانشورں نے سائنسدانوں کے لئے سوچ و فکر کے دروازے کھول رکھے ہیں۔

اگر 2 سو برس پہلے کے لوگ اس دنیا میں آجائیں تو آج کی چکا چوند اور حیرت انگیز ترقی کو دیکھ کر ششدر رہ جائیں گے۔ ابھی تو شروعات ہے آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ دنیا کیا سے کیا ہونے جارہی ہے کہ محو تماشا رہنے کا بھی وقت کسی کے پاس نہیں ہوگا۔ انسان کو اس قدر آسانیاں میسر آجائیں گی جس کا انسان نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔

ڈاکٹرز انسانی زندگی اور صحت کے معاملے میں جس قدر آج پریشان ہے۔ انسان اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کے قابل ہوجائے گا، اپنے اندرونی نقائص کو با آسانی درست کرسکے گا، یہاں تک کہ مجرمانہ ذہن رکھنے والوں کے ذہنوں سے مجرمانہ خیال پیدا ہونے والی سوچ کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ ڈی این اے اسی طرح کی ایک حیرت انگیز دریافت ہے جس نے انسانی زندگی کے ساتھ معاشروں کو بھی بدل کر رکھ دیا ہے۔ انسان جھوٹ بولنا چاہے گا مگر بول نہیں پائے گا، اُس کا ہرعمل خفیہ یا ظاہری چھپا نہیں رہ سکے گا، جب ایسا ہوگا تو پھر کون جرم کرے گا اور کون جھوٹ بولے گا معاشرے جنت نظیر بن جائیں گے، لگتا تو ایسا ہی ہے۔

انسان کے اندر پیدا ہونے والی بیماریوں کا کھوج لگانے والے بتاتے ہیں کہ ان بیماریوں کی وجوہات میں قریبی رشتوں کا بڑا تعلق ہوتا ہے۔ جس طرح موروثی بیماریاں ہوتی ہیں بالکل اُسی طرح قریبی عزیزوں سے بھی بیماریاں منتقل ہوسکتی ہیں۔ ایک تازہ ترین ریسرچ یہ بتاتی ہے کہ انگلینڈ اور ویلز میں پاکستانی نژاد ماؤں کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کی سالانہ اموات میں سے 90 کیسز کا تعلق پیدائشی طور پر بچے میں پائے جانے والے نقائص سے ہوتا ہے۔ کزنز، باپ یا ماں کے بھائی بہنوں کی اولاد کے درمیان ہونے والی شادیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں میں جینیاتی نقائص کے خطرات خاندان سے باہر شادی کرنے والوں کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کے مقابلے میں دو گْنا زیادہ ہوتے ہیں۔

اِس بارے میں برطانیہ کے شہر بریڈ فورڈ میں ایک مطالعاتی جائزہ رپورٹ مرتب کی گئی جو معروف طبی جریدے لینسیٹ میں حال ہی میں شائع ہوئی۔ اِس جائزے میں شامل پاکستانی نژاد باشندوں کی شادیوں کے بارے میں سروے کی رپورٹ سے پتہ چلا کہ 37 فیصد پاکستانی جوڑے آپس میں ایک دوسرے کے کزن تھے جبکہ محققین کے مطابق کسی برطانوی نژاد لڑکے یا لڑکی کے ساتھ پاکستانی نژاد افراد کی شادیوں کی شرح ایک فیصد سے بھی کم دکھائی دی۔

لیڈز یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے محقق ایمون شیریدان محققین کی اْس ٹیم کے سربراہ ہیں جس نے شہر بریڈ فورڈ کے مرکزی اسپتال میں ہونے والی بچوں کی پیدائش کا سروے کیا ہے۔ اس سروے میں وہاں 2007 ء اور 2011 کے درمیان پیدا ہونے والے 13,500 بچوں کی صحت کا جائزہ لیا گیا۔ ان میں سے 11,396 بچوں کے خاندانوں کے کوائف یا ضروری تفصیلات کا محققین کو پہلے سے علم تھا۔ ان میں سے 18 فیصد بچے فرسٹ کزنز کے مابین شادیوں کے نتیجے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان جوڑوں کا تعلق زیادہ تر پاکستان سے تھا۔ سروے میں شامل بچوں کی کْل تعداد کا تین فیصد یعنی 386 نومولود بچے کسی نہ کسی بے ضابطگی اور صحت کی خرابی سے متعلق مسئلے کا شکار نظر آئے۔

مطالعاتی جائزہ رپورٹ میں واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی نژاد بچوں میں پائے جانے والے تمام تر نقائص اور صحت کی بے ضابطگیوں میں سے 31 فیصد کی وجہ خاندان کے اندر یا خونی رشتہ داروں کے درمیان ہونے والی شادیاں ہیں۔

دنیا بھر میں ایک ارب سے زائد افراد ایسی برادریوں میں رہتے ہیں جہاں خاندان کے اندر، خونی رشتے داروں یا کزنز کے مابین شادیوں کا رواج عام ہے۔ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے پروفیسر ڈاکٹر محمد اسلم خان خاندانی شادیوں پر مبنی ایک ریسرچ کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ایسی شادیوں کے نتیجے میں نہ صرف 50 فیصد سے زیادہ لوگ پیدائشی (Genetic) بیماریوں کے خطرات سے دوچار ہوسکتے ہیں بلکہ ذہنی، جسمانی اور جنسی بیماریوں کا شکار بھی ہوسکتے ہیں۔ ان بیماریوں میں بہرا پن، اندھا پن، پٹھوں کی بیماریاں، ذہنی کمزوری یا کند ذہن، ذیابیطس اور تھیلیسیمیا جیسی خطرناک بیماریاں شامل ہیں۔

یہ بیماریاں کزن کے درمیان ہونے والی شادیوں تک محدود نہیں بلکہ اگر لوگ اپنی ہی برادری میں شادیاں کرتے رہیں تو کچھ عرصہ بعد بچے ان کی خطرناک بیماریوں کا شکار ہوسکتے ہیں۔اس تحقیق کے مطابق پاکستان میں تقریباً 82 فیصد جوڑے اصلی کزن یعنی فرسٹ کزن ہیں، تقریباً 7 فیصد خونی رشتہ دار ہیں، 6 فیصد سے زیادہ ایک ہی برادری سے تعلق رکھتے ہیں اور صرف 4.4 فیصد برادری اور رشتہ داروں سے باہر شادی شدہ ہیں۔

میری لوگوں سے گزارش ہے کہ اس مسئلے کی جانب توجہ دیں۔ بے شک بہن بھائی، کزنز، خاندان اور برادری سب سے بڑھ کر ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ دوسرے لوگ اس قابل نہیں کہ آپ ان سے کسی قسم کا کوئی رشتہ بناسکیں۔ اگر لوگ آپس میں اسی طرح شادیاں کرتے رہے تو ہماری آنے والی نسل ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کے بجائے اپنی زندگیاں صرف بیماریوں کے سہارے بوجھ بن کر گزار دے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں