زمانے کی ہوا لگ جانے کے ڈر سے باپ نے بچوں کو قیدی بنا دیا

ہندو مذہب سے متاثر آسکر نے اپنے بچوں کو 14 برس تک بچوں کو گھر میں قید رکھا


Nadeem Subhan February 24, 2015
ہندو مذہب سے متاثر آسکر نے اپنے بچوں کو 14 برس تک بچوں کو گھر میں قید رکھا۔ فوٹو: فائل

''زمانہ بڑا خراب ہے، بچوں کو گھر سے باہر مت نکلنے دینا، بگڑ جائیں گے۔''

پیرو نژاد امریکی شہری آسکر کو اس کا دوست اکثر یہ مشورہ دیا کرتا تھا۔ خود آسکر کی سوچ بھی اپنے دوست سے مختلف نہ تھی۔ چناں چہ 14 برس پہلے اس نے اپنے بچوں کے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی لگادی۔ صبح کام پر جاتے ہوئے وہ گھر کو باہر سے مقفل کرجاتا تھا۔ داخلی دروازے پر لگا ہوا تالا شام میں آسکر کی آمد ہی پر کھلتا تھا۔ مگر اس کی گھر واپسی کے بعد بھی بچوں کو اجازت نہیں تھی کہ وہ گھر سے باہر جائیں۔ حد تو یہ ہے کہ وہ کھڑکی سے باہر بھی نہیں جھانک سکتے تھے۔ یوں آسکر کے ساتوں بچے بیرونی دنیا سے بالکل کٹ گئے۔

آسکر کا تعلق اگرچہ براعظم جنوبی امریکا کے ملک پیرو سے ہے مگر وہ ہندومت سے متاثر ہے۔ اسی لیے اس نے اپنے بچوں کے ہندوانہ نام رکھے ہیں۔ سب سے بڑے بیٹے بھگوان کی عمر تیئیس سال ہے۔ گووندا اور نارائن جڑواں ہیں، ان کی عمریں بالترتیب بائیس اور بیس سال ہیں۔ مُکند، بیس اور کرشنا اٹھارہ سال کا ہے۔ جگدیش عمر کے سترھویں سال میں ہے۔ اس سے ایک برس چھوٹی وشنو ہے۔

پہلے پہل آسکر کی بیوی، سوزانے نے بچوں کو قید کرنے کی مخالفت کی تھی مگر شوہر نے بالآخر اسے اپنا ہمنوا بنالیا تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں سے بُرا سلوک کرتے ہوں۔ انھوں نے بچوں کو ہر آسائش مہیا کر رکھی تھی۔ بس انھیں گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ تعلیم بھی انھیں گھر ہی پر دلوائی جاتی تھی۔ بھگوان اور اس کے بہن بھائیوں کے لیے انٹرنیٹ اور کیبل ٹی وی کی سہولت میسر نہیں تھی البتہ وہ فلمیں دیکھ سکتے تھے۔ فلمیں اور درسی کتابیں ہی ان کے لیے بیرونی دنیا سے واقفیت کا واحد ذریعہ تھیں۔

آزادی، انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ ہر قیدی آزاد فضا میں سانس لینا چاہتا ہے۔ ان نوجوانوں کے دلوں میں بھی گھر سے باہر کی دنیا دیکھنے کی آرزو مچلتی تھی۔ اگرچہ انھیں گھر میں کسی چیز کی کمی نہیں تھی، مگر آسائشیں، آزادی کا نعم البدل نہیں ہوسکتی تھیں۔ چناں چہ چودہ برس کی ' قید ' کے بعد بچوں نے گھر سے باہر نکلنے کے لیے کوششیں شروع کردیں۔ کئی بار وہ گھر سے باہر نکلنے میں کام یاب ہوئے مگر ہر بار والد کے ڈر سے واپس آگئے۔ 2010ء میں ایسی ہی ایک کام یاب کوشش کے بعد چھے کے چھے بھائی نیویارک کے فرسٹ ایونیو پر مٹر گشت کررہے تھے جب فلم ساز کرسٹل موزیل ان کی طرف متوجہ ہوئی۔ ان سب نے اپنی پسندیدہ فلم '' ریزروائر ڈاگس''کے کرداروں کی طرح سیاہ سوٹوں پر اسی رنگ کے چشمے پہن رکھے تھے۔

https://img.express.pk/media/images/Childs/Childs.webp

موزیل ٹین ایجرز کے پاس گئی اور دوستانہ لہجے میں ان کے بارے میں دریافت کیا۔ کچھ دیر کی گفتگو کے بعد جب موزیل پر انکشاف ہوا کہ یہ نوجوان چودہ برس سے گھر میں قید ہیں تو وہ حیران رہ گئی۔ اسے یقین نہیں ہورہا تھا کہ نیویارک میں کوئی گھر ایسا بھی ہوسکتا ہے جہاں بچے کئی برس سے قید ہوں۔ موزیل کے دل میں اس گھرانے کے بارے میں جاننے کی خواہش کا پیدا ہونا فطری بات تھی۔ اس نے بھگوان اور اس کے بھائیوں کے ساتھ دوستانہ رویہ اختیار کیا اورجلد ہی ان کی پہلی دوست بن گئی۔ ان بھائیوں کا اعتماد حاصل کرنے کے بعد وہ آسکر اور سوزانے سے ملی۔ چند ملاقاتوں کے بعد وہ آسکر اور سوزانے کے لیے بھی قابل اعتماد ٹھہری۔ آسکر نے اسے بتایا کہ بچوں کو زمانے کی خرابیوں سے بچانے کے لیے اس نے یہ فیصلہ کیا تھا۔

موزیل نے بالآخر آسکر اور اس کی بیوی کو بچوں کو ' آزاد ' کرنے پر رضامند کرلیا۔ بچوں کو گھر میں قید رکھنے پر آسکر اور سوزانے کے خلاف قانونی کارروائی بھی ہوسکتی تھی مگر بچوں کا کہنا تھا کہ وہ اپنے والدین سے بے حد محبت کرتے ہیں۔ انھوں نے اگر یہ قدم اٹھایا بھی تھا تو اس کے پس پردہ ان (بچوں ) کی بھلائی ہی تھی۔

موزیل نے اس گھرانے پر ''دی وولف پیک'' کے عنوان سے ایک دستاویزی فلم بھی بنائی جس کی نمائش گذشتہ دنوں ہونے والے ''سنڈینس فلم فیسٹیول'' میں کی گئی۔

آسکر اور سوزانے کے بچے اب عملی زندگی میں قدم رکھ چکے ہیں۔ بھگوان ایک ادارے میں رقص کی تربیت لے رہا ہے۔ گووندا ایک پروڈکشن کمپنی سے منسلک ہوگیا ہے۔ وہ ہدایت کار بننا چاہتا ہے۔ نارائن ایک ماحولیاتی تنظیم کے لیے کام کررہا ہے۔ گھر سے سب سے پہلے فرار ہونے والا مُکند اب اُبھرتا ہوا رائٹر اور ڈائریکٹر ہے۔ کرشنا اور جگدیش گائیکی میں قسمت آزما رہے ہیں۔ ان کی بہن وشنو البتہ گھریلو زندگی گزار رہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں