شام کا بحران مزید گہرا

شام میں خانہ جنگی کا آغاز مارچ 2011 میں ہوا جو کم ہونے کے بجائے روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

شام کے حالات سنوارنے کے لیے لازم ہے کہ عرب ممالک، ایران اور ترکی مل کر ایک کمیٹی تشکیل دیں اور باہم لڑنے کے بجائے مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل نکالیں۔ فوٹو:فائل

اس وقت شام کی صورت حال بہت زیادہ خراب ہو چکی ہے اور مستقبل قریب میں اس میں بہتری کے کوئی آثار بھی دکھائی نہیں دے رہے۔ شام میں خانہ جنگی کا آغاز مارچ 2011 میں ہوا جو کم ہونے کے بجائے روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اب تک اس خانہ جنگی میں لاکھوں لوگ بے گھر اور ہزاروں مارے گئے یا زخمی ہوئے ہیں۔

شام کے ساتھ ساتھ عراق کی صورت حال بھی دگرگوں ہے۔ دونوں ممالک میں مختلف گروہ سرکاری فوجوں کے خلاف لڑ رہے ہیں جس کے باعث یہ ممالک عملاً مختلف حصوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ عراق کا کچھ حصہ کردوں، داعش اور بقیہ حکومت کے زیر تسلط ہے۔ دولت اسلامیہ عراق اور شام(داعش) کردوں اور سرکاری فوجوں دونوں کے خلاف لڑ رہی ہے اور اس نے عراق اور شام کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر کے اپنی حکومت قائم کر لی ہے۔


اطلاعات کے مطابق شام میں ایران اور حزب اللہ داعش کے خلاف شامی حکومت کی مدد کر رہے ہیں۔ اب نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ ترک فوج بھی شام کے شہر حلب میں داخل ہو گئی اور وہاں سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان اول کے دادا سلیمان شاہ کے قدیم مقبرے پر تعینات فوجیوں اور مقبرے سے باقیات نکالنے کے بعد عمارت کو منہدم کر دیا تاکہ اس جگہ کو داعش یا کسی اور گروپ کے شدت پسند استعمال نہ کر سکیں۔ ایک جانب شام میں خانہ جنگی جاری ہے تو دوسری جانب اس کے ہمسایہ اسلامی ممالک بھی اس کی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عرب ممالک' ترکی اور ایران مل کر شام کے مسئلے کا حل تلاش کرتے اور اس ملک کو مزید تباہ ہونے سے بچاتے مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ مبصرین کے مطابق مختلف اسلامی ممالک شام میں پراکسی وار لڑ رہے ہیں' اس لیے شام کی تباہی میں ان ہمسایہ اسلامی ممالک کا بھی ہاتھ ہے۔ بشار الاسد بھی شام کی تباہی کے ذمے دار ہیں جب وہاں خانہ جنگی کا آغاز ہوا تو انھیں اقتدار سے چمٹے رہنے کے بجائے فوراً اس سے الگ ہو کر نئی حکومت تشکیل دے دینی چاہیے تھی تاکہ شام تباہ ہونے سے بچ جاتا اور آج وہاں کے حالات بہتر ہوتے۔ شام کے حالات بگاڑنے میں امریکی اور یورپی قوتوں کا بھی ہاتھ ہے۔

اب شام کے حالات سنوارنے کے لیے لازم ہے کہ عرب ممالک، ایران اور ترکی مل کر ایک کمیٹی تشکیل دیں اور باہم لڑنے کے بجائے مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل نکالیں۔ مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ عراق اور شام میں باہم برسرپیکار گروہوں پر مشتمل مشترکہ حکومت تشکیل دے دی جائے تو اس سے بھی مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
Load Next Story