اچھی حکمرانی

وطن عزیز میں کسی بھی عمارت کے اچانک انہدام کے واقعات کوئی انوکھی یا غیر معمولی بات نہیں ہے۔


Shakeel Farooqi February 24, 2015
[email protected]

وطن عزیز میں کسی بھی عمارت کے اچانک انہدام کے واقعات کوئی انوکھی یا غیر معمولی بات نہیں ہے۔ ایسے واقعات یا حادثات آئے دن رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ان حادثات میں مالی نقصان کے علاوہ بڑا بھاری جانی نقصان بھی ہوتا ہے۔ جب بھی کسی عمارت کے ڈھے جانے کا واقعہ پیش آتا ہے تو ہر طرف قیامت خیز شور اور واویلا مچ جاتا ہے اور ہمارا میڈیا بھی آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔ فوری اور پرزور مطالبہ یہی ہوتا ہے کہ ذمے داروں کو پکڑا جائے اور کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

ادھر یہ بحث چھڑ جاتی ہے کہ کیا بلڈنگ کی تعمیر قواعد و ضوابط کے مطابق ہوئی تھی یا نہیں؟ کیا عمارت کی تعمیر میں ناقص میٹریل تو استعمال نہیں کیا گیا تھا؟اگر بچوں کو اسکول لے جانے والی کوئی وین یا بس راستے میں حادثے کا شکار ہو جائے اور معصوم پھول اور کلیاں زخمی یا ہلاک ہوجائیں تب بھی ایک قیامت برپا ہوجاتی ہے اور اس طرح کے سوالات جنم لیتی ہیں کہ کیا ڈرائیور لائسنس یافتہ تھا یا اناڑی؟ حادثہ ڈرائیور کی غفلت یا نااہلی کی وجہ سے پیش آیا؟ کیا وین یا بس اس قابل بھی تھی کہ سڑک پر محفوظ طریقے سے چلائی جاسکے؟

یہ تمام واقعات انتہائی پریشان کن اور خون کے آنسو رلا دینے والے ہوتے ہیں اور ایسے مواقعے پر انسان کے ہوش اڑنے لگتے ہیں۔ لیکن اس سے بھی سخت آزمائش کا مرحلہ اس وقت پیش آتا ہے جب ہنگامی حالت میں زخمیوں کو اسپتال پہنچایا جاتا ہے اور وہاں پر انتظامات ناقص ہوتے ہیں۔ اسپتال کا عملہ یا تو ڈیوٹی سے غیر حاضر ہوتا ہے یا غافل اور نااہل ہوتا ہے۔ دوسری مشکل مطلوبہ آلات اور ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے پیش آتی ہے۔

اخبارات میں آئے دن اس قسم کی خبریں شایع ہوتی رہتی ہیں کہ جعلی دواؤں کے استعمال یا اسپتال کے عملے کی غفلت کی وجہ سے فلاں مریض خواہ مخواہ لقمہ اجل بن گیا یا کسی اناڑی ڈاکٹر کی نااہلی کی وجہ سے ناحق موت کی بھینٹ چڑھ گیا۔ جب بھی ہمارے یہاں کسی قسم کا کوئی عظیم سانحہ پیش آتا ہے تو وقتی طور پر بڑا شور مچتا ہے اور ہنگامہ برپا ہوجاتا ہے اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پورا معاملہ دودھ کے ابال کی طرح بیٹھ جاتا ہے اور سب کچھ ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔

حکومت خواہ کوئی بھی ہو یا کسی کی بھی ہو ہمارا بنیادی مسئلہ حکمرانی یا گورننس کا ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کیجیے تو آپ کو حکمرانی کی بڑی اچھی اچھی اور بڑی بری بری مثالیں بھی ملیں گی۔ اندھیر نگری چوپٹ راج والی کہاوت اسی بے امنی اور بدانتظامی کی پیداوار ہے۔ اچھی حکمرانی کے لیے ضروری نہیں کہ حکمراں بہت پڑھا لکھا یا بہت بڑا دانش ور ہو یا اس کا دور حکمرانی بہت زیادہ طویل ہو۔

بہترین حکمرانی کے حوالے سے برصغیر میں ایک روشن مثال شیرشاہ سوری کی بھی ہماری تاریخ میں موجود ہے۔ وہ کوئی عالم فاضل بھی نہیں تھا اور اس کا عرصہ حکمرانی بھی پانچ سال سے کم تھا۔ لیکن اس قلیل مدت میں اس نے اعلیٰ درجے کی حکمرانی کی وہ روشن مثال قائم کرکے رکھ دی جسے ہم آج بھی یاد کرتے ہیں اور تاریک بھی فراموش نہیں کرسکتی۔ اس کے حسن انتظام کا عالم یہ تھا کہ سونے کے زیورات سے لدی ہوئی کوئی بھی عورت تن تنہا رات کی تاریکی میں بھی بے خوف و خطر اپنی مرضی سے کہیں بھی آزادانہ آجا سکتی تھی اور کسی مائی کے لعل میں اتنی جرأت نہ تھی کہ اسے نظر بھر کر بھی دیکھ سکتا۔

جرم جس علاقے میں ہوتا، اس کا منتظم اس کے لیے جواب دہ قرار پاتا اور اس کے ساتھ کسی بھی قسم کی نرمی یا رعایت برتنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔نظام حکومت خواہ کوئی بھی ہو، حسن انتظام ہی اچھی حکمرانی کی اصل روح ہے۔ اسی حوالے سے تو انگریزی کے ایک مایہ ناز شاعر الیگزینڈر پوپ نے کہا تھا کہ:

For Forms of Government let fools contest; whatever is best administered is best.

اچھی حکمرانی کے لیے جمہوری نظام لازم و ملزوم نہیں ہے۔ سلطنت عمان میں بادشاہی نظام چل رہا ہے اور نہایت کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔ ہم اس کے بار بار کے عینی شاہد ہیں۔ بادشاہ سلامت کے وجود عوام کے مکمل تحفظ، خوشحالی اور امن و سکون کی ضمانت ہے۔ وہاں وی وی آئی پی کلچر کا بھی کوئی وجود نہیں ہے۔ اول تو بادشاہ سلامت خواہ مخواہ بلا ضرورت سڑکوں اور شاہراہوں پر شاہی سواری دوڑاتے ہوئے نہیں پھرتے اور نہ ہی انھیں کسی بھی حیلے بہانے سے غیر ملکی دوروں پر جانے کا شوق ہے۔ اس لیے ہمارے ملک کی طرح وہاں وی آئی پی کلچر کی وجہ سے ٹریفک جام ہونے کا بھی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔

ظاہر ہے کہ جب سلطان خود بھی زیادہ گھومنے پھرنے سے گریز کرتے ہیں تو ان کی تقلید میں ان کے وزرا اور امرا بھی سڑکوں پر گھومنے پھرنے سے گریز کرتے ہیں اور کسی ضرورت کے تحت ایک مقام سے دوسرے مقام تک جاتے بھی ہیں تو ان کے ہمراہ محافظوں کے وہ قافلے جاتے ہوئے نظر نہیں آتے جو ہمارے یہاں روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں اور جن کی وجہ سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے اور بے چارے عوام کو اس کا خمیازہ گھنٹوں تک بھگتنا پڑتا ہے۔ حتیٰ کہ یہ تک ہوتا ہے کہ فضائی مسافروں کی پروازیں مس ہوجاتی ہیں اور نازک حالت کے شکار مریض راستے ہی میں دم توڑ دیتے ہیں اور حاملہ خواتین کے یہاں سر راہ ہی ولادت ہوجاتی ہے۔

بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا انتظامی ڈھانچہ بگڑتے بگڑتے اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے جس کی بنیادی وجہ سفارش کلچر اور میرٹ کا قتل عام ہے۔ اگرچہ ماضی کی فوجی حکومتوں کو بھی اس سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن ہماری سول سروس کی تباہی اور بربادی میں سب سے بڑا ہاتھ ہماری نام نہاد جمہوری حکومتوں کا ہے جن کی نظروں میں اہلیت کو نہیں اصل اہمیت سفارش کو حاصل ہوتی ہے۔

ہمارے انتظامی ڈھانچے کو بلاتاخیر اصلاح کی ضرورت ہے کیونکہ پانی اب سر سے اونچا ہوچکا ہے ورنہ پورا نظام حکومت منہدم ہوکر رہ جائے گا۔ سول سروس کی اصلاح کے لیے ماضی میں کئی کمیشن بھی تشکیل دیے جاچکے ہیں لیکن یہ بیل ابھی تک منڈھے نہیں چڑھ سکی۔ ڈاکٹر عشرت حسین رپورٹ بھی اسی سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے جو عرصہ دراز سے سیاسی بے توجہی اور عزم محکم کے فقدان کی وجہ سے مسلسل کھٹائی میں پڑی ہوئی ہے۔

یہ رپورٹ انتہائی خلوص نیت کے ساتھ بڑی محنت اور جاں فشانی کے بعد تیار کی گئی تھی اور اس کے تحت کمیشن نے ملک کی سول سروس کو نئے سرے سے تشکیل دینے کی غرض سے چار قصوں، آل پاکستان، وفاقی، صوبائی اور ضلعی انتظامیہ کی صورت میں تقسیم کیا تھا۔ اس رپورٹ میں بھرتی کے طریقہ کار اور پروموشن پالیسی کو بھی Stream Line کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ اس میں انتظامیہ کو بیرونی مداخلت سے ممکنہ حد تک آزاد اور پاک کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے تاکہ کسی بھی قسم کی جانب داری، بے انصافی اور حق تلفی کے لیے کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔ پاکستان کی بقا اور فلاح کا تقاضا ہے کہ اچھی حکمرانی کی خاطر اس رپورٹ کو جلدازجلد عملی جامہ پہنایا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔