آج مزدور اور کسان کیوں پریشان ہیں

پاکستان کی زرعی معیشت میں ہاری اور کسان ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

پاکستان کی زرعی معیشت میں ہاری اور کسان ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور صنعتی شعبے میں مزدور کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی ہے۔ لیکن یہ دونوں طبقات جس معاشی بدحالی اور وڈیروں، صنعتکاروں کے مظالم کا شکار ہیں اس کے تصور ہی سے روح کانپ جاتی ہے۔ ماضی میں صنعتکار مزدوروں پر مظالم ڈھانے کے لیے اپنے کارخانوں، اپنی ملوں میں نجی جیلیں قائم کرتے تھے جہاں مالکان سزائیں سنا کر مزدوروں کو نجی جیلوں میں قید کرتے تھے۔

1969 میں نجی جیل رکھنے والے ایک مل کے مزدوروں نے مالکان کے مظالم کے خلاف ہڑتال کردی اور اس ''جرم'' میں ہڑتالی مزدوروں کو لمبی لمبی سزائیں دے کر اصلی جیلوں میں ٹھونس دیا گیا چونکہ ہڑتال کی قیادت کرنے والوں میں ہم بھی شامل تھے لہٰذا ہمیں بھی سزا سنا کر جیل بھیج دیا گیا۔ شکاگو کے مزدوروں نے غیر معینہ اوقات کار کے خلاف احتجاج کیا تو شکاگو کی سڑکوں کو مزدوروں کے خون سے سرخ کردیا گیا اور ان کی قیادت کو سزائے موت دے دی گئی۔

شکاگو کے مزدوروں کی قربانیوں سے مالکان کو اوقات کار کا تعین کرنا پڑا اور مزدوروں کو تنظیم سازی، سوداکاری اور ہڑتال وغیرہ کا حق دینا پڑا۔ لیکن یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ پاکستان کے مزدور آج بھی شکاگو کے مزدوروں سے بدتر حالات کا شکار ہیں۔ بیشتر اداروں میں ٹھیکیداری سسٹم کی وجہ سے مزدوروں سے 18-18 گھنٹے کام لیا جاتا ہے، ملوں، کارخانوں میں یونین بنانا اور ہڑتال کرنا اس قدر سنگین جرم ہے کہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو ملازمتوں سے نکال دیا جاتا ہے اور انھیں کسی مل یا کارخانے میں نوکری نہیں دی جاتی۔

ہمارے ملک میں فارمل اور انفارمل سیکٹرز میں کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد ساڑھے چھ کروڑ ہے جو کسی تحفظ کے بغیر کام کر رہے ہیں۔ نجکاری سرمایہ دارانہ نظام کا ایسا ہتھیار ہے جسے استعمال کرکے مزدوروں کو بے روزگار کیا جاتا ہے اور سرمایہ داروں کو صنعتوں کا مالک بنایا جاتا ہے۔ سندھ کی آبادی کا 60فیصد حصہ زرعی معیشت سے جڑا غلاموں کی زندگی گزار رہا ہے۔ وڈیرہ شاہی آبادی کے اس بڑے حصے پر مغل بادشاہوں کی طرح حکومت کر رہی ہے۔ قانون ساز اداروں پر چونکہ وڈیروں اور ان کے طبقاتی بھائیوں کا قبضہ ہے لہٰذا کسانوں ہاریوں کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوتی ہے۔

آج مزدوروں کسانوں کا ذکر ہمیں اس لیے کرنا پڑا کہ پیپلز پارٹی کے ایک معتبر رہنما خورشید شاہ نے مزدوروں سے خطاب کرتے ہوئے بعض بڑی دلچسپ باتیں کی ہیں۔ شاہ صاحب نے کہا ہے کہ ہم کسی قومی ادارے کی کسی قیمت پر نجکاری نہیں ہونے دیں گے۔ شاہ صاحب نے فرمایا آج پاکستان کا مزدور اور کسان پریشان ہے۔


کون سی جمہوریت کہتی ہے کہ پاکستان کے قومی اداروں کو کوڑیوں کے مول بیچ دیا جائے؟ شاہ صاحب کا یہ جذبہ قابل قدر ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نجکاری موجودہ دور کی پیداوار ہے یا شاہ صاحب کے دور میں بھی ہوتی رہی ہے؟ کیا مزدور اور کسان موجودہ دور ہی میں پریشان ہیں یا قیام پاکستان کے بعد ہی سے استحصال اور پریشانیوں کا شکار ہیں؟ مزدوروں کو بھٹیوں میں جلانے والے اور کسانوں ہاریوں کو معمولی معمولی گستاخیوں کے جرم پر مروانے والے کون ہیں اور ان ظالموں کے ظلم کا انت کیسے ہوگا؟ شاہ صاحب نے فرمایا ہے کہ جب تک پیپلزپارٹی کا ایک بھی نمایندہ پارلیمنٹ میں موجود ہے۔

کسی ادارے کی نجکاری نہیں ہونے دی جائے گی۔ کیا شاہ صاحب کے علم میں ہے کہ موجودہ حکومت نے اب تک درجنوں منافع بخش قومی اداروں کی نجکاری کردی ہے اور کئی اداروں کی نجکاری کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔بلاشبہ موجودہ حکومت کے دور میں مزدور کسان ہی نہیں 18 کروڑ عوام بھی پریشان ہیں لیکن کیا وہ صرف موجودہ دور ہی میں پریشان ہیں یا ماضی کی حکومتوں کے دور میں بھی پریشان رہے ہیں؟ پاکستان کی مزدور تاریخ میں 1972 کے سانحات حکمرانوں کے مظالم میں شمار ہوتے ہیں، کراچی میں مزدوروں پر گولیاں چلا کر درجنوں مزدوروں کو شہید کردیا گیا، اس وقت ملک اور سندھ میں کس کی حکومت تھی۔ 1973 کے بعد پاکستان میں مزدوروں کی ٹریڈ یونین ختم ہوگئی۔

آج پاکستان کے کارخانوں اور ملوں میں کوئی یونین موجود نہیں، یہ ظلم 1972-73 کا ہی تسلسل ہے۔ پاکستان میں مزدوروں کی تعداد ساڑھے چھ کروڑ ہے اور کسان بھی کروڑوں کی تعداد میں زرعی معیشت سے وابستہ ہیں۔ جمہوریت میں قانون ساز اداروں میں اکثریت کے نمایندے جاتے ہیں۔ پاکستان کی آبادی میں مزدوروں کسانوں کی اکثریت ہے اس اکثریت کے کتنے نمایندے پارلیمنٹ میں ہیں۔ خورشید شاہ سمیت جو سیکڑوں معززین پارلیمنٹ میں موجود ہیں وہ کس کی نمایندگی کرتے ہیں؟ کیا کسی نام نہاد نمایندے نے آج تک پارلیمنٹ میں مزدوروں کی حق تلفیوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے؟ کیا کسی نمایندے کو معلوم ہے کہ کسی کارخانے یا ملز میں ٹریڈ یونین بنانا جرم ہے؟

کیا پارلیمنٹ کے کسی نمایندے کو پتا ہے کہ ہڑتال کے قانونی حق کو مالکان کس طرح اپنے جوتوں تلے روند رہے ہیں؟ کیا گنے کی قیمت کے حوالے سے شوگر ملوں کے مالکان کی ہٹ دھرمی کا پارلیمنٹ کے نمایندوں کو علم نہیں؟ پارلیمنٹ میں کسی نے آواز اٹھائی اور اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ ہاریوں کسانوں کو ٹریڈ یونین بنانے کے حق کی حمایت میں اب تک کتنے پارلیمنٹیرین نے آواز اٹھائی۔یہ ایسے سوال ہیں جن کا جواب ارکان پارلیمنٹ کو دینا چاہیے۔

کیا وہ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ مہنگائی، بے روزگاری، علاج اور تعلیم سے محرومی اس ملک کے 18 کروڑ عوام کا مقدر بنی ہوئی ہے؟ 5کروڑ کی بکتر بند گاڑی سترہ (17) کروڑ میں خریدی جارہی ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کا چیئرمین سوال کر رہا ہے۔ اس کا جواب کون دے گا؟ اس کا ذمے دار کون ہے؟

پاکستان پیپلز پارٹی نے مزدور کسان راج کا نعرہ لگایا تھا، اس نعرے کی صدائے بازگشت 40 سال سے پاکستان کی فضاؤں میں گونج رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت 4بار ملک میں قائم رہی۔ مزدور کسان راج کا دکھایا جانے والا رنگین خواب پھر بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوا۔ پی پی سندھ پر حکومت کر رہی ہے، وہ اور کچھ نہیں اتنا تو کردے کہ ہر مل ہر کارخانے میں ٹریڈ یونین بنانے کی آزادی دلائے اور کسانوں کی اور ملک کی اجتماعی بہتری کے لیے کم ازکم سندھ میں زرعی اصلاحات کا اعلان کرے۔
Load Next Story