انقلاب کے لیے زمین ابھی زرخیز نہیں
پاکستان کا نظام ابھی اتنا گلا سڑا، بوسیدہ اور تعفن زدہ نہیں ہوا ہے کہ اُسے یک دم پھینک کر ایک نیا نظام لے آیا جائے۔
ہمارے یہاں کچھ لوگوں کی عادت سی بن گئی ہے کہ دنیا میں کسی ملک میں یا کہیں بھی کوئی سیاسی تبدیلی یا کوئی اضطراب اور بے چینی پیدا ہونے لگے تو وہ فوراً اپنے یہاں بھی ویسی ہی تبدیلی کی خواہش کرنے لگتے ہیں۔ چند روز قبل بھارت میں اروندکجریوال کی عام آدمی پارٹی نے دہلی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیتے ہوئے 70میں سے 67نشستوں پرکامیابی حاصل کر لی تووہ اُسے اپنے تئیں وہاں کے لوگوں کا اپنے حقوق کے لیے جاگ جانے کا مطلب نکالتے ہوئے پاکستان کے عوام سے بھی یہ اُمید اور توقع کر بیٹھے ہیں کہ وہ اُس کی پیروی کرتے ہوئے یہاں بھی کوئی ایسی ہی انہونی تبدیلی لے آئینگے۔
دہلی میں پیدا ہونیوالے انقلابی زلزلے کی ارتعاش اُنہیں اپنے ملک میں بھی محسوس ہونے لگی ہے۔ پہلے وہ نریندر مودی کے جیت جانے کو ایک انقلاب تصورکر رہے تھے اور اب صرف چند ماہ بعد ہی نریندر مودی کی پارٹی کی اپنے ہی دارالحکومت دہلی میں ایک تاریخی شکست کو زبردست تبدیلی سے تعبیر کرتے ہوئے اُس کی تعریف وتوصیف میں قطب مینار کھڑے کر رہے ہیں۔اُنہیں شاید یہ یاد نہیں ابھی دو چار برس قبل بھی وہ مصر ، مراکش،شام اور یمن میں ہونے والی سیاسی بے چینی کو بھی خوش آیند قرار دیتے ہوئے تبدیلی کی اُس لہرکو پاکستان میں بھی داخل ہوتا دیکھ رہے تھے ۔
یہ تو خدا کا شکر ہے کہ پاکستان کے عوام اُس نام نہاد انقلاب کوخیالِ خاطر میں نہیں لائے ورنہ یہاں بھی وہی حال ہوتا جیسا کہ اِن ممالک میں ہوا۔آج انقلاب کے نام پر جوکچھ اُن عرب ممالک میں ہو رہا ہے اُس سے تو لاکھ درجے بہتر ہماری موجودہ صورتحال ہی ہے۔مصرکے شہرقاہرہ میں تحریراسکوائر پر کئی مہینے رات دن دھرنا دینے والوں کے ہاتھ کیا آیا۔ وہی غیر جمہوری نظام کا تسلسل اور وہی فوجی حکومت کا عفریت اُن کا مقدر ٹھہرا جس سے بظاہر نجات پانے کے لیے اُنہوں نے یہ راستہ اختیار کیا تھا ۔ایک حسنی مبارک تو چلا گیا لیکن دوسرا مطلق العنان شخص غیر معینہ مدت کے لیے اُن کے سروں پر سوار ہوگیا۔
عام مفلوک الحال لوگوں کو اور عوام الناس کو کچھ نہ ملا۔اُنہیں اُسی شب وروز سے ہی واسطہ رہا جن کے سنورنے کی آس میں وہ اپنے گھروں سے نکلے تھے۔اُن کے منتخب کردہ صدر محمد مرسی کو صرف ایک سال بعد ہی داخلِ زنداں کردیا گیا ۔ وہاں سے اُسے کب رہائی نصیب ہوگی یہ نہ اُسے معلوم ہے اور نہ اُس کے چاہنے والوں کو۔بالکل اِسی طرح دیگر عرب اور اسلامی ممالک میں بھی انقلاب اور تبدیلی کے خوش کن نعروں کو شاید ہی تسکین و راحت مل پائے گی۔
فی الحال تو وہ تباہی و بربادی کے دور سے ہی گذر رہے ہیں ۔الحمد للہ ہم اِس خوفناک اور اندوہناک سا نحے سے بچ گئے ورنہ ہمارے بہت سے دوستوں کی خواہش اور تمنا تو یہی تھی کہ ہمارے یہاں بھی کوئی بیروزگار نوجوان نوکری نہ ملنے پرخودکشی کر کے ڈی چوک کوتحریر اسکوئر بنا ڈالے اورجس کے بعد برسوں سے اُن کے دل میں چھپی آرزوئیں اور تمنائیں بر آئیں۔مگر افسوس کہ ایسا ہو نہ سکا اور گزشتہ سال ہمارے یہاں انقلاب اور تبدیلی کے نام پر جو دھرنا اور فساد ہوتا رہا اُس کا منطقی انجام بغیر کسی بڑی ہولناک تباہی کے ہی اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔
اب نہ وہ دھرنا باقی ہے اور نہ احتجاج و ہنگامہ۔سب کچھ منٹوں میں صابن کی جھاگ کی مانند بیٹھ گیا۔ اشتعال انگیز تقریریں اور جلاؤ اور گھیراؤکی ترغیب دینے والا بھی آج اپنی لال حویلی میں تنہا بیٹھا صرف سگار پہ سگار سلگا رہا ہے ۔اِسے آپ کسی اسکرپٹ رائٹرکی خوب صورت کہانی سمجھیں یا نادیدہ قوتوں کی شہ پر برپا کیا جانے والا چائے کی پیالی میں کوئی طوفان۔ بہر حال یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ اِس سارے اُتھل پتھل میں نہ کوئی تبدیلی کا رئیل اور حقیقی خواہاں تھا اور نہ کوئی انقلاب کا زبردست داعی اور خواہشمند۔ سب کٹھ پتلی تماشے کے ایسے چند کردار تھے جن کی ڈوریں کسی اور کے ہاتھوں میں تھیں۔
پاکستان کا نظام ابھی اتنا گلا سڑا، بوسیدہ اور تعفن زدہ نہیں ہوا ہے کہ اُسے یک دم پھینک کر ایک نیا نظام لے آیا جائے۔ جس جمہوری نظام کو لپیٹ کر انقلاب لانے کی باتیں کی جاتی ہیں اُس نظام کو اگر تسلسل کے ساتھ چلنے دیا جاتا تو جو خرابیاں ہمیں آج اُس میں نظر آرہی ہیں کب کی ختم ہو چکی ہوتیں۔ ہمیں یہ اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ اگر کوئی تبدیلی آنی ہے تو اِسی نظام میں رہتے ہوئے ہی آنی ہے۔اِس کے علاوہ کوئی نظام بھی ہمیں اپنی منزل ِ مقصود تک نہیں پہنچا سکتا۔انتخابی عمل کے بار بار اعادہ اور دہرانے ہی سے اِس میں بہتری کے آثار نمودار ہونگے۔
پڑوسی ممالک میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کو دیکھ کر اپنے یہاں کے نظام کو برا بھلا اور تعفن زدہ کہنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہاں بھی جمہوریت کے تسلسل ہی کے سبب یہ سب کچھ ممکن ہوا ہے۔قوموں کی تاریخ میں65سال کوئی کم نہیں ہوتے ۔ اُن 65سالوں میں سے نصف عرصہ بد قسمتی سے ہمارے یہاں سیاسی طور پر انتہائی غیر مستحکم رہا جب کہ بھارت میں جمہوری نظام بلاکسی تعطل کے مسلسل چلتا رہا۔ بھارت میں اگر آج عام آدمی پارٹی کامیاب وسرخرو ہوئی ہے تو وہ بھی اُسی جمہوری نظام کے تحت ہوئی ہے۔ ایک زمانہ تھا وہاں صرف ایک ہی پارٹی کا راج چل رہا تھا ۔
ایک عرصے تک صرف کانگریس ہی ملک کے تمام سفید و سیاہ کی اکلوتی مالک تھی لیکن پھر جنتا پارٹی وجود میں آئی اور بعد ازاں بھارتیہ جنتا پارٹی نے انڈین سیاست میں نہ صرف قدم رکھا بلکہ بھاری ووٹوں کے ساتھ بر سرِاقتدار بھی آگئی۔ اب اگر اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی وہاں اپنا اثرورسوخ جما رہی ہے تو یہ کوئی ایسی حیران کن خبر ہرگز نہیں ہے کہ وہاں کے عوام موجودہ سسٹم سے بیزار اور مایوس ہو چکے ہیں اور وہ سارا نظام ہی اُلٹ پلٹ کر دینا چاہتے ہیں۔ ہمارے یہاں بھی کئی مرتبہ صرف ایک ہی پارٹی بھاری اکثریت سے الیکشن جیت کر اسلام آباد کے ایوانوں میں قدم رنجہ فرما چکی ہے مگر یہاں تو کبھی کسی نے اُسے انقلاب آفرین قرار نہیں دیا۔
اپنے یہاں کی ہر چیز کو بُرا کہنا اور دوسروں کی ہر شہ کولائقِ تحسین تصور کرنا ہمارے کچھ لوگوں کی خصلت بن چکی ہے۔ عام آدمی پارٹی کا ایک شہر میں جیت جانا ایساکوئی زبردست کارنامہ بھی نہیں ہے کہ ہم اُسے نریندر مودی کی حکومت کے خلاف ووٹ آف نو کانفیڈنس سمجھ لیں جسے اقتدار میں آئے ابھی زیادہ عرصہ بھی نہیں بیتا ہے اور جس کی کارکردگی کا گراف بھی ابھی نچلی حدوں کو نہیں چھو رہا ہے۔ممبئی شہر اورکراچی میں تو ہم پہلے ہی ایسی تبدیلی کئی مرتبہ دیکھ چکے ہیں۔کسی ایک شہر میں بھاری اکثریت سے جیت جانے کو انقلاب کے معنی پہنانا کوئی دانائی اور دانشمندی نہیں کہلائی جا سکتی۔
پاکستان میں انقلاب کے خواہاں اور خواہش مندوں کو چاہیے کہ ابھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور اُس وقت کا انتظار کریں جب یہاں نا اُمیدیوں اور مایوسیوں کی سطح اپنی تمام حدیں پارکرچکی ہونگی اور عوام کے پاس کوئی راستہ باقی نہ بچ رہے گا تو وہ خود بخود سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ اُس وقت اُنہیں کسی ہدایت یا کسی اشارے کی قطعاً ضرورت نہ ہوگی اور وہ خود بخود اپنے حقوق کے حصول کے لیے سردھڑکی بازی لگا دیں گے۔
ہماری زمین ابھی کسی ایسے انقلاب کے لیے زرخیز اور شاداب ہرگزنہیں ہے جس کے تانے بانے کہیں اور جا کے ملتے ہوں اور جس کا مقصد صرف یہاں افراتفری اور انتشار پیدا کرنا ہو۔یہاں اگر کوئی انقلاب آئے گا تو برادر ملک ایران کی مانند ہی آسکتا ہے جہاں رضاشاہ پہلوی کی بادشاہت سے بیزار اور متنفر لوگوں نے آیت اللہ خمینی کی قیادت میں ایک ایسا انقلاب بپا کردیا جس کی مثال ہماری اسلامی دنیا میں شاید ہی کبھی مل سکے۔اِس کے علاوہ ہمارے یہاں نہ کوئی انقلاب آسکتا ہے اور نہ کوئی حقیقی دیرپا تبدیلی۔
دہلی میں پیدا ہونیوالے انقلابی زلزلے کی ارتعاش اُنہیں اپنے ملک میں بھی محسوس ہونے لگی ہے۔ پہلے وہ نریندر مودی کے جیت جانے کو ایک انقلاب تصورکر رہے تھے اور اب صرف چند ماہ بعد ہی نریندر مودی کی پارٹی کی اپنے ہی دارالحکومت دہلی میں ایک تاریخی شکست کو زبردست تبدیلی سے تعبیر کرتے ہوئے اُس کی تعریف وتوصیف میں قطب مینار کھڑے کر رہے ہیں۔اُنہیں شاید یہ یاد نہیں ابھی دو چار برس قبل بھی وہ مصر ، مراکش،شام اور یمن میں ہونے والی سیاسی بے چینی کو بھی خوش آیند قرار دیتے ہوئے تبدیلی کی اُس لہرکو پاکستان میں بھی داخل ہوتا دیکھ رہے تھے ۔
یہ تو خدا کا شکر ہے کہ پاکستان کے عوام اُس نام نہاد انقلاب کوخیالِ خاطر میں نہیں لائے ورنہ یہاں بھی وہی حال ہوتا جیسا کہ اِن ممالک میں ہوا۔آج انقلاب کے نام پر جوکچھ اُن عرب ممالک میں ہو رہا ہے اُس سے تو لاکھ درجے بہتر ہماری موجودہ صورتحال ہی ہے۔مصرکے شہرقاہرہ میں تحریراسکوائر پر کئی مہینے رات دن دھرنا دینے والوں کے ہاتھ کیا آیا۔ وہی غیر جمہوری نظام کا تسلسل اور وہی فوجی حکومت کا عفریت اُن کا مقدر ٹھہرا جس سے بظاہر نجات پانے کے لیے اُنہوں نے یہ راستہ اختیار کیا تھا ۔ایک حسنی مبارک تو چلا گیا لیکن دوسرا مطلق العنان شخص غیر معینہ مدت کے لیے اُن کے سروں پر سوار ہوگیا۔
عام مفلوک الحال لوگوں کو اور عوام الناس کو کچھ نہ ملا۔اُنہیں اُسی شب وروز سے ہی واسطہ رہا جن کے سنورنے کی آس میں وہ اپنے گھروں سے نکلے تھے۔اُن کے منتخب کردہ صدر محمد مرسی کو صرف ایک سال بعد ہی داخلِ زنداں کردیا گیا ۔ وہاں سے اُسے کب رہائی نصیب ہوگی یہ نہ اُسے معلوم ہے اور نہ اُس کے چاہنے والوں کو۔بالکل اِسی طرح دیگر عرب اور اسلامی ممالک میں بھی انقلاب اور تبدیلی کے خوش کن نعروں کو شاید ہی تسکین و راحت مل پائے گی۔
فی الحال تو وہ تباہی و بربادی کے دور سے ہی گذر رہے ہیں ۔الحمد للہ ہم اِس خوفناک اور اندوہناک سا نحے سے بچ گئے ورنہ ہمارے بہت سے دوستوں کی خواہش اور تمنا تو یہی تھی کہ ہمارے یہاں بھی کوئی بیروزگار نوجوان نوکری نہ ملنے پرخودکشی کر کے ڈی چوک کوتحریر اسکوئر بنا ڈالے اورجس کے بعد برسوں سے اُن کے دل میں چھپی آرزوئیں اور تمنائیں بر آئیں۔مگر افسوس کہ ایسا ہو نہ سکا اور گزشتہ سال ہمارے یہاں انقلاب اور تبدیلی کے نام پر جو دھرنا اور فساد ہوتا رہا اُس کا منطقی انجام بغیر کسی بڑی ہولناک تباہی کے ہی اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔
اب نہ وہ دھرنا باقی ہے اور نہ احتجاج و ہنگامہ۔سب کچھ منٹوں میں صابن کی جھاگ کی مانند بیٹھ گیا۔ اشتعال انگیز تقریریں اور جلاؤ اور گھیراؤکی ترغیب دینے والا بھی آج اپنی لال حویلی میں تنہا بیٹھا صرف سگار پہ سگار سلگا رہا ہے ۔اِسے آپ کسی اسکرپٹ رائٹرکی خوب صورت کہانی سمجھیں یا نادیدہ قوتوں کی شہ پر برپا کیا جانے والا چائے کی پیالی میں کوئی طوفان۔ بہر حال یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ اِس سارے اُتھل پتھل میں نہ کوئی تبدیلی کا رئیل اور حقیقی خواہاں تھا اور نہ کوئی انقلاب کا زبردست داعی اور خواہشمند۔ سب کٹھ پتلی تماشے کے ایسے چند کردار تھے جن کی ڈوریں کسی اور کے ہاتھوں میں تھیں۔
پاکستان کا نظام ابھی اتنا گلا سڑا، بوسیدہ اور تعفن زدہ نہیں ہوا ہے کہ اُسے یک دم پھینک کر ایک نیا نظام لے آیا جائے۔ جس جمہوری نظام کو لپیٹ کر انقلاب لانے کی باتیں کی جاتی ہیں اُس نظام کو اگر تسلسل کے ساتھ چلنے دیا جاتا تو جو خرابیاں ہمیں آج اُس میں نظر آرہی ہیں کب کی ختم ہو چکی ہوتیں۔ ہمیں یہ اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ اگر کوئی تبدیلی آنی ہے تو اِسی نظام میں رہتے ہوئے ہی آنی ہے۔اِس کے علاوہ کوئی نظام بھی ہمیں اپنی منزل ِ مقصود تک نہیں پہنچا سکتا۔انتخابی عمل کے بار بار اعادہ اور دہرانے ہی سے اِس میں بہتری کے آثار نمودار ہونگے۔
پڑوسی ممالک میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کو دیکھ کر اپنے یہاں کے نظام کو برا بھلا اور تعفن زدہ کہنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہاں بھی جمہوریت کے تسلسل ہی کے سبب یہ سب کچھ ممکن ہوا ہے۔قوموں کی تاریخ میں65سال کوئی کم نہیں ہوتے ۔ اُن 65سالوں میں سے نصف عرصہ بد قسمتی سے ہمارے یہاں سیاسی طور پر انتہائی غیر مستحکم رہا جب کہ بھارت میں جمہوری نظام بلاکسی تعطل کے مسلسل چلتا رہا۔ بھارت میں اگر آج عام آدمی پارٹی کامیاب وسرخرو ہوئی ہے تو وہ بھی اُسی جمہوری نظام کے تحت ہوئی ہے۔ ایک زمانہ تھا وہاں صرف ایک ہی پارٹی کا راج چل رہا تھا ۔
ایک عرصے تک صرف کانگریس ہی ملک کے تمام سفید و سیاہ کی اکلوتی مالک تھی لیکن پھر جنتا پارٹی وجود میں آئی اور بعد ازاں بھارتیہ جنتا پارٹی نے انڈین سیاست میں نہ صرف قدم رکھا بلکہ بھاری ووٹوں کے ساتھ بر سرِاقتدار بھی آگئی۔ اب اگر اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی وہاں اپنا اثرورسوخ جما رہی ہے تو یہ کوئی ایسی حیران کن خبر ہرگز نہیں ہے کہ وہاں کے عوام موجودہ سسٹم سے بیزار اور مایوس ہو چکے ہیں اور وہ سارا نظام ہی اُلٹ پلٹ کر دینا چاہتے ہیں۔ ہمارے یہاں بھی کئی مرتبہ صرف ایک ہی پارٹی بھاری اکثریت سے الیکشن جیت کر اسلام آباد کے ایوانوں میں قدم رنجہ فرما چکی ہے مگر یہاں تو کبھی کسی نے اُسے انقلاب آفرین قرار نہیں دیا۔
اپنے یہاں کی ہر چیز کو بُرا کہنا اور دوسروں کی ہر شہ کولائقِ تحسین تصور کرنا ہمارے کچھ لوگوں کی خصلت بن چکی ہے۔ عام آدمی پارٹی کا ایک شہر میں جیت جانا ایساکوئی زبردست کارنامہ بھی نہیں ہے کہ ہم اُسے نریندر مودی کی حکومت کے خلاف ووٹ آف نو کانفیڈنس سمجھ لیں جسے اقتدار میں آئے ابھی زیادہ عرصہ بھی نہیں بیتا ہے اور جس کی کارکردگی کا گراف بھی ابھی نچلی حدوں کو نہیں چھو رہا ہے۔ممبئی شہر اورکراچی میں تو ہم پہلے ہی ایسی تبدیلی کئی مرتبہ دیکھ چکے ہیں۔کسی ایک شہر میں بھاری اکثریت سے جیت جانے کو انقلاب کے معنی پہنانا کوئی دانائی اور دانشمندی نہیں کہلائی جا سکتی۔
پاکستان میں انقلاب کے خواہاں اور خواہش مندوں کو چاہیے کہ ابھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور اُس وقت کا انتظار کریں جب یہاں نا اُمیدیوں اور مایوسیوں کی سطح اپنی تمام حدیں پارکرچکی ہونگی اور عوام کے پاس کوئی راستہ باقی نہ بچ رہے گا تو وہ خود بخود سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ اُس وقت اُنہیں کسی ہدایت یا کسی اشارے کی قطعاً ضرورت نہ ہوگی اور وہ خود بخود اپنے حقوق کے حصول کے لیے سردھڑکی بازی لگا دیں گے۔
ہماری زمین ابھی کسی ایسے انقلاب کے لیے زرخیز اور شاداب ہرگزنہیں ہے جس کے تانے بانے کہیں اور جا کے ملتے ہوں اور جس کا مقصد صرف یہاں افراتفری اور انتشار پیدا کرنا ہو۔یہاں اگر کوئی انقلاب آئے گا تو برادر ملک ایران کی مانند ہی آسکتا ہے جہاں رضاشاہ پہلوی کی بادشاہت سے بیزار اور متنفر لوگوں نے آیت اللہ خمینی کی قیادت میں ایک ایسا انقلاب بپا کردیا جس کی مثال ہماری اسلامی دنیا میں شاید ہی کبھی مل سکے۔اِس کے علاوہ ہمارے یہاں نہ کوئی انقلاب آسکتا ہے اور نہ کوئی حقیقی دیرپا تبدیلی۔