تباہی کی ترقی میں ترقی کا کردار
کتنی عجیب بات ہے کہ ہم سب کچھ جانتے ہوئے بھی اپنے ہاتھوں اپنی بربادی کا سامان کر رہے ہیں۔
ایک انگریز نے چند غیر ملکیوں سے سوال کیا کہ ایک ٹوتھ برش کتنے عرصے بعد ریٹائرڈ کیا جاتا ہے؟
جواب میں چینی شخص نے کہا۔ ''ایک ہفتے میں۔''
برطانوی نے کہا۔ ''ایک مہینے میں۔''
امریکی نے کہا۔ ''تین ماہ میں۔''
پاکستانی نے کہا۔ ''پاکستان میں ٹوتھ برش کبھی ریٹائرڈ نہیں ہوتا۔''
انگریز نے حیرت سے پوچھا۔ ''وہ کس طرح؟''
پاکستانی نے جواب دیا کہ ''ہم لوگ ٹوتھ برش کو پہلے دانت صاف کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اس کے بعد بال رنگنے (ہیئر کلر کرنے) کے کام آتا ہے پھر اس کے بعد مشین کی صفائی کرنے کے کام آتا ہے اور جب اس کے بال بالکل ہی ختم ہوجاتے ہیں تو پھر شلوار میں ناڑا (ازار بند) ڈالنے کے کام آتا ہے۔''
بات یہ ہے کہ روایاتی تہذیبوں میں چیزیں استعمال کرنے میں انتہائی کفایت شعاری اور سادگی سے کام لیا جاتا تھا۔ لیکن 18 ویں صدی کے بعد زندگی گزارنے کے فلسفے میں جو بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئیں، خاص کر مغربی معاشرے میں، ان تبدیلیوں نے مذہب کو عقل کے تابع کردیا، چنانچہ روشن خیال عمانویل کانٹ جیسے مفکرین کے خیالات نے مغرب میں عقل کا وہ چکر چلایا کہ وہاں ہر فیصلہ عقل پر ہونے لگا، یوں روایتی تہذیبوں کی خصوصیت روشن خیالی کی چمک کے آگے بالآخر ماند پڑگئی۔
لہٰذا اب عقل کے پیمانے کے مطابق بلند معیار زندگی سب کا مطمع نظر بن گیا، خواہ اس کے نتیجے میں کتنا ہی نقصان اٹھانا پڑے۔ آج ہمارا معاشرہ بھی کچھ اس ڈگر پر چلنے کی کوشش کر رہا ہے بغیر یہ دیکھے کہ کس عمل کا انجام کیا ہوگا۔ راقم نے اپنے گزشتہ کالم ''تقلیدی ترقی'' میں اسی جانب اشارہ کیا تھا کہ مغرب کی تقلیدی ترقی میں ہم کس قدر نقصان اٹھا رہے ہیں اور مزید مستقبل میں کس قدر نقصان اٹھانا پڑے گا۔بہرکیف آج کے کالم میں اس ترقی کے نقصانات کا کچھ اور پہلوؤں سے جائزہ لیا جائے گا۔
ہمارے ہاں بلندتر معیار زندگی اپنانے کو ترقی کا اظہار سمجھ لیا گیا ہے جو شخص تنہا سفر کر رہا ہے وہ موٹرسائیکل یا پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنا تو کجا ایف ایکس یا مہران کار میں بھی سفر کرنے کو اپنی توہین سمجھ رہا ہے اور اس کے پاس جتنی دولت ہے اس اعتبار سے بھی زائد مہنگی مرسڈیز (گاڑی) میں سفر کرکے اپنی شان دکھا رہا ہے یوں جس سفر میں وہ ایک لیٹر پٹرول خرچ کرسکتا تھا کئی لیٹر پٹرول خرچ کر رہا ہے۔
گھروں میں اعلیٰ معیار زندگی اور اپنے آپ کو ترقی یافتہ ظاہر کرنے کے لیے قیمتی اشیا اور سامان تعیشات سے بھی گریز نہیں کیا جاتا، کوئی شے تبدیل کرکے نئی خریدلی جاتی ہے محض اس لیے نہیں کہ وہ ناقابل استعمال ہوگئی بلکہ اس لیے کہ اب جدید اسٹائل کی نئے ورژن کی مارکیٹ میں آگئی ہے۔ اسی نقطہ نظر سے موبائل فون اور گاڑیاں تبدیل کی جاتی ہیں۔ کیا اس عمل سے صنعتوں اور فیکٹریوں کا پہیہ مسلسل چلتا نہیں رہتا؟ اس سے آلودگی پیدا نہیں ہوتی؟ کبھی اس پہلو پر غور کیا؟
اقوام متحدہ کے ادارے IPCC کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق جدید صنعتی ترقی اور سائنس و ٹیکنالوجی کے ذریعے مسلسل پیدا ہونے والی حرارت کے بارے میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر اس پر قابو نہیں پایا گیا تو دنیا کا کوئی شخص موسم کی تباہ کاری سے محفوظ نہیں رہ سکے گا، ماحولیاتی تباہی کے اثرات شدید اور ناقابل تلافی ہوں گے، دنیا بھر میں خوراک کی قیمتیں بڑھ جائیں گی، فاقہ کشی میں اضافہ ہوگا، خوراک والی فصلیں بہت کم پیدا ہوں گی۔ رپورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ ہر سال ستر لاکھ لوگ کارخانوں، صنعتوں، گاڑیوں، ہوائی جہازوں، بحری جہازوں اور دیگر سواریوں سے خارج ہونے والے کیمیائی دھوئیں سے ہلاک ہو رہے ہیں۔
گویا باالفاظ دیگر جو شخص محض اعلیٰ معیار زندگی یا دکھاوے کے لیے اشیائے صرف خریدتا ہے لگژری زندگی گزارتا ہے وہ ان کارخانوں اور صنعتوں کے پہیے کو اور زیادہ مصروف عمل بناتا ہے جن کے چلنے سے ہر سال ستر لاکھ لوگ ہلاک ہو رہے ہیں۔ ہم بلاوجہ دکھاوے کے لیے اشیائے تعیشات کے استعمال کو رد کرکے اور سادگی اپناکر اس دنیا کو جہنم بنانے کی رفتار کو کم کرسکتے ہیں۔ درحقیقت یہ نام نہاد ترقی دنیا کی تباہی کا سبب بن رہی ہے اور ہم سب معیار زندگی کو بلند سے بلند تر کرنے کے لیے اس میں فخر سے شامل ہو رہے ہیں۔
جیرڈ ڈائمنڈ اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ یہ بات حیران کن نہیں ہے کہ جب معاشرے اپنی ترقی کی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں تو پھر ان کا تیز رفتار زوال شروع ہوجاتا ہے یعنی سادہ معاشرے تباہ و برباد نہیں ہوتے۔ اپنی بات کی دلیل کے لیے وہ کہتا ہے کہ چین کی موجودہ ترقی سے صرف تیس برسوں میں جو بربادی اور تباہی چین کے حصے میں آئی ہے وہ مغربی یورپ میں تین سو برسوں میں آنیوالی تباہی سے کئی گنا زیادہ ہے لیکن دنیا کا کوئی ملک اس تباہی سے سبق سیکھنے پہ آمادہ نہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق آلودگی میں چین کا حصہ 26 فیصد ہے۔ گلبرٹ ریسٹ نے اپنی کتاب میں بولیویا کے اس تصور کی مکمل تائید کی ہے کہ مغرب کی طرح مادی اشیا کی بے تحاشا پیداوار کے ذریعے فرد کی مادی فلاح ممکن نہیں کیونکہ فلاح کا یہ راستہ انسانی خوشحالی ہے مگر فطرت کی تباہی اور دوسرے لوگوں کی معاشی بربادی بھی ہے۔ اگر لوگ اپنی تعیشات زندگی ترک کر دیں تو دوسروں کی ضروریات زندگی خود بخود پوری ہو جائینگی۔
کتنی عجیب بات ہے کہ ہم سب کچھ جانتے ہوئے بھی اپنے ہاتھوں اپنی بربادی کا سامان کر رہے ہیں، محض دکھاوے کے لیے، خوبصورتی کے لیے؟ ذرا بازار پر نظر ڈالیے ہر کوئی پلاسٹک کے خوبصورت برتن خریدتے ہوئے نظر آئے گا حتیٰ کہ بچوں کے فیڈر بھی خوب خریدے جا رہے ہیں حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ BPA نامی کیمیکل پلاسٹک کی مصنوعات میں استعمال کیا جاتا ہے تاکہ برتن کو سخت بناسکے، یہ کیمیکل کینسر اور ہارٹ اٹیک کا باعث ہوتا ہے۔امریکا کی چھ ریاستوں میں پلاسٹک کے فیڈر کی فروخت پر پابندی عائد ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں کولڈڈرنک اور چائے بھی پلاسٹک کے ذریعے سپلائی ہورہی ہے۔ ویسے تو معاشرہ صحت مند ہے لیکن اسپتال جاکر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ مریضوں کی قطاریں صبح فجر سے لگ جاتی ہیں اور نمبر صبح 9 بجے شروع ہوتے ہیں۔
آئیے! غور کریں ہم کتنی چیزوں کو بے کار سمجھ کر کوڑے دان میں ڈال کر نئی لے آتے ہیں حالانکہ ابھی وہ مرمت کرکے بھی استعمال کی جاسکتی ہے، کتنی ایسی اشیا ہیں جن کی ہمیں ضرورت نہیں مگر ہم صرف خوبصورتی، دکھاوے اور اپنا معیار زندگی بلند ظاہر کرنے کے لیے خرید لاتے ہیں جب کہ ہماری تنخواہ اور گھریلو حالات سے ہمارے دوست احباب سب واقف ہوتے ہیں۔ کیا مجھے سواری کے لیے صرف موٹرسائیکل کافی نہیں؟ کیا میں محض دکھاوے کے لیے تو کار استعمال نہیں کر رہا؟ یا ہر سال نیا ماڈل تو نہیں لا رہا؟ کیا مجھے موبائل فون کی واقعی ضرورت تھی؟
کیا سننے کے لیے صرف پرانا موبائل ہی کافی نہیں تھا جو میں ٹچ اسکرین کا نیا ماڈل لے آیا؟ کیا مجھے ہر تقریب کے لیے نئے جوڑے کی ضرورت ہے؟ کوئی اچھا جوڑا جو پرانا ہو وہ بھی تو پہنا جاسکتا ہے؟ کیا میں اپنی گاڑی بلا ضرورت گھومنے پھرنے کے لیے ڈرائیو کرکے پٹرول ختم اور آلودگی میں اضافہ تو نہیں کر رہا؟ کیا گھر میں بلاضرورت آلات بجلی آن تو نہیں ہیں؟ یہ اور اس جیسے بہت سارے معاملات اس کائنات کی فطری خوبصورتی ہی خراب نہیں کر رہے ہیں، کائنات کو تباہ بھی کر رہے ہیں اور معاشرے میں بے چینی، ذہنی انتشار اور جرائم کے اضافے کا سبب بھی بن رہے ہیں۔ کیا میں درست نہیں کہہ رہا؟ کیا دکھاوے اور تقلیدی ترقی تباہی کا باعث نہیں بن رہی؟