’’مت سہل ہمیں جانو‘‘
عام طور پر عالم حیرانی یا عالم استغراق میں رہنے والی یہ ہستی جب عالم جذب میں آجاتی ہے
ذکرکئی برس قبل کا ہے، جب مجھے ماہنامہ قومی زبان کے مدیر ممتاز احمد خان نے کتاب بعنوان ''شاعر صد رنگ عبداللہ جاوید'' عنایت کی تھی۔مذکورہ کتاب تجزیاتی مطالعے پر مبنی تھی اور تجزیہ نگار تسلیم الٰہی زلفی تھے۔ مجھے اس کتاب نے ابتدا سے انتہا تک بے حد متاثر کیا ابتدائی صفحے پر ایک شعر بھی درج تھا جس کے خالق عبداللہ جاوید ہیں:
ہر لمحۂ گزراں کا احترام کرو
بچھڑنے والا کبھی لوٹ کر نہیں آیا
تسلیم الٰہی زلفی نے بے حد خلوص اور محنت و توجہ کے ساتھ تجزیہ کیا تھا اور ایسے ایسے اشعار کا انتخاب کیا تھا کہ دل جھوم اٹھے۔تسلیم الٰہی لکھتے ہیں کہ ''رقص'' عبداللہ جاوید کی شاعری کا ایک اہم عنصر ہے، رقص کو جسمانی اعضا کی شاعری بھی کہا گیا ہے، عبداللہ جاوید کے رقص کا تعلق اعضا کی ظاہری حرکات سے نہیں ہے اور ہے بھی تو اس صورت میں جب یہ حرکات جسم کے اندرونی وجود کی حرکات کا خارجی مظہر ہوں تو شاعر کے بقول:
کوئی جب دل کے اندر ناچتا ہے
تو انساں ہو کہ پتھر ناچتا ہے
عام طور پر عالم حیرانی یا عالم استغراق میں رہنے والی یہ ہستی جب عالم جذب میں آجاتی ہے تو محو رقص ہوجاتی ہے،سمندر کا کنارا ہے، رات کا پچھلا پہر ہے، چاند ہے، تارے ہیں، ہوا ہے، کوئی اس کے اندر محو رقص ہے اس کا مغربی ادب کے رقص The dance of the seven veils سے کوئی ناتا نہیں، نہ ہی گوپیوں کے رقص سے رشتہ ہے جو وہ کشن کنھیا کی مرلی کی تانوں پر ناچا کرتی تھیں، نہ ہی وشنو کے ناچ سے ملتے ہیں اور نہ ہی سرسوتی کے تا، تھئی، تھیا سے، یہ سارے رقص باہر کے ہیں جب کہ جاوید کی شاعری میں اندر کا رقص ملتا ہے جس کے بارے میں وہ کہتے ہیں:
قدم روکوں تو رک جائے
یہی اچھا ہے پیارے'رقص میں ہوں
موجودہ حالات ہوں یا زمانہ ماضی کے، ہر دور میں خون کی ہولی مختلف طریقوں اور ناموں سے کھیلی گئی ہے کبھی مذہب اور زبان کے نام پر تو کبھی زن و زمین کے مسائل، حکمرانوں کی نااہلی طبقاتی کشمکش ان ہی خونی واقعات کو تجرباتی مطالعے میں شامل کیا گیا ہے یہ وہ سانحات ہیں جنھیں عبداللہ جاوید نے لفظوں کے پیراہن میں ملبوس کیا ہے۔ تم کب تک خون بہاؤ گے۔ تم کب تک خون بہاؤگے انسانوں کا۔ آزادی کے دیوانوں کا۔ بوڑھوں کا اور جوانوں کا۔ ہر گرم لہو یہ سرخ لہو۔ انسانوں کا۔
جب ماہنامہ قومی زبان میں تسلیم الٰہی زلفی کی کتاب ''تجزیاتی مطالعہ'' پر میرا تبصرہ شایع ہوا تو بہت سے لوگوں نے ان کی شاعری کو پسند کیا اور داد دی، دیکھیے کتنے خوبصورت اور دل میں اترنے والے اشعار ہیں۔
سبھی آلام لے کر اڑ گیا ہے
پرندہ دام لے کر اڑ گیا ہے
دریچے میں ذرا سی دیر گا کر
وہ طائر شام لے کر اڑ گیا ہے
تھوڑا ہی عرصہ گزرا ہے، جب جرمنی میں مقیم محترم حیدر قریشی کی کرم نوازی کے باعث عبداللہ جاوید کا افسانوں کا مجموعہ بھاگتے لمحے موصول ہوا ''بھاگتے لمحے'' کے افسانوں کو میں نے نہایت دلچسپی اور توجہ سے پڑھا اور میں اس نتیجے پر پہنچی کہ مذکورہ کتاب کے افسانے نہایت دلکش اور موثر ہیں مغربی طرز زندگی کی عکاسی بھی نظر آتی ہے اور مشرقی انداز فکر بھی۔
معاشرتی تلخیوں میں گھلے ہوئے افسانے قاری کو متاثر کرتے ہیں کہ تمام انسانوں کے دکھ سانجھے ہوتے ہیں۔''مت سہل ہمیں جانو'' آئیے میر پڑھتے ہیں کا تحفہ کتابی شکل میں مجھے حال ہی میں ملا ہے۔ اس کا عنوان یقینا اسم بامعنی ہے کہ میر کو پڑھنا آسان نہیں ہے اسی لیے تو وہ خود فرما گئے ہیں کہ:
مت ہمیں سہل جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
ڈاکٹر جمیل جالبی نے اس کتاب کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار اس طرح کیا ہے کہ ''ہماری شعری تہذیب میں میر کا مقام آج بھی مستحکم ہے، میر کی بڑائی کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ اپنی وفات کے دو سو برس بعد بھی ان کے اشعار آج کی زندگی کے تجربے اور انسانی احساس کو بڑی خوبی سے بیان کرتے ہیں۔''مت سہل ہمیں جانو'' میں عبداللہ جاوید نے عصری، ادبی و سماجی رجحانات اور فکری و نظری عناصر کو میر کے اشعار کی تفہیم کے لیے خوبی سے برتا ہے۔
عبداللہ جاوید نے نہایت جانفشانی، تحقیق و جستجو کے بعد یہ تحریر لکھی ہے جو 323 صفحات پر مشتمل ہے۔ ایسے ایسے اشعار کا انتخاب کیا ہے کہ پڑھنے والا اس کے سحر میں گم ہوجائے اور پھر تشریح و توضیح بھی کمال کی ہے۔
شاعر نے میر تقی میر کے اس شعر میں لفظ ''ڈھنگ'' کو استعمال کرنے کے انداز پر اس طرح غور و فکر کیا ہے:
مت کر عجب جو میر ترے غم میں مرگیا
جینے کا اس مریض کے کوئی بھی ڈھنگ تھا
وہ لکھتے ہیں کہ ''کوئی بھی ڈھنگ'' کہہ کر میر نے ''ڈھنگ'' کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ''عجب'' تعجب کی جگہ کھڑا ہے۔ میر کے ہاں مکالمہ اور خود کلامی گڈمڈ رہتے ہیں ''حباب'' کے پامال موضوع کا ابلاغ اس طرح کیا گیا ہے:
موجیں کرے ہے' بحرِ جہاں میں ابھی تو' تُو
جانے گا بعدِ مرگ' کہ عالمِ حباب تھا
موت کے حوالے سے شعرائے کرام نے بے شمار اشعار لکھے ہیں، تقریباً ہر شاعر نے دائمی رخصتی کو شدت سے محسوس کیا ہے اور اسے اپنے کلام میں جگہ دی ہے کہ یہ زندگی کی حقیقت ہے، اسی موضوع پر میر کے گلستان شعروسخن میں جابجا ایسے اشعار نظر آتے ہیں جو اجل کے فرشتے کی یاد دلاتے ہیں۔ عبداللہ جاوید نے میر کے عقائد کے بارے میں بھی لکھا ہے کہ میر کا طبعی میلان طریقت کی جانب رہا انھوں نے جب یہ کہا کہ کب کا ترک اسلام کیا تو ان کا مدعا یہ تھا اور رہا کہ وہ طریقت اختیار کرچکے ہیں۔ طریقت کا طریق، وسیع المشربی ہے، مسلمان صوفیا طریقت کی اس وسیع المشربی سے متاثر رہے ہیں مسلمان درویشوں اور فقیروں میں اکثر و بیشتر حاملان طریقے رہے، میر اپنے آپ کو درویش اور اللہ کا فقیر کہتے ہیں:
ایک وقتِ خاص میرے لیے بھی دعا کرو
تم بھی تو میر صاحب قبلہ فقیر ہو
میر کا بچپن محرومیوں و ناکامیوں میں گزرا ان کے والد میر علی متقی اور چچا امان اللہ ان کے بچپن میں داغِ مفارقت دے گئے اسی احساس کے تحت اس شعر کی تخلیق ہوئی:
سر اٹھاتے ہی ہوگئے پامال
سبزہ نو دمیدہ کی مانند
آگرہ میں پیدا ہونے والا شاعر زمانے کی ستم ظریفی کے باعث دہلی سے لکھنو پہنچ جاتا ہے چونکہ وہیں اس کی قسمت میں آسودہ خواب ہونا لکھ دیا گیا تھا۔ زمانے کی ستم ظریفی دیکھیے کہ میر کی لحد پر ریل کی پٹری بنا دی گئی شاید ایسے ہی موقعے کے لیے میر یہ شعر کہہ گئے تھے:
مت تربت میرکو مٹا
رہنے دو غریب کا نشان تو
عبداللہ جاوید اور تسلیم الٰہی زلفی کینیڈا میں رہتے ہوئے اردو ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔ ان ہی کی طرح بیرون ملک میں اردو کی نئی بستیاں آباد کرنے میں ہمارے شعرا و ادبار کا نمایاں مقام رہا ہے۔