عالمی کپ میں پاکستان کی کارکردگی اور ہمارے رویے
عالمی کپ اب اس مرحلے میں داخل ہو چکا ہے کہ جہاں ٹیمیں یا تو مطمئن ہیں یا پھر سخت پریشانی سے دوچار ہیں۔
ISLAMABAD:
عالمی کپ اب اس مرحلے میں داخل ہو چکا ہے کہ جہاں ٹیمیں یا تو مطمئن ہیں یا پھر سخت پریشانی سے دوچار ہیں۔ پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے کہ جو اس وقت انتہائی نازک مقام پر کھڑا ہے۔ روایتی حریف بھارت کے ہاتھوں شکست کے بعد اسے ویسٹ انڈیز کے خلاف اہم مقابلے میں بھی ہار سہنا پڑی۔ یہ دکھ کڑا ضرور تھا لیکن غیر متوقع ہرگز نہیں تھا۔
پاکستان عالمی کپ سے پہلے اپنے 12 میں سے صرف 2 ایک روزہ مقابلے جیتا، جس میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے خلاف متحدہ عرب امارات میں ہونے والی شکستیں اور اس کے بعد نیوزی لینڈ پہنچتے ہی دونوں ایک روزہ مقابلے ہارنا بھی شامل تھا۔ پاکستان نیوزی لینڈ میں ایک روزہ تو کجا ٹور میچز تک نہ جیت سکا۔
پے در پے شکستوں کے بعد سخت دباؤ کی صورتحال میں پاکستان کو بھارت کے خلاف ''جنگ عظیم'' میں حصہ لینا پڑا اور دید و بینا رکھنے والے تمام ماہرین کی توقعات کے عین مطابق پاکستان کو شکست ہوئی۔ یہ پہلا زلزلہ تھا کہ جس کے دھچکے کئی دنوں تک پاکستان کے ذرایع ابلاغ کے ذریعے عوام کو پہنچتے رہے۔
یہاں تک کہ پاکستان کا دوسرا مقابلہ آن پہنچا۔ اس مرتبہ ویسٹ انڈیز پاکستان کا حریف تھا جو اپنے پہلے مقابلے میں آئرلینڈ کے ہاتھوں بری طرح ہار چکا تھا۔ زخمی شیروں کے اس مقابلے میں ویسٹ انڈیز نے پاکستان کو بری طرح پچھاڑ دیا اور اس کے بعد وہ طوفانِ بدتمیزی مچا کہ الامان، الحفیظ!
ذرایع ابلاغ اور عوامی ذرایع ابلاغ یعنی سوشل میڈیا، دونوں پر جو رویہ اختیار کیا گیا، وہ بدقسمتی سے ہمارے موجودہ قومی رجحان کی عکاسی کر رہا ہے، یعنی شدت پسندی۔ صرف چار مہینے قبل جب پاکستان نے متحدہ عرب امارات کے میدانوں میں آسٹریلیا کے خلاف تاریخی ٹیسٹ سیریز جیتی تھی تو ہم ہی تھے کہ جنہوں نے ان کھلاڑیوں کو سر پر بٹھا لیا تھا، ان کو سراہنے کے لیے زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے تھے لیکن اب حالت یہ ہے کہ ایسے الفاظ ادا کر رہے ہیں جو کسی شخصیت کو زیب نہیں دیتے۔ حالانکہ پاکستان کے 4 مقابلے ابھی باقی ہیں، اس کے عالمی کپ کے اگلے مرحلے تک پہنچنے کے امکانات واضح طور پر موجود ہیں اس کے باوجود ریٹنگ کی دوڑ میں سرگرداں ٹیلی وژن چینلوں کا مرغے لڑانے کا کام جاری ہے۔
کیا پاکستان عالمی کپ کے لیے 'ہاٹ فیورٹ' تھا؟ کیا اسے ویسٹ انڈیز نے کوارٹر فائنل یا سیمی فائنل میں شکست دی ہے؟ جب ان دونوں سوالوں کا جواب نفی میں ہے تو اتنا غل غپاڑہ کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ ساتھ ہی سوچنے کی یہ بھی بات ہے کہ اتنا ہنگامہ کیوں برپا ہوا؟
دراصل جمعہ جمعہ چار سال بعد صرف ورلڈ کپ میں کرکٹ دیکھنے والے فینز کا ملاپ جب ذرایع ابلاغ کے بنائے گئے بلبلے سے ہوا تو ایسا ماحول بن گیا کہ گویا پاکستان کے کھلاڑی آنکھیں بند کرکے کھیلیں گے، تب بھی عالمی کپ جیت جائیں گے۔ یعنی یہ ڈیڑھ مہینے کا میلہ تو محض رسمی کارروائی ہے اور اسے سجایا ہی پاکستان کے جیتنے کے لیے گیا ہے۔ اب اس ماحول کو دیکھیں اور پھر پاکستان کی گزشتہ کارکردگی کو، آپ کو ٹاٹ میں ریشم کا پیوند ہی دکھائی دے گا۔
پاکستان کی عالمی کپ میں کارکردگی ہرگز اچھی نہیں، اس پر بات ہو سکتی ہے، اور ہونی بھی چاہیے۔ شکست کے اسباب پر غور کرنے، ان کے ازالے کے لیے لائحہ عمل مرتب کرنے اور آیندہ مقابلوں کے لیے حکمت عملی ترتیب دینے کا وقت ہے اور بے جا اور ناقص تنقید صرف اور صرف ٹیم کے بچے کچھے حوصلوں کو ختم کرنے ہی کے کام آئے گی۔
اس لیے تنقید کریں، اپنی شخصیت اور وقار کو مدنظر رکھتے ہوئے کریں۔ سب کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان بہتر کھیلے لیکن جو رویہ اس وقت روا رکھا گیا ہے، اس سے ٹیم کے حوصلے مزید پست ہوں گے اور وہ مزید مقابلے ہارے گی۔ اس لیے وہ کریں جو عالمی کپ میں پاکستان کے لیے بہتر ہو۔
عالمی کپ اب اس مرحلے میں داخل ہو چکا ہے کہ جہاں ٹیمیں یا تو مطمئن ہیں یا پھر سخت پریشانی سے دوچار ہیں۔ پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے کہ جو اس وقت انتہائی نازک مقام پر کھڑا ہے۔ روایتی حریف بھارت کے ہاتھوں شکست کے بعد اسے ویسٹ انڈیز کے خلاف اہم مقابلے میں بھی ہار سہنا پڑی۔ یہ دکھ کڑا ضرور تھا لیکن غیر متوقع ہرگز نہیں تھا۔
پاکستان عالمی کپ سے پہلے اپنے 12 میں سے صرف 2 ایک روزہ مقابلے جیتا، جس میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے خلاف متحدہ عرب امارات میں ہونے والی شکستیں اور اس کے بعد نیوزی لینڈ پہنچتے ہی دونوں ایک روزہ مقابلے ہارنا بھی شامل تھا۔ پاکستان نیوزی لینڈ میں ایک روزہ تو کجا ٹور میچز تک نہ جیت سکا۔
پے در پے شکستوں کے بعد سخت دباؤ کی صورتحال میں پاکستان کو بھارت کے خلاف ''جنگ عظیم'' میں حصہ لینا پڑا اور دید و بینا رکھنے والے تمام ماہرین کی توقعات کے عین مطابق پاکستان کو شکست ہوئی۔ یہ پہلا زلزلہ تھا کہ جس کے دھچکے کئی دنوں تک پاکستان کے ذرایع ابلاغ کے ذریعے عوام کو پہنچتے رہے۔
یہاں تک کہ پاکستان کا دوسرا مقابلہ آن پہنچا۔ اس مرتبہ ویسٹ انڈیز پاکستان کا حریف تھا جو اپنے پہلے مقابلے میں آئرلینڈ کے ہاتھوں بری طرح ہار چکا تھا۔ زخمی شیروں کے اس مقابلے میں ویسٹ انڈیز نے پاکستان کو بری طرح پچھاڑ دیا اور اس کے بعد وہ طوفانِ بدتمیزی مچا کہ الامان، الحفیظ!
ذرایع ابلاغ اور عوامی ذرایع ابلاغ یعنی سوشل میڈیا، دونوں پر جو رویہ اختیار کیا گیا، وہ بدقسمتی سے ہمارے موجودہ قومی رجحان کی عکاسی کر رہا ہے، یعنی شدت پسندی۔ صرف چار مہینے قبل جب پاکستان نے متحدہ عرب امارات کے میدانوں میں آسٹریلیا کے خلاف تاریخی ٹیسٹ سیریز جیتی تھی تو ہم ہی تھے کہ جنہوں نے ان کھلاڑیوں کو سر پر بٹھا لیا تھا، ان کو سراہنے کے لیے زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے تھے لیکن اب حالت یہ ہے کہ ایسے الفاظ ادا کر رہے ہیں جو کسی شخصیت کو زیب نہیں دیتے۔ حالانکہ پاکستان کے 4 مقابلے ابھی باقی ہیں، اس کے عالمی کپ کے اگلے مرحلے تک پہنچنے کے امکانات واضح طور پر موجود ہیں اس کے باوجود ریٹنگ کی دوڑ میں سرگرداں ٹیلی وژن چینلوں کا مرغے لڑانے کا کام جاری ہے۔
کیا پاکستان عالمی کپ کے لیے 'ہاٹ فیورٹ' تھا؟ کیا اسے ویسٹ انڈیز نے کوارٹر فائنل یا سیمی فائنل میں شکست دی ہے؟ جب ان دونوں سوالوں کا جواب نفی میں ہے تو اتنا غل غپاڑہ کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ ساتھ ہی سوچنے کی یہ بھی بات ہے کہ اتنا ہنگامہ کیوں برپا ہوا؟
دراصل جمعہ جمعہ چار سال بعد صرف ورلڈ کپ میں کرکٹ دیکھنے والے فینز کا ملاپ جب ذرایع ابلاغ کے بنائے گئے بلبلے سے ہوا تو ایسا ماحول بن گیا کہ گویا پاکستان کے کھلاڑی آنکھیں بند کرکے کھیلیں گے، تب بھی عالمی کپ جیت جائیں گے۔ یعنی یہ ڈیڑھ مہینے کا میلہ تو محض رسمی کارروائی ہے اور اسے سجایا ہی پاکستان کے جیتنے کے لیے گیا ہے۔ اب اس ماحول کو دیکھیں اور پھر پاکستان کی گزشتہ کارکردگی کو، آپ کو ٹاٹ میں ریشم کا پیوند ہی دکھائی دے گا۔
پاکستان کی عالمی کپ میں کارکردگی ہرگز اچھی نہیں، اس پر بات ہو سکتی ہے، اور ہونی بھی چاہیے۔ شکست کے اسباب پر غور کرنے، ان کے ازالے کے لیے لائحہ عمل مرتب کرنے اور آیندہ مقابلوں کے لیے حکمت عملی ترتیب دینے کا وقت ہے اور بے جا اور ناقص تنقید صرف اور صرف ٹیم کے بچے کچھے حوصلوں کو ختم کرنے ہی کے کام آئے گی۔
اس لیے تنقید کریں، اپنی شخصیت اور وقار کو مدنظر رکھتے ہوئے کریں۔ سب کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان بہتر کھیلے لیکن جو رویہ اس وقت روا رکھا گیا ہے، اس سے ٹیم کے حوصلے مزید پست ہوں گے اور وہ مزید مقابلے ہارے گی۔ اس لیے وہ کریں جو عالمی کپ میں پاکستان کے لیے بہتر ہو۔