کھرے کھوٹے
انسان اپنی فطرت میں خوبصورتی کی طرف جھکاؤکے ہاتھوں اکثر مارکھاتا ہے
لاہور:
میں عدیل کے فلیٹ کے دروازے کے باہرکھڑا تھا جو ذرا سا کھلا ہوا تھا۔میرے دستک دینے پر اندر سے آواز آئی'' اندر آجائیں ، دروازہ کھلا ہے''۔میری عدیل سے صرف فون پر بات ہوئی تھی، ملاقات پہلی بار ہو رہی تھی۔میں ان دنوں رینٹ اے کارکا کام کر رہا تھا، اسی سلسلے میں اس کے پاس آیا تھا۔اپنی آوازسے وہ ایک پچپن، ساٹھ سالہ کمزور جسامت و سانولی رنگت والا عام سا شخص معلوم ہوتا تھا۔ا
س نے مجھے فون پر بتایا تھا کہ وہ کمرکے مہروں کی خرابی کی وجہ سے صرف واکر کے سہارے ہی چند قدم چل سکتا تھا۔ میں اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانے کے لیے وہاں پہنچا تھا۔جب میں اندر پہنچا تو ایک لمحے کو ٹھٹھک کر رک گیا۔سامنے بیڈ پر میرے اندازے کے بر خلاف ایک چھ فٹ کا، چالیس بیالیس سالہ کشادہ چھاتی،گورے رنگ ، توانا جسم اور پرکشش شخصیت کا مالک جوان کمر تکیے سے لگائے بیٹھا تھا۔وہ دو کمروں کا ایک چھوٹا سا خالی فلیٹ تھاجہاں اس کے سوا کوئی اور موجود نہ تھا۔بیڈ کے ساتھ ہی کمپیوٹر پر حج کے مناظر با آوازِ بلند چل رہے تھے۔
عدیل کی آنکھوں پر لگی عینک ،براؤن بال اور داڑھی مونچھیں اس کی شخصیت کو مزید جاذبِ نظر بنا رہے تھے۔ وہ ایک دلکش Personality رکھنے والا جوان تھاجسے دیکھتے ہی میرے دل میں اس کے لیے پسندیدگی اور بھری جوانی میں اس محتاج کر دینے والی بیماری کے سبب ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو گیا۔یقینا میرے دل میں اس کے لیے پسندیدگی کے وہ جذبات اس کی ظاہری خوبصورتی اور خدوخال کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے۔وہ بغیر کچھ کہے سنے ہی میرا آدھا دل جیتنے میں کامیاب ہو چکا تھا۔وہ آدھی کامیابی جو کسی عام صورت انسان کو حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ محنت کرنا پڑتی ۔
اگر وہ معمولی شکل و صورت کا مالک ہوتا تو شاید میری ہمدردی تو حاصل کر لیتا مگر پسندیدگی کبھی نہیں، جب تک کہ وہ زبان سے کوئی خاص بات یا کسی اچھے عمل سے مجھے متاثر نہ کرتا۔ہم انسانوں کی بھی عجیب فطرت ہے، خوبصورت و غیرخوبصورت میں تعصب برتتے ہیں۔ پرکشش لوگوں کے ساتھ ہمارا رویہ دوستانہ اور مہربان ہوتا ہے ۔ جس کی وجہ سے ان کی جھولی ساری زندگی آسانی وکامیابیوں سے بھری رہتی ہے۔
جب کہ معمولی صورت انسان کے ساتھ ہم صرف to the point بات کرتے ہیں،انھیں کوئی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے ۔ جس کی وجہ سے انھیں عمر بھر مشکلوں، محرومیوں اور جدوجہد کا سامنا رہتا ہے۔ انھیں ایک ایک کامیابی کے لیے باقاعدہ محنت کرنا پڑتی ہے ۔کیونکہ ان کا مقابلہ ہر قدم پر خوبصورت لوگوں سے ہوتا ہے جنھیں ان پرترجیح دی جا رہی ہوتی ہے۔چناچہ انھیں ان کے رنگ روپ کا مقابلے کرنے اور خود کو بہتر ثابت کرنے کے لیے زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے ، ہمیشہ اپنا Best پیش کرنا پڑتا ہے۔ورنہ کوئی دوسرا نکھرے روپ و الا کم صلاحیتوں کے باوجود ان کی جگہ منتخب کر لیا جاتا ہے۔
میں نے عدیل کو سہارا دے کے بیڈ سے اتارا۔ وہ چند قدم بھی شدید تکلیف کے عالم میںاٹھاتا۔خصوصاً سیڑھیاں چڑھتے اترتے اور جھکتے وقت مہروںکی تکلیف کی شدت سے کراہ اٹھتا۔
لیکن اس کیفیت میں بھی وہ خدا کا شکر ادا کرتا، قرآنی آیات کی تلاوت جاری رکھتا۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس نے قرآن کا کچھ حصہ حفظ کیا ہوا تھا اور ایک بار تبلیغ پر بھی جا چکا تھا۔ وہ پچھلے دو ماہ سے بیڈ پر آ گیا تھا اس سے پہلے چلا کرتا تھا۔
اب مختلف ڈاکٹروں سے علاج کروانے کی کوشش کر رہا تھا۔جس طرح وہ ان کرب کے لمحات میں بھی مسلسل خدا کو یاد کر رہا تھا یقینا وہ کوئی عام انسان نہ تھا۔ شاید وہ اللہ کی جستجو میں تھا جس کا اس نے ایک بار ذکر بھی کیا۔اس ماحول میں مجھے اس کا چہرہ نورانی محسوس ہو رہا تھا ، وہ میرے لیے باعث ِ دلچسپی بن گیا تھا۔
ہم کلفٹن کراچی میں واقع کلینک کے باہر گاڑی سے نکلنے لگے تو وہ شدت ِتکلیف سے تڑپ اٹھا۔سامنے موجود گارڈ بھی جذبہ ہمدردی اور یقینا کسی حد تک اس کی خوشگوار شخصیت کی وجہ سے اس کی مدد کے لیے آپہنچا۔ کلینک میں داخل ہوئے تو Receptionist لڑکی نے بھی مسکراہٹ سے اس کا استقبال کیا۔ عدیل نے مہذب انداز سے سلام کیا اور خیریت دریافت کی تو اس نے جواباً ہمدردی سے پوچھا ''آپ بہت دنوں بعد آئے،میں تو پریشان ہو گئی تھی کہیں آپ کی طبیعت نہ خراب ہو گئی ہو۔ ''
عدیل کے مالی حالات بھی کچھ اچھے نہ تھے۔اس نے بتایا کہ اس نے بہت بلندی دیکھی تھی، پوری دنیا گھوما ہوا تھا۔ لیکن ان دنوں مشکلات کا شکار تھا۔ ڈاکٹر آیا، وہ بھی اس سے بہت خوش مزاجی سے ملا اور دوستانہ ماحول میں چیک اپ کیا۔ ڈاکٹر سے فارغ ہونے کے بعد جب وہ فیس دینے کے لیے دوبارہ اس لڑکی کے پاس پہنچا، جیب میں ہاتھ ڈال کر اس سے پوچھا '' جی بہن ، کتنے دینے ہیں میں نے ؟ ''
تو اس نے مسکراتے ہوئے پیسے لینے سے انکار کر دیا اور بولی'' کچھ نہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے منع کیا ہے پیسے لینے سے ۔ ''
گاڑی میں سوار ہونے پر عدیل نے بتایا کہ یہ اس ڈاکٹر سے اس کی تیسری Appointment تھی اور یہ دوسری بار اس نے کوئی پیسہ چارج نہیں کیا، جب کہ اس کی فیس پندرہ سو روپے تھی۔میں عدیل اور اس سے رابطے میں آنے والے لوگوں کے رویوں کا بغور جائزہ لے رہا تھا۔ یہ جاننے کی کوشش کر رہا تھا کہ مجھ سمیت سب کے رویے اس کے ساتھ اتنے حوصلہ افزا اور helpful کیوں تھے۔کیا اس کا واقعی اللہ سے کوئی روحانی تعلق تھا ، یا یہ اس کا رنگ روپ اور بھری جوانی میں محتاجی تھی جو لوگوں کے دلوں میں اس کے لیے ہمدردی پیدا کر رہی تھی۔
مجھے اس کی باتوں سے یہ تاثر مل رہا تھا جیسے وہ اللہ کو پانا چاہتا تھا۔چناچہ میرے کریدنے پر اس نے بتایا کہ اس کا رجحان اللہ کی طرف پچیس برس کی عمر میں ہوا۔اس سے پہلے وہ ایک عیش و عشرت سے بھر پور، دوستوں جن میں لڑکیاں بھی شامل تھیں کے جھرمٹ میں زندگی گزارنے والا نوجوان تھا۔
پہلی ملاقات میں اس نے کچھ ایسی گہری باتیں کیں جن کی وجہ سے میری اس میں دلچسپی بڑھ گئی ۔لہٰذا میں نے بعد میں اس سے مزید دو ملاقاتیں کیں، اسے ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا،اس کے ساتھ تین تین گھنٹے گزارے۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ کیا واقعی وہ کوئی روحانی شخصیت تھا، اگر ہاں تو کیا مجھے بھی اس سے کوئی رہنمائی حاصل ہو سکتی تھی؟
لیکن دوسری ہی ملاقات میں حقیقت مجھ پر واضح ہونا شروع ہو گئی۔مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ جس زبان سے وہ ایک لمحے تلاوتِ قرآن کرتا، اسی زبان سے چند لمحوں بعد فحش گوئی اور گالیاںبکنے لگتا۔بے دھڑک کسی کی برائی شروع کر دیتا، کردار کشی کرنے لگتا۔ وہ پہلی ملاقات والے عدیل کے خول سے باہر نکل آیا تھا۔
وہ میرا یا اس ڈاکٹر کا بھی شکر گزار نہ تھا جس نے اس سے اپنی فیس بھی وصول نہ کی تھی۔میں سوچنے لگا جو شخص انسانوں کا شکرگزار نہ ہو وہ اللہ کا شکرگزار کیسے ہوسکتا تھا۔مجھے پتہ چلاکہ اس نے جو متاثر کن باتیں کی تھیں وہ اس کی اپنی نہ تھیں بلکہ ادھر اُدھر سے اکٹھی کی ہوئی تھیں، جنھیں وہ دوسروں کو متاثر کرنے اور ان کے دلوں میں جگہ بنانے کے لیے استعمال کرتا۔ پہلی ملاقات میں اس نے اللہ کی معرفت ، نعمتوں کے حوالے سے اور جو جو باتیں مجھ سے کیں ، وہی وہ کلینک میں انتظار کرتے مریضوںاور دوسری جگہوں پر موجود لوگوں سے کرتا رہا اور وہ سب بھی میری طرح اس سے متاثر ہوتے رہے ۔ غالباً اس ڈاکٹر نے بھی ان ہی باتوں سے متاثر ہوکر اپنی فیس نہ لی تھی۔
حقیقت یہ تھی کہ جسے میں عدیل کے گِرد نور کا ہالا سمجھ رہا تھا وہ فقط اس کا ظاہری رنگ روپ تھا ۔اس کی پہلی ملاقات کا لبادہ میرے سامنے چاک ہو چکا تھا۔ اس واقعے کے بعد مجھ پر دو انکشاف ہوئے ایک، کہ ہم صرف لوگوں کے ظاہری خد وخال سے دھوکا کھا جاتے ہیں، اور دوسرا یہ کہ بعض دفعہ کسی کے اندر روحانیت محسوس ہونا بھی صرف ہماری نظروں کا دھوکا ہوسکتا ہے۔
انسان اپنی فطرت میں خوبصورتی کی طرف جھکاؤکے ہاتھوں اکثر مارکھاتا ہے۔کسی کو پہچاننے کا واحد طریقہ اس کے قول وفعل میں ہم آہنگی کا ہونا ہے۔اگر ان میں مطابقت ہے تو وہ کھرا اور خوبصورت ہے اور نہیں تو تمام تر رعنائیوں کے باوجود کھوٹا اور بدصورت!