سیاسی مذہبیت اور مذہبی سیاست
عہد حاضر میں زیادہ دہشت گردی چونکہ مذہبی بنیادوں پر مسلط کی جارہی ہے
یہ امر بہت حیران کن ہے کہ جب کبھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو اسے ایک وسیع سطح پر موجود سماجی ومعاشی مسائل سے منقطع کرکے بالکل تجریدی انداز میں مذہب کا شاخسانہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ دہشت گردی کے واقعے کے بعد کوئی نہ کوئی مذہبی گروہ اٹھتا ہے اور وہ اس دہشت گردی کی ذمے داری قبول کرتا ہے۔
عہد حاضر میں زیادہ دہشت گردی چونکہ مذہبی بنیادوں پر مسلط کی جارہی ہے اس لیے دہشت گردی کے واقعے کے بعد مذہب کے خلاف پروپیگنڈے کا آغاز کردیا جاتا ہے۔ اس سارے عمل سے اس باطل خیال کو تقویت ملتی ہے کہ سیاست اور سیاست دان تو قطعی طور پر معصوم اور بے قصور ہیں۔ انھیں سیاست کرنے کا موقع نہیں دیا جارہا ہے، جس کی وجہ سے سارے مسائل پیدا ہوتے جارہے ہیں، اس طرح اس گمراہ کن خیال کو فروغ ملتا ہے کہ سماج میں موجود مسائل سیاسی عمل کی پیداوار نہیں ہیں، بلکہ سیاست کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرنے کا نتیجہ ہیں اور جو قوت 'ترقی' کے اس عمل میں رکاوٹ ہے اسے مذہب کہا جاتا ہے۔
اس طرح مذہبی سیاست اور سیاسی مذہبیت کے درمیان جو پیچیدہ تعلق ہے اسے مکمل طور پرنظر انداز کردیا جاتا ہے۔ وہ غم و غصہ جو استحصالی، جابر اور لٹیرے سیاستدانوں کے خلاف تشکیل پانا چاہیے وہ ایک مختلف سمت یعنی مذہب کی طرف چل نکلتا ہے۔ عوام کے حقیقی مسائل سے نظریں ہٹ جاتی ہیں اور مقتدر طبقات کے سیاسی اور معاشی غلبے کا تسلسل قائم رہتا ہے۔دہشت گردی مذہبی ہے یا سیاسی؟ یہ سوال اتنا ہی عمیق اور گنجلک ہے جتنا مذہب اور سیاست کے درمیان تعلق پیچیدہ ہے۔عہد حاضر کے سیاسی اور مذہبی مناقشے یہ ثابت کرتے ہیں کہ سیاست اور مذہب کو ایک دوسرے سے الگ کرنا ممکن نہیں ہے۔
مذہب کی تاریخ کی بیک وقت مذہبی اور سیاسی تشریح کی جاسکتی ہے۔ سیاست مذہب کے اندر موجود ہوتی ہے اور مذہب ایک مختلف سطح پر سیاستدانوں کے لیے سیاسی کردار ادا کرتا ہوا سیاست کے وسط میں موجود رہتا ہے۔ مذہب سیاست میں لبرل ازم، سوشلزم اور فاشزم وغیرہ ہی کی طرح ایک آئیڈیالوجی کے طور پر موجود رہتا ہے۔ دیگر تمام نظریات ہی کی طرح مذہب میں بھی اقدار کی ایک فوقیتی ترتیب ہونے کی وجہ سے اس میں سیاست کے عناصر موجود رہتے ہیں۔ ہر نوع کی آئیڈیالوجی کی طرح مذہب میں بھی سچ اور جھوٹ، اعلیٰ اور ادنیٰ، عظیم اور پست اور ارتقا اور انحطاط کی مخصوص تشریحات کی جاتی ہیں۔
ان تمام اقدارکی موجودگی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سماج میں تضادات ، مسائل اورکشمکش موجود ہیں، جن کی حیثیت اوّلین ہے۔ مذہب ان اقدارکے پیش نظر سماجی تضادات اور مسائل کی تحلیل کا دعویٰ کرتا ہے۔بالکل اسی طرح سیاست کا آغاز کسی تجریدی فارمولے کے تحت نہیں ہوتا ہے۔سیاست کا آغاز اسی وقت سے ہوگیا تھا جب دو افراد کے مابین پہلا تنازع پیدا ہوا تھا۔ سیاسی عمل کبھی بھی غیر جانب دار اور معصوم نہیں رہا ہے۔ سیاست سماج کے وسط میں موجود تضادات، کشمکش اور مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے وجود میں آتی ہے جو اعلیٰ اور ادنیٰ اقدار کی ترتیب پر قائم نظریات ہی کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ سیاست خود میں کوئی ایسی شے نہیں جو مکمل ہو، سیاست کی تکمیل مختلف نظریات سے ہوتی ہے۔
سیاست کی تکمیل کے لیے مذہب کی احتیاج سیاست کے اندر موجودہے۔ ایسی کوئی آئیڈیالوجی موجود نہیں ہے جس میں سیاست کا رجحان نہ پایا جاتا ہو۔ مذہب، لبرل ازم، تعقل پسندی حتیٰ کہ منطقی علوم جو کہ سائنسی ہونے کے دعویدار ہیں، آخری تجزیے میں ان کی حیثیت بھی سیاسی ہوتی ہے۔منطق و فلسفیانہ تعقلات کی بنیاد پر ریاست اور سول سوسائٹی کی تمام خیالی اور آدرشی عمارت تعمیر کی جاسکتی ہے۔فرانسیسی انقلاب کے بعد قائم ہونے والی مغربی ریاستوں کی تشکیل اور فلسفیانہ و منطقی تعقلات میں اتنا گہرا رشتہ ہے کہ ان علوم اور ریاست کی عملی صورت کو الگ کرنا ناممکن ہے۔
ریاست اور سول سوسائٹی کے درمیان رشتہ ایک تصور کی صورت میں پیش کیاجاتا ہے، جب یہ یہ رشتہ تعقلی نقطہ نظر سے تشکیل دیا جاتا ہے تو فلسفیانہ و منطقی ہوتا ہے، اور جب یہی رشتہ الٰہیاتی نقطہ نظر سے تشکیل دیا جاتا ہے تو مذہبی ہوتا ہے۔ جبر و تشد اور دہشت و بربریت تعقلی و الٰہیاتی مکتبہ فکر کے سیاسی کردار سے جڑے ہوتے ہیں۔انھیں کسی آئیڈیالوجی میں موجود ''احکامات' سے اسی وقت جوڑا جاسکتا ہے جب سیاست اس خلا کو پیدا کردیتی ہے ، اس طرح سیاست میں مذہبی 'احکامات' سے جڑنے کی احتیاج جنم لیتی ہے۔
کوئی بھی مذہبی جماعت جب سماج پر اپنے مثالی آدرشوں کے اطلاق کا منشور تیار کرتی ہے تو اس وقت وہ جماعت محض مذہبی نہیں بلکہ سیاسی ہوچکی ہوتی ہے۔ اس وقت یہ کہنا کہ ساری خرابی مذہب میں ہے، درست نہیں ہے، مذہب اور سیاست کے درمیان تعلق اتنا پیچیدہ ہوجاتا ہے کہ ایک کو دوسرے سے الگ کرنا انتہائی مشکل مرحلہ ہے۔ایک طرف وہ جماعتیں ہیں جو مذہب کے نام پر سیاست کرتی ہیں،وہ مذہب کے خیالی آدرشوں کو حقیقت کا روپ دینے کا جھانسہ دیتی ہیں۔ دوسری طرف 'آزاد خیال' اور 'جمہوری' ہونے کا دعویٰ کرنے والی جماعتیں ہیں جو اپنے منشور میں پیش کیے گئے خیالی آدرشوں کو حقیقت کی سطح پر لانے میں ناکام ہوچکی ہوتی ہیں۔عوام کا وسیع سطح پر استحصال اورظلم و بربریت ان کی سیاست کا لازمی نتیجہ ہوتی ہے۔
اس صورت میں ایسی سیاسی جماعتیںسماج کو آگے لے جانے کی صلاحیت سے محروم ہوکر کسی بھی مذہبی جماعت ہی کی طرح رجعت پسند ہوچکی ہوتی ہیں۔ایسے میں ان کو ایک 'مخالف' کی ضرورت پڑتی ہے جس کو وہ ہر قسم کی خرابیوں اور مسائل کا ذمے دار ٹھہرا سکیں۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں اس رویے کی واضح مثال ہیں۔ یہ درست ہے کہ پاکستان میں مذہب کی مخصوص تشریحات نے مسائل کو جنم دیا ہے، مگر یہ مسائل سیاسی عمل کا لازمی نتیجہ ہیں جس کے اندر مخصوص مذہبی آئیڈیالوجی سے ہم آہنگ ہونے کی ضرورت موجود ہے۔ سیاست کی اپنی بقا کے لیے ضروری ہوچکا ہے کہ وہ تشدد کی سیاست پر گامزن رہے تاکہ عوام کی نظروں سے حقیقی تضادات، مسائل اور کشمکش مخفی ہی رہیں۔
پرتشدد اور مسائل زدہ حالات میںسیاسی جماعتیں اپنا اثبات مذہب کی ایک مخصوص تشریح کی نفی کرتے ہوئے کروانا چاہتی ہیں۔ عوام کی سیاست وہ محض اس حد تک کرتی ہیں کہ جس حد تک وہ عوام کے اذہان میں یہ خیال راسخ کردیں کہ تمام مسائل کی جڑ مذہب کی ایک مخصوص تشریح ہے جو دہشت گردی کا منبع و مآخذ ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے کہ جہاں دہشت گردی کسی مذہبی حکم کے طور پر نہیں بلکہ سیاست کی ضرورت کے طور پر سامنے آکر سیاستدانوں کو سیاست کرنے کا جواز فراہم کرتی ہے۔مغربی ممالک میں جب کبھی سماجی سطح پر بے چینی و اضطراب اور اپنے حقوق کی خاطر عوام کا سڑکوں پر نکلنے کا خدشہ پیدا ہوتا ہے تو وہاں کوئی نہ کوئی دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوجاتا ہے۔حقائق چھپے رہتے ہیں اور ان کی جگہ مصنوعی حقائق لے لیتے ہیں۔
ایک طبقہ یہ خیال پیش کرتا ہے کہ عہد حاضر کی جنگ حقیقت میں اسلام کو ختم کرنے کی جنگ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ عہد حاضر کی جنگیں کسی آئیڈیالوجی کو ختم کرنے کی بجائے سرمایہ داری نظام اور اس پر قابض مقتدر طبقات کو زندہ رکھنے کی جنگیں ہیں۔ ان میں کسی کے خاتمے سے زیادہ اپنی بقا کا عنصر غالب ہے۔مذہب کا کردار قربانی کے اس بکرے جیسا ہے جو نہ صرف اپنی قربانی پیش کرتا ہے بلکہ قربانی کرنے والے کو پُل صراط سے گزارنے کی گارنٹی بھی فراہم کرتا ہے۔ اس تناظر میں سیاست اور مذہب ایک دوسرے میں مدغم ہوچکے ہیں۔وہ ایک دوسرے کی پوشاک بن گئے ہیں۔
سیاست اگر آئیڈیولاجیکل سطح پر اپنا مخالف تشکیل نہ دے تو وہ براہِ راست عوام کو جواب دہ ہوتی ہے۔ عوامی سیاست کی ناکامی ہی سیاست کو مجبور کرتی ہے کہ وہ نظریاتی آدرشوں کی سیاست کرے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست اپنے مخالف کووجود میں لاتی ہے ، اس کی پرورش کرتی ہے، اسے پروان چڑھاتی ہے اور بعد ازاں اسے ایک مخصوص شکل عطا کرتے ہوئے اس کی ایک مخصوص تشریح کو سماج میں رواج دیتی ہے۔ ایسی تشریح جو سیاست کو سیاست کا جواز فراہم کرتی رہے۔