جیل کے اندرریلوے اسٹیشن سپر مارکیٹ اور انٹرنیٹ کیفے
چینی حکومت کے اس منصوبے کی بنیاد ایک قیدی کی موت بنی تھی جس نے جیل سے چھوٹنے کے بعد خودکشی کرلی تھی۔
طویل قید سے چھٹکارا پانے والے قیدیوں کی معاشرے سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے چین میں قیدیوں کے لئے تجرباتی طور پر ایک جیل میں بیرونی دنیا جیسا ماحول بنایا گیا ہے۔
۔ماہرین نے طویل قید سے چھٹکارا پانے والے قیدیوں کی معاشرے سے ہم آہنگ ہونے کی عدم صلاحیت کو Shawshank Redemption syndrome کا نام دیا ہے۔ یہ ایک غیررسمی اصطلاح ہے۔
چین میں قیدیوں کو اس سنڈروم سے بچانے کے لیے، تجرباتی طور پر ایک جیل میں بیرونی دنیا جیسا ماحول بنایا گیا ہے۔ دارالحکومت بیجنگ کی جیل میں زیرزمین ریلوے اسٹیشن، بینک، سپرمارکیٹیں، یہاں تک کہ انٹرنیٹ کیفے بھی تعمیر کیے گئے ہیں۔ یوں جیل کے اندر ایک چھوٹا سا شہر وجود میں آگیا ہے۔ یہ سب تعمیرات مصنوعی ہیں جن کا مقصد کم از کم بیس سال سے جیل میں قید، انسانوں کو بیرونی دنیا سے ہم آہنگ کرنے میں مدد دینا ہے۔ یہاں قیدیوں کو سکھایا جاتا ہے کہ اے ٹی ایم، کریڈٹ کارڈز، موبائل فون کا استعمال کیسے ہوتا ہے، اور کمپیوٹر کیسے چلایا جاتا ہے، اور ریل کے ٹکٹ کیسے بُک کرائے جاتے ہیں۔
یہ دراصل تین ماہ پر مشتمل تربیتی کورس ہے۔ اس کورس میں ان قیدیوں کو شامل کیا جاتا ہے جو کم از کم بیس سال سے جیل میں ہوں اور جن کی رہائی میں چند ماہ باقی ہوں۔ کورس کی تکمیل پر قیدیوں کو عملی مظاہرہ کے ذریعے ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ سب کچھ سیکھ گئے ہیں۔ چناں چہ وہ سپر مارکیٹ میں سبزیوں کی خریداری سے لے کر اے ٹی ایم سے کیش نکالنے، زیرزمین ریلوے اسٹیشن سے ٹکٹ خریدنے، موبائل فون پر بات چیت کرنے اور کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے استعمال کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
چینی حکومت کے اس منصوبے کی بنیاد ایک قیدی کی موت بنی تھی جس نے جیل سے چھوٹنے کے بعد خودکشی کرلی تھی کیوں کہ وہ بیرونی دنیا میں خود کو ایڈجسٹ نہیں کرپایا تھا۔ کمپیوٹر، موبائل فون کے علاوہ بھی وہ بہت سی چیزوں کے استعمال سے نابلد تھا، کیوں کہ یہ اشیا اس کی قید کے دوران بیرونی دنیا میں عام ہوئی تھیں۔ جدید ٹیکنالوجی سے عدم واقفیت کی بنیاد پر اسے کوئی ملازمت نہیں مل رہی تھی۔ چناں چہ مایوس ہوکر اس نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا تھا۔
۔ماہرین نے طویل قید سے چھٹکارا پانے والے قیدیوں کی معاشرے سے ہم آہنگ ہونے کی عدم صلاحیت کو Shawshank Redemption syndrome کا نام دیا ہے۔ یہ ایک غیررسمی اصطلاح ہے۔
چین میں قیدیوں کو اس سنڈروم سے بچانے کے لیے، تجرباتی طور پر ایک جیل میں بیرونی دنیا جیسا ماحول بنایا گیا ہے۔ دارالحکومت بیجنگ کی جیل میں زیرزمین ریلوے اسٹیشن، بینک، سپرمارکیٹیں، یہاں تک کہ انٹرنیٹ کیفے بھی تعمیر کیے گئے ہیں۔ یوں جیل کے اندر ایک چھوٹا سا شہر وجود میں آگیا ہے۔ یہ سب تعمیرات مصنوعی ہیں جن کا مقصد کم از کم بیس سال سے جیل میں قید، انسانوں کو بیرونی دنیا سے ہم آہنگ کرنے میں مدد دینا ہے۔ یہاں قیدیوں کو سکھایا جاتا ہے کہ اے ٹی ایم، کریڈٹ کارڈز، موبائل فون کا استعمال کیسے ہوتا ہے، اور کمپیوٹر کیسے چلایا جاتا ہے، اور ریل کے ٹکٹ کیسے بُک کرائے جاتے ہیں۔
یہ دراصل تین ماہ پر مشتمل تربیتی کورس ہے۔ اس کورس میں ان قیدیوں کو شامل کیا جاتا ہے جو کم از کم بیس سال سے جیل میں ہوں اور جن کی رہائی میں چند ماہ باقی ہوں۔ کورس کی تکمیل پر قیدیوں کو عملی مظاہرہ کے ذریعے ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ سب کچھ سیکھ گئے ہیں۔ چناں چہ وہ سپر مارکیٹ میں سبزیوں کی خریداری سے لے کر اے ٹی ایم سے کیش نکالنے، زیرزمین ریلوے اسٹیشن سے ٹکٹ خریدنے، موبائل فون پر بات چیت کرنے اور کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے استعمال کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
چینی حکومت کے اس منصوبے کی بنیاد ایک قیدی کی موت بنی تھی جس نے جیل سے چھوٹنے کے بعد خودکشی کرلی تھی کیوں کہ وہ بیرونی دنیا میں خود کو ایڈجسٹ نہیں کرپایا تھا۔ کمپیوٹر، موبائل فون کے علاوہ بھی وہ بہت سی چیزوں کے استعمال سے نابلد تھا، کیوں کہ یہ اشیا اس کی قید کے دوران بیرونی دنیا میں عام ہوئی تھیں۔ جدید ٹیکنالوجی سے عدم واقفیت کی بنیاد پر اسے کوئی ملازمت نہیں مل رہی تھی۔ چناں چہ مایوس ہوکر اس نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا تھا۔