گھر کہانی احاطہ مادھورام‘ پرانی انار کلی

جہاں 130 افراد پر مشتمل 17 خاندان گذشتہ 65 برسوں سے آباد ہیں۔

احاطہ مادھو رام 100 سال سے بھی زیادہ قدیم ہے،منظور حسین۔ فوٹو: فائل

انسان سانس بھی لے تو پڑوس میں خبر ہو جائے ، ہے تو یہ مبالغہ آمیزی مگر اسے ممکن ہوتے احاطہ مادھورام پرانی انارکلی میں دیکھا۔

جہاںتقریباً بیس بائیس مرلے پر محیط احاطے میں 130 افراد پر مشتمل 17خاندان چھوٹے چھوٹے چار منزلہ عمارتوں میں گذشتہ 65سال سے مقیم ہیں۔مکان کا لفظ تو ہم نے سمجھانے کے لئے استعمال کیا ہے ورنہ اصل میں ہر مکان دو تین کمروں پر مشتمل ہے جو آگے پیچھے بنے ہوئے ہیں یعنی داخلی دروازے سے ہی کمرہ شروع ہو جاتا ہے،اس کے پیچھے ایک کمرہ ہے اور پھر اس کے پیچھے ایک کمرہ،یوں کمروں کی آگے پیچھے ایک قطار ہے اور ہر کمرے کا دروازہ دوسرے میں کھلتا ہے ،جو گھر کا صدر دروازہ ہے یعنی باہر والے کمرے کا دروازہ توتمام مکانوں کے مشترکہ صحن میں کھلتا ہے۔

یہی داخلی کمرہ مکینوں کے لئے کچن کا کام دینے کے ساتھ ساتھ ڈرائنگ روم کا کام بھی دیتا ہے۔ اکثر ملنے جلنے والوں کو احاطہ کے داخلی دروازے کے باہر رکھے گئے بنچوں پر بٹھا کر تواضع کرنے کے بعدرخصت کردیا جاتا ہے ،انارکلی کا پررونق ماحول مہمان کو بور نہیں ہونے دیتا وہ بڑی خوشی سے وہاں تشریف فرما ہوتا ہے ،کوئی خاص مہمان یا رشتہ دار ہو تو اسے ڈرائنگ روم میں لایا جاتا ہے ۔

احاطے کے صحن کا ذکر کیا تو آپ کے ذہن میں یوں تصور آیا ہو گاجیسے کسی بڑی سی حویلی کا صحن ، ارے نہیں ایسی کوئی بات نہیں،بلکہ ان تمام مکانوں کا صحن صرف تین ، چار مرلے کا چوکور شکل کا کھلی زمین کا ٹکڑا ہے ، یہی صحن بچوں کے لئے گرائونڈ کا کام بھی دیتا ہے وہ یہاں بھاگم دوڑ یا کرکٹ وغیرہ کھیلتے ہیں اور تمام افراد تماشائی بنے ہوتے ہیں ۔ بالکونیوں سے نظارہ کرنے والوں کی وجہ سے احاطہ چھوٹے سے اسٹیڈیم کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے۔احاطے کا داخلی راستہ ہی ان سب کا صدر دروازہ ہے جو پرانی انار کلی کے پر رونق بازار سے شروع ہو تا ہے۔

داخلی راستے کی محراب اور بناوٹ سے پتہ چلتا ہے کہ احاطہ مادھو رام کتنا قدیم ہے اور پرانی تاریخی عمارتوں کے فن تعمیر میں جو دلکشی اورعظمت چھپی ہوتی ہے وہی اس کے داخلی دروازے کو دیکھ کر محسوس ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے کسی زمانے میں وہاں بڑا سا دروازہ رہا ہو مگر اب اسے صرف داخلی راستے کا ہی ''درجہ '' حاصل ہے جو ایک سرنگ کی مانند دکھائی دیتا ہے جس کے باہر احاطے کے رہنے والے بزرگوں یا نوجوانوں میں سے دوچار بیٹھے انارکلی کی رونق کا لطف اٹھاتے نظر آتے ہیں۔


یوں وہ ایک طرح سے چوکیدار کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہوتے ہیں تاکہ کوئی اجنبی احاطے میں داخل نہ ہوسکے ،ایسا وہ حفظ ماتقدم کے طور پر نہیں بلکہ لاشعوری طور پر کر رہے ہوتے ہیں آپ اسے ''خو د کار حفاظتی نظام'' بھی کہہ سکتے ہیں (اب کمپیوٹر کا زمانہ ہے اس لئے اسے آٹو سکیورٹی سسٹم مت سمجھ لیجئے گا)۔ داخلی دروازے سے گزرتے ہوئے سرنگ کا گمان تو غالب رہتا ہی ہے مگر اس میں دوگھروں کے دروازے بھی کھلتے ہیںجن کی گھومتی ہوئی سیڑھیاںاوپری منزل پر لے جاتی ہیں ، یوں وہاں پر بھی رونق لگی رہتی ہے۔قربانی کے لئے خریدا گیا ایک موٹا تازہ بکرا بھی وہاں بندھا نظر آیا ۔50، 60فٹ لمبے اس سرنگ نما نیم تاریک راستے کے ختم ہوتے ہی گویا آپ ایک نئی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں ۔

یوں لگتا ہے جیسے انسان تین،چار مرلے کے ایک چوکور میدان میںپہنچ گیا ہوجس کے ارد گرد تین چار منزلہ کمرے بنے ہوں جس کے باہر بنی ہوئی بالکونیاں اور ان سے جھانکتے بچے ،بوڑھے اور عورتیں سب آنے والے پر نظریں جمائے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ سب کا مرکز و محور ہوتا ہے۔گویا اگر کسی گھر کا مہمان آیا ہو تو احاطے میں رہنے والے تمام افراد کو پتہ ہوتا ہے کہ کس کا مہمان آیا ہے،عورت ہے یا مرد ،بوڑھا ہے ،جو ان یا پھر بچہ،خوبصورت ہے یا بدصورت' گویا وہاں کوئی بھید ،بھید رہتا ہی نہیں ۔اوپری منزلوں کے لیے سیڑھیاں یا تو سامنے کی طرف سے بنائی گئی ہیں یا پھربغل سے گھومتی ہوئی جاتی ہیں ،طر زتعمیر میں اس چیز کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ سیڑھیوں کے لئے جگہ کم سے کم استعمال ہو۔

پھیری والے بھی سیدھے صحن میں آ کر آواز لگاتے ہیں،اس کی آواز تمام گھروں کو ایک جیسی سنتی ہے کیونکہ اس کا فاصلہ تمام گھروں سے تقریباً یکساں ہوتا ہے، یوں لگتا ہے جسیے کوئی بیچ چوراہے کے منادی کر رہا ہو۔دوسری تیسری یا چوتھی منزل والوں کو نیچے آنے کی ضرورت نہیں پڑتی،خواتین بالکونی سے ہی بھائو تائو کر کے خریدی ہوئی اشیاء ٹوکری لٹکا کر اوپر کھینچ لیتی ہیں اور طے شدہ قیمت بھی ٹوکری کے ذریعے ہی ادا کر دی جاتی ہے۔احاطے میں رونق تو ہے ہی مگر وہاں کی فضا میں جو پیار، محبت اور بھائی چارہ رچا ہوا ہے وہ اسے دیگر دنیا سے منفرد اور ممتاز کرتا ہے، یوں لگتا ہے جیسے وہ سب ایک ہی گھونسلے کے چوزے ہوں۔

احاطے کے رہائشی منظور حسین اور ندیم بٹ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ احاطہ مادھو رام 100سال سے بھی زیادہ قدیم ہے،جب پاکستان بنا اور ہم یہاں آ کر آباد ہوئے تویہ سارا احاطہ خالی پڑا تھا ،ہندو پتہ نہیں کب کے یہاں سے جا چکے تھے۔یہاں 17خاندان آباد ہیں جو زیادہ تر کشمیری النسل ہیں ،ان خاندانوں کے کل افراد کی تعداد 130کے قریب بنتی ہے،سب کا تعلق درمیانے طبقے سے ہے کوئی فیکٹری میں کام کرتا ہے تو کوئی کسی دکان پر ،کوئی سنار ہے تو کوئی ریڑھی لگاتا ہے ، بعض کی اپنی دکانیں ہیں۔

اللہ کا شکر ہے کہ ہنسی خوشی گزارہ ہو رہا ہے، سب بڑے پیا رمحبت سے رہ رہے ہیں ،ضرورت پڑنے پر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں،علیحدہ علیحدہ خاندانوں سے تعلق ہونے کے باوجود سب ایک خاندان کی طرح ہیں ، بعض خاندانوں نے آپس میں رشتے بھی کئے ہیں ۔اگر احاطے میں کسی فرد کو کوئی مسئلہ یا مشکل درپیش ہو یا احاطے کا کوئی مجموعی مسئلہ ہو تو سب مل کر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ خلوص اور بھائی چارے کی زنجیر ہی ہے جو ہمیں آپس میں باندھے ہوئے ہے۔

نسیم بی بی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ''چھوٹے سے احاطے میں اتنے افراد کا اکٹھے رہنا پیار، محبت کی وجہ سے ہی ممکن ہے تاہم جہاں چاربرتن ہوں وہ آپس میں ٹکراتے ضرور ہیں ، یہاں پر بھی کبھی کبھار ایسا ہوتاہے،تھوڑا بہت اختلاف ہو جاتاہے مگر پھرچند دنوں میں صلح ہو جاتی ہے۔اصل میں ایک دوسرے سے ناراض رہنا ہمارے لئے ممکن ہی نہیں،چھوٹے چھوٹے گھر ہیں ایک دوسرے سے بالکل جڑے ہوئے ہیں اور پھر ہر وقت ایک دوسرے کے سامنے رہنا ،گویاآتے جاتے ملاقات ہوتی رہتی ہے یہی چیز پیا ر محبت کا باعث ہے۔تاہم ہمارا ایک مسئلہ ایسا ہے کہ جس کا ہم کوشش کے باوجود حل نہیں نکال سکے وہ ہے روزگار کا،ہمارے بچوں کو جاب کے سلسلے میں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے حکومت اس سلسلے میں ہماری مدد کرے۔
Load Next Story