ؔ’یہ چوہدری سرور کی سیاست ہے جناب ‘

برطانیہ میں چوہدری سرور پر گاہے انتخابی قوانین کی خلاف ورزیوں کے الزامات بھی عائد کیے گئے

mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

چوہدری سرور ن لیگ سے نکلنے کے بعد پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے ہیں۔ ن لیگ سے پہلے، وہ پیپلزپارٹی (اوورسیز) کے عہدے دار بھی رہ چکے ہیں ۔ جن دنوں پنجاب اور وفاق میں ق لیگ کی حکومت تھی ، جنرل مشرف اور چوہدری پرویزالٰہی ، دونوں سے ان کی گاڑھی چھنتی تھی ، بلکہ ان کو ق لیگ کا' اعزازی رکن' سمجھاجاتا تھا ۔

12 اکتوبر 1999 کے بعد چوہدری سرور ، شریف خاندان سے باہر پہلے شخص تھے ، جن کو جنرل مشرف نے نوازشریف سے ملنے کی اجازت دی تھی ۔ 2002 سے 2007 کے دوران میں ، وہ چوہدری پرویزالٰہی کے سرکاری ہیلی کاپٹر میں بھی دیکھے جا سکتے تھے ۔ یہ چوہدری سرور کی سیاست ہے ۔ لہٰذا ، اب اگر وہ عمران خان کے پاس پہنچ چکے ہیں، تو اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں ۔ ن لیگ کی 'بندہ نواز سیاست' کی بدولت former governor کا portfolio( جس میں بہرحال بہت شکوہ ہے ) تو اب ان کے پاس رہے گا ہی ، پی ٹی آئی میں وہ mr clean کا ٹائٹل بھی حاصل کر لیں گے ۔

شنید یہ ہے کہ عمران خان انھیں پارٹی صدر بنانے پر بھی آمادہ تھے ؛ لیکن کچھ آئینی اور قانونی الجھنیں سامنے آ گئیں ۔ اولاً ، آئینی طور پر گورنرشپ سے فراغت کے بعد ، وہ دوسال تک کسی سیاسی عہدے پر کام نہیں کر سکتے ۔ ثانیاً ،جاوید ہاشمی کے انخلا کے بعد پی ٹی آئی میں صدر کا عہدہ 'معطل' قرار پا گیا تھا ، اب اس کی بحالی بھی کسی قاعدے کلیے سے ہو گی ۔ پھر پی ٹی آئی کے اندر بھی احتجاج تھا ، تب کہیں جا کے تھوڑی بریک لگی ہے ، لیکن تابکے ؟ چوہدری سرور ن لیگ کی گورنر شپ چھوڑ کر پی ٹی آئی میں سیاست کرنے آئے ہیں ، دریاں بچھانے نہیں آئے ۔ آج نہیں تو کل ، وہ کوئی نہ کوئی نمایاں پارٹی عہدہ حاصل کر لیں گے ۔

عملی سیاست چوہدری سرور کے رگ وپے میں ہے۔ وہ ستر کی دہائی میں تلاش روزگار کے لیے برطانیہ ( اسکاٹ لینڈ ) گئے ، جہاں انھوں نے انڈا فروشی سے اپنے بزنس کیرئرکا آغاز کیا ،کاروبار میں انھوں نے جی جان سے محنت کی۔ یوں وہ بہت تھوڑے عرصہ میں دولت میں کھیلنے لگے۔ وہ برطانیہ کے انتخابی سیاست میں بھی سرگرم ہو گئے ۔

ان کی سکونت اسکاٹ لینڈ میں تھی ، جو برطانوی حکمرانوں سے نالاں ، بلکہ ان سے آزادی کا خواہاں ہے ؛ تاہم چوہدری سرور نے اپنی سیاسی وابستگی ہمیشہ برطانوی حکمرانوں کے ساتھ رکھی ہے ۔ ان کی یہ حکمت عملی آگے چل کر کارآمد ثابت ہوئی ، اور برطانوی سیاست میں ان کے لیے ترقی کی راہیں کھلتی چلی گئیں ۔1997 اور 2001 میں یکے بعد دیگرے وہ دو مرتبہ اسکاٹ لینڈ سے برطانوی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہو ئے ۔ یہ اعزاز حاصل کرنے والے وہ پہلے ایشیائی، پہلے پاکستانی اور پہلے مسلمان تھے۔ سات سمندر پار سے تلاش روزگار کے لیے آئے ہوئے معمولی شخص سے برطانوی رکن پارلیمنٹ بننے کا یہ غیر معمولی سفر ان کی سیاسی ذہانت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

برطانیہ میں چوہدری سرور پر گاہے انتخابی قوانین کی خلاف ورزیوں کے الزامات بھی عائد کیے گئے ، بلکہ ایک مرتبہ تو اس کی پاداش میں ان کی پارٹی (لیبر) رکنیت بھی معطل ہو گئی ، تاہم ان پر یہ الزامات کبھی ثابت نہیں کیے جا سکے ۔ پاکستان میں چوہدری سرور موروثی سیاست کے قائل بھلے نہ ہوں ، برطانیہ میں ان کے سیاسی جانشین ان کے بیٹے انس سرور ہی ہیں، جو اسکاٹ لینڈ کی ان کی سیٹ سے رکن پارلیمنٹ بن چکے ہیں، بلکہ ڈپٹی منسٹر بھی ہیں۔ برطانوی سیاست سے ریٹائر منٹ لینے کے بعد ، چوہدری سرور کی اگلی منزل اب پاکستان کی پارلیمنٹ ہے ۔


برطانوی سیاست میں جگہ بنانے کے بعد چوہدری سرور نے بہت جلد یہ بھانپ گئے کہ پاکستان سے برطانیہ میں پہنچنے والے بیشتر سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کا مقصد چندہ اکٹھا کرنا ، یا مفت قیام وطعام ہوتا ہے۔ برطانیہ میں تارکین وطن سے بھرپور اور موثر رابطہ ہونے کی وجہ سے ،کسی بھی مقصد کے لیے چندہ مہم manageکرنا ان کے لیے چنداں مشکل نہ تھا۔ خود ان کے پاس بھی روپے پیسے کی کمی نہ تھی ، لہٰذا ان رہنماؤں کے قیام وطعام کا خرچہ وہ اپنی جیب سے بھی برداشت کر سکتے تھے۔ یہ کنجی ان کے ہاتھ لگ گئی ، تو پاکستان کی سیاست کا ہربند دروازہ ان کے لیے کھلتا چلا گیا ۔

عمران خان اور طاہر القادری اور قبل ازیں پیپلزپارٹی اور ن لیگ سے قربت اسی وجہ سے تھی۔ نوازشریف سے ان کی قربت 1997 میں ہوئی ۔ یہ قربت مزید بڑھ ہو گئی ، جب انھوں نے جدہ میں بھی نوازشریف سے برابر رابطہ قائم رکھا ، جب وہ جدہ سے برطانیہ منتقل ہوئے تو تعلقات مزید بڑھ گئے ۔ چوہدری سرور کی پاکستانی سیاست میں دلچسپی اس وقت عیاں ہو گئی، جب الیکشن 2013 سے پہلے وہ ق لیگ کے بعض ارکان اسمبلی کو اس امر پر آمادہ کرتے پائے گئے کہ وہ ن لیگ میں شامل ہو جائیں ۔ چوہدری برادران جو پہلے ہی مشکلات کا شکار تھے، مزید پریشان ہوگئے ۔

5 اگست 2013 کو جب چوہدری سرور نے گورنر پنجاب کا حلف اٹھایا ، تو سب کو معلوم تھا کہ ایسا کیوں ہوا ۔ 29 جنوری 2015 کو انھوں نے استعفیٰ دیا ، تو بھی ہر کوئی جانتا تھا کہ شریف برادران کا جی ان سے بھر چکا ہے ۔ چوہدری سرور کو، بقول خود ان کے ، گورنرشپ سے استعفیٰ کے حتمی فیصلہ پر پہنچنے میں چار ماہ لگ گئے ، لیکن شریف برادران نے ان کا استعفیٰ بغیر کسی تامل کے قبول کرکے بالواسطہ طور پر یہ پیغام دے دیا ہے کہ حقیقتاً یہ انھی کا فیصلہ ہے۔

چوہدری سرور نے استعفیٰ دیتے ہوئے ن لیگ کے انداز حکمرانی پر جو تنقید کی ہے ، اس میں کتنی ہی حقیقت کیوں نہ ہو، لیکن بے و زن معلوم ہو رہی تھی۔ ان کا یہ دعویٰ کہ بحیثیت گورنر ، وہ پنجاب کے عوام کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے تھے ، لیکن ان کو کر نے نہیں دیا گیا ، خلاف حقیقت ہے۔ جب ان کو گورنر لگایا جا رہا تھا ، تو ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا تھاکہ جس عہدے سے ان کو نوازا جا رہا ہے ، وہ کوئی انتظامی عہدہ نہیں۔ عوام کی 'خدمت' کرنا ، گورنرکا نہیں ، ان کے 'خادم' کا دردسر ہے ۔

نظر بظاہر یہ آتا ہے کہ بطور گورنر ان کی دلچسپی میڈیا میں اپنی امیج بلڈنگ پر تھی ، لیکن جب مصروفیت سماجی تقریبات میں شرکت ، یا کتب کی تقاریب میں رونمائی تک محدود ہو گی، تو میڈیا بھی ان کے لیے کیا کرسکتا تھا ۔ نجی طور پر وہ اکثر یہ کہتے پائے جاتے تھے کہ شریف برادران کو ان کا میڈیا سے ربط ضبط رکھنا پسند نہیں ہے ، اس طرح وہ گورنر ہاوس میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں ۔ شریف برادران کو 'گورنر اظہر' کا تلخ تجربہ ہو چکا ہے ۔

لہٰذا وہ 'گورنر سرور' کی ' سرگرمیوں' سے غافل نہیں ہو سکتے تھے ۔گورنر سرورکے پاس اب دو ہی راستے تھے ، گورنر ہاوس میں چپکے پڑے رہیں، یا استعفیٰ دیدیں ۔ شریف برادران چاہتے تو صدر ممنون کے ذریعہ ان کو برخاست بھی کر سکتے تھے ، لیکن انھوں نے استعفیٰ کا باعزت راستہ دیا ہے ۔ گورنر ہاوس سے نکلنے کے بعد وہ سیدھے شریف برادران کے مخالف عمران خان کے پاس جا پہنچے ہیں ۔ چودھر ی سرور نے بیش تر سیاست برطانیہ میں کی ہے ، لیکن ٹھیٹھ پاکستانی سیاست میں بھی ان کا جواب نہیں ۔ سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ کوئی عام سیاست نہیں ، چوہدری سرور کی سیاست ہے ۔
Load Next Story