قدرت کے فیصلہ کا انتظار کیجیے

بدترین قوانین پر اگر اہل اور دیانتدار اہلکاروں کے ذریعے عملدرآمد کرایا جائے تو بہتر نتائج برآمد ہو سکتے ہیں

ISLAMABAD:
ملک ایک مرتبہ پھر دھماکوں کی زد پر ہے۔ آپریشن ضرب عضب کے رد عمل میں آرمی پبلک اسکول پشاور میں دہشت و وحشت کا جو کھیل کھیلا گیا اس کے نتیجے میں منتشر' منقسم قوم متحد ہو گئی۔ سیاسی و عسکری قیادت کو یکسوئی نصیب ہوئی' دوئی مگر برقرار رہی۔ نتیجے میں اتحاد و یگانگت کے وہ مظاہرے دیکھنے کونہ ملے۔ بقول اقبال

موت ہے ایک ہی خرمن کے دانوں میں دوئی

دہشت گردوں نے دوئی کے نتیجے میں سست روی کا فائدہ اٹھایا اور قوم کو ایک نئے چیلنج سے دوچار کر دیا۔ سانحہ شکارپور کے بعد اسلام آباد میں 2 امام بارگاہوں پر دہشت گرد حملے اور آخر میں پولیس لائنز لاہور میں خودکش دھماکا۔

دہشتگردی کی اس نئی لہر کی خاص بات جس طرف تفتیشی اور خفیہ اداروں کی نظر اب تک نہیںگئی' یہ ہے کہ ایک روز کسی شہر میں اہلسنّت کا کوئی عالم یا کسی مذہبی جماعت کا سرگرم کارکن قتل ہوتا ہے تو اگلے ہی روز کسی شیعہ عبادت گاہ کو نشانہ بنا دیا جاتا ہے۔ یہ نئی حکمت عملی ہے۔ اس کے تحت دہشتگردی سے توجہ ہٹا کر اسے فرقہ واریت کا رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے اور فرقہ وارانہ فساد کی راہ ہموار کر کے قومی اتحاد کو پارہ پارہ کیا جا رہا ہے۔

اس حقیقت میں کوئی دو آراء نہیں کہ دہشت گردوں کو کامیاب ضرب عضب آپریشن کے بعد کھل کھیلنے کا موقع حکومتی سست رفتاری کے باعث ملا۔ ورنہ کل جماعتی کانفرنس میں تمام سیاسی و مذہبی' پارلیمانی' غیر پارلیمانی' شیعہ' سنی جماعتوں نے حکومت کو دہشتگردوں کو کچلنے کے لیے فری ہینڈ دیتے ہوئے بھرپور مینڈیٹ دیا مگر حکومت دہشتگردی کے خلاف جنگ کا سارا بوجھ فوج کے کاندھوں پر ڈال کر حال مست ہو گئی۔

آج تک اس ضمن میں نہ تو کوئی منظم' مربوط' مؤثر حکمت عملی اختیار کی جا سکی اور نہ ہی اتحاد کی فضا قائم رکھی جا سکی۔ نتیجے میں دہشتگردوں کو پھر سے منظم ہو کر مذموم کارروائیاں کرنے کا موقع میسر آ گیا اور آج ایک مرتبہ پھر سے قوم دہشتگرد' خود کش حملوں اور دھماکوں کی زد پر ہے۔

بلاشبہ قوم کے رگ و پے میں دوڑتے دہشتگردی کے زہر کو دنوں' ہفتوں' مہینوں میں صاف نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے سالہا سال کا عرصہ درکار ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے پہلا قدم درست سمت میں رکھا جائے اور ہم نے آج تک نہ تو صحیح سمت کا تعین کیا اور نہ پہلا قدم اٹھایا۔ اب تک ہم نے ساری توجہ دہشتگردی کے شجر خاردار کے کانٹے اور شاخیں تراشنے پر مرکوز رکھی ہے۔ جڑ کاٹنے کے بارے میں سوچا ہی نہیں۔

بھارت ایک عرصہ سے ماؤ باغیوں کے خلاف نبرد آزما ہے۔ کئی حکومتیں آئیں' گئیں مگر باغیوں کے خلاف کارروائی کے حوالے سے پالیسی میں کوئی تبدیلی رونما نہ ہوئی' سری لنکا نے تامل باغیوں کے خلاف چالیس سال سے زائد عرصہ تک جنگ لڑی اور آخر مسلسل اور متواتر پالیسی کے باعث ملک میں امن قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔ دہشتگردی کے خلاف ہمیں بھی ایسی ہی غیر متزلزل اور غیر متبدل پالیسی کی ضرورت ہے۔

یہ بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو' ڈر کیسا!

مگر اس جنگ میں فتح کے عزم کے ساتھ اترنا ہو گا۔ جیت' جیت اور صرف جیت عزم ہو نا چاہیے۔ اس جنگ میں کامیابی کے سوا کوئی دوسرا آپشن ہے بھی نہیں۔ جس عزم' جذبے کی ضرورت ہے' سیاسی قیادت میں اس کا فقدان ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ قبائلی علاقہ جات میں فوج کی کامیابیوں کو شہری علاقوں میں ملیا میٹ کر دیا گیا۔


شمالی وزیرستان میں آپریشن کے آغاز سے قبل سب کو معلوم تھا کہ دہشتگرد کوہساروں سے شہری آبادیوں کا رخ کریں گے اور ایسا ہی ہوا مگر صوبائی حکومتوں نے اس نقل مکانی کو روکنے کے لیے کوئی مؤثر حکمت عملی نہ اپنائی' سچ یہ کہ اس حوالے سے صوبائی حکومتوں میں رابطے' معلومات کے تبادلے کا کوئی میکنزم ہی نہیں ہے۔

شہری علاقوں میں امن و امان قائم رکھنے کی ذمے دار محکمہ پولیس کے پاس نہ تو تربیت یافتہ فورس ہے نہ اہلکاروں کی تربیت اور نہ ہی ضروری آلات دستیاب ہیں دیگر صوبوں کی پولیس فورس سے رابطہ نہ ہونے کے برابر ہے۔شہری علاقوں میں مشکوک افراد کی آمد و رفت' آبادکاری اور رابطوں سے روکنا بھی پولیس اور خفیہ اداروں کی ذمے داری تھی مگر وہ ناکام رہے اور وفاق سمیت چاروں صوبوں میں احتساب کا کوئی ایسا قانون نہیں جس کے تحت کوتاہی برتنے والے افسروں کا محاسبہ کیا جاتا۔

اسی کا نتیجہ ہے کہ ذمے داری قبول کرنے کے بجائے ابترین صورتحال کی ذمے داری دیگر محکموں پر ڈالنے کی بلیم گیم کو رواج ملا ۔21 ویں آئینی ترمیم اختلاف رائے کے باوجود ڈنڈے کے خوف سے متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔ فوجی عدالتوں کا قیام بھی عمل میں آ گیا۔ ان عدالتوں میں سماعت کے لیے مقدمات کا انتخاب بھی کر لیا گیا مگر تاحال نہ تو ججوں کی تقرری عمل میں آئی اور نہ ہی مقدمات کی سماعت کا آغاز ہو سکا۔21 ویں آئینی ترمیم کے تحت پولیس نے واحد کارروائی لاؤڈ اسپیکر کے غلط استعمال کو روکنے کے حوالے سے کی اور وہ بھی احمقانہ طریقہ سے۔

اشتعال انگیز مواد مارکیٹ سے اٹھانے کے لیے آپریشن کے دوران بھی مضحکہ خیز اقدامات دیکھنے کو ملے۔ ایک اہلکار تو شبلی نعمانی کے گھر کا پتہ تلاش کرتے پایا گیا۔ اس طرح کے اقدامات سے دہشتگردی' فرقہ واریت اور شدت پسندی کا خاتمہ کیونکر ممکن ہو سکتا ہے؟ہمارا اصل مسئلہ نئے قوانین نہیں بلکہ مروجہ قوانین پر دیانتداری' غیرجانبداری سے عملدرآمد ہے۔ اگر ماضی میں قوانین پر پوری روح کے ساتھ عملدرآمد کیا جاتا تو شاید آج یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتے۔ انتظامیہ اور بیورو کریسی نے زیادہ سے زیادہ اختیارات اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے ہمیشہ پارلیمنٹ کو نئی قانون سازی پر مجبور کیا اور پھر ان قوانین میں ایسے سقم بھی دانستہ رکھے گئے جن کے باعث نئے قوانین کو بھی غیر مؤثر بنایا جا سکے۔

دانشور کہتا ہے ''بدترین قوانین پر اگر اہل اور دیانتدار اہلکاروں کے ذریعے عملدرآمد کرایا جائے تو بہتر نتائج برآمد ہو سکتے ہیں لیکن بہترین قوانین نااہل اور بددیانت اہلکاروں کے ذریعے بروئے کار لانے کی کوشش کا انجام تباہی و بربادی ہے۔'' برصغیر پاک و ہند میں آج بھی انگریز دور کے اکثر قوانین نافذ ہیں مگر تقسیم سے قبل ان پر عملدرآمد سے امن و انصاف بھی میسر تھا اور ترقی بھی۔ مگر آج یہ قوانین امن و انصاف فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ وجہ قیادت کی نااہلی۔

مروجہ عدالتی نظام پر عدم اعتماد' فیصلوں میں تاخیر' ناقص تفتیش' گواہوں' ججوں اور پراسیکیوٹرز کے خوف کے باعث نئی فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا۔ مگر آج دو ماہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود پیشرفت صفر' جو قومیں حالت جنگ میں ہوں ان کا طرز عمل اس قدر سست رفتار نہیں ہوتا۔ فیصلے ہوتے ہیں اور پھر سارا زور' صلاحیت' استعداد اور طاقت عملدرآمد پر لگا دیا جاتا ہے۔ مگر ہماری ساری توجہ معاشی اور تجارتی ترقی پر ہے یا مختلف فورمز سے قرضے حاصل کرنے پر۔

بحران اپنی جگہ سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ ملکی نظم و نسق بدترین طرز حکمرانی کے باعث ابتر ہے۔ توانائی کے بعد پانی کا بحران بانہیں پھیلائے ہماری طرف بڑھ رہا ہے اور ہم سڑکیں' پل' اوورہیڈ' انڈر پاسز بنانے میں مصروف' پانی کے ذخائر' پن بجلی منصوبے ہماری آخری ترجیح ہیں۔ انصاف فراہم کرنے والے ادارے سیاسی مقدمات میں الجھے ہوئے ہیں۔ ماتحت عدلیہ میں کرپشن کا زہر سرایت کر چکا ہے۔ مگر نظام انصاف کی درستی بھی ہماری ترجیح نہیں اور جس معاشرے میں انصاف نہ ہو اس کے مستقبل بارے کسی پیشگوئی کی ضرورت نہیں۔

جہاں انصاف نہ ہو وہاں امن کی امید لگانا بھی حماقت ہے اور یہ حماقت ہم مسلسل کرتے آ رہے ہیں۔ دہشتگردی سے نجات بھی انصاف عام کرنے سے ہی مل سکتی ہے۔ سخت گیر' فوری' غیرجانبدارانہ انصاف اور احتساب' نہ صرف مجرم کو بلکہ اس کی ماں کو بھی سزا ملنی چاہیے۔ یہ سراغ ضروری ہے مجرم کو کہاں کہاں سے تعاون ملا۔

کس کس نے تربیت دی اور کون کون ہے جس سے وہ متاثر ہے ورنہ صرف فوجی آپریشن سے دہشتگردی کا خاتمہ ممکن ہے اور نہ فقط فوج اس عفریت کا سر کچل سکتی ہے۔ حکومت قوم سمیت ہر ادارہ کو اس کے لیے قومی فریضہ سمجھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ ورنہ قدرت کے فیصلہ کا انتظار کیجیے اور جان لیجیے قدرت کے فیصلے بہت سخت ہوتے ہیں۔

حذر! اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
Load Next Story