سندھ میں گورنر راج

صوبے میں جہادی تنظیمیں کام کررہی ہیں اور کالعدم تنظیموں کا نیٹ ورک متحرک ہے۔

tauceeph@gmail.com

ISLAMABAD:
''کیا سندھ میں گورنر راج لگنے والا ہے''؟ ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے بعد سندھی اخبارات میں یہ خبریں شایع ہوئیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کی صدارت میں کراچی میں ہونے والی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں سندھ حکومت کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ پولیس اور اعلیٰ سطحی بیوروکریسی نے افسران کے تبادلوں اور تعیناتیوں کا اختیار حکومتِ سندھ سے چھین لیا، یوں چیف سیکریٹری سلیم ہوتیانہ کا تبادلہ بھی رک گیا۔

گورنر ہاؤس میں منعقدہ اس اجلاس میں سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی شرکت کی تھی۔ قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ نے ایپکس کمیٹی کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایپکس کمیٹیوں کا کام ملک چلانا نہیں ہے، اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم دوستوں کو دشمن نہ بنائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کو پولیس میں تقرروتبادلے کی منظوری کسی صورت قبول نہیں ہے۔

ایپکس کمیٹی کے اس اجلاس کے فیصلوں کی تشہیر کے بعد سندھی اخبارات میں یہ خبریں شایع ہوئیں کہ سندھ میں گورنر راج لگنے والا ہے۔کچھ مبصرین نے یوں تبصرہ کیا کہ یہ فیصلہ عملی طور پر سندھ حکومت کو مفلوج کرنے کے مترادف ہے۔ آئین میں 18 ویں ترمیم سے قبل وفاق کو صوبے کے معاملات میں مداخلت کا قانونی حق حاصل تھا۔ صدرکی ہدایت پر صوبے کا گورنر اسمبلی کو معطل اور توڑ سکتا تھا اور صوبائی حکومت کو معطل کیا جاسکتا تھا۔

اسی طرح چیف سیکریٹری، مختلف محکموں کے سیکریٹریوں، آئی جی پولیس، ڈی آئی جی پولیس اور سپرنٹنڈنٹ پولیس کی تقرریوں اور تبادلوں میں بھی وفاق اہم کردار ادا کرتا تھا۔ بیوروکریسی اور پولیس کے اعلیٰ افسران کا تعلق سول سروس کیڈر سے ہوتا ہے، اسی بناء پر اسٹیبشلمنٹ ڈویژن ان افسران کی سینیارٹی کا تعین کرتا ہے، یوں ان کی تقرری اور تبادلوں میں اسٹیبشلمنٹ ڈویژن کی رائے حتمی ہوتی تھی۔ جب 1988 میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا تھا اور میاں نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تو وفاق اور صوبائی حکومت میں اعلیٰ افسروں کے تقرر پر بڑی کھینچا تانی ہوتی تھی۔

اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کیونکہ بے نظیر حکومت کے مخالف تھے اور نواز شریف کے سرپرست تھے تو اس بنا ء پر نواز شریف حکومت نے وفاقی حکومت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا تھا۔ مگر 18ویں ترمیم کے نفاذ کے بعد صوبے مکمل طور پر خودمختار ہوگئے۔ یوں اعلیٰ افسروں کی تقرری اور تبادلوں کا اختیار صوبائی حکومت کے پاس رہا اور گورنر کو صوبے کی اسمبلی کو معطل کرنے یا توڑنے کا اختیار حاصل نہیں رہا۔ پیپلز پارٹی کے گزشتہ دورِ حکومت میں جب راجہ پرویز اشرف وزیر اعظم کے عہدے پر فائز تھے توکوئٹہ میں ہزارہ کالونی پر خودکش حملہ آور نے حملہ کیا، بہت سے افراد جاں بحق ہوئے۔

ہزارہ برادری نے سخت سردی میں کئی دن تک کوئٹہ کی مرکزی شاہراہ پر دھرنا دیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ صوبائی حکومت کو برطرف کیا جائے۔ صوبے کے وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی اس زمانے میں تھے۔ وزیر اعظم نے ازخود صوبائی حکومت کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا مگر اس فیصلے کی کوئی آئینی حیثیت نہیں تھی۔ دو ماہ بعد جب عام انتخابات کا اعلان ہوا تو پھر صوبائی حکومت کو فعال کرنا پڑا۔ وزیر اعلیٰ اور قائدِ حزبِ اختلاف کے اتفاق رائے سے عبوری حکومت بنی مگر دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کا وقت آیا تو سندھ حکومت خاطر خواہ اقدامات نہیں کرسکی۔

صوبے میں جہادی تنظیمیں کام کررہی ہیں اور کالعدم تنظیموں کا نیٹ ورک متحرک ہے۔ ان تنظیموں کی مالیاتی سپلائی میں کوئی رکاوٹ نہیں پڑی۔ پورے صوبہ سندھ میں قانون کا نفاذ کہیں نظر نہیں آتا۔ شکارپور کی قدیم امام بارگاہ پرخودکش حملے نے سندھ کے اندرونی علاقوں میں کالعدم تنظیموں کا کمین گاہوں کا نشاندہی کی ہے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے قومی اسمبلی میں یہ حقیقت بیان کی کہ دہشت گرد بلوچستان کے راستے سندھ میں داخل ہوتے ہیں اور شکارپور میں قیام کرتے ہیں اور پھر کراچی جاتے ہیں۔


اس کے ساتھ ہی کراچی میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں میں کمی نہیں آتی۔ بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان، موبائل فون کا چھیننا، گاڑیوں کا چوری ہونا اور زمینوں پر قبضے سے متعلق جرائم نے صورتحال کو خراب کردیا ہے۔ صرف کراچی شہر میں 150 سے زائد ڈاکٹرز ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن چکے ہیں، اس پر ڈاکٹرز ہڑتال پر بھی مجبورہوئے۔

پولیس نے اہم شخصیات کے قتل میں ملوث دہشت گردوں کی گرفتاری کے دعوے کیے مگر تحقیقات کے نتائج سامنے آنے کے بعد واضح ہوا کہ پولیس بنیادی قانونی نکات کو اہمیت نہیں دیتی۔ کراچی یونیورسٹی کے قتل ہونے والے پروفیسر کے بچوں کو کہا گیا کہ پولیس نے جن ملزمان کو گرفتار کیا ہے ان کے خلاف شہادتیں پیش کریں۔ ایسا ہی بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں آتشزدگی کے مقدمے میں ہوا۔ اب اخبارات میں نیا تنازعہ پیدا کیا گیا ہے۔

اس مقدمے کا سب سے اہم ملزم پولیس کی تحویل میں ہے کہ نہیں ؟ اس صورتحال کی ذمے داری سندھ حکومت کے طرزِ حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ سندھ میں یہ بات عام ہے کہ پولیس سمیت تمام محکموں میں تقرریاں اور تبادلے رشوت یا سفارش پر ہوتے ہیں۔ سندھ کے ایک انسپکٹر جنرل واجد درانی نے سپریم کورٹ میں کراچی کے بارے میں ازخود سماعت کے مقدمے میں اپنے حلف نامے میں کہا تھا کہ انھیں گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے عہدوں پر تقرر اور تبادلوں کا اختیار نہیں ہے۔

پی ٹی وی پر پولیس ریفارمز سے متعلق ایک پروگرام میں ایک ڈی آئی جی نے پولیس ریفارمز پر یوں تبصرہ کر کے سب کو حیران کردیا کہ جب میرا ایس پی 35 لاکھ روپے دے کر اپنی پوسٹنگ کرائے گا تو آئی جی اس کی کارکردگی کا کیسے جائزہ لے سکے گا؟ سندھ کے ہر محکمے کے اعلیٰ افسروں کے تبادلے روزانہ کی بات بن گئے ہیں۔

ایک مہینے میں تین دفعہ سیکریٹری داخلہ مقررکیے گئے، ہر مہینے واٹر بورڈ کے نئے ایم ڈی کا تقرر ہوتا ہے اور کراچی سٹی گورنمنٹ کے ایڈمنسٹریٹر بھی اسی طرح تبدیل ہوتے ہیں۔ سندھ حکومت کی رپورٹنگ کرنے والے ایک صحافی نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ اس معاملے میں بے بس ہیں ، یہ سب فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔ خود خورشید شاہ کے بارے میں اسی طرح کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بلاول بھٹو کی ناراضی کی وجہ حکومتِ سندھ کی بگڑتی ہوئی صورتحال ہے۔ ایپکس کمیٹی کی مداخلت کا کوئی قانون جواز نہیں ہے مگر سندھ میں اچھی طرزِ حکومت کا معاملہ دہشت گردی کے خاتمے سے منسلک ہے۔ سابق صدر زرداری اب تک جوڑ توڑ کی سیاست کو مفاہمت کی سیاست قرار دے کر معاملات چلا رہے ہیں جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی صوبہ خیبر پختون خواہ اور صوبہ پنجاب میں اپنی غیر مقبولیت کی آخری حدوں کو چھور ہی ہے۔

سندھ کے لوگوں کے پاس فی الحال کوئی اور جماعت پیپلز پارٹی کے متبادل کے طور پر نہیں ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ آصف زرداری اچھی طرزِ حکومت کو اہمیت نہیں دیتے ۔مگر سندھ میں انارکی اور بدحالی لوگوں کو مایوسی کے اندھیرے میں دھکیل رہی ہے۔ لیاری چوری ڈکیتی کا جنگل بن چکا ہے۔ ماورائے عدالت قتل ہورہے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے حامی بھی یہ بات کہنے پر مجبور ہیں کہ سندھ ترقی کے بجائے تنزلی کی جانب سفر کررہا ہے۔ ایپکس کمیٹی کے اس فیصلے کے بعد اب وقت آگیا ہے کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ کو اعلیٰ اعزاز کے ساتھ رخصت کیا جائے۔ اس کے علاوہ آصف علی زرداری سمیت کوئی بھی فرد وزیر اعلیٰ کے معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ بدعنوانی کوسخت جرم قرار دیا جائے تاکہ سندھ میں نہ صرف دہشت گردوں کا خاتمہ ہوسکے گا بلکہ سندھ ترقی کی دوڑ میں باقی صوبوں کا مقابلہ کرسکے گا۔
Load Next Story