ڈار صاحب کی حیلہ جوئی اور حکمرانوں کی ضیافتیں

ہمارے پاکستانیوں کو یہ تو علم ہو گا کہ ہمارے ہاں ایک سو ڈالر کی قیمت ایک سو روپے سے کچھ زیادہ ہے۔

Abdulqhasan@hotmail.com

وطن عزیز میں ماشاء اللہ مال و دولت کی فراوانی بہت ہے اور اس بارے میں عبرت کشا مزیدار اور حیرت انگیز خبریں بھی بہت آتی رہتی ہیں۔ مثلاً ایک خبر کئی دنوں سے قوم کے ذہنوں پر چھائی ہوئی ہے بلکہ ذہنوں میں کلبلا رہی ہے کہ ہمارے وزیر خزانہ اور عملاً نائب وزیراعظم جناب اسحاق ڈار کے پاس چالیس لاکھ ڈالر کی جائز رقم موجود تھی جو انھوں نے اپنے بیٹے کو ادھار دے دی' اس میں سے کچھ رقم باپ نے بیٹے کو تحفہ میں بھی دے دی بعد میں بیٹے نے یہ رقم بینک کے ذریعہ واپس بھجوا دی اور باپ بیٹے میں قرض کی الجھن ختم ہو گئی۔

اس پر تبصرہ کرتے ہوئے والد محترم نے کہا ہے کہ ان چالیس لاکھ ڈالر سے قوم کے زرمبادلہ میں خاصا اضافہ ہو گیا۔ ہمارے پاکستانیوں کو یہ تو علم ہو گا کہ ہمارے ہاں ایک سو ڈالر کی قیمت ایک سو روپے سے کچھ زیادہ ہے اس طرح چالیس لاکھ ڈالر کے کتنے روپے ہوتے اس کا حساب ڈار صاحب جیسے کسی ماہر اکاؤنٹنٹ سے لکھوا لیں۔

جناب ڈار صاحب نے اس رقم پر ٹیکس وغیرہ یقیناً ادا کر دیا ہو گا لیکن یہ سوال باقی ہے کہ انھوں نے ڈالر ڈالر ترستی ہوئی قوم کو اب تک اتنی بڑی رقم سے محروم کیوں رکھا تھا لیکن جب ان کے بیٹے کو ضرورت پڑی تو یہ رقم ڈار صاحب کے بٹوے سے برآمد ہو گئی اور قوم کو ان کے بقول خوش کر گئی کہ اس کے زرمبادلہ کے خزانے میں بڑا اضافہ ہو گیا۔

اللہ کرے ان کے گھر والوں کو ایسی ضرورتیں پڑتی رہیں اور قوم ان کی بینکوں کے ذریعے واپسی پر زرمبادلہ میں اضافے سے خوش ہوتی رہے۔ قوم اپنے لاتعداد مسائل اور مصائب کی وجہ سے ہر وقت افسردہ رہتی ہے اگر حکمرانوں میں سے کسی کے پاس ایسی فالتو رقم بھی موجود ہے جس کا بینکوں کے ذریعے اظہار کیا جا سکتا ہے تو یہ قومی خوش قسمتی میں اضافے اور قومی پریشانی میں خاصی کمی کا باعث ہو گی۔

جناب ڈار صاحب کی اپنے بیٹے کے لیے اس قربانی کو دیکھ کر ایک مولوی صاحب کا واقعہ یاد آ رہا ہے۔ زکوٰۃ سال بھر بعد کسی رقم پر عائد ہوتی ہے ایک مولوی صاحب شریعت کی پابندی کرتے ہوئے سال پورا ہونے سے پہلے یہ رقم اپنی بیوی کو دے دیتے تھے جب سال کی میعاد گزر جاتی تو پھر یہ رقم بیوی سے واپس لے لیتے اس حیلے سے وہ زکوٰۃ سے بچ جاتے تھے پوری کی پوری رقم بھی گھر میں رہ جاتی تھی شریعت کے ایک حکم کی پابندی بھی کر دی جاتی تھی۔

ایسی کسی حرکت کو فقہ کی اصطلاح میں حیلہ کہا جاتا ہے۔ ڈار صاحب نے اپنی فقہ کے مطابق بھی ایک حیلہ کیا ہے اور اگر سال بھر بعد اس رقم پر کوئی ٹیکس وغیرہ لاگو ہونا تھا تو ڈار صاحب اس سے بچ گئے ہیں۔ ان کا بنیادی پیشہ یہی حساب کتاب یعنی اکاؤنٹنسی ہے اور وزارت تو ان کی رشتہ داری کی مجبوری ہے وہ قانون کی پابندیوں سے بچنا خوب جانتے ہیں اور اس کا یہ حیلہ ان کو معلوم ہے۔

مولوی صاحبان کی خوش خوراکی بہت مشہور ہے۔ لاہور میں جب جلوس نکلا کرتے تھے تو نو جماعتوں کی اس تنظیم کے قائد مولانا مفتی محمود سے کسی نے کہا کہ اب آپ لوگوں کو مزید جلوس نکالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اس پر مفتی صاحب نے کہا کہ کوئی بات نہیں ہم مسجد نیلا گنبد میں حلوہ پکائیں گے اور سب کو کھلائیں گے۔


ان دنوں لاہور میں جلوس مسجد نیلا گنبد سے شروع ہوتے تھے۔ کیا بارونق اور پرامن زمانہ تھا اور سیاست کس قدر شائستہ اور مہذب تھی یہانتک کہ جب فوج کو جلوس پر گولی چلانے کا حکم دیا گیا تو فوج جلوس کے سامنے ضرور آ گئی مگر فوج کے کمانڈوں نے گولی چلانے سے انکار کر دیا تھا۔ پھر سب سے بڑی تاریخی خبر یہ بنی کہ فوج نے حکومت کا حکم ماننے سے انکار کر دیا اور اپنے ہموطنوں پر گولی چلانے سے انکار کر دیا۔

ان دنوں بہت بڑے جلوس نکلتے تھے اور نہایت ہی پر جوش اگر فوج ایسے کسی جلوس پر گولی چلا دیتی تو کیا ہوتا اس کا اندازہ آج کے خاموش اور ٹھنڈے ماحول میں نہیں لگایا جا سکتا لیکن فوج کا یہ اقدام حکومت وقت کو لے بیٹھا اور بھٹو صاحب اقتدار سے محروم ہو گئے۔ ان کی جگہ ایک فوجی آ گیا لیکن قوم پھر بھی خوش ہو گئی۔ پھر وہ فوجی حکومت کو برسوں تک بھگتتی رہی۔

مولوی صاحبان کے شوق حلوہ خوری سے ایک تازہ واقعہ یاد آ رہا ہے۔ ہمارے وزیراعظم کسی تقریب میں تھے جہاں کھانا بھی دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ کھانا پکوانے والوں نے پوری کوشش کی ہو گی کہ وزیراعظم کھانے کو پسند کریں لیکن ان کی بدقسمتی سے وزیراعظم نے کھانے کے بعد کہا کہ تقریب تو اچھی تھی اور میٹنگ بھی کامیاب رہی لیکن آپ نے کھانا اچھا نہیں پکوایا تھا۔ یہ سنتے ہی میزبانوں کا جو حال ہوا ہو گا اس کا اندازہ آپ کر سکتے ہیں۔

کھانے میں یہ شاہی نقص نکالنے پر میزبانوں میں لڑائی ہوئی ہو گی کہ کس کی غلطی سے یہ سبکی اٹھائی پڑی مگر کوئی بھی ان کو نہیں کہتا تھا کہ اس کی غلطی تھی قوم نے کئی سیاستدان دیکھے ہیں اور ان کے ذوق و شوق سے باخبر بھی رہے ہیں لیکن خوش خوراکی کی یہ پہلی مثال سامنے آئی ہے ورنہ عموماً کھانے وغیرہ کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی تھی بلکہ اسے مہمان کسر شان سمجھتے تھے کہ کھانے کا ذکر کریں بس رسمی شکریے تک بات ہوتی تھی لیکن اب میاں صاحب جہاں مہمان ہوں وہاں سب سے بڑا مسئلہ ان کے پسندیدہ کھانے کا ہوتا ہے۔

پسندیدہ کھانے کے سلسلے میں تازہ واقعہ ہمارے نئے لیڈر جناب عمران خان کے اعزاز میں ایک دعوت میں ان کے میزبان بیرسٹر سلطان محمود نے ان کی کشمیری اور پاکستانی مچھلی کے بنے ہوئے گیارہ کھانوں سے تواضع کی۔ ان گیارہ کھانوں میں سنگاڑا مچھلی تندوری' کشمیری فش کوفتہ' راؤ تندوری' فش کڑاہی' فش بریانی اور فش ہاتپ کے کھانے شامل تھے۔ عمران نے کھانے کی بہت تعریف کی اور اس مہمان نوازی پر میزبان بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کا بہت شکریہ ادا کیا۔

مجھے معلوم نہیں تھا کہ عمران خان بھی میاں صاحب کے سیاسی حریف ہونے کے باوجود کھانے کا ان کی طرح ذوق رکھتے ہیں اگر کل کلاں دونوں لیڈروں میں مصالحت کی ضرورت پڑے تو معلوم ہو کہ کھانا دونوں کی کمزوری ہے اور جتنا اچھا اور متنوع کھانا تیار ہو سکے سیاسی مصالحت بھی اتنی لذیذ ہو گی۔

میاں صاحب اقتدار میں ہیں اور عمران خان اقتدار کی تلاش میں ہیں لیکن انھوں نے میاں صاحب کے نقش قدم پر چلنا شروع کر دیا ہے وہ ہی عربوں کے محاورے والی بات کہ الناس علی دین ملو کہم کہ عوام اپنے حکمرانوں کے طور طریقوں کو پسند کرتے ہیں جس کی ایک اعلیٰ مثال عمران خان کی ہے۔ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ عمران خان بھی خوش خوراک ہیں بلکہ وہ ایک کھلاڑی کی طرح توانائی بخش تھوڑی خوراک کھاتے ہیں پہلوانوں کی طرح نہیں۔

اللہ ہمارے لیڈروں کو صحت مند اور توانا رکھے ہمیں ایسے خوش خوراک لیڈروں کی ضرورت ہے جو قومی بچوں کا خیال رکھیں جو بھوک سے مر رہے ہیں جن دنوں یہ دعوتیں ہو رہی تھیں تو تھر میں نومولود اور چند دنوں کی عمر کے بچوں کی بھوک سے اموات جاری تھیں۔
Load Next Story