بوڑھا اور سمندر ’ارنسٹ ہیمنگوئے‘
ہیمنگوئے کی ماں اوپرا میوزک کے بارے میں پڑھا کر گھرکا خرچ چلانے میں مدد کیا کرتی تھی۔
ISLAMABAD:
شہرہ آفاق ادیب صحافی اور ناول نگار ارنسٹ ہیمنگوئے12 جولائی 1891ء میں شگاگو کے ایک قصبے اول پارک ایلیونس میں پیدا ہوا۔ اپنے بچے ارنسٹ ہیمنگوائے کی پیدائش پر اس کا باپ ڈاکٹر ہونے کے باوجود مسرت کے عالم میں بگل بجا کر اعلان کرتا رہا، ہیمنگوئے کی ماں اوپرا میوزک کے بارے میں پڑھا کر گھرکا خرچ چلانے میں مدد کیا کرتی تھی۔
مذہب کی جانب اس کی والدہ کا رجحان نہیں تھا، لیکن ماں کا خیال تھا ہیمنگوئے بھی میوزک کی جانب رغبت اختیار کرے گا ، ہیمنگوئے کی دلچسپی گھر سے باہر، اپنے والد کے ساتھ شکار، شمالی مشی گن کی جھیلوں اور جنگلوں میں کیمپ لگانے میں زیادہ تھی۔ ہیمنگوئے کھیلوں کے علاوہ اپنی تعلیم خاص طور پر انگریزی کلاسوں میں خصوصی مہارت کا مظاہرہ کرتا رہا۔
زمانہ طالب علمی سے ہی ہیمنگوئے کی نگارشات اخبارات اور ایئربک میں شایع ہونے لگی تھیں، اس وقت وہ اپنے ادبی ہیرو 'رنگ لارڈنز جونئیر' کے نام سے بھی لکھتا تھا، دور کالج میں اخبار کنساس سٹی میں بطور رپورٹر تقرر ہو گیا، گو کہ اخبار سے وابستگی چھ ماہ سے زائد نہیں تھی لیکن شستہ زبان، جملوں کی بناؤٹ اور چھوٹے اقتباسات میں خصوصی استعدا د حاصل کرنے کے فوائد ہوئے۔
اخبار کی رپورٹنگ کے بعد اس نے والد کی ہدایت کو نظر انداز کرتے ہوئے جنگ عظیم اول میں امریکی فوج میں بھرتی ہونے کا فیصلہ کر لیا لیکن میڈیکل ٹیسٹ میں ناکام رہا چنانچہ ریڈ کراس ایمبولینس وین کا ڈرائیور بن کر جنگ میں شریک ہو گیا۔ لیکن وہ فلوریڈا ہوٹل کی پر امن جگہ رہنے کے بجائے محاذ جنگ پر جانا چاہتا تھا لیکن اٹلی کے محاذ پر جاتے ہوئے اسے پیرس میں روک دیا گیا کیونکہ جرمنی کی بمباری کی زد میں تھا۔
اٹلی کے محاذ جنگ پر پہلی بار اسے جنگ کی تباہ کاریاں دیکھنے کا موقع ملا، پہلے روز ہی اس کی ڈیوٹی کے دوران ایمونیشن فیکٹری میں دہماکا ہو گیا اور اسے وہاں انسانی لاشوں کو نکالنا پڑا اس تجربے کے بعد A natural history of the dead نامی کتاب لکھی۔ موت کو اس قدر قریب سے دیکھنے اور انسانیت سوز واقعات نے ہیمنگوئے کو توڑ دیا۔ 8 جولائی 1918ء کو مارٹر شل لگنے سے زخمی ہونے کے ساتھ اس کا ایمبولینس ڈرائیور کا کیریر بھی انجام کو پہنچ گیا۔
تاہم اس کی بہادری کے اعتراف میں اطالوی حکومت نے ایوارڈ سے نوازا وہ اٹلی کی سرزمین میں پہلی جنگ عظیم کے دوران زخمی ہونے والا پہلا امریکی کہلایا ہے گو بعد میں بھی کئی دعویدار پیدا ہوئے۔ ہیمنگوئے کا امریکی ریڈ کراس کے اسپتال میلان میں علاج کیا گیا، تفریح کے مواقعے ہونے نہ ہونے سبب جی بھر کر شراب پیتا اور اپنا زیادہ تر وقت اخبارات کے مطالعے گزارتا، یہیں اس کی ملاقات اگینزوون کروسکی نامی ایک نرس سے ہوئی اور وہ اس پر فدا ہو گیا لیکن نرس نے یہاں ہیمنگوئے کو امریکا پہنچنے کا ذریعہ بنایا اور اپنے طے شدہ منصوبے کے تحت امریکا آنے کے بعد ایک اطالوی افسر سے تعلقات استوار کر لیے۔
ہیمنگوئے اپنی محبوبہ کے ہرجانی پن سے ذہنی طور پر شدید متاثر ہوا اور 1925ء میں ہیمنگوئے کی پہلی کہانی A short story A very اسی ناکام محبت کے موضوع پر لکھی۔ اوک پاک واپس آ کر ہیمنگوئے اخبار ٹورنٹو اسٹار سے منسلک ہو گیا اور بطور فری لانسر، اسٹاف رائٹر اور غیر ملکی نمایندہ کے کام کرنے لگا جہاں اس کی دوستی مورلے کلاگن سے ہوئی جس نے اپنے افسانے ہیمنگوئے کو دکھائے تو ہیمنگوئے نے اسے قابل قدر نظروں سے دیکھا۔
اس کی شادی ہو گئی لیکن ہنی مون کے بعد شکستہ اپارٹمنٹ میں رہنے کی وجہ سے ہیمنگوئے کی بیوی ناخوش رہتی اسے تاریک اور پریشان کن قرار دیتی۔ ہیمنگوئے نے اول پاک اور شگاگو کو خیر باد کہہ دیا اور پیرس میں آ بسا جہاں وہ ٹورنٹو اسٹار کے لیے رپورٹنگ کرتا یہیں اس کا تعارف فرانز وڈ اسٹین سے ہوا جو اس کی سرپرست بن گئی اور پیرس کی کی جدید تحریک سے ہیمنگوئے کو روشناس کرایا۔ یہی امریکی جلا وطن افراد کے اس سرکل کا نقطہ آغاز بنا جو بعد میں گم شدہ نسلیں کے نام سے جانا گیا ۔
ہیمنگوئے نے بعد میں اپنے ناول The sun also rises اور اپنی یاد داشتوں کے ذریعے بڑی شہرت پائی اس زمانے میں ہیمنگوئے ایذرا پاؤنڈ سے بھی رابطہ میں رہا جسے ' امیج ازم ' کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔1922ء میں جیمز جوائس کی شہرہ آفاق کتاب Ulyssesشایع ہوئی تو امریکا نے ناول پر پابندی عائد کر دی جس پر ہیمنگوئے نے ٹورانٹو میں موجود اپنے دوستوں کے ذریعے ناول کو امریکا پہنچانے کا انتظام کیا، پیرس میں ہیمنگوئے کی پہلی کتاب Three stories and ten poems کی اشاعت سے بطور غیر ملکی نمایندے اسے بے پناہ کامیابیاں ملیں۔
ہیمنگوئے کینیڈا بھی گیا وہاں بھی قلمی نام سے اس کے لکھنے کا سلسلہ جاری رہا اور کئی شہرہ آفاق تحریریں مشہور ہوئیں1925 میں اس کا افسانوی مجموعہ In our time شایع ہوا جو امریکا سے شایع ہونے والی اس کی پہلی کتاب تھی۔ اسی کتاب کی وجہ سے اس کے اختیار کردہ اسلوب کو ادبی برادری نے قبول کر لیا۔
اس مجموعے کی سب سے مقبول کہانی Big two hearted river تھی۔1927میں ہیمنگوئے نے ہیڈلی رچرڈ سن کو طلاق دیکر پالین فیفر فیشن رپورٹر سے شادی کر لی اور اسی دور میں ہیمنگوئے نے کھتولک عقیدے کو قبول کر لیا، اسی برس اس کے افسانوں کا مجموعہ Men without women شایع ہوا جس میں ہیمنگوئے کی مشہور ترین کہانی the Killers بھی شامل تھی۔
1928 ہیمنگوئے کے لیے غموں کا سال کہلاتا ہے، معاشی مشکلات اور ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہیمنگوئے نے خودکشی کر کے دنیا سے خود کو آزاد کر لیا، یہاں اس نے کیتھولک نظریے کے مطابق اس بات کا اظہار بھی کیا کہ خودکشی کرنے والے جہنم جاتے ہیں تو وہاں نزاعی صورتحال پیدا ہو گئی۔
اسپین میں رپورٹنگ کے دوران 1937 میں جنگ نے اس کی زندگی پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے ہیمنگوئے جو اپنی بیوی پالیون سے شادی کے وقت کیتھولک ہو چکا تھا، اب مذہب بیزار اور چرچ سے باغی ہوگیا، جب کہ اس کی بیوی شدید مذہبی اور فرانکو کی فاشسٹ حکومت کی زبردست حامی تھی لیکن ہیمنگوئے ری پبلکن حکومت کی حمایت کرتا تھا ۔1939میں ری پبلکن کی شکست کے بعد ہیمنگوئے کو خود اختیار کردہ وطن سے ہاتھ دھونا پڑے، دوسری بیوی کو طلاق دینے کے سبب وہ ویسٹ فلوریڈا میں اپنے گھر سے محروم ہو گیا۔
طلاق کے کچھ ہی ہفتوں بعد اس نے اسپین میں اپنے ساتھ کام کرنی والی مارتھا گیلہوم سے تیسری شادی رچالی، تماتر مشکلات کے باوجود، اپنی معاشرتی زندگی اور نظریات میں تضادات کے باجود ہیمنگوئے نے ایک ناول For whom the bells tolls اسپین کی خانہ جنگی کے حوالے سے لکھا جسے بڑا ادبی کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔ 1953 میں نوبل انعام ملنے پر اس کی بطور ادیب ساکھ بہتر ہوئی لیکن مختلف فضائی حادثوں کا سامنا کرنے والے کی زندگی، جھاڑیوں میں آگ لگنے کی وجہ سے زخمی ہونے کے سبب اجیرن ہو گئی اور وہ نوبل انعام حاصل کرنے کی غرض سے اسٹاک ہوم نہ جا سکا۔
امریکا کی دوسری جنگ میں بھی شریک ہوا اس جنگ کی کوریج کے لیے ہیمنگوئے یورپ گیا، جنگ کے بعد ہیمنگوئےThe garden of eden لکھنے پر متوجہ ہوا اس کا یہ تصنیفی منصوبہ نہایت مختصر شکل میں شایع ہوا اس کا منصوبہ اس کتاب کو تین حصوں میں لکھنے کا تھا لیکن وہ ''بوڑھا اور سمندر'' کے روپ میں ہی اس کو پیش کر سکا۔ ہیمنگوئے کیوبا میں انقلاب آنے اور بتیسٹا کی حکومت ختم ہونے کے باوجود بھی مقیم رہا، ایف بی آئی نے اس پر شک ہونے کی وجہ سے نگرانی بھی کی۔
فروری 1960 میں وہ بل فائٹنگ کے بارے میں اپنی کتاب ''دی ڈینجرس سمر'' کی اشاعت کے لیے کوشاں رہا لیکن کوئی بھی پبلشر اس کی کتاب چھاپنے کو تیار نہیں تھا با لآخر اس نے اپنی بیوی کی ایک واقف کار ول لانگ کی منت سماجت کی جو لائف میگزین کا بیورو چیف تھا، مذکورہ کہانی کا پہلا حصہ 1960 میں چھپا لیکن وہ اپنی چھپنے والی تصویر سے مطمئن نہیں تھا تاہم مضمون کا دوسرا حصہ بھی رسالے کے اگلے شمارے میں چھپ گیا۔
1960 میں بلڈ پریشر، جگر کی بیماری کے ساتھ الیکڑوکنکولسر تھراپی بھی کرا رہا تھا۔ ذہنی دباؤ اور مالیخولیا کے سبب اس نے خود کشی کی پہلی کوشش کی اور پھر1961 میں اس نے پھر خودکشی کی کوشش کی جس پر دوبارہ اس کی ای سی ٹی کی گئی دو جولائی 1961کو جب اس کی 62 ویں سالگرہ میں چند ہفتے ہی رہ گئے تھے، اس نے سر میں گولی مار کر خود کشی کر لی، تاریخی ادبی شخصیت کا ایسا انجام انتہائی دردناک تھا۔