مجھے مار دو

ہماری ریاست ایک بار ہمیں بتا دے کہ آخر ہماری جنگ کس سے ہے ہمارا دوست کون ہے اور ہمارا دشمن کو ن ہے؟


انیس منصوری February 25, 2015
[email protected]

وہ لوگ کیا دیوانے ہیں جو دہشت گردوں کو ڈھونڈ رہے ہیں؟ کیا انھیں سمجھ نہیں ہے کہ اگر بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالا جائیگا تو کیا ہو گا؟ تو کیا یہ لوگ بھی آپ کی طرح ڈر کر بیٹھ جائیں؟ یا چھوٹی باتوں پر ناراض ہو کر کام ختم کر دیں۔ تو محترم وزیر صاحب مسند کسی اور کو دے دیں۔ میں نے اپنے پچھلے کالم میں بھی لکھا تھا کہ ہمارے حکمران ہمیں روشنی سے اس لیے ڈراتے ہیں کہ کہیں اندھیرا بھی ہمارے ہاتھ سے نہ چلا جائے۔

ہمارا پڑوسی ملک ہمارے خلاف سازش کرے، ہمارے لاکھوں لوگوں کو نقصان پہنچائے اور اگر آپ اُن سے ڈر کر یہ کہہ دیں کہ اگر ہم نے جواب دیا تو وہ کہیں ہمیں اور نقصان نہ پہنچا دیں۔ ایسا ہوتا ہے آپ کا حکمران۔؟ ایسا ہوتا ہے آپ کا وزیر جو یہ کہہ دے کہ ہم کسی کے خلاف ایکشن اس لیے نہیں کر رہے کہ کہیں وہ ہمیں نقصان نہ پہنچا دے۔ تو مرنے دیجیے اپنے جوانوں کو، اور آپ کے خاندان کے لوگ دوسرے ملک کی شہریت لے کر آرام کرتے رہیں۔

کراچی میں ایک عرصے تک یہ تماشہ ہوتا رہا۔ کوئی گینگ والوں کو اسی لیے نہیں پکڑ رہا تھا کہ کہیں حالات اور خراب نہ ہو جائیں۔ اور سیاسی وراثت داؤ پر نہ لگ جائے اور اسی ڈر میں ہزاروں لوگوں کی جانیں ضایع ہوئیں۔ ہر وقت کا بے وجہ خوف۔ اس خوف کی وجہ سے اگر آپریشن نہ کیا جاتا تو کیا ہوتا۔ آج اُن گینگ والوں کو چھپنے کی جگہ نہیں مل رہی آپ اُن کو دبئی سے پکڑ رہے ہیں۔

مگر اب عزیر بلوچ معافی مانگ لے تو اُسے بھی رہا کر دیجیے گا کہ اگر آپ نے اُسے سزا سُنائی تو کہیں حالات خراب نہ ہو جائیں۔ اتنا ڈر اگر آپ کے دل و دماغ میں بسا ہوا ہے تو پھر اپنا انتخابی نشان بھی تبدیل کر دیجیے۔

ہماری حکومت ایک بار یہ فیصلہ کر لے کہ وہ کس کی طرف ہے۔ اُس کا ساتھی کون ہے۔ ہماری ریاست ایک بار ہمیں بتا دے کہ آخر ہماری جنگ کس سے ہے ہمارا دوست کون ہے اور ہمارا دشمن کو ن ہے؟ ۔ اور ہاں یہ بھی ہمیں بتا دیا جائے کہ ہمیں کس کس سے ڈرنا چاہیے کون کون سے ایسے لوگ، ادارے، تنظیمیں ہیں جن پر ہمیں بات نہیں کرنی چاہیے۔

ایک واضح پیغام اور پالیسی کا باضابطہ اعلان فرما کر ہم پر احسان کر دیجیے۔ ہمیں سمجھا دیا جائے کہ یہ لوگ اگر آپ کی گردن بھی اڑا دیں تو اُف تک نہ کرنا کیونکہ اگر آپ نے اپنی زبان سے شکایت کی تو یہ آپ کی نسلوں کو تباہ کر دینگے اس لیے ہر ظلم کو سہتے رہیں۔ ہماری رگوں میں خون کے ساتھ اس خوف کو دوڑا دیا جائے کہ اگر تمھارے بچے یتیم ہو رہے ہوں تو بھی اپنا سر اونچا مت کرنا ورنہ تمھارے گھر کی عزت بھی نہیں بچے گی۔

آسان مگر کہنے میں مشکل ضرور ہے کہ ہمارے وزیر داخلہ فرما دیں کہ ظالم کی معافی سے ہی سارے گناہ معاف ہو جائینگے یا پھر ہم 20 کروڑ لوگوں کو بھی آپ کی خدمت میں معافی نامہ جاری کرنا ہو گا۔ جن کی پہلے دل آزاری اُن صاحب نے کی اور اب آپ ہمارے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں۔

داعش کی کہانیاں ہر زبان پر عام ہیں۔ کسی کو زندہ جلانے تو کسی کو زندہ درگور کرنے کے قصے ہیں۔ اجتماعی طور پر گردنیں اڑا دیتے ہیں۔ اپنے دشمنوں کو عبرت کا نشان کر دیتے ہیں ایسے میں ہماری وزارت خارجہ لگتا ہے ہماری وزارت داخلہ سے مشورہ کرنا بھول گئی ہے۔ وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ داعش پاکستان کے لیے خطرہ ہے۔ لگتا ہے ہمارے وزیر نے انھیں ڈرایا نہیں ہے کہ کہیں ہم نے داعش کے لوگوں کو پکڑا یا روکا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کے بھی خطرناک نتائج ہوں۔

کیا ہماری وزارتوں کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہے یا پھر ابھی تک وزیر موصوف پاکستان آئے نہیں جو یہ بتا سکیں کہ ایسے بیان نہیں دینے چاہئیں۔ لیکن ہمارے اس وزیر کے لیے ایسی باتیں کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے وہ تو کئی بار کسی دہشت گرد کے مرنے پر اپنا دکھ سب کے سامنے پیش کر چکے ہیں۔ اس حکومت کی کون سی پالیسی ہے؟ وہ جو ہر جگہ سے اسپیکر نکال کر ہمیں دکھائی جا رہی ہے یا پھر وہ جس کی چوہدری نثار بات کر رہے ہیں۔؟

آپ تو ہر وقت ترکی کی مثالیں دیتے ہوئے نہیں تھکتے۔ آپ کی ہمدردی کے بعد مجھے خیال آیا کہ اتاترک کے پاس کیا آپ جیسا کوئی وزیر نہیں تھا جو یہ کہتا کہ نئے ترکی کی بنیاد مت رکھو کہیں اس کے برے نتائج ہوئے تو کیا ہو گا۔؟ اور وہ وزیر یہ بھی فرماتے کہ جناب سب پچھلے لوگوں نے معافی مانگ لی ہے اس لیے اب چین کی بانسری بجائیے۔

مجھے حیرت ہے کہ آخر پورے ترکی میں ایسا کوئی وزیر انھیں کیوں نہیں ملا جو ہماری تقدیر سنوارنے پر بضد ہے۔ وہ ترکی جس نے سیکڑوں سال مسلمانوں پر حکومت کی۔ جس نے خادم الحرمین شریفین کا پہلا خطاب حاصل کیا وہاں جب اتاترک نے فتویٰ پر پابندی لگائی تو کیوں وہاں کوئی ایسا وزیر داخلہ موجود نہیں تھا جو اُسے اچھا مشورہ دیتا کہ فتوی دینے والوں پر پابندی مت لگاؤ اس سے حالات خراب ہو جائینگے۔

ہمارے لیے سب سے محترم اور مقدس شہر مکہ میں بیٹھ کر مسلمانوں کی سب سے تاریخی یونی ورسٹی کے سربراہ کو یہ نہیں کہنا چاہیے تھا کہ ہمیں اپنے ملکوں میں شدت پسندی کو روکنے کے لیے تعلیمی نظآم درست کرنا ہو گا۔ لگتا ہے کہ جامعہ الازہر کے سر براہ کی ملاقات ہمارے کرم فرما سے نہیں ہوئی ہو گی ورنہ وہ یہ بات مکہ میں بیٹھ کر نہیں کہتے کہ شدت پسند اسلام کی غلط تشریح پیش کر رہے ہیں۔

میری یہ مجال نہیں اور نہ میں کر سکتا ہوں کہ جامعہ الازہر کے سربراہ سے کوئی درخواست کروں۔ مگر اتنی گزارش ضرور ہے کہ اگر انھیں کبھی موقعہ ملے تو ہمارے محترم وزیر صاحب کے خیالات سے ضرور فائدہ ا ٹھائیں تا کہ انھیں بھی اندازہ ہو کہ ایسے معاملات میں بات کرنے سے حالات خراب ہو سکتے ہیں۔

اسی لیے میں سوچتا ہوں کہ ٹھیک ہوا ہو گا کہ قائد اعظم کی تقریر کو غائب کر دیا گیا۔ انھیں بھی یہ ہی ڈر ہو گا کہ اگر یہ تقریر ریکارڈ کا حصہ بن گئی تو پھر حالات برے ہو جائینگے۔ ہر دور میں ہم پر ایسے وزیر مسلط رہے ہیں جو ہمیں یہ بتاتے رہے کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے۔ اس لیے جتنا عوام کا نقصان ہو رہا ہے ہونے دیں۔ لوگوں کو زبان، قبیلے، پہچان، فرقہ اور مذہب کی بنیاد پر جہاں گولیوں سے بھونا جا رہا ہو۔ اُن سب کو کرنے دو۔

کیونکہ ان کو روکا تو اور بڑا نقصان ہو گا۔ مگر ہمیں صرف ایک بات بتا دیجیے کہ ہماری پالیسی کیا ہے؟ وہ جو اس وقت فوج اور ہمارے وزیر اعظم کہہ رہے ہیں یا پھر وہ ہے جس کا ہمارے وزیر داخلہ ارشاد فرما رہے ہیں کہ اگر کسی کو پکڑا گیا تو اُس سے بڑٓا نقصان ہو گا۔ ایک بار تو بتا دیجیے کہ آپ کس کے ساتھ ہیں۔

اگر ہمیں مرنا ہیں تو ہم تیار ہیں بس اتنا ہی تو جاننا چاہتے ہیں کہ قاتل سے معافی مانگ کر مرنا ہے یا پھر مرنے کے بعد ہمارے رشتے دار اُن کے قدموں میں بیٹھ کر کہیں کہ سرکار آپ نے انھیں قتل کر کے اچھا کیا بس یہ فرما دیں کہ ہمیں اپنے سر قلم کرانے کے لیے آپ کی خدمت میں کب آنا ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں