قومی ایکشن پلان کی کامیابی کیلیےاداروں میں باہمی اعتماد کی ضرورت

پولیس میں تبادلے و تقرریاں صوبائی اپیکس کمیٹی کی منظوری سے ہوں گے۔

اگراس مرتبہ بھی سندھ خصوصاً کراچی میں امن قائم نہ ہوا تو یہ بات ملک کی داخلی سلامتی کے لیے انتہائی خطرناک ہوگی۔فوٹو: فائل

گزشتہ ہفتے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی زیر صدارت کراچی میں ہونے والے اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں سندھ حکومت کی کارکردگی پرعدم اطمینان کا اظہارکیا گیا۔

اس پس منظر میں صوبہ سندھ میں نیشنل ایکشن پلان پرعمل درآمد شروع ہو چکا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ایکشن پلان پرعمل درآمد کے دوران وفاقی حکومت، اس کے سکیورٹی اداروں اور صوبائی حکومت کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ کس طرح قائم ہوتی ہے اور اعتماد کا ماحول کب تک برقراررہتا ہے۔ یہ مرحلہ سندھ حکومت کے لیے انتہائی مشکل اورآزمائش کا مرحلہ ہو گا۔ اسی دوران پیپلز پارٹی کا داخلی بحران بھی سندھ حکومت کے لیے مزید مسائل پیدا کرسکتا ہے۔

وزیر اعظم کی زیر صدارت اجلاس میں سندھ حکومت پر تنقید سکیورٹی اداروں کی طرف سے ہوئی تھی اور یہ فیصلہ ہوا تھا کہ پولیس میں تبادلے و تقرریاں صوبائی اپیکس کمیٹی کی منظوری سے ہوں گے۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اگرچہ صوبائی اپیکس کمیٹی کے سربراہ ہیں لیکن اپیکس کمیٹی میں فوج، رینجرز اور دیگر سکیورٹی اداروں کے نمائندے بھی شامل ہیں اور تبادلوں و تقرریوں میں ان کی مشاورت بھی لازمی ہوگی۔ پولیس کے تبادلوں اور تقرریوں میں وزیر اعلیٰ سندھ کا پہلے ہی عمل دخل نہیں تھا کیونکہ یہ تبادلے و تقرریاں پیپلز پارٹی کے اہم رہنماؤں کی ہدایت پر ہوتے تھے۔

وزیر اعلیٰ سندھ کے لیے مشکل یہ ہوگی کہ وہ تبادلوں اور تقرریوں میں اپیکس کمیٹی کے دیگر ارکان اور پارٹی رہنماؤں کو کس طرح مطمئن کرتے ہیں۔ اپیکس کمیٹی کو تبادلوں اور تقرریوں کا اختیار دینے پر پیپلز پارٹی کی قیادت کی طرف سے کوئی واضح اور دو ٹوک ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ تاہم قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ کے بیان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ اپیکس کمیٹیوں سے حکومتیں نہیں چلائی جاسکتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کو صوبائی حکومت کے امور میں مداخلت پر شدید تحفظات ہیں۔

ان تحفظات کے باوجود اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ امن وامان قائم کرنے کے حوالے سے اپنے طور پر انتظامی اور سیاسی فیصلے کرنے کی مجاز نہیں ہے ۔ یہ معاملہ اگرچہ سندھ حکومت تک محدود نہیں ہے اور دیگر صوبائی حکومتیں بھی اپیکس کمیٹیوں کے فیصلوں کی پابند ہوں گی لیکن سندھ کے مخصوص حالات کی وجہ سے سندھ حکومت زیادہ مشکل اور پیچیدہ صورت حال سے دوچار ہو سکتی ہے۔


سندھ خصوصاً اس کا دارالحکومت کراچی گزشتہ تین دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار ہے اور یہاں ہونے والی دہشت گردی کے اسباب ملک کے دیگر حصوں میں ہونے والی دہشت گردی کے اسباب سے مختلف ہیں ۔ البتہ ملک کے دیگر حصوں میں ہونے والی دہشت گردی کے ڈانڈے کراچی میں ضرور تلاش کیے جا سکتے ہیں ۔ سندھ میں غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ سندھ میں دہشت گردی سمیت ہر مسئلے کو یہاں کی لسانی سیاست کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ سندھ کے ان مخصوص حالات کی وجہ سے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے دوران پیچیدہ مسائل بھی سامنے آسکتے ہیں۔

سندھ کے مختلف حلقوں میں اس بات پر بحث شروع ہو گئی ہے کہ کراچی میں جاری ٹارگیٹڈ آپریشن کا دائرہ سندھ کے دیگر اضلاع تک وسیع کرنے کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ آپریشن میں توسیع کا فیصلہ نیشنل ایکشن پلان آنے کے بعد کیا گیا ہے۔ سندھ کے لوگوں کے لیے یہ بات باعث تشویش ہے کہ ہر مرتبہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن میں سندھ کے وہ اضلاع بھی لپیٹ میں آ جاتے ہیں، جہاں دہشت گردی نہیں ہوتی ہے۔ 1992ء کے آپریشن کے حوالے سے سندھ کے لوگوں کے تجربات زیادہ خوشگوار نہیں ہیں کیونکہ 1992ء میں کراچی کے علاوہ دیگر اضلاع میں آپریشن کی ضرورت نہیں تھی۔ اگرچہ اس مرتبہ شکارپور کا سانحہ رونما ہوچکا ہے لیکن پھر بھی کچھ حلقوں کا خیال یہ ہے کہ سندھ کے دیگر اضلاع میں اس طرح کے آپریشن کی ضرورت نہیں ہے، جس طرح کے آپریشن کی ضرورت کراچی میں ہے۔

لوگوں کو یہ بھی خوف ہے کہ 1992ء میں اندرون سندھ کے اضلاع میں آپریشن کی ضرورت پیدا کرنے کے لیے کچھ حلقوں نے ڈاکوؤں کی سرپرستی کی تھی اور امن وامان کے مسائل پیدا کیے تھے۔ 1992ء کے آپریشن میں ٹنڈو بہاول کا افسوس ناک واقعہ بھی رونما ہوا تھا ۔ اس مرتبہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لیے سندھ کو تین زونز میں تقسیم کیا گیا ہے، ان میں کراچی ، حیدر آباد اور سکھر زون شامل ہیں۔ یہاں امن وامان کے حوالے سے تمام فیصلے زونل کمیٹیاں کریں گی ، جن کے سربراہ بالترتیب ڈی جی رینجرز ، جی او سی حیدرآباد اور جی او سی سکھر ہیں ۔ لوگ توقع کر رہے ہیں کہ اس مرتبہ اندرون سندھ ماضی جیسے واقعات رونما نہیں ہوں گے۔ البتہ سندھ کی سیاسی جماعتوں کے تحفظات اپنی جگہ موجود رہیں گے ۔

ماضی میں دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف سندھ میں جتنے بھی آپریشنز ہوئے ، ان میں یہ دیکھا گیا ہے کہ سیاسی حکومتوں اور سکیورٹی اداروں کے درمیان اس بات پر کسی نہ کسی حد تک اختلاف رہا ہے کہ آپریشن کا فوکس کون سے انتہا پسند اور دہشت گرد ہوں ۔ کوشش کی جانی چاہئے کہ اس مرتبہ ایسی صورت حال پیدا نہ ہو ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے اپنی دو حکومتوں کے دوران 1989 اور 1995-96 کے آپریشنز کے سیاسی نتائج کے بعد امن وامان سے متعلق امور پر سکیورٹی اور حساس اداروں کے فیصلوں کے خلاف مزاحمت کرنا چھوڑ دی ہے۔

اس کے باوجود سندھ کے مخصوص حالات میں کئی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے کہ امن وامان کے قیام کی ذمہ داری بالآخر صوبائی حکومتوں کی ہے۔ پولیس افسروں کے تبادلوں اور تقرریوں کے حوالے سے صوبائی حکومتوں کے اختیارات محدود ہونے سے پولیس افسران یقیناً ان قوتوں کی طرف دیکھیں گے، جن کے پاس یہ اختیارات ہوں گے ۔ اب نئی صورت حال میں پولیس فورس کے نظم و ضبط کا سوال بھی پیدا ہوگا۔ سندھ کے ان مخصوص حالات میں نیشنل پلان پر عمل درآمد کرانے والی قوتوں کو ان ساری باتوں کو مد نظررکھنا ہوگا۔ اگر اس مرتبہ بھی سندھ خصوصاً کراچی میں امن قائم نہ ہوا تو یہ بات ملک کی داخلی سلامتی کے لیے انتہائی خطرناک ہوگی۔
Load Next Story