کیوں ترس نہیں کھاتے ہو بستیاں جلانے میں

اپنی اسلحے کی فیکٹریاں چالو رکھنے کے لیے آخر اور کتنی لاشیں درکار ہیں؟


عثمان فاروق February 25, 2015
کیسا کمال کرتے ہیں، دشمن امریکا اور اُس کے اتحادی کو بتاتے ہیں مگر ظلم صرف اپنوں پر کرتے ہیں۔ فوٹو: فائل

خبر کچھ یوں تھی کہ عراق کے صوبے انبار میں داعش جنگجووں نے 43 افراد زندہ جلا دیئے۔ اس سے پہلے داعش اردن کے ایک پائلٹ کو بھی بڑے اہتمام سے ایک پنجرے میں بند کرکے زندہ جلانے کا مظاہرہ کرچکی ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ کام کوئی دھکے چھپے انداز میں نہیں ہوتا بلکہ داعش والے قیدیوں کو پہلے نئی چمچاتی گاڑیوں کے قافلوں کا کھلے عام گشت کرتے ہیں اور پھر قیدیوں کو مخصوص لباس پہنانے کے بعد اُن پر پٹرول چھڑکتے ہیں اور آگے لگادیتے ہیں۔ یہاں تک کہ اِس سارے عمل کی کسی ہالی ووڈ فلم کی طرح ویڈیو بھی بنائی جاتی ہے۔ اب ہم میں جو تھوڑا بہت بھی اِس حوالے سے جانتا ہے اُس کو معلوم ہوتا کہ اِس کام کے لیے لازمی طور پر بھاری پروڈکشن سامان، کیمرہ، لائٹس، ٹرائی پوڈ وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

دوسری بات یہ کہ ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ کام کوئی پہلی دفعہ ہوا ہے بلکہ یہ سارا کام تو ہر چند ہفتوں بعد تواتر کے ساتھ ہوتا ہے اور سپر پاور ہونے کا دعوی کرنے والی عالمی طاقتیں جو تمام تر ٹیکلنالوجی سے لیس ہیں اُن کو اِس سارے کھیل کی کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی کہ داعش اتنی اعلیٰ درجے کی فلمیں کب کہاں اور کیسے بنا لیتی ہے۔

داعش کا ہر ماہ ایسا سرپرائز دینا لازماً اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ صرف داعش کا کام نہیں، کیونکہ یہ محض کسی ایک تنظیم کا کام نہیں ہے جس کے قبضے میں ایک یا دو ملک کے چھوٹے سے حصے ہیں اور بقیہ ماندہ ممالک اِس کے دشمن بنے بیٹھے ہیں۔ یہ تو وہی بات ہوگئی کہ شیر کے منہ میں ہاتھ دیا جائے اور خیال کیا جائے کہ شیر کچھ نہیں کہے گا۔

میں یہاں پر ایک خاص نقطے کی جانب قارئین کی توجہ دلانا چاہوں گا۔ ذرا غور کیجئے گا۔ یہ داعش والے اسلام اور ایمان کے نام پر مسلمانوں کے گالے کاٹتے ہیں، مسلم ممالک کا ہی انفراسڑکچر تباہ کرتے ہیں اور مسلمانوں کی ہی عبادت گاہیں گراتے ہیں۔ اُن ہی میں دھماکے کرتے ہیں اور یہ سب کام کرکے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اسلام کی خدمت کررہے ہیں اور سب سے مزے کی بات یہ کہ اس بات کی سب سے زیادہ فکر عالمی طاقتوں کو ہورہی ہے کہ مسلم ممالک میں ''مسلمانوں '' سے ''مسلمانوں'' کو بچانے کے لیے فوج کشی کب اور کیسے کی جائے؟

مزید وضاحت کے لیے میں ایک اور نقطہ اپنے قارئین کے سامنے رکھنا چاہوں گا کہ فرض کریں میں ایک انتہاپسند مسلمان ہوں اور میں اپنے مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب کو برداشت نہیں کرسکتا۔ اب اگر میں دھماکہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں تو اُن ہی کے خلاف کروں گا نہ جن کو میں غلط سمجھتا ہوں؟ ایسا تو نہیں ہوسکتا تھا کہ جن کو میں ٹھیک سمجھتا ہوں اُنہی کو مار رہا ہوں اور پھر خود کو یہ ثابت بھی کروں کہ میں ٹھیک کررہا ہوں۔ لیکن یہ داعش نما گروہ ایسے حیران کن مسلمان ہیں کہ یہ آپکو کالے نقاب پہن کر امریکہ کے ظلم کی داستانیں سنائیں گے اور دھماکہ کریں گے کسی مسلم علاقے میں۔

اب ایک اور بات پر غور کیجئے۔ آخر داعش کے پاس سینکڑوں کی تعداد میں نئی گاڑیاں آتی کہاں سے ہیں؟ اب یہ آسمان سے تو گرتی نہیں، اگر ایسا ہوتا تو ہمیں بھی ایک آدھ مل ہی جاتی مگر اِن کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پیسہ خرچ کیا جائے۔ تو اب سوال یہ بھی اُٹھتا ہے کہ یہ گاڑیاں کون خریدتا ہوگا؟ کس کے نام پر یہ گاڑیاں خریدی جاتی ہوں گی۔ پھر ان گاڑیوں کو چلانے کے لیے پٹرول، اِن گاڑیوں کو چلانے والے نقاب پوش افراد کی تنخواہیں اور کھانے پینے کا انتظام کب کیسے اور کہاں سے ہوتا ہے؟ مجھے تو اِس بارے میں کچھ علم نہیں اگر آپ کو ہے تو براہِ کرم ہمارے بھی علم میں اضافہ کردیں۔



لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ آخر اِس قسم کے دردناک واقعات کیوں رونما ہورہے ہیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میڈیا کے ذریعے پوری دنیا کو یہ پیغام دیا جائے گا کہ دیکھ لو یہ داعش بڑی طاقتور ہے، ان کو روکنا ضروری ہے ورنہ انکی ویڈیوز دیکھی ہیں نا ۔۔۔ کیسے گلے کاٹتے ہیں، کیسے زندہ جلاتے ہیں۔ بس یہ ایک وجہ بنے گی اور پھر داعش کے خلاف جنگ کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کی زنجیروں میں جکڑی یورپی اور امریکی عوام کے ٹیکسوں کے پیسے سے داعش کی خطرناک فوج سے لڑنے کے لیے ایک بھاری بجٹ منظور کیا جائے گا اور پھر داعش سے متاثرہ علاقوں پہ ڈیزی کٹر بموں کی بارش کردی جائے گی۔

لیکن میں ان عالمی غنڈوں سے پوچھنا چاہوں گا کہ آخریہ آگ خون اوربارود کا کھیل کب تک چلے گا ؟ تمھیں اپنی اسلحے کی فیکٹریاں چالو رکھنے کے لیے آخر اور کتنی لاشیں درکار ہیں؟
عمر بیت جاتی ہے اک گھر بنانے میں
تم ترس نہیں کھاتے ہو بستیاں جلانے میں

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں