ورلڈ کپ اور قسمت کنکشن
عالمی کپ 2015ء میں بھی ہوسکتا ہے کہ دنیائے کرکٹ کی بادشاہت اس کو ملے، جس کے بارے میں کسی کو گمان بھی نہ ہو۔
کسی سیانے کا قول ہے کہ کامیابی کے سفر میں ایک قدم تدبیر ہے تو دوسرا تقدیر۔ یعنی قسمت کا دھنی ہو تو آدھی محنت ہی سے منزل پاسکتا ہے لیکن حقیقت میں کیا ایسا ہی ہے؟ کیا واقعی قسمت کا عمل اتنا زيادہ ہے؟ پھر کیا یہ ''آفاقی قانون'' کھیل کے میدان میں بھی کارگر ہوتا ہے کہ جہاں زورِ بازو کے ساتھ ساتھ خوش نصیب ہونا بھی ضروری ہے؟ اگر عالمی کپ کی 40 سالہ تاریخ پر دیکھیں تو کئی مقدر کے سکندر نظر آتے ہیں۔ اس لیے عالمی کپ 2015ء میں بھی ہوسکتا ہے کہ دنیائے کرکٹ کی بادشاہت اس کو ملے، جس کے بارے میں کسی کو گمان بھی نہ ہو۔
پہلا عالمی کپ 1975ء میں انگلستان میں کھیلا گیا۔ یہ ایک روزہ کرکٹ کے اوائل کے دن تھے اور تمام ہی شریک ممالک ایک روزہ کرکٹ کھیلنے کا بالکل معمولی تجربہ رکھتے تھے۔ اس لیے عالمی کپ سے پہلے کارکردگی کی بنیاد پر اندازہ لگانا بہت مشکل تھا کہ آخر کون پہلی بار عالمی چیمپئن بنے گا۔ ویسٹ انڈیز نے پاکستان کے خلاف ایک وکٹ کی یادگار جیت کے بعد فائنل میں آسٹریلیا کو شکست دیکر ورلڈ کپ ٹرافی جیتی اور یہی وجہ ہےکہ چار سال بعد جب دوبارہ دنیا بھر کی ٹیمیں انگلینڈ میں جمع ہوئیں تو ویسٹ انڈیز ہی فیورٹ تھا اور توقعات پر پورا اترتے ہوئے اس نے عالمی کپ جیتا بھی۔ یوں ہمیں پہلے دونوں عالمی کپ ٹورنامنٹس میں قسمت کی کارستانیاں بہت کم دکھائی دیں۔ چند ٹیمیں بدقسمت ضرور ثابت ہوئیں لیکن بحیثیت مجموعی نتیجے پر اس کا بہت زیادہ اثر نہیں پڑا۔
لیکن 1983ء میں جب ویسٹ انڈیز ایک مرتبہ پھر عالمی اعزاز کے لیے مضبوط ترین امیدوار تھا، فائنل تک بھی پہنچا لیکن بھارت سے ناقابل یقین انداز میں ہار گیا۔ وہ بھی صرف 184 رنز کے تعاقب میں۔ ویسٹ انڈيز نے اولین دونوں عالمی کپ فائنل مقابلوں میں پہلے بیٹنگ کی تھی لیکن 1983ء میں اسے ہدف کا تعاقب کرنا پڑا لیکن ہدف اتنا معمولی تھا کہ انتہائی خوش فہم بھارتی پرستاروں کو بھی یقین نہیں تھا کہ اس مقام سے ہندوستان جیت پائے گا۔ بہرحال، مدن لعل کی جانب سے ڈیسمنڈ ہینز، ویون رچرڈز اور لیری گومیس کو آؤٹ کرکے ویسٹ انڈیز کی پیشقدمی کو سخت نقصان پہنچایا یہاں تک کہ وہ صرف 140 رنز ہی بنا سکا اور یوں بھارت پہلی بار عالمی چیمپئن بن گیا۔ گوکہ بھارت نے اس عالمی کپ کا آغاز ہی گروپ مرحلے میں ویسٹ انڈیز کو شکست دے کر کیا تھا لیکن آسٹریلیا کے ہاتھوں بھاری شکست، پھر ویسٹ انڈیز سے دوسرے مقابلے میں بُری طرح ہار اوربعد میں زمبابوے کے ہاتھوں شکست سے بال بال بچنے کے بعد کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ بھارت نہ صرف سیمی فائنل میں میزبان انگلینڈ کو ہرائے گا بلکہ فائنل میں بھی ناقابل یقین انداز میں کامیاب ہوگا۔ یہ کپل دیو اور ان کے ساتھی کھلاڑیوں کی محنت، لگن اور ساتھ ہی قسمت تھی جو انہیں لارڈز میں عالمی چیمپئن بنا گئی۔
1987ء میں عالمی کپ ٹورنامنٹ پہلی بار انگلستان سے باہر کھیلا گیا، پاکستان اور بھارت کے میدانوں پر۔ پاکستان عمران خان کی زیر قیادت عالمی کپ کی مضبوط ترین ٹیموں میں سےایک تھا اور ساتھ ہی بھارت بھی، جسے اپنے اعزاز کا دفاع اپنے ہی میدانوں پر کرنا تھا۔ لیکن دونوں ٹیموں کی کہانی سیمی فائنل میں تمام ہوئی اور پورا برصغیر سوگ میں ڈوب گیا اور عالمی کپ جیتا انتہائی غیر معروف، ناتجربہ کار اور نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل آسٹریلیا نے کہ جس نے اپنے پہلے مقابلے میں سنسنی خیز معرکہ آرائی کے بعد بھارت کو ایک رن سے شکست دی، پھر نیوزی لینڈ کو محض 3 رنز سے ہرایا اور پھر سیمی فائنل میں پاکستان کے خلاف 18 رنز سے کامیابی حاصل کرکے حیران کن طور پر فائنل تک پہنچا جہاں اس کا مقابلہ روایتی حریف انگلستان سے تھا اور یہاں بھی اس نے صرف 7 رنز کے فرق سے کامیابی حاصل کی۔ اتنے کم مارجن کی فتوحات میں ہمیشہ قسمت کا بہت عمل دخل رہتا ہے۔
لیکن جس قسمت کے گھوڑے پر سوار جس ٹیم نے دنیا کو فتح کیا وہ پاکستان تھی۔ 1992ء میں جب آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے میدانوں پر عالمی کپ کھیلا گیا تو پاکستان انتہائی کمزور ٹیم کے ساتھ وہاں پہنچا۔ عمران خان کی عمر 40 سال تھی اور ان کے علاوہ جاوید میانداد بھی مکمل طور پر فٹ نہیں تھے۔ اہم باؤلر وقار یونس زخمی ہوکرعالمی کپ سے باہر ہوچکے تھے۔ پاکستان کو آغاز ہی میں ویسٹ انڈیز سے 10 وکٹوں کی شکست ہوئی، پھر روایتی حریف بھارت سے شکست کھائی، جنوبی افریقہ سے ہارا لیکن انگلستان کے خلاف ایک ایسے مقابلے میں جہاں وہ صرف 74 رنز پر ڈھیر ہوا تھا، بارش نے اسے یقینی شکست سے بچالیا۔ پھر پاکستان کے جوابی حملے کا آغاز ہوا، آسٹریلیا، سری لنکا اور نیوزی لینڈ کے خلاف شاندار فتوحات حاصل کیں اور سیمی فائنل میں پہنچے جہاں پاکستان نے نیوزی لینڈ کے جبڑوں سے فتح چھینی اور پہلی بار عالمی کپ فائنل تک پہنچا۔ ملبورن میں پاکستان نے کامیابی حاصل کی۔ جہاں عمران خان کی قیادت، نوجوانوں کی جان توڑ محنت اور سب سے بڑھ کر قسمت نے پاکستان کو عالمی چیمپئن بنادیا۔
1996ء میں بھی بھارت اور پاکستان میزبان کی حیثیت سے عالمی کپ کے لیے فیورٹ تھے، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ بھی بہت مضبوط دستے کے ساتھ شریک ہوئے لیکن قرعہ فال نکلا سری لنکا کے نام کہ جس نے سیمی فائنل میں بھارت کو اور فائنل میں آسٹریلیا کو دو یادگار مقابلوں میں شکست دے کر پہلی، اور آخری بار، یہ اعزاز اپنے نام کیا۔ 1999ء میں پے در پے شکستوں کے باوجود آسٹریلیا سنبھلا، مقابلے میں واپس آیا اور ٹورنامنٹ کی مضبوط ترین ٹیم پاکستان کو فائنل میں بری طرح شکست دے کر دوسری بار عالمی کپ جیتا۔ 2003ء اور 2007ء میں آسٹریلیا کا مکمل راج رہا، اس نے دونوں ٹورنامنٹس میں کوئی مقابلہ نہیں ہارا۔ البتہ 2011ء میں اس کی جیت کا سفر تمام ہوا کہ جہاں بھارت نے کامیابی حاصل کی۔
تو عالمی کپ کی تاریخ بتاتی ہے کہ قسمت کا ساتھ ضروری ہوگا، لیکن اس کے لیے سخت محنت، لگن اور جدوجہد کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ ''ہمتِ مرداں، مددِ خدا''، تو جو ہمت دکھائے گا، خدا کی مدد بھی اسی کو ملے گی۔ پاکستان کے لیے ابھی بازی ہاتھ سے نکلی نہیں ہے، آگے بڑھیں اور ہمت کریں تو اب بھی 1992ء کی تاریخ دہرا سکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
پہلا عالمی کپ 1975ء میں انگلستان میں کھیلا گیا۔ یہ ایک روزہ کرکٹ کے اوائل کے دن تھے اور تمام ہی شریک ممالک ایک روزہ کرکٹ کھیلنے کا بالکل معمولی تجربہ رکھتے تھے۔ اس لیے عالمی کپ سے پہلے کارکردگی کی بنیاد پر اندازہ لگانا بہت مشکل تھا کہ آخر کون پہلی بار عالمی چیمپئن بنے گا۔ ویسٹ انڈیز نے پاکستان کے خلاف ایک وکٹ کی یادگار جیت کے بعد فائنل میں آسٹریلیا کو شکست دیکر ورلڈ کپ ٹرافی جیتی اور یہی وجہ ہےکہ چار سال بعد جب دوبارہ دنیا بھر کی ٹیمیں انگلینڈ میں جمع ہوئیں تو ویسٹ انڈیز ہی فیورٹ تھا اور توقعات پر پورا اترتے ہوئے اس نے عالمی کپ جیتا بھی۔ یوں ہمیں پہلے دونوں عالمی کپ ٹورنامنٹس میں قسمت کی کارستانیاں بہت کم دکھائی دیں۔ چند ٹیمیں بدقسمت ضرور ثابت ہوئیں لیکن بحیثیت مجموعی نتیجے پر اس کا بہت زیادہ اثر نہیں پڑا۔
لیکن 1983ء میں جب ویسٹ انڈیز ایک مرتبہ پھر عالمی اعزاز کے لیے مضبوط ترین امیدوار تھا، فائنل تک بھی پہنچا لیکن بھارت سے ناقابل یقین انداز میں ہار گیا۔ وہ بھی صرف 184 رنز کے تعاقب میں۔ ویسٹ انڈيز نے اولین دونوں عالمی کپ فائنل مقابلوں میں پہلے بیٹنگ کی تھی لیکن 1983ء میں اسے ہدف کا تعاقب کرنا پڑا لیکن ہدف اتنا معمولی تھا کہ انتہائی خوش فہم بھارتی پرستاروں کو بھی یقین نہیں تھا کہ اس مقام سے ہندوستان جیت پائے گا۔ بہرحال، مدن لعل کی جانب سے ڈیسمنڈ ہینز، ویون رچرڈز اور لیری گومیس کو آؤٹ کرکے ویسٹ انڈیز کی پیشقدمی کو سخت نقصان پہنچایا یہاں تک کہ وہ صرف 140 رنز ہی بنا سکا اور یوں بھارت پہلی بار عالمی چیمپئن بن گیا۔ گوکہ بھارت نے اس عالمی کپ کا آغاز ہی گروپ مرحلے میں ویسٹ انڈیز کو شکست دے کر کیا تھا لیکن آسٹریلیا کے ہاتھوں بھاری شکست، پھر ویسٹ انڈیز سے دوسرے مقابلے میں بُری طرح ہار اوربعد میں زمبابوے کے ہاتھوں شکست سے بال بال بچنے کے بعد کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ بھارت نہ صرف سیمی فائنل میں میزبان انگلینڈ کو ہرائے گا بلکہ فائنل میں بھی ناقابل یقین انداز میں کامیاب ہوگا۔ یہ کپل دیو اور ان کے ساتھی کھلاڑیوں کی محنت، لگن اور ساتھ ہی قسمت تھی جو انہیں لارڈز میں عالمی چیمپئن بنا گئی۔
1987ء میں عالمی کپ ٹورنامنٹ پہلی بار انگلستان سے باہر کھیلا گیا، پاکستان اور بھارت کے میدانوں پر۔ پاکستان عمران خان کی زیر قیادت عالمی کپ کی مضبوط ترین ٹیموں میں سےایک تھا اور ساتھ ہی بھارت بھی، جسے اپنے اعزاز کا دفاع اپنے ہی میدانوں پر کرنا تھا۔ لیکن دونوں ٹیموں کی کہانی سیمی فائنل میں تمام ہوئی اور پورا برصغیر سوگ میں ڈوب گیا اور عالمی کپ جیتا انتہائی غیر معروف، ناتجربہ کار اور نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل آسٹریلیا نے کہ جس نے اپنے پہلے مقابلے میں سنسنی خیز معرکہ آرائی کے بعد بھارت کو ایک رن سے شکست دی، پھر نیوزی لینڈ کو محض 3 رنز سے ہرایا اور پھر سیمی فائنل میں پاکستان کے خلاف 18 رنز سے کامیابی حاصل کرکے حیران کن طور پر فائنل تک پہنچا جہاں اس کا مقابلہ روایتی حریف انگلستان سے تھا اور یہاں بھی اس نے صرف 7 رنز کے فرق سے کامیابی حاصل کی۔ اتنے کم مارجن کی فتوحات میں ہمیشہ قسمت کا بہت عمل دخل رہتا ہے۔
لیکن جس قسمت کے گھوڑے پر سوار جس ٹیم نے دنیا کو فتح کیا وہ پاکستان تھی۔ 1992ء میں جب آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے میدانوں پر عالمی کپ کھیلا گیا تو پاکستان انتہائی کمزور ٹیم کے ساتھ وہاں پہنچا۔ عمران خان کی عمر 40 سال تھی اور ان کے علاوہ جاوید میانداد بھی مکمل طور پر فٹ نہیں تھے۔ اہم باؤلر وقار یونس زخمی ہوکرعالمی کپ سے باہر ہوچکے تھے۔ پاکستان کو آغاز ہی میں ویسٹ انڈیز سے 10 وکٹوں کی شکست ہوئی، پھر روایتی حریف بھارت سے شکست کھائی، جنوبی افریقہ سے ہارا لیکن انگلستان کے خلاف ایک ایسے مقابلے میں جہاں وہ صرف 74 رنز پر ڈھیر ہوا تھا، بارش نے اسے یقینی شکست سے بچالیا۔ پھر پاکستان کے جوابی حملے کا آغاز ہوا، آسٹریلیا، سری لنکا اور نیوزی لینڈ کے خلاف شاندار فتوحات حاصل کیں اور سیمی فائنل میں پہنچے جہاں پاکستان نے نیوزی لینڈ کے جبڑوں سے فتح چھینی اور پہلی بار عالمی کپ فائنل تک پہنچا۔ ملبورن میں پاکستان نے کامیابی حاصل کی۔ جہاں عمران خان کی قیادت، نوجوانوں کی جان توڑ محنت اور سب سے بڑھ کر قسمت نے پاکستان کو عالمی چیمپئن بنادیا۔
1996ء میں بھی بھارت اور پاکستان میزبان کی حیثیت سے عالمی کپ کے لیے فیورٹ تھے، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ بھی بہت مضبوط دستے کے ساتھ شریک ہوئے لیکن قرعہ فال نکلا سری لنکا کے نام کہ جس نے سیمی فائنل میں بھارت کو اور فائنل میں آسٹریلیا کو دو یادگار مقابلوں میں شکست دے کر پہلی، اور آخری بار، یہ اعزاز اپنے نام کیا۔ 1999ء میں پے در پے شکستوں کے باوجود آسٹریلیا سنبھلا، مقابلے میں واپس آیا اور ٹورنامنٹ کی مضبوط ترین ٹیم پاکستان کو فائنل میں بری طرح شکست دے کر دوسری بار عالمی کپ جیتا۔ 2003ء اور 2007ء میں آسٹریلیا کا مکمل راج رہا، اس نے دونوں ٹورنامنٹس میں کوئی مقابلہ نہیں ہارا۔ البتہ 2011ء میں اس کی جیت کا سفر تمام ہوا کہ جہاں بھارت نے کامیابی حاصل کی۔
تو عالمی کپ کی تاریخ بتاتی ہے کہ قسمت کا ساتھ ضروری ہوگا، لیکن اس کے لیے سخت محنت، لگن اور جدوجہد کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ ''ہمتِ مرداں، مددِ خدا''، تو جو ہمت دکھائے گا، خدا کی مدد بھی اسی کو ملے گی۔ پاکستان کے لیے ابھی بازی ہاتھ سے نکلی نہیں ہے، آگے بڑھیں اور ہمت کریں تو اب بھی 1992ء کی تاریخ دہرا سکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔